اخلاق حسنہ کی منہاج
اسلام دین فطرت ہے۔ یہ ساری دنیا کے انسانوں کے لیے تاقیامت نظام رحمت ہے
اسلام ہی اخلاق حسنہ کا معلم ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ''میں بزرگ اخلاق اور نیکو ترین اعمال کی تکمیل کے لیے نبی بنایا گیا ہوں۔'' اسلام نے بتایا ہے کہ اخلاق رذیلہ کے منبع و مخرج چار ہیں۔ 1۔جہل 2۔ظلم 3۔ شہوت 4۔غصب۔
(1)۔ تاثیرات جہل میں سے ہے کہ اچھی شے کو بری اور بری شے کو اچھی شکل میں نمایاں کرتا ہے۔ کمال کو نقص اور نقص کو کمال دکھلاتا ہے۔ لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں ''اگر میں عورتوں کی باتوں میں پھنس گیا تو جاہل ہوجاؤں گا۔ (2)۔ تاثیرات ظلم میں سے ہے کہ کسی شے کو اس کے غیر محل میں رکھا جائے۔ خوشنودی کے مقام پر خفگی، سخاوت کے مقام پر بخل، بخل کے مقام پر بذل، نرمی کے مقام پر سختی، سختی کے مقام پر نرمی، مقام انکسار پر تکبر اور مقام وقار پر انکسار یعنی حقوق کا غلط استعمال اور غلط استعمال پر دعویٰ استحقاق۔
قرآن حکیم میں ہے ''ان الشرک لظلم عظیم'' حقوق الٰہی کا غصب کرنا اور ان حقوق کا استعمال دوسرے کے لیے جائز سمجھنا بزرگ ترین ظلم ہے۔ (3)۔تاثیرات شہوت میں سے ہے کہ حرص، بخل اور تنگ دلی کو ترقی ہوتی ہے، حصہ غیر پر حملہ کیا جاتا ہے، وقار نفس اور پارسائی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے ''اعطی کل ذی حق حقہ'' اللہ نے ہر ایک حقدار کو اس کا حق عطا فرمادیا ہے۔ مزید فرمایا ''زنا کے قریب بھی نہ جاؤ' یہ کھلی بے حیائی ہے اور بہت بری راہ ہے۔''
تاثیر غصب سے تکبر، کینہ، حسد، بغاوت اور سفاہت پیدا ہوتے ہیں، ایک شخص نے نبی کریمؐ سے تین بار درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائی جائے، حضور اکرمؐ نے ہر بار یہی جواب فرمایا کہ غیظ و غضب سے دور رہو۔ اسلام نے بتایا کہ اخلاق محمودہ کے سرچشمے چار ہیں۔ (1)۔ صبر۔ (2)۔ عفت۔ (3)۔ شجاعت۔ (4)۔عدل۔
(1)۔صبر کے نتائج ہیں برداشت مصائب، غصہ پی جانا، عدم ایذا دہی، بردباری، خاکساری، گھبراہٹ کا نہ ہونا، حملہ نہ کرنا۔
(1)۔صبر کا ذکر قرآن حکیم میں تقریباً نوے مقامات پر آیا ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ نصف ایمان کا نام صبر ہے اور نصف ایمان کا نام شکر ہے۔ (2)۔عفت کے نتائج ہیں رذائل و قبائح سے اجتناب، قولاً و فعلاً پاکیزگی، عفت سے حیا پیدا ہوتی ہے اور حیا کا اثر ہر ایک خلق نیک پر ہے۔ عفت سے جھوٹ، بخل اور بدکاری کا ستیاناس ہوتا ہے۔ (3)۔شجاعت کے نتائج ہیں، آپ اپنی عزت کو ملحوظ رکھنا، بہترین اخلاق کا جویا رہنا، مالی و جان سے دوسرے کی امداد کرنا، طیش و غضب سے دور رہنا، اپنے نفس کی باگ عقل کے سپرد کردینا۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ:
''پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دیتا ہے۔ پہلوان تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو سنبھال لیتا ہے۔''
(4)۔عدل کے نتائج میں اعتدال اخلاق اور افراط و تفریط کو چھوڑ کر وسط کو اختیار کرلینا، عدل بتاتا ہے کہ جو د و سخا اسے کہتے ہیں جو بخل اور اسراف کے درمیان ہو، عدل بتاتا ہے کہ حیا وہ ہے جو ذلت و بے شرمی کا میانہ ہو، عدل بتاتا ہے کہ شجاعت اسے کہتے ہیں جو جبن اور تہور کا وسط ہو، عدل بتاتا ہے کہ حلیم یہ ہے کہ تکبر و اہانت کے بیچ بیچ ہو۔ تصریحات بالا سے ظاہر ہے کہ اسلام نے اخلاق حسنہ کے بیان میں کس قدر زیادہ حصہ لیا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ یہ ساری دنیا کے انسانوں کے لیے تاقیامت نظام رحمت ہے۔ دین اسلام اعتدال کا مذہب ہے۔ اسلام نے جن باتوں کے کرنے اور جن سے روکنے کا حکم دیا ہے اس میں خود انسان ہی کی دنیوی اور اخروی بھلائی مقصود ہے لہٰذا انفرادی یا اجتماعی نقصانات ہی کے پیش نظر بعض کاموں کو حرام قرار دیا ہے جوکہ اسلام کے اخلاق نظام اور نظریہ اخلاق کی منہاج کا ہی ایک اہم اور مفید حصہ ہے۔ اسلام کے برعکس آج کی تہذیب نے آزادی کے نام پر انسان کو فطرت سے بیزار کرکے جانوروں کی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ جانور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایک دوسرے کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ جانوروں میں جنس اور رشتوں کی تمیز نہیں ہوتی۔ جانور لباس نہیں پہنتے۔ اگر انسان بھی مادر پدر آزاد ہوکر یہی روش اختیار کرے تو یہ ترقی ہوگی یا تنزلی؟ اس کا فیصلہ ہر وہ شخص باآسانی کرسکتا ہے جس کی فطرت مسخ نہ ہوئی ہو۔
اسلام کی بعض اقدار ایسی ہیں جن کی حفاظت خود مسلم معاشرے کی بھی ذمے داری ہے خواہ وہاں اسلامی نظام قائم نہ بھی ہو۔ مثلاً باجماعت نماز کا قیام، مخلوط معاشرے سے اجتناب، بے پردگی، بے حیائی، عریانی اور بداخلاقی کا حتیٰ المقدور سدباب وغیرہ۔ جس طرح اجتماعی سطح پر اسلام کا کیچ ورڈ ''عدل'' ہے، اسی طرح انفرادی سطح پر ایک مسلمان کا نمایاں ترین وصف ''حیا'' ہے۔ حیا اخلاق حسنہ کی چوٹی ہے۔ اسلام میں حیا کو ایمان کا جزو لازم قرار دیا گیا ہے۔ حیا وہ وصف ہے جو انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ کبھی کوئی ہوش مند اور ذی شعور انسان بے لباس گھومتا پھرتا نظر نہیں آئے گا۔ اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں بے حیائی عام ہونے کے باوجود مرد و زن جسم کے ضروری حصوں کو فطرتاً ڈھانپنا پسند کرتے ہیں۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ اسلام انسان کو فحاشی سے کیوں روکنا چاہتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور شرف انسانیت پر فائز رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے وہ خود اپنی نظروں میں گر جائے یا جس کام سے فطرت کراہت محسوس کرے۔ دوسری طرف انسان کا ازلی دشمن شیطان اسے شرف انسانیت سے محروم کرکے ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 268 میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ''شیطان تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور فحاشی پر اکساتا ہے (جب کہ) اللہ تم سے اپنی بخشش اور رحم کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔''
سورۃ النور کی آیت نمبر 21 میں رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان الفاظ میں متنبہ کیا ہے ''اے اہل ایمان شیطان کی پیروی مت کرنا اور جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا تو وہ اسے بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم دے گا۔'' ان آیات مبارکہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بے حیائی کے کام دراصل شیطانی افعال ہیں اور یہی وہ شیطانی افعال ہیں جو آدمی کو شرف انسانیت سے گرا کر اخلاق رذیلہ کی پست ترین سطح پر پہنچا دیتا ہے۔
دور حاضر میں ذرایع ابلاغ کی ترقی اور آزادی نے ان شیطانی افعال کو بہت آسان کردیا ہے حالانکہ بے حیائی کو فروغ دینے والوں کے لیے قرآن حکیم میں سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ''جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہوگا اور جو اللہ جانتا ہے وہ تم نہیں جانتے۔'' (سورۃ النور:19)
دنیا و آخرت کے دردناک عذاب سے بچنے کے لیے فحاشی و عریانی کے سیلاب کے آگے بند باندھنا کسی ایک کی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کی ذمے داری ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار عوام کا ہی ہے جنھیں اخلاق معاشرت کی بالادستی کو یقینی بنانے، بے حیائی اور فحاشی کے سدباب اور حیا کے احیا کے سفر نو کا آغاز خود اپنی ذات اور گھر سے کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ارباب اقتدار و اختیار، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ذرایع ابلاغ و میڈیا کے ذمے داران بھی اپنے فرائض منصبی کو بحسن و خوبی نبھاتے ہوئے معاشرے کو پاکیزہ رکھنے میں اہم کلیدی کردار ادا کریں اور بے حیائی کے فروغ کا مکمل خاتمہ عمل میں لائیں، غیر اخلاقی مواد کی نشر و اشاعت کو روکیں بلکہ اس رجحان کی بیخ کنی کرنے کے لیے مزید سخت قوانین وضع کریں تاکہ ہماری نوجوان نسل تباہ ہونے سے بچ سکے۔ یہ اخلاق حسنہ کا وہ منہاج ہے جس کی پاسداری ہم سب کی اولین ترجیح اور ذمے داری ہونی چاہیے۔