علمی تشدد پسندی مقصدِ حیات اور لبرل سوچ چند گزارشات

انسانی معاشرہ... اگر قائم ہے تو رواداری سے، برداشت سے، تحمل سے، اور ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے سے


ڈاکٹر سہیل امجد February 09, 2018
ارسطو نے کہا تھا ’’یہ ایک خواندہ دماغ کی نشانی ہے کہ وہ کسی سوچ کو قبول کیے بغیر اس پر بات کرسکے۔‘‘ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں خواندہ دماغوں کی کمی روز بروز بڑھتی گئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معلوم انسانی تاریخ میں سیکھنے سکھانے کے عمل کو جن چیزوں نے مہمیز بخشی ہے ان میں شاید روایتِ تحریر سب سے مقدم گنی جائے گی۔ قدیم غاروں میں موجود پہلی انسانی کاوشوں سے لے کر جدید ترین موبائل ریڈرز کی ایجاد تک، انسان نے ضبط تحریر میں آنے والے مواد کی ترسیل کو ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ زبانوں کا ارتقا، انسان کی سماجی ترقی، معاشرے کا قیام و تسلسل، ان سب میں کلیدی کردار رہا ہے تحریر شدہ ہدایات و معلومات کا۔

لکھی ہوئی چیزوں کو پڑھنا اور ان کا بعینہ سمجھنا جو لکھنے والے کا ارادہ تھا، ایک پیچیدہ عمل بن سکتا ہے اگر کچھ عوامل کو نظر انداز کر دیا جائے، یا پھر ان کے بارے میں پہلے سے طے شدہ رائے کو تحریر پر فوقیت دیتے ہوئے اسے پڑھا جائے۔ پہلے عمل کو کوتاہ فہمی کی حد میں رکھا جا سکتا ہے اور دوسرے کو کسی حد تک تعصب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ دونوں عوامل بکثرت پائے گئے ہیں یا پائے جاتے ہیں۔ ریاضیاتی اعداد و شمار کو تو جھٹلانا ممکن نہیں، مگر سماجی علوم و نظریات بشمول مذہب، جس طرزِ بیان میں درج کیے جاتے ہیں اس پر دو لوگوں کا اختلاف رائے عین ممکن ہے۔ یہی واضح وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے ارکان یا یوں کہہ لیجیے کہ عالمی طور پر مسلمانان (گو یہ یہاں تک محدود نہیں) ایک ہی مذہب کی مختلف تشریحات و تعبیرات کو لے کر ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں رہے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگ ضرور پڑھیے: مقصدِ حیات اور لبرل سوچ

اس کا عملی اندازہ مجھے تب ہوا جب ایک مضمون کے جواب میں کچھ نکات پیش کیے۔ اس پر تبصرہ کرنے والے افراد کی تعداد گو نہایت کم ہے، مگر وہ معاشرے کی اس خاموش اکثریت کی بھی آئینہ دار ہوسکتی ہے جس نے تبصرے سے گریز کیا۔

یہ بلاگ بھی ضرور پڑھیے: مقصدِ حیات اور لبرل سوچ؛ جوابی بیانیہ

ایک صاحب نے فرمایا ''کاش آپ نے قرآنِ حکیم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہوتی تو مذہب کے بارے میں یہ خرافات آپ نہ لکھتے۔'' امر واقعہ یہ ہے کہ متذکرہ مضمون میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی جسے خرافات قرار دیا جا سکے؛ اور مذہب کے بارے میں تو بالکل بھی نہیں تھی۔ تاہم یہاں اس تبصرے کے مواد کے بجائے اس کے معیار اور مفروضات کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ اس لیے کہ چند الفاظ کے تغیر سے یہ تبصرہ انتہائی شدت و کثرت سے مستعمل ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: لبرل فاشزم بھی مذہبی انتہاء پسندی کی طرح خطرناک ہے

ہمارے ہاں جب بھی کوئی شخص کسی بھی تحریر کے بارے میں محسوس کرتا ہے کہ وہ اس کے مذہبی نظریات اور مذہب کی فہم و فراست کی تائید نہیں کرتی، تو وہ اسے اپنا اولین فرض سمجھتا ہے کہ لکھنے والے کو مذہب دشمن خیال کرے (حالانکہ حقیقتاً ایسی بلکہ کسی بھی چیز سے کسی نظریہ زندگی کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)۔

دوم یہ کہ جھٹ سے فرض کر لیا جاتا ہے کہ لکھنے والا نہ صرف قرآن و حدیث سے نابلد ہے بلکہ اگر وہ کچھ پڑھ لے تو ایسے خیالات سے (جو پڑھنے والے کی سمجھ کے مطابق اس کے ہیں) فوراً تائب ہوکر اس راستے پر آجائے گا جو پڑھنے والے کے نزدیک درست ترین ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ ایسا تبصرہ کرنے (اور سوچنے مگر نہ لکھنے) والی اکثریت ان معاملات کی گہرائی میں جانا یا تو پسند نہیں کرتی یا پھر بدقسمتی سے اہلیت نہیں رکھتی جن کو وہ اپنے مروجہ نظریات کےلیے خطرہ یا ناقابل قبول تصور کرتی ہے۔

اس عمل اور ایسی صورتحال کی موجودگی کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں بنیادی تعلیم میں اختلاف رائے کا احترام نہ سکھایا جانا ہے۔ ہمیں اسکول کی سطح پر یہ تعلیم دی ہی نہیں جاتی کہ ایسی کسی چیز کے بارے میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرسکیں جو ہماری سوچ اور سمجھ بوجھ کی تائید نہیں کرتی۔ یہی عدم برداشت اور عدم رواداری جب پنپتی ہے تو معاشرے کو شدت پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔ تشدد محض اعمال ہی کا نہیں، نظریات کا بھی نام ہے۔ شدت پسند صرف بندوق اٹھانے والے نہیں ہوتے بلکہ علمی، نفسیاتی، کلامی، تدریسی، معالجاتی شدت پسندی بھی ہمارے ہاں ''شدت سے'' پائی جاتی ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: پاکستان میں مذہبی اور لبرل بیانیوں کی کشمکش

ارسطو نے کہا تھا ''یہ ایک خواندہ دماغ کی نشانی ہے کہ وہ کسی سوچ کو قبول کیے بغیر اس پر بات کرسکے۔'' ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں خواندہ دماغوں کی کمی روز بروز بڑھتی گئی ہے۔

 

مقصدِ حیات اور لبرل سوچ؛ گزارشات


میں نے راؤ صاحب کا جواب پڑھا، خاصی مایوسی ہوئی کہ وہ روایتی مذہبی لعن طعن پر فوراً ہی اتر آئے۔ میں نے تو موہوم سی توقع کی تھی کہ تھوڑی دیر سنجیدگی چلے گی، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بہر طور، میں نے ان کی تحریر پر اپنا رد عمل ذیل میں دیا ہے۔ چونکہ کسی علمی جواب کی توقع موہوم ہوتی جارہی ہے تو یہ شاید اس سلسلے میں میری آخری کاوش ہو۔

جناب راؤ صاحب کا جواب الجواب موصول ہوا۔ آپ نے آغاز اس بات کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا ''صف لبرلاں سے بھی کوئی ایسا مکالمہ سامنے آیا جسے زیر غور لایا جاسکے۔'' جہاں میں اس بات کےلیے مشکور ہوں کہ انہوں نے میری گزارشات کو قابل غور سمجھا، وہیں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ میں نے تو کسی صف یا گروہ وغیرہ کی نمائندگی کا دعوٰی نہیں کیا تھا۔ معلوم نہیں انہوں نے ایسی کسی صف بندی کو کیوں ضروری سمجھا۔ بہر طور، چونکہ انہوں نے نکات کی شکل میں اپنا رد عمل دیا ہے، تو اس مضمون میں نکتہ وار ہی ان کے تبصروں پر اپنی رائے دوں گا۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگ ضرور پڑھ لیجیے: مقصد حیات اور لبرل سوچ (جواب الجواب)

یہ نکتہ ایک علمی اور سنجیدہ بحث کے بجائے ایک غیر سنجیدہ جذباتی بیان زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کے پیش نظر انسانوں کو جانوروں سے بدتر قرار دینے اور اواخر میں اس کے اثرات کا طنزیہ بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا پہلا بیانیہ اور جوابی مضمون، دونوں ہی میں آپ شاید کسی تعصب یا مخاصمت کے زیر اثر ہیں۔ اس نوع کی غیر علمی اور غیر سنجیدہ چیزیں کسی بھی مباحثے کےلیے قابل تعریف یا فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ اگر مقصد قارئین تک ایک مدلل رائے پہنچانا ہو تو ایسی پھبتیوں اور جگتوں سے رائے کی اہمیت اور حیثیت کم ہی ہو سکتی ہے، زیادہ نہیں۔

ایک بار پھر، آپ نے میٹرک کی کتب میں لکھے سائنسی طریقہ کو اپنانے کی کوشش کا دعوٰی کرتے ہوئے ایک فوری نتیجہ پیش فرمایا کہ لبرل ازم ایک لعنت ہے۔ مذکورہ سائنسی طریقہ کار تجرباتی سائنس بشمول حیاتیات، طبیعیات اور کیمیا وغیرہ جیسے سائنسی علوم کےلیے تو انتہائی مؤثر اور رائج العمل ہے تاہم ہمارا موضوع سماجیات و عمرانیات کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ یہاں بحث و مباحثہ دلائل و براہین اور ثبوتوں کا محتاج ہوتا ہے، دعووں اور ''لعنتوں'' کا نہیں۔ گو میں جانتا ہوں کہ ''لعنت'' بھیجنا مذہب میں عین مستعمل اور بسا اوقات احسن سمجھا جانے والا طریقہ کار ہے، مگر جب آپ عمرانی و سماجی موضوعات کو چھیڑیں اور ایک بامقصد گفتگو کا ارادہ کریں تو سمجھ لیجیے کہ یہاں ایسی کسی بھی چیز کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔

یہاں آپ نے اس ناچیز کو براہ راست جاہل قرار دیا، اور ساتھ ہی فرمایا ''لبرل ازم کے وہ غلیظ عملی نتائج جو مغرب بھگت رہا ہے، کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ لبرل ازم ایک لعنت ہے؟'' جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نہ کسی کا نمائندہ ہوں اور نہ مغرب کا، میرا اور آپ کا تعلق پاکستانی معاشرے سے ہے۔ وہی معاشرہ جہاں شاید آپ کا ذکر کردہ لبرل ازم موجود نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ پانچ چھ سالہ بچیاں آئے دن زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں؟ عورتوں کو سر بازار برہنہ کرکے گھمایا جا رہا ہے؟ کسی بھی معاشرے میں بگاڑ اور سماجی تنزلی کے مطالعے کےلیے کئی ایک عوامل کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ اگر بقول آپ کے مغرب کی ''برائیوں'' کا ذمہ دار کوئی ''لبرل ازم'' ہے تو پاکستان میں بگاڑ کا ذمہ دار آپ کسے قرار دیں گے؟ اور جس کو دیں گے کیا اس پر بھی لعنت بھیجی جائے گی اور پھر اس لعنت بھیجنے سے نتائج کیا حاصل ہوں گے؟ مکرر عرض ہے کہ لعنت بھیجنا مذہبی فریضہ تو ہو سکتا ہے مگر مہذب گفتگو میں اس کا استعمال محض وقت اور صفحات کی بربادی ہے۔

آپ نے ایک آیت مبارکہ نقل کرتے ہوئے ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی کہ مذہب دنیا اور آخرت کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ یہ پہلا نکتہ ہے جہاں کچھ سنجیدگی کی بھنک پڑی ہے۔ معلوم نہیں کیوں آپ نے ''وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ'' (ترجمہ: اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے۔ سورۃ الانعام، آیت 32)، ''وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ'' (ترجمہ: اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔ سورۃ الحدید، آیت 20) اور ''أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ'' (ترجمہ: کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو، دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ سورۃ توبہ، آیت 38) جیسی آیات مبارکہ سے چشم پوشی فرمائی ہے۔ آپ نے پیشکش کی ہے ایسی سیکڑوں آیات و احادیث مبارکہ لانے کی، بہت شکریہ۔ خاکسار بھی قرآن و حدیث کا طالب علم ہے اور بخوبی سمجھتا ہے کہ دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے مقابلے کیا حیثیت حاصل ہے، دینِ اسلام کی نظر میں۔ (آپ نے اس نکتے میں میری تفہیم پر اعتراض کیا ہے، اور اس کو یکسر غلط قرار دیا ہے۔ عرض یہ ہے کہ مذہبی اشارات کی ایک ہی واضح تشریح و تفہیم ممکن ہوتی تو ہمارے دین اسلام میں اتنے فرقے موجود نہ ہوتے۔)

آخر میں آپ نے جزوی اتفاق فرماتے ہوئے سائنس کو مذہب کی چھتری تلے رکھ کر اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ جیسا کہ پہلے جواب میں عرض کیا تھا کہ مذہب نے صدیوں انسان پر حکومت کی ہے اور انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اب تک ہماری اس گفتگو میں مذہب سے مراد مذہب اسلام رہی ہے، مگر بطور طالب علم میں بخوبی جانتا ہوں کہ یک خدائی اور کثیر خدائی مذاہب نے کب کب اور کہاں کہاں انسان پر اپنا تسلط رکھا۔ ان ادوار میں سائنس اور فلسفے کی ترقی اور اس پر مذہب کی قدغنوں سے کون واقف نہیں۔ آپ نے جن سات سو برسوں کا ذکر فرمایا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ان کے دوران سائنسدانوں اور فلسفیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بھی روشنی ڈالتے۔

ان نگارشات کا مقصد قارئین تک بنیادی طور پر یہ رائے پہنچانا ہے کہ لبرل ازم ہو یا روایت پسندی، مذہب ہو یا عدم مذہب، خدا پرستی ہو الحاد، سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت، ہر نظریہ زندگی و کاروبارِ زندگی اپنے تمام تر اوصاف و رزائل کے ساتھ انسانی زندگی میں موجود رہا ہے اور ان پر منطقی طریقے سے اختلاف کا وجود بھی مدتوں سے ہے۔ ان نظریات کے تقابلی جائزے اور اس پر بحث و تمحیص کےلیے ایک طویل محنت و مطالعہ درکار ہے۔ مزید برأں کسی بھی صحافتی پلیٹ فارم کا استعمال اگر ایسی کسی بحث کےلیے کیا جائے تو اس میں حد درجہ سنجیدگی کا اظہار لازم ہے۔ یہی سنجیدگی انسان کو اس درجے پر لے جا سکتی ہے جہاں وہ کچھ نظریات کو قبول نہ کرنے کے باوجود ان کے ساتھ جینا سیکھ سکے۔

انسانی معاشرہ نہ تو مذہب کی وجہ سے قائم ہے اور نہ ہی سائنس کے دم سے، یہ اگر قائم ہے تو رواداری سے، برداشت سے، تحمل سے، اور ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے سے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔