اس بے حسی سے ڈر لگتا ہے
ایک چھوٹے سے شہر قصور میں ہی جانے کتنی بن کھلی کلیوں کو پیروں تلے مسل دیا گیا
آج کل جانے کیوں یہ احساس رگ رگ کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ ہم کسی آزاد، خود مختار ریاست میں نہیں بلکہ میدانِ حشر میں رہ رہے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے اخبار اٹھاتے ہیں کہ بغیر اخبار پڑھے رہا بھی نہیں جاتا۔ تو صفحہ اول سے سٹی، ڈسٹرکٹ سے لے کر صفحہ آخر تک روح کو لرزادینے والی خبریں ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں کہ بڑا ترقی یافتہ، روشن خیال معاشرہ، آزاد اور جمہوری ملک کا شہری ہونے پر ناز تھا جناب کو (حالانکہ ایسا کبھی نہ تھا صرف ہمارا تصور، ہمارا خواب ہی تھا) اب دیکھو کتنی ترقی کی ہے آپ کے ملک نے تمام شعبہ ہائے زندگی، تمام اداروں میں اربوں کی بدعنوانیوں کی کہانی تو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ مختاراں مائی کا واقعہ بھی بہت پرانا ہوچکا اب تو معصوم کلیاں بن کھلے مرجھانے لگی ہیں۔
ایک چھوٹے سے شہر قصور میں ہی جانے کتنی بن کھلی کلیوں کو پیروں تلے مسل دیا گیا۔ ملک کے طول و عرض سے کتنے افراد لاپتہ کردیے گئے، شہر کراچی میں کتنے گھروں کے چراغ جعلی پولیس مقابلوں میں گل کردیے گئے۔ کراچی کے ہر دوسرے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے جس پر مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں بیٹھی بین کررہی ہیں۔ اپنے پیاروں کے انتظار میں نہ دن بھر کسی کام میں دل لگتا ہے اور نہ رات کو نیند آتی ہے ہر آہٹ پر دل کی دھڑکن یوں بڑھ جاتی ہے کہ شاید کان پھاڑ کر باہر نکل جائے مایوسی، امید میں بدل جاتی ہے شاید میرا بیٹا، میرا بھائی، میرا شوہر یا میرے ابو واپس گھر آگئے ہیں مگر وہ آہٹ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔
پھر وہی جدائی، وہی ہجر، وہی فراق اور وہی نا امیدی۔ کراچی وہ شہر کہ جہاں سے جو تحریک چلی ہمیشہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کرکامیابی سے ہمکنار ہوئی، مگر آج یہاں وہ مایوسی، نا امیدی اور پژمردگی چھائی ہوئی ہے کہ روز روز تشدد زدہ لاشیں دیکھ دیکھ کر آنکھیں پتھرا گئی ہیں ذہن مفلوج ہوچکے ہیں۔ اب تو ماؤں نے اپنے بچوں کو عدالت میں پیش کرکے سزا دینے کا مطالبہ بھی کرنا چھوڑ دیا ہے کہ اگر زیادہ اصرار کیا تو کل ان کے پیاروں کی لاشیں کسی پارک، کسی جھاڑی یا کسی سنسان مقام سے مل جائے گی بس سینے پر صبر کی سل رکھ کر دعا کرتی ہیں کہ ''جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں زندہ ہوں ہم مزید انتظار کرلیںگے''
اﷲ تعالیٰ گنہگاروں کی رسی ضرور دراز کرتا ہے مگر پھر ایک جھٹکے سے جب اس کو کھینچتا ہے تو بڑے سے بڑا مجرم منہ کے بل زمین پر گرتا ہے۔ ہم زینب اور نقیب اﷲ کے شکر گزار ہیں کہ زینب نے اپنی جان دے کر اپنی ہی جیسی صورتحال سے دو چار گمنام موت کا شکار دوسری کلیوں کے مقدمے بھی عام کردیے اور نقیب اﷲ محسود کی ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت نے اب تک ہونے والے جعلی مقابلوں پر سے بھی پردہ ہٹا دیا۔
کراچی کی شہری سندھ کی نمایندہ جماعت نے جب بھی اپنے کارکنوں کی مقابلوں میں ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو کسی کے کان پر جوں نہ رینگی مگر محسود قبیلے اور دیگر پختون قبائل کے اتحاد نے حکومت سندھ کو جرگہ کے پیش کردہ مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرانے پر مجبور کردیا، یہ اتحاد کی برکت ہے یا فرزند زمین ہونے کا کرشمہ؟ نقیب اﷲ کی ہلاکت نے تمام گزشتہ مقابلوں کے جعلی ہونے کی بھی تصدیق کردی اور اب ان سب کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ مجرم لاکھ با اثر ہو کبھی نہ کبھی پکڑ میں آہی جاتا ہے۔ مشال قتل کیس کا فیصلہ سامنے آگیا، زینب اور نقیب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے اپنی جانیں دے کر دوسرے معصوم و بے گناہوں کے قتل پر بھی غور و فکر کے دروازے وا کردیے ۔
یوں شاید بے گناہوں کا خون رنگ لائے اور ان کے قاتل کیفر کردار تک پہنچ سکیں۔ مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ با اثر سیاسی کردار جو کرائے کے قاتلوں، پولیس جیسے ذمے دار محکمے کے بعض افراد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں وہ اپنے مہروں کو اپنا راز افشاں ہونے کے خوف سے راستے سے ہی نہ ہٹا دیں۔ ایسا مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں بھی ہوچکا ہے اور بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی۔ ہمارے یہاں حصول انصاف میں جو تاخیر ہوتی ہے وہ بھی مجرموں کے حق میں جاتی ہے۔ مجرم کو اس کے جرم کی سزا دیتے ہوئے یا اس کو انجام تک پہنچاتے ہوئے اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ اس دوران مجرم کو استعمال کرنے والے اس کو اس سے قبل کہ وہ ان کا راز فاش کرے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا پھر مجرم خود کو ختم کرلیتا ہے اور وہ ہاتھ جو اس مجرم کے پس پشت ہوتے ہیں سامنے آنے سے بچ جاتے ہیں جیسے 100 بچوں کا قاتل خودکشی کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایسا ہی خدشہ زینب کے علاوہ اب تک ظاہر ہونے والے آٹھ معصوم بچیوں کے قاتل عمران کے لیے بھی محسوس کیا جارہاہے کہ اگر اس کی اچھی نگرانی نہ کی گئی تو کہیں وہ موقعے سے فائدہ نہ اٹھائے۔
اسی طرح راؤ انوار جس کے بارے میں مختلف آرا سامنے آرہی ہیں کہ ملک سے فرار ہوچکا ہے یا وہ مختلف افراد سے وائٹس ایپ پر رابطے میں ہے اور پولیس کے پاس وائٹس ایپ کالز کی لوکیشن دریافت کرنے کی اہلیت نہیں۔ راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے دوسرے صوبوں کو جانے والی پولیس پارٹیاں بھی ناکام واپس آگئی ہیں ایک سیاست دان نے عوام کے ساتھ مل کر راؤ انوار کو ڈھونڈنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا راؤ انوار از خود لوگوں کو قتل کرتا رہا ہے یا وہ کسی کا آلۂ کار ہے۔ ایسی صورت میں راؤ انوار کے انجام کی طرف سے بھی غفلت برتنا درست نہیں۔اس ساری صورتحال میں جو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے وہ ہے ہماری بے حسی۔ ادھر تو ہر سطح پر جرائم کے بم پھٹ رہے ہیں اور ادھر سیاست دان سینیٹ کے انتخابات کے لیے جوڑ توڑ کرنے میں یوں مصروف ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ صرف سینیٹ کی نشست حاصل کرنا ہی سب سے اہم اور ضروری کام رہ گیا ہو۔ جب اعلیٰ سطح پر بے حسی کا یہ عالم ہو کہ سیاست دان اور مذہبی رہنما سب معاشرتی المیوں کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں تو ایسے میں کسی بہتری کی امید کیسے اور کس سے کی جاسکتی ہے؟ بقول مصطفی زیدی:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اگرچہ مصطفی زیدی کے لیے مشہور یہ ہے کہ انھوں نے خودکشی کی تھی۔ مگر اس کی وجہ معاشرے میں کہیں نہ کہیں موجود تھی جن کو تلاش کرنا ذمے داروں کا فرض تھا مگر اس قتل یا خودکشی پر سے آج تک پردہ نہ اٹھ سکا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کا معمہ آج تک حل نہ ہوسکا۔ اس قتل کو چھپانے کے لیے بھی کئی قتل کیے گئے مگر وہ ہاتھ جو اس کا اصل ذمے دار تھا آج بھی نگاہوں سے اوجھل ہے ،کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بظاہر مجرم ہے اس کے پس پشت عوامل کا بھی کھوج لگانا ضروری ہے۔ بڑے بڑے واقعات میں مجرم تنہا نہیں ہوتا اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نقاب پوش مجرموں کو بے نقاب کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
ایک چھوٹے سے شہر قصور میں ہی جانے کتنی بن کھلی کلیوں کو پیروں تلے مسل دیا گیا۔ ملک کے طول و عرض سے کتنے افراد لاپتہ کردیے گئے، شہر کراچی میں کتنے گھروں کے چراغ جعلی پولیس مقابلوں میں گل کردیے گئے۔ کراچی کے ہر دوسرے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے جس پر مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں بیٹھی بین کررہی ہیں۔ اپنے پیاروں کے انتظار میں نہ دن بھر کسی کام میں دل لگتا ہے اور نہ رات کو نیند آتی ہے ہر آہٹ پر دل کی دھڑکن یوں بڑھ جاتی ہے کہ شاید کان پھاڑ کر باہر نکل جائے مایوسی، امید میں بدل جاتی ہے شاید میرا بیٹا، میرا بھائی، میرا شوہر یا میرے ابو واپس گھر آگئے ہیں مگر وہ آہٹ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔
پھر وہی جدائی، وہی ہجر، وہی فراق اور وہی نا امیدی۔ کراچی وہ شہر کہ جہاں سے جو تحریک چلی ہمیشہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کرکامیابی سے ہمکنار ہوئی، مگر آج یہاں وہ مایوسی، نا امیدی اور پژمردگی چھائی ہوئی ہے کہ روز روز تشدد زدہ لاشیں دیکھ دیکھ کر آنکھیں پتھرا گئی ہیں ذہن مفلوج ہوچکے ہیں۔ اب تو ماؤں نے اپنے بچوں کو عدالت میں پیش کرکے سزا دینے کا مطالبہ بھی کرنا چھوڑ دیا ہے کہ اگر زیادہ اصرار کیا تو کل ان کے پیاروں کی لاشیں کسی پارک، کسی جھاڑی یا کسی سنسان مقام سے مل جائے گی بس سینے پر صبر کی سل رکھ کر دعا کرتی ہیں کہ ''جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں زندہ ہوں ہم مزید انتظار کرلیںگے''
اﷲ تعالیٰ گنہگاروں کی رسی ضرور دراز کرتا ہے مگر پھر ایک جھٹکے سے جب اس کو کھینچتا ہے تو بڑے سے بڑا مجرم منہ کے بل زمین پر گرتا ہے۔ ہم زینب اور نقیب اﷲ کے شکر گزار ہیں کہ زینب نے اپنی جان دے کر اپنی ہی جیسی صورتحال سے دو چار گمنام موت کا شکار دوسری کلیوں کے مقدمے بھی عام کردیے اور نقیب اﷲ محسود کی ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت نے اب تک ہونے والے جعلی مقابلوں پر سے بھی پردہ ہٹا دیا۔
کراچی کی شہری سندھ کی نمایندہ جماعت نے جب بھی اپنے کارکنوں کی مقابلوں میں ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو کسی کے کان پر جوں نہ رینگی مگر محسود قبیلے اور دیگر پختون قبائل کے اتحاد نے حکومت سندھ کو جرگہ کے پیش کردہ مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرانے پر مجبور کردیا، یہ اتحاد کی برکت ہے یا فرزند زمین ہونے کا کرشمہ؟ نقیب اﷲ کی ہلاکت نے تمام گزشتہ مقابلوں کے جعلی ہونے کی بھی تصدیق کردی اور اب ان سب کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ مجرم لاکھ با اثر ہو کبھی نہ کبھی پکڑ میں آہی جاتا ہے۔ مشال قتل کیس کا فیصلہ سامنے آگیا، زینب اور نقیب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے اپنی جانیں دے کر دوسرے معصوم و بے گناہوں کے قتل پر بھی غور و فکر کے دروازے وا کردیے ۔
یوں شاید بے گناہوں کا خون رنگ لائے اور ان کے قاتل کیفر کردار تک پہنچ سکیں۔ مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ با اثر سیاسی کردار جو کرائے کے قاتلوں، پولیس جیسے ذمے دار محکمے کے بعض افراد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں وہ اپنے مہروں کو اپنا راز افشاں ہونے کے خوف سے راستے سے ہی نہ ہٹا دیں۔ ایسا مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں بھی ہوچکا ہے اور بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی۔ ہمارے یہاں حصول انصاف میں جو تاخیر ہوتی ہے وہ بھی مجرموں کے حق میں جاتی ہے۔ مجرم کو اس کے جرم کی سزا دیتے ہوئے یا اس کو انجام تک پہنچاتے ہوئے اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ اس دوران مجرم کو استعمال کرنے والے اس کو اس سے قبل کہ وہ ان کا راز فاش کرے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا پھر مجرم خود کو ختم کرلیتا ہے اور وہ ہاتھ جو اس مجرم کے پس پشت ہوتے ہیں سامنے آنے سے بچ جاتے ہیں جیسے 100 بچوں کا قاتل خودکشی کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایسا ہی خدشہ زینب کے علاوہ اب تک ظاہر ہونے والے آٹھ معصوم بچیوں کے قاتل عمران کے لیے بھی محسوس کیا جارہاہے کہ اگر اس کی اچھی نگرانی نہ کی گئی تو کہیں وہ موقعے سے فائدہ نہ اٹھائے۔
اسی طرح راؤ انوار جس کے بارے میں مختلف آرا سامنے آرہی ہیں کہ ملک سے فرار ہوچکا ہے یا وہ مختلف افراد سے وائٹس ایپ پر رابطے میں ہے اور پولیس کے پاس وائٹس ایپ کالز کی لوکیشن دریافت کرنے کی اہلیت نہیں۔ راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے دوسرے صوبوں کو جانے والی پولیس پارٹیاں بھی ناکام واپس آگئی ہیں ایک سیاست دان نے عوام کے ساتھ مل کر راؤ انوار کو ڈھونڈنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا راؤ انوار از خود لوگوں کو قتل کرتا رہا ہے یا وہ کسی کا آلۂ کار ہے۔ ایسی صورت میں راؤ انوار کے انجام کی طرف سے بھی غفلت برتنا درست نہیں۔اس ساری صورتحال میں جو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے وہ ہے ہماری بے حسی۔ ادھر تو ہر سطح پر جرائم کے بم پھٹ رہے ہیں اور ادھر سیاست دان سینیٹ کے انتخابات کے لیے جوڑ توڑ کرنے میں یوں مصروف ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ صرف سینیٹ کی نشست حاصل کرنا ہی سب سے اہم اور ضروری کام رہ گیا ہو۔ جب اعلیٰ سطح پر بے حسی کا یہ عالم ہو کہ سیاست دان اور مذہبی رہنما سب معاشرتی المیوں کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں تو ایسے میں کسی بہتری کی امید کیسے اور کس سے کی جاسکتی ہے؟ بقول مصطفی زیدی:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اگرچہ مصطفی زیدی کے لیے مشہور یہ ہے کہ انھوں نے خودکشی کی تھی۔ مگر اس کی وجہ معاشرے میں کہیں نہ کہیں موجود تھی جن کو تلاش کرنا ذمے داروں کا فرض تھا مگر اس قتل یا خودکشی پر سے آج تک پردہ نہ اٹھ سکا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کا معمہ آج تک حل نہ ہوسکا۔ اس قتل کو چھپانے کے لیے بھی کئی قتل کیے گئے مگر وہ ہاتھ جو اس کا اصل ذمے دار تھا آج بھی نگاہوں سے اوجھل ہے ،کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بظاہر مجرم ہے اس کے پس پشت عوامل کا بھی کھوج لگانا ضروری ہے۔ بڑے بڑے واقعات میں مجرم تنہا نہیں ہوتا اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نقاب پوش مجرموں کو بے نقاب کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔