حکمران خاندان کے مقدمات اور ان کا سیاسی مستقبل
انسانوں کی بستی ہے، انسانوں کی بستی، ہم اسے حیوانوں کی بستی نہیں بننے دیں گے
توہین عدالت کے حوالے سے گزشتہ دو تین کالموں میں راقم نے اس طرف توجہ دلانے کی اپنے تئیں حقیر سی کوشش کی کہ اگر کسی ملک کے ادارے مقدس نہیں رہتے تو وہ ملک برباد ہوجاتے ہیں۔ اور مجھے ہمیشہ حیرت اس بات کی رہی ہے کہ ''اقتدار'' ہمارے ''پروفیشنل ''سیاستدانوں کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔
جسے اگر ملک کی قیمت پر بھی حاصل کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا جسے اگر بھارت ، امریکا، افغانستان و اسرائیل کے ساتھ مل کر بھی حاصل کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جسے اگر انتہا پسندوں کے ساتھ ملکر حاصل کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور خاص الخاص اگر کسی گریٹ گیم کا حصہ بن کر حاصل بھی حاصل کیا جائے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، کیوں کہ پاکستان میں یہ ''شعبہ'' ہے ہی اس قدر منافع بخش کہ اس میں خاندانوں کے خاندان کھنچے چلے آتے ہیں اور ایسا کھیل کھیلتے ہیں کہ عوام کی کئی نسلیں پھر انھیں بھولتی نہیں ہیں؟خیر اس ملک کے عوام کے مقدر میں سازشیں لکھ دی گئی ہیں ، جو ہوتی رہنی ہیں!
ادھر بعض ایسی افواہیں بھی ایک منصوبے کے تحت پھیلائی جارہی ہیں کہ گزشتہ سال دسمبر میںایک طاقتور اسلامی ملک میں ایک ''معاہدہ'' ہوا تھا جس کے تحت اگلی حکومت ''ن لیگ'' کی ہی ہوگی ۔ اورقوی اُمید ہے کہ پوری حکمت عملی کے ساتھ اس پراپیگنڈہ کو پبلک بھی کیا جائے گا اور اس حوالے سے ٹاک شوز بھی کرائے جائیں گے۔ اس قسم کی باتوں کا مقصد یہی ہے کہ عوام اور الیکشن لڑنے والوں کو پیٖغام دیا کہ اگلی حکومت بھی ن لیگ کی ہی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، لیکن فی الحال تو بات میاں نواز شریف کی عدلیہ پر تنقید کی ہی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم نااہل ہوئے اور ساتھ سپریم کورٹ نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے افراد کے خلاف ریفرنسز میںچھ ماہ کا وقت دیاتاکہ کسی کو تحقیقات کے حوالے سے ابہام نہ رہے(حالانکہ نیب قانون کے تحت ایک مہینے میں ریفرنس کا فیصلہ ہونا چاہیے)سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نیب نے اپنی تحقیقات کا آغاز اگست کے آخر میں شروع کر دیا۔ اور رواں ماہ (فروری) کے آخر تک یا مارچ کے پہلے ہفتے میں نیب نے تحقیقات مکمل کرکے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانی ہے۔
اب جب کہ العزیزیہ ریفرنس میں 25 سماعتیں، فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں 22 سماعتیں اور لندن فلیٹس ریفرنس میں 21 سماعتیں ہو چکی ہیں۔جن میں بیشتر گواہان نے اپنے اپنے بیانات ریکارڈ کرا دیے ہیں۔ اور ایسے ایسے گواہ بھی حاضر ہوئے ہیں جن کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ ان کی وجہ سے شریف فیملی کے ذاتی کاروبار ترقی کرتے رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعت کے قائدکو یہ یقین ہو چلا ہے کہ نیب کیسز کا فیصلہ اُن کے خلاف ہی آئے گا۔ یہ بات اُن کے وکیلوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں بتا دی ہے، اس لیے انھوں نے اس فیصلے کے خلاف پہلے ہی سے ''گراؤنڈ'' بنانا شروع کردی ہے۔ اور یہ کہہ کر ملکی اداروں اور عوام کواپنے تئیں ڈرانا شروع کردیا ہے کہ کچھ بھی کرلیں اگلی حکومت ان ہی کی ہے !!!
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج برسر اقتدا خاندان کس قدر مشکل کا شکار ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ جیسے معزز ادارے پر چڑھ دوڑے ہیں،انھیں یہ بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ اگر وہ احتساب عدالت میں سزا یافتہ ہوگئے تو ان کی سیاست اور ان کے کاروبار کا کیا ہوگا ۔ اس لیے موصوف عدالت کے معزز ججوں پر برس رہے ہیں لیکن شاید وہ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ جن عدالتوں کو آج وہ برا بھلا کہہ رہے ہیں کبھی ان عدالتوں کے لیے وہ سابق وزیراعظم گیلانی کو گھر بھیجنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔
26جون 2012، زرداری حکومت کے وقت جلسہ عام سے خطاب کرتے میاں صاحب فرماتے ہیں ''کیا تمہیں عوام نے اس لیے ووٹ دیا کہ تم آئے روز سپریم کورٹ سے لڑتے پھرو، تمہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا پڑے گا ''، 8اگست 2012، جب وزیراعظم گیلانی کی نااہلی ہو چکی تومیاں صاحب بولے '' یہ کیا بات ہوئی ،سپریم کورٹ فیصلہ دے اور آپ اسے ماننے سے انکار کردیں، یہ حیوانوں کی بستی نہیں، انسانوں کی بستی ہے، انسانوں کی بستی، ہم اسے حیوانوں کی بستی نہیں بننے دیں گے۔ ''
اور اب جب کہ آخری خبریں آنے تک بنگلادیش کی ایک عدالت نے کرپشن کیس میں سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کو 5سال قید کی سزا سنادی ہے۔ خالدہ ضیا، اُن کے بڑے بیٹے اور دیگر چار افراد پر2001 سے2006 کے دور حکومت میں یتیموں کے ٹرسٹ کے قیام میں تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر کی خرد برد کا الزام تھا،اسی کیس میں خالدہ ضیاء کے بڑے بیٹے طارق رحمان، سابق رکن پارلیمنٹ قاضی سمیع الحق کمال، وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری کمال الدین صدیقی، بنگلادیش نیشنل پارٹی کے بانی ضیاء الرحمن کے بھتیجے مومن الرحمان اور بزنس مین شرف الدین احمد کو 10سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
کرپشن کے الزامات ثابت ہونے کے بعد خالدہ ضیا دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔اس کے علاوہ ہمسایہ ملک بھارت میں لالو پرساد کے چارہ سکینڈل کیس میں سزا سب کے سامنے ہے اور سعودی عرب میں کرپشن کیسز میں گرفتار شہزادوں کی مثالیں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔ اگر ہمارے قرب و جوار کے ملکوں میں کرپشن پر اس طرح کی سزاؤں کا تعین کیا جا رہا ہے توساتویں بڑی اور پہلی اسلامی ایٹمی قوت کو مثال کیوں نہیں بننا چاہیے۔اور اب جب کہ ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے نیب کیسز پر 6ماہ مکمل ہونے والے ہیں تو اسے اس قدر سازش کا حصہ بنا دیا جائے کہ سب کچھ جھوٹ لگے، سیاست کا یہ بھی عجیب رنگ ہے۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے، مسائل بڑھ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ احتساب عدالت میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے کیونکہ اس فیصلے سے ہی مستقبل کی سیاست کا رخ متعین ہوگا۔