ماضی کا خیبرپختونخوا خلا اور جبران ناصر
مرحوم کو زندگی میں ہی بدنام کردیا گیا۔ کیونکہ وہ صوبہ سرحد کا نام پختونستان رکھنا چاہتے تھے
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ سابقہ صوبہ سرحد (NWFP) میں بھرپور سیاسی عمل جاری تھا، جس کی قیادت درویش صفت کشادہ دل، سامراج مخالف لیڈر خان عبدالغفار خان، جنھیں عرفِ عام میں سرحدی گاندھی یا باچاخان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، عدم تشدد ان کی سیاست کا اہم پہلو تھا۔ مرحوم سے میری پہلی ملاقات 1969ء میں ہوئی، جب میں صوبہ سرحد میں طلبہ تنظیم این ایس ایف کا جنرل سیکریٹری تھا۔ یہ مردان کی ایک میٹنگ تھی، جس میں موصوف کی آمد متوقع تھی تو دیکھا کہ ایک سرخ پوش کھدر زیب تن کیے ہوئے خدائی خدمت گاروں کے درمیان ایک درویش صفت بزرگ آئے۔ ایک چھوٹی سی گٹھڑی جس میں سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے اور گڑ کے ٹکڑے تھے، بھوک سے نڈھال بزرگ نے کچھ دیر آرام کے لیے توقف کیا، پھر چند ٹکڑے کھاکر آہستہ آہستہ گفتگو کی، جیسے کوئی باپ اپنے بچوں سے شفقت بھری باتیں کرتا ہے۔
مرحوم کو زندگی میں ہی بدنام کردیا گیا۔ کیونکہ وہ صوبہ سرحد کا نام پختونستان رکھنا چاہتے تھے۔ یہ انھی کی کاوشوں کا پھل ہے کہ آج شمال مشرقی صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا۔ ان کے ایک صاحبزادے ڈاکٹر خان صاحب جو مخالفوں کی گولی کا شکار ہوئے، دوسرے صاحبزادے عبدالولی خان مرحوم تھے، جنھوں نے پاکستان میں بائیں بازو کی اور آزاد خیال لوگوں کی قیادت کی۔ ڈاکٹر خان بڑے زیرک سیاست دان تھے، انھوں نے بنگال اور چھوٹے صوبوں کو ساتھ ملاکر پنجاب کی سیاسی بالادستی کو ختم کرنے کے عمل کو اپنی سیاست کا حصہ بنا رکھا تھا جو مشرقی بنگال کی آزادی کے نتیجے میں زوال پذیر ہوا۔ عام طور پر ولی خان کا ہر ماہ کراچی کا دورہ ہوا کرتا تھا اور وہ محمودالحق عثمانی کی رہائش گاہ پر سیاسی لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ مگر جب سے محمودالحق عثمانی اور ان کے ایک ساتھی دانشور احمد الطاف انسان نے اردو بولنے والے طبقے کو ایک نئی قوم کا تصور پیش کیا، جس کو بعد میں الطاف حسین نے آگے بڑھایا، ولی خان کنارہ کش ہوگئے۔
ولی خان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ ایک ایسے دور میں نیپ (NAP) کے حکمران تھے جب ملک کے دو عظیم شعرا ان کے ہم رکاب تھے، جن میں حبیب جالبؔ اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک اپنے اشعار سے ان کے جلسے اور جلوسوں کو روشن اور رواں دواں رکھتے تھے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ پاکستان کی کمیونسٹ خیالات کے اکثر ارکان ان کی جماعت میں نت نئے خیالوں کے دیے روشن کیا کرتے تھے، اور کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
مگر جب نیشنل عوامی پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا اور تقسیم بنگال کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کا چراغ گل ہوگیا، عبدالولی خان اور بزنجو الگ الگ پارٹیوں کے قائد بنے تو دونوں کے صاحبزادگان میں علم و ہنر اور زیر کی کی وہ جہتیں مفقود پائی گئیں جو ان کے والدین میں تھیں، خصوصاً اسفندیار ولی نے پارٹی کو زندہ درگور کردیا، بلکہ ان کے مقابلے میں بزنجو کے صاحبزادے نے ن لیگ میں اپنی فلاح ڈھونڈ لی اور ان کے پسندیدہ وزیر بن گئے۔ گویا کے پی کے میں عمران خان کا چراغ روشن اور بلوچستان میں نواز شریف کی عمل داری پروان چڑھی۔ کے پی کے کی صورتحال تو اس حد تک دائیں بازو کا شکار ہوگئی کہ مولانا سمیع الحق ان کے سینیٹر بنتے بنتے رہ گئے۔ گویا ترقی پسندی کا چراغ دونوں صوبوں میں گل ہوگیا۔ البتہ کبھی کبھی بلوچستان سے بھولے بسرے نغموں کی طرح وہاں کے مسائل پر ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔
مگر قدرت کا بھی ایک قانون ہے وہ خلا کو پسند نہیں کرتی، جسے ہم آسمان کہتے ہیں اور اس کو سائنسی زبان میں خلا کہتے ہیں۔ وہاں بھی خلا نہیں ربط باہم، کششِ باہم یعنی سیارگان کی کشش سے نظام قائم ہیں اور اگر ہوا کسی سمت سے رکتی ہے تو دوسری جانب سے ہوا داخل ہوتی ہے۔ یہی کچھ کے پی کے میں ہوا۔ نئی ٹیکنالوجی انٹرنیٹ نے جب اپنا وجود گھر گھر جمالیا اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایک گھر کی محفل سجادی تو سیاسی قد آور آرا بھی جمع ہونے لگیں اور ایک آزاد منش فضا قائم ہوگئی، جس کو ایک نئے نام سے نوازا جانے لگا، جس کو سوشل میڈیا کا نام دے دیا گیا اور یہاں پر دائیں اور بائیں بازو کی آرا جمع ہونے لگیں، جہاں مربوط آرا اور غیر مربوط آرا اور افکار پریشاں کے بادل امڈ آنے لگے، جس کے اثرات معاشرے پر پڑنے لگے اور سیاسی آرا اس قدر مربوط اور مضبوط ہونے لگیں کہ عدلیہ اور پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کرنے لگی۔ جس کو سوشل میڈیا کا نام دیا گیا، جو اینکر پرسن کو بھی جھٹکا دینے کے قابل ہوگیا، اور عدلیہ بھی اس کی آرا کو نظر انداز نہ کرسکی۔
بعض خبروں کا تنقیدی جائزہ بھی یہاں لیا جانے لگا اور سوشل میڈیا کے متحرک زیرک قلم کار اپنے افکار سے سماج کو متاثر کرنے لگے۔ اب میڈیا دھبڑ دھوس کے انداز تخاطب سے آنکھیں بند کرکے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ شعور اور منطق کو یکجا کرکے فیصلہ کرتا ہے، کیونکہ انٹرنیٹ کا سیاسی قاری عالم افلاک تک نگاہ دوڑاتا ہے، اس لیے انٹرنیٹ کا قاری نسبتاً زیادہ جہان دیدہ ہے۔ ایسی کیفیت میں اگر کسی خوف سے انٹرنیٹ کی خبروں سے کشیدہ آرا کو وہ پس و پیش کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو علم نہیں۔ اس کو تو وہ علم ہے جو اکثر اسمبلی کے ارکان بھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ پاکستان کے عالمی معاہدے کتنے فیصد ہیں یا بعض معاہدوں کے کون کون سے پہلو ملکی مفاد میں کس حد تک مفید ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کی بنا پر دنیا کا ہر معاہدہ خواہ وہ کسی ملک کا کیوں نہ ہو، عوام اگر چاہیں تو اس کی تفصیل جان جاتے ہیں۔
لہٰذا سوشل میڈیا کا وجود ملکی مفاد میں بہت اہم اور ضروری ہے۔ ہاں بعض ایسے پہلو جو ملک میں فتنہ کا خالق بنیں اور عوام میں ہیجان برپا کریں اس کی تشہیر بار بار ضروری نہیں۔ ظاہر ہے ہر چیز کا مثبت پہلو ہی نہیں ہوتا ہے منفی پہلو تو ادویات کا بھی ہوتا ہے، جو جراثیم کش ہونے کے ساتھ بھی انسان کے لیے مضر صحت بھی کسی حد تک ہوتی ہے۔ لہٰذا سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں کو بہتر انداز میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جو ملک کے حالات ہیں اس میں نئی لیڈر شپ تو جنم لے نہیں پارہی ہے اور لیڈر شپ کے اسٹیج پر سرمایہ دار یا ضمیر فروش قابض ہیں تو ایسی صورت میں قدرتی عمل کے تحت لوگ آتے جاتے رہیںگے۔ لہٰذا سوشل میڈیا سے لوگ پیدا ہوتے رہیںگے، کیونکہ خلا قدرت نہیں رکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا ایک نیا میڈیا جس کو سوشل میڈیا کا نام دیا گیا ہے وہ منظرعام پر آہی گیا۔
گزشتہ 4،5 برس سے سوشل میڈیا پر لوگ باعمل ہیں ان میں جبران ناصر نامی ایک ہونہار، وسیع النظر ایڈووکیٹ گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا پر ایکٹیو (Active) ہیں جو پہلے تو محض اپنی گفتگو سے لوگوں کو متاثر کرتے تھے اور اب عمل سے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے منظر عام پر آگئے۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے سے کراچی روزگار کے لیے آنے والے خوبرو نوجوان کے جب راؤ انوار نے گولیاں جسم سے پار اتاردیں تو کوئی لیڈر نہ بولا، اگر کوئی سامنے آیا تو وہ جبران ناصر ہی تھا۔ کراچی ڈیفنس کے آسودہ حال انسان کا جذبہ انسانی حیرت انگیز حد تک ایک لیڈر جیسا بے لوث شخص نظر آیا، جس نے ہلاک ہونے والے نقیب اﷲ کے کیس کو اٹھایا۔ جہاں سے معاشی منفعت کی توقع نہیں کی جاسکتی جوکہ وکالت کی اولین شرط ہے۔
وزیرستان کے باشندوں کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں، پھر بھی ان کے دھرنے کی قیادت اور اسلام آباد میں تقریر بھی کی، اس طرح انھوں نے عمران خان اور اسفندیار ولی کی جگہ لے لی۔ اب اس کا حاصل کیا ہوگا، یہ نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ عقدہ بھی کشا ہوا کہ قدرت ہر خلا کو پر کردیتی ہے، خواہ اس کی کوئی باقاعدہ کوشش کرے یا نہ کرے۔ خلا کو پر کرنا قدرتی عمل ہے، اس کے باوجود کہ جبران ناصر کسی سیاسی پارٹی کے رکن نہیں، ان کا طریقہ کار مکمل طور پر ایک سیاسی لیڈر کا تھا۔ البتہ انھوں نے تقریر جس انداز میں کی وہ بڑی نپی تلی تھی جو ایک وکیل کا شیوہ ہوسکتا ہے۔اب یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کردار ادا کریںگے یا سوشل میڈیا کے اسکرین سے کسی وقت وہ عملی سیاست میں متوقع ہیں یا یہی راستہ وہ مستقبل میں بھی پسند کریںگے، مگر ان کے عمل سے یہ ضرور ظاہر ہوا کہ خیبر پختونخوا میں موجود لیڈران ان کی امنگوں کے ترجمان نہیں اور کراچی میں بھی موجودہ الجھاؤ کی سیاست سے باہر نکلنے کو ہے۔