حلال ذبیحہ

حرام غذا عبادت کو نامقبول بنادیتی ہے، دعاؤں کو بے اثر کردیتی ہے۔


انسان کی اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے اور اگر انسان کسی دوسرے کو ایسی غذا کھلائے جو حرام ہو تو یہ گناہ بالائے گناہ ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: غذا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں غذا کے وافر وسائل پیدا فرمائے ہیں، یہ وسائل نہ صرف دنیا میں انسان کے گرد پھیلے ہوئے ہیں، بل کہ آخرت میں بھی فراہم رہیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اہل جنت کو ہر قسم کی تکلیف و مشقت سے محفوظ غذائیں دی جائیں گی اور اہل دوزخ کو بدمزہ، بدبودار اور تکلیف دہ کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جائیں گی۔

دنیا میں انسان کو غذا کے طور پر جو چیزیں میسر ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہیں: جمادات، نباتات اور حیوانات۔

جمادات سے مراد مٹی، لوہا وغیرہ ہیں، ایسی چیزیں جن میں زندگی نہیں ہوتی اور جن میں تیز رفتار نمو کی کیفیت نہیں پائی جاتی۔ جمادات میں بہت کم چیزیں ہیں، جو غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، ان کا زیادہ تر استعمال دواؤں میں ہوتا ہے، لوہا، چونا، پتھر، سونا چاندی وغیرہ قدیم زمانے سے ہی دواؤں میں استعمال کیے جاتے رہے ہیں، اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اس طریقہ پر استعمال ہوتا کرتے ہیں۔

غذا کا سب سے بڑا وسیلہ نباتات ہیں۔ چاول، گیہوں، دالیں، تیل اور ترکاریاں، یہ سب یا تو نباتات ہیں یا نباتات سے حاصل ہونے والی اشیاء ہیں۔ بڑی حد تک انسانی غذا کا انحصار نباتات کی پیداوار ہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ ان کی افزائش میں کم محنت اور مدت درکار ہوتی ہے اور پیداوار کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان غذاؤں میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ جسم کو جو وٹامنز اور اجزاء مطلوب ہوتے ہیں، وہ بڑی حد تک ان کے ذریعے مہیا ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ نباتاتی اشیاء کے ذریعے ہی اپنی غذا کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

نباتات کے بعد انسانی خوراک کا دوسرا بڑا وسیلہ حیوانات ہیں۔ جس زمانے میں جب حمل و نقل کے ذرایع محدود بھی تھے اور سست رفتار بھی، تو صحرائی علاقوں میں زیادہ تر حیوانی غذاؤں پر لوگوں کا دار و مدار ہوتا تھا۔ اسی طرح جنگلات میں جہاں باضابطہ کھیتی نہیں ہوتی تھی، شکار کے جانور اور پھلوں کے ذریعے آدمی اپنی ضرورت پوری کرتا تھا۔ لیکن لحمی غذاؤں کی اہمیت ہر علاقے میں بسنے والے لوگوں کے لیے رہی ہے، کیوں کہ جسم کی بہت سی ضرورتیں لحمی غذاؤں کے ذریعے ہی بہتر طور پر پوری ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان میں جو لذت رکھی ہے، نباتات کے ذریعے وہ حاصل نہیں ہوپاتی۔ اسی لیے دنیا میں ہمیشہ لحمی غذاؤں سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے اور دنیا کے بیشتر مذاہب نے اس کی اجازت دی ہے۔ مسلمان، یہودی، عیسائی اور بدھسٹ اس کو درست سمجھتے ہیں۔

غور کیا جائے تو قدرت کا اشارہ بھی یہی ہے، جو جانور چارا کھاتے ہیں، ان کے اندر گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، وہ قدرتی طور پر چارا خور نہیں ہوتے ہیں، جو جانور قدرتی طور پر گوشت خور ہوتے ہیں، وہ گوشت ہی کو ہضم کرتے ہیں، طبعی طور پر وہ چارا نہیں کھاتے، اسی لیے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ بھینسیں گوشت کھانے لگی ہوں اور شیروں نے گھاس پھوس کھانا شروع کر دیا ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے معدے میں دونوں طرح کی غذاؤں کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔

اسی طرح جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے دانت دیے ہیں، جو کھانے والی چیزوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے کے کام آتے ہیں، اس طرح ان کو ہضم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ چارا خور جانوروں کو چپٹے دانت دیے گئے ہیں، جو نباتاتی چیزوں کو چبانے کے کام آتے ہیں، انہیں نوک دار دانت نہیں دیے گئے، جن کو گوشت وغیرہ کو کاٹنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف گوشت خور جانوروں کو نوک دار دانت دیے گئے ہیں، جو لحمی غذاؤں کو ٹکڑے کرنے اور کاٹنے کے کام آتے ہیں، جیسے ریچھ، کتے اور شیر وغیرہ۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دونوں طرح کے دانت دیے ہیں، یہ سب قدرت کے اشارے ہیں، تاکہ انسان اپنی غذا کے دائرے کو سمجھ لے۔

جب ہم غذاؤں پر شرعی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو جمادات اور نباتات کا مسئلہ آسان اور واضح نظر آتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے کائنات کی تمام چیزوں کو انسان ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ فقہاء نے اسی حکم ربانی کی روشنی میں یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ چیزوں میں اصل مباح ہونا ہے، جب تک کہ اس کے حرام ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ لیکن حیوانات کا معاملہ اس سے مختلف ہے، حیوانات اصل میں حرام ہیں، جب تک کہ اس کے حلال ہونے کی شرعی دلیل فراہم نہ ہو، اس لیے لحمی غذاؤں کے حلال ہونے کے لیے تین باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔

اَوّل یہ کہ جس جانور کا گوشت ہے، وہ خود حلال ہو، ایسے جانوروں کی تعداد محدود ہے، قرآن و حدیث میں اس سلسلے میں اُصول بھی ذکر کردیے گئے ہیں اور ان کی جزوی تفصیلات بھی مذکور ہیں۔ چناں چہ تمام درندہ جانور حرام ہیں، نیز رینگنے والے جان دار کیڑے مکوڑے وغیرہ بھی حرام کیے گئے ہیں۔ اونٹ، بیل، بھینس، بکرے، ہرن، مرغ میں نر و مادہ نیز پالتو و جنگلی جانور حلال کیے گئے ہیں۔

دوسری قابل لحاظ چیز یہ ہے کہ حلال جانور کے بھی بعض اجزاء حرام ہیں، جس کا ذکر خود حدیث میں ہے اور وہ یہ ہیں: ''نر و مادہ کے اعضاء تناسل، فوطے، بہتا ہوا خون، مثانہ، پتہ، جس گوشت میں گرہ پڑگئی ہو۔'' ( بہ حوالہ: کتاب الآثار) بعض فقہاء نے اِن پر اُس کا بھی اضافہ کیا ہے، جس کو قصاب حضرات ''مغز حرام'' سے تعبیر کرتے ہیں، یہ کل آٹھ ہیں۔ تیسری ضروری بات یہ ہے کہ وہ حلال جانور شرعی اُصولوں کے مطابق ذبح کیا گیا ہو۔

شرعی طریقہ پر ذبح کرنے کے سلسلے میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، اَوّل یہ کہ جانور کی گردن سے چار نالیاں گزرتی ہیں: ایک غذا کی، ایک سانس کی اور دو خون کی، جن کو شہ ِرگ کہا جاتا ہے، ذبح کے صحیح ہونے کے لیے ان میں سے تین کا اچھی طرح کٹ جانا ضروری ہے۔ (الفتاویٰ الہندیہ) اس کا ایک فائدہ تو جانور کی تکلیف کو کم کرنا ہے، کیوں کہ اگر دماغ کی طرف جانے والی خون کی سپلائی لائن کٹ جائے تو چند سیکنڈ میں قوتِ احساس ختم ہوجاتی ہے، دماغ کی موت ہوجاتی ہے اور تکلیف کا احساس باقی نہیں رہتا، اس طرح جانور کو تکلیف کا احساس کم ہوتا ہے۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ رگوں میں گردش کرتا ہوا خون اچھی طرح نکل جاتا ہے، اس خون کے نکل جانے سے گوشت میں مضرِ صحت اثر باقی نہیں رہتا، اگر خون اچھی طرح نہ بہہ پائے اور وہ جسم کے اندر ہی جذب ہوجائے تو خون میں صحت کو نقصان پہنچانے والے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور گوشت انسان کے لیے نقصان دہ ہوجاتا ہے، غالباً مردار کے گوشت کو حرام قرار دینے کی حکمت یہی ہے۔

ذبح کے عمل کے درست ہونے کے لیے دوسری ضروری بات یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام لیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ وہی جانور حلال ہے، جو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، اور ایسے جانور کا گوشت کھانے سے منع فرمایا گیا ہے، جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہو۔ِ'' (الانعام) احادیث میں اس کی اور بھی وضاحت آئی ہے، یوں تو اصل مقصود جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لینا ہے، خواہ کسی بھی طریقے پر نام لیا جائے، لیکن افضل طریقہ یہ ہے کہ ''بسم اللہ، اللہ اکبر '' کہا جائے، ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کے نام لینے کا یہ حکم ایمان و عقیدے کے پہلو سے ہے۔

کیوں کہ دنیا کی مختلف مشرک قومیں ذبح اور قربانی کو مشرکانہ نقطۂ نظر سے انجام دیتی آئی ہیں، لوگ دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کو چھوڑتے تھے، تہواروں میں ان کے نام سے قربانی کیا کرتے تھے، استھانوں اور بتوں کی عبادت گاہوں پر جانوروں کے نذرانے پیش کیا کرتے تھے اور کھانے کے لیے بھی غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے، گویا ذبح و قربانی کو وہ اپنے مشرکانہ عقائد کے اظہار کا ذریعہ بناتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ذہن میں عقیدۂ توحید کو راسخ کرنے اور مشرکانہ افکار سے انہیں بچانے کے لیے یہ تدبیر فرمائی کہ جن کاموں کو وہ شرک اور غیر اللہ کی تقدیس کے طور پر کرتے تھے، ان ہی کو توحید کے سانچہ میں ڈھال دیا گیا، قربانی دینا چوں کہ ایک فطری جذبہ ہے اور گوشت انسان کی ایک فطری غذا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے طریقے کو باقی رکھا۔ شرعی ذبیحہ کو حلال قرار دیا گیا، لیکن ان کو شرک کے بہ جائے عقیدۂ توحید کا مظہر بنادیا کہ قربانی کی جائے، مگر اللہ ہی کے نام پر جانور ذبح کیا جائے۔ غیر اللہ کے نام پر نہ قربانی جائز ہے اور نہ جانوروں کو چھوڑنا اور ذبح کرنا۔ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرے تو اس کا کھانا حرام ہے، کیوں کہ خود قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔ (المائدۃ ) اس پر بھی قریب قریب اتفاق ہے کہ اگر ذبح کرتے وقت قصداً اللہ کا نام چھوڑ دے تو اس صورت میں بھی ذبیحہ حلال نہیں ہوگا۔ (الہدایہ)


یہ بھی ضروری ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو۔ (المائدۃ) غیر مسلم کا ذبیحہ حلال نہیں، البتہ ایسے یہودی اور عیسائی جو اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل ہوں، نبوت اور وحی پر ایمان رکھتے ہوں، آخرت پر ان کا ایمان ہو، وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان رکھتے ہوں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا ایمان نہ ہو، تو اگرچہ یہ مسلمان نہیں ہیں، لیکن کفر میں ان کا درجہ دوسرے غیر مسلموں کے مقابلے میں کم تر ہے، اس لیے عام غیر مسلموں کے مقابلے میں ان کے حکم میں نرمی برتی گئی ہے، ان کی عورتوں سے نکاح جائز قرار دیا گیا ہے اور ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ (المائدۃ)

آج کل ذبیحہ کے سلسلہ میں دو باتیں خاص کر قابل توجہ ہیں، اَوّل یہ کہ اب گوشت کی تجارت میں اچھی خاصی تعداد غیر مسلموں کی داخل ہوچکی ہے اور غیر مسلم قصاب بھی جانور ذبح کیا کرتے ہیں، خاص کر چکن کی تجارت میں، مسلمانوں کو اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے گوشت خریدنا چاہیے، اگر مسلمان جانور ذبح کرے اور غیر مسلم اس کے گوشت فروخت کرتے ہوں تو ان سے گوشت لینے میں حرج نہیں، لیکن اگر غیر مسلم ہی جانور ذبح بھی کرتے ہوں تو پھر ان کا ذبیحہ حلال نہیں اگرچہ ایسی جگہیں کم ہیں، زیادہ تر علاقوں میں خود مسلمان اس کام کو انجام دیتے ہیں، لیکن بڑے شہروں میں اس کو خاص طور پر ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔

دوسرا قابل توجہ پہلو خود بعض مسلمان قسابوں کا ہے، لوگوں کا احساس ہے کہ عام طور پر بعض قساب جانور ذبح کرتے چلے جاتے ہیں، بسم اللہ پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک طرف جانور کے گلے پر چھری چلارہے ہیں، دوسری طرف دکان میں کام کرنے والوں کو ڈانٹ ڈپٹ کررہے ہیں، یہاں تک کہ گالی بک رہے ہیں، ایسی صورت میں اگر قصداً اس نے جانور پر بسم اللہ نہیں کہا تو یہ ذبیحہ حلال نہیں ہوا۔

مرغیاں چوں کہ تقریبات میں بڑی تعداد میں ذبح کی جاتی ہیں، اس لیے اس موقعے پر غفلت اور زیادہ ہوتی ہے، قساب حضرات کو اس سلسلے میں خصوصی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، بہتر ہے کہ جہاں وہ اور کام کرنے والوں کو رکھتے ہیں، ایک شخص کو خاص اسی مقصد کے لیے رکھیں، جو جانور پر ''بسم اللہ، اللہ اکبر'' کہتے ہوئے اسے ذبح کرنے کا اہتمام کرے، نیز جو لوگ دعوت اور مختلف تقریبات کے لیے بڑی مقدار میں مرغیاں خریدتے ہیں۔

وہ بھی اس بات کا اہتمام کریں کہ مرغی ذبح کرنے میں اپنے ایک ایسے ساتھی کو مقرر کردیں، جو مستقل طور پر بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے ہوئے ذبح کا فریضہ انجام دے۔ اس طرح حلال و حرام جیسے اہم مسئلے میں ایک بڑی بے احتیاطی سے بچنے کا اہتمام ہوسکتا ہے، حرام غذا عبادت کو نامقبول بنادیتی ہے، دعاؤں کو بے اثر کردیتی ہے، انسان کی اپنی اور اپنے بال بچوں کی زندگی پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے اور اگر انسان کسی دوسرے کو ایسی غذا کھلائے جو حرام ہو تو یہ گناہ بالائے گناہ ہے، اس لیے جو مسلمان قصاب جانور کو ذبح کرتے ہیں، یا جو لوگ چکن ذبح کرکے سپلائی کرتے ہیں، یا جو گوشت خرید کر بازار میں فروخت کرتے ہیں، وہ سب اپنے آپ کو حرام سے بچانے اور حلال پر قائم رہنے کا اہتمام کریں۔

مساجد کے خطباء کو بھی چاہیے کہ وہ عام مسلمانوں اور خاص کر قساب کے پیشے سے وابستہ بھائیوں اور گوشت فروخت کرنے والوں کو مسئلے کی اہمیت سمجھائیں، بل کہ ان کے لیے تربیتی کیمپ رکھیں، جس میں ذبح کا شرعی طریقہ سمجھایا جائے، ذبیحہ کے جو اعضاء جائز نہیں ہیں، ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں، جو تنظیمیں یا ادارے ذبیحہ کے حلال ہونے کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں، ان کی ذمے داریاں بہت نازک ہیں، ان میں احکامِ شریعت سے واقف نمائندے ہونے چاہئیں، ذبح کے وقت نگرانی ہونی چاہیے، پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک معائنہ ہونا چاہیے، تاکہ ان کی تصدیق کا غلط استعمال نہ ہو۔

مشینی طریقے پر جانور کو ذبح کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ جانور کو عام معمول کے مطابق چھرے سے ذبح کیا جائے اور مشین کے ذریعے گوشت وغیرہ کے ٹکڑے کیے جائیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جانور کے ذبح کرنے کا عمل ہی مشین کے ذریعے انجام پائے، اس کی بعض صورتیں جائز اور بیشتر صورتیں ناجائز ہیں، عام طور پر ابھی مشینی ذبیحہ کا طریقہ مروّج نہیں ہے، لیکن اگر جانور کے ذبح کے لیے مشینوں سے کام لیا جائے تو علماء سے دریافت کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔