علاء الدین خلجی اور رانی پدماوتی تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں

علاء الدین خلجی کے عہد سے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے شیخ محمد اکرام کی کتاب ’’آب کوثر‘‘ کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔


محمد فہد حارث February 11, 2018
علاء الدین خلجی کے عہد سے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے شیخ محمد اکرام کی کتاب ’’آب کوثر‘‘ کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔ فوٹو : فائل

حال ہی میں ہندوستان کے مشہور فلم ڈائریکٹر سنجے لیلابھنسالی نے ہندوستان پر حکومت کرنے والے آٹھویں صدی ہجری کے مسلم حکم راں علاء الدین خلجی کے راجستھان کے قلعہ چتوڑ پر حملے سے متعلق ایک فلم بنائی ہے، جس میں کہانی نویس نے علاء الدین خلجی کو ایک وحشی اور ظالم حکم راں کے طور پر دکھایا ہے جو کہ چتوڑ پر حملہ وہاں کے راجہ رتن سین کی دوسری رانی پدماوتی کی خوب صورتی کا سن کر اس کو پانے کے لیے کرتا ہے۔

پہلی بات تو یہ یاد رہے کہ علاء الدین خلجی کا چتوڑ پر حملہ صرف اور صرف میواڑ کو دہلی سلطنت کا باج گزار بنانے کے لیے تھا۔ اس کے پیچھے کسی رانی کو پانے کا کوئی خواب یا مقصد کسی ہم عصر مورخ نے کبھی بیان نہیں کیا۔ جناب امیر خسرو جو کہ علاء الدین خلجی کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھے جو کہ چتوڑ کا قلعہ فتح کرنے گیا تھا اور جنھوں نے چتوڑ پر حملے کی پوری داستان کو اپنی تصنیف خزائن الفتوح میں بیان کیا ہے، وہ چتوڑ پر حملے کی ایسی کوئی وجہ نہیں لکھتے۔

تاریخ فیروز شاہی کے مولف جناب ضیاء الدین برنی جو کہ چتوڑ کے محاصرے کے وقت جوان تھے، اپنی تاریخ میں علاء الدین خلجی کے چتوڑ پر حملہ کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے کوتوال علاء الملک نے خلجی کو چتوڑ پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، کیوںکہ میواڑ کی ریاست نے علاء الدین خلجی کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پناہ دے رکھی تھی۔

ضیاء الدین برنی رانی پدماوتی یا اس کی وجہ سے چتوڑ پر حملہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اسی طرح سے ایک اور مورخ عبدالملک عصامی، جو کہ بہمنی سلطنت کا درباری شاعر اور مورخ تھا اور چتوڑ کے محاصرے کے آٹھ سال بعد پیدا ہوا تھا، وہ بھی علاء الدین خلجی کے چتوڑ پر حملے کی وجہ باغیوں کے وہاں پناہ گزین ہونے کو قرار دیتا ہے۔

یاد رہے کہ مورخ ضیاء الدین برنی اور عبدالملک عصامی دونوں خلجی خاندان کے حریف خاندانوں کے دل دادہ تھے، گویا ان کی گواہی دشمن کی گواہی قرار دی جاسکتی ہے سو اگر چتوڑ کے محاصرے میں رانی پدماوتی کو پانے کا کوئی مقصد ہوتا تو یہ دونوں مورخین اس بات کو ضرور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ ان کا اس طور کی کسی وجہ کا ذکر نہ کرنا ہی اس بات کو ثابت کردیتا ہے کہ علاء الدین خلجی کے چتوڑ پر حملے کی وجہ کوئی رانی نہیں تھی، بل کہ یہ باغیوں کو پناہ دینے کی سزا اور ملک گیری کی ایک مہم تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رانی پدماوتی کا قصہ اس متعلق کیوں مشہور ہوا؟ رانی پدماوتی کی خیالی کہانی سب سے پہلے مغل بادشاہ بابر کے زمانے کے صوفی شاعر ملک محمد جائسی (متوفی 1542عیسوی) نے چتوڑ قلعے کے محاصرے کے کوئی 237 سال کے بعد اپنی نظم میں تحریر فرمائی۔ گویا ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں کی طرز پر صوفی ملک محمد جائسی نے ایک دیومالائی کہانی تصنیف کی، جس میں بیان کیا کہ علاء الدین خلجی کو رانی پدماوتی کے حسن کی بابت راجا رتن سین کا مہا پنڈت راگھو چیتن بتاتا ہے، جس کو راجا رتن سین اس جرم میں ملک بدر کردیتا ہے کہ وہ رانی پدماوتی اور راجا رتن سین کو خلوت میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

راجا رتن سین سے انتقام لینے کی غرض سے مہاپنڈت، علاء الدین خلجی کو رانی پدماوتی کے حسن کی تفصیلات بتا کر میواڑ پر چڑھائی کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ رانی کے حسن کی تفصیل سے متاثر ہوکر علاء الدین خلجی دہلی سے میواڑ چڑھائی کرنے پہنچ جاتا ہے۔ لیکن راجا رتن سین کی موت اور قلعہ فتح کرنے کے باوجود وہ رانی پدماوتی کو حاصل نہیں کرپاتا، کیوںکہ قلعہ فتح ہونے سے قبل ہی راجا رتن سین کی موت کا سن کر رانی پدماوتی اپنے محل کی سیکڑوں داسیوں کو لے کر آگ میں کود جاتی ہے، تاکہ علاء الدین خلجی اور اس کے سپاہیوں کے ''ناپاک'' وجود سے خود کو بچا سکے۔ آگ میں کودنے کی اس رسم کو ''جوہر'' کہا جاتا ہے اور اس رسم کو ادا کرنے کی وجہ سے رانی پدماوتی کو ہندوؤں کی لوک کہانیوں میں دیوی مانا جاتا ہے۔

صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے بغیر کسی سند اور پچھلے مورخ کا ذکر کیے اس کہانی کو نظم میں پیش کیا اور وہاں سے ہندو مورخین نے اس کہانی کو اخذ کرکے اس میں مزید مرچ مسالا لگا کر مسلمان بادشاہ علاء الدین خلجی کو خوب بدنام کیا جب کہ پدماوتی کی اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں اور نہ ہی علاء الدین خلجی نے چتوڑ پر حملہ کسی رانی کے لیے کیا تھا۔

اور جہاں تک بات رہی کہ علاء الدین خلجی ایک وحشی اور ظالم حکم راں تھا، جس کی رعیت اس کے ظلم و جبر کا شکار تھی تو یہ بات بھی سرتاپا غلط ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ خلجی خاندان کا پہلا بادشاہ اور علاء الدین خلجی کا سگا چچا جلال الدین خلجی بہت نرم دل تھا، یہاں تک کہ وہ باغیوں کو بھی پکڑے جانے پر معاف کردیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے امور ملکی میں خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔

یہی وجہ ہوئی کہ جب جلال الدین خلجی کی نرم دلی کی شہرت عام ہوئی تو ملک بھر میں چوروں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں نے سر اٹھا کر فتنہ فساد پھیلانا شروع کردیا اور جب وہ گرفتار ہوکر بادشاہ کے پاس لائے جاتے تو بادشاہ ان کو پیروں اور مشائخ کی طرح بغیر سزا دیے وعظ و نصیحت کرکے چھوڑدیتا اور وہ لوگ واپس جاکر پھر سے لوٹ مار کا بازار گرم کرتے۔ اس ڈھیل کی وجہ سے بادشاہ کے خلاف جگہ جگہ سازشیں شروع ہوگئیں اور خلجی امراء یہ کہنے لگے کہ اب بادشاہ سٹھیا گیا ہے اور حکومت کے لیے ناموزوں ہوگیا ہے۔ بہتر ہے کہ اسے معزول کیا جائے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا موزوں شخص تخت نشین ہو۔

یہ وہ حالات تھے جنھوں نے جلال الدین خلجی کے بھتیجے اور داماد علاء الدین خلجی کو اپنے چچا کے قتل پر ابھار کر زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ کیا۔ علاء الدین خلجی کا حال اپنے چچا جلال الدین جیسا نہ ہو، اسی لیے علاء الدین خلجی نے حکومت میں آتے ہی چوروں، ڈاکوؤں اور باغیوں کے خلاف سخت تادیبی کاروائیاں کیں۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ حکومتی معاملات میں نرم دلی دکھانے کا کیا نقصان ہوتا ہے، سو پہلے دن سے ہی علاء الدین خلجی ہر مجرم کے لیے قہر ثابت ہوا۔ لیکن اس قہر کا صدور اس وقت ہوتا جب کوئی کسی جرم کا ارتکاب کرتا یا ملک میں فساد ڈالنے کی کوشش کرتا۔ وگرنہ علاء الدین خلجی میں اعلیٰ حکم رانوں کی کئی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔

ہندوستان کا جس قدر علاقہ اس کے زیرنگیں تھا، برطانوی حکومت سے پہلے کسی کو نصیب نہ ہوا۔ علاء الدین خلجی کے دور میں منگولوں کا خوف پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا لیکن یہ علاء الدین خلجی کا زور بازو اور حسن تدبیر تھا کہ اس نے ہندوستان کو منگولوں کے حملوں سے بچا کر رکھا۔ چتوڑ کے قلعے کی فتح کے بعد جب علاء الدین خلجی واپس دہلی آیا تو سوا لاکھ منگولوں کے ساتھ مغل سردار ترغی عین دہلی کے سامنے آن پہنچا تھا، جس کو علاء الدین خلجی نے اپنے زور بازو اور حسن تدبیر سے ایک انچ زمین فتح کیے بغیر واپس جانے پر مجبور کردیا۔

اس کے بعد تاتاریوں کے مزید کسی حملے سے بچنے کے لیے علاء الدین خلجی نے شمال مغربی سرحد پر مضبوط قلعے بنوائے اور ان کا انتظام غازی ملک کے سپرد کیا جو کہ بعد میں سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے تخت نشین ہوا۔ غازی ملک نے منگولوں اور تاتاریوں کو پے در پے شکست دی اور ان کا ہندوستان فتح کرنے کا خواب چکنا چور کردیا۔ گویا اگر علاء الدین خلجی ہمت دکھا کر حسن تدبیر سے کام نہ لیتا تو منگول ہندوستان کا بھی وہی حال کرتے جو انہوں نے بغداد کا کیا تھا۔

جہاں تک علاء الدین خلجی کی اپنی رعایا کے ساتھ سلوک کی بات ہے تو اس بابت ہم عصر مورخ ضیا ء الدین برنی اپنی کتاب ''تاریخ فیروز شاہی'' میں خلجی کے خلاف تمام تر تعصب کے باوجود عہد علائی کی جو خصوصیات بیان کرتے ہیں وہ بالاختصار یہ ہیں:

۱۔ منگول حملہ آوروں کا قلع وقمع

۲۔ چھوٹے تاجروں پر سے ٹیکس کی معافی

۳۔ علاء الدین خلجی کی غیر معمولی اور مسلسل فتوحات

۴۔ غریبوں پر شفقت اور باغیوں اور متکبروں پر قہر

۵۔ مہنگائی میں از حد کمی اور غلے اور سامان معیشت کی فراوانی جس پر بارش کی کمی بیشی کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔

۶۔ ملک اور راستوں کا امن و سکون

۷۔ بے شمار نئی عمارتوں جیسے مساجد، سرائے اور قلعوں کی تعمیر۔

۸۔ تاجروں اور دکانداروں کی ترقی اور قواعد شاہی کی پابندی

۹۔ ملک میں علماء اور مختلف ماہر فن کا جمع ہونا

۰۱۔ عام رعایا کی روحانی اور علمی ترقی

(ماخوذ از تاریخ فیروز شاہی صفحہ نمبر 329 تا341)

اسی طرح مشہور سیاح اور مورخ ابن بطوطہ جو کہ خلجی کی وفات کے چند سال بعد ہی ہندوستان میں وارد ہوا تھا، اپنے سفرنامہ ''رحال'' میں علاء الدین خلجی کی بابت لکھتا ہے :

علاء الدین خلجی نے بیس برس حکومت کی، و ہ بہت اچھے بادشاہوں میں شمار ہوتا تھا۔ اہل ہند اب تک اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ وہ خود امورسلطنت انجام دیتا تھا اور ہر روز نرخ وغیرہ کی بابت دریافت کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک روز اس نے محتسب سے دریافت کیا کہ گوشت کے گراں ہونے کا کیا سبب ہے؟ اس نے کہا کہ گائے اور بکری پر محصول یعنی ٹیکس لیا جاتا ہے۔ بادشاہ نے اسی روز سے گائے بکری پر محصول ختم کردیا۔ ایک دفعہ غلہ بہت منہگا ہوگیا تو اس نے سرکاری گودام کھلوادیے اور نرخ کم ہوگئے۔

رہی بات ملک کافور اور علاء الدین خلجی کے مابین غیرفطری تعلقات کی، جسے سنجے لیلا بھنسالی صاحب نے بھی دکھانے کی نارروا سعی کی ہے تو یاد رہے کہ یہ سب خرافات متعصب ہندو مورخوں کا گھڑا ہوا جھوٹ ہیں۔ کسی ہم عصر مورخ نے ملک کافور اور خلجی کے مابین اس طور کے غیرفطری تعلقات کی بات نہیں کی۔ تین /چار سو سال کے بعد آنے والے مورخین کا اس طرح کا جھوٹ گھڑ کر کسی حکم راں کی طرف منسوب کردینا خود اس بات کے وضعی ہونے کو کافی ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ علاء الدین خلجی ملک کافور پر از حد اعتماد کرتا تھا جس کی وجہ سے خلجی سے چند انتظامی بداعمالیاں بھی سر زد ہوئیں جو کہ یقیناً لائق مذمت بات ہے، لیکن اس سے خلجی کے دور کی اچھی باتیں منحوس نہیں ہو جاتیں۔ سو ملک کافور اور خلجی کے مابین کسی غیرفطری تعلق سے متعلق بعد کے کسی مورخ کا کچھ لکھنا، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، صرف ایک گپ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

المختصر علاء الدین خلجی نہ تو کوئی ولی اللہ تھا اور نہ ہی کوئی ظالم و جابر بادشاہ۔ وہ ایک عام مسلم حکم راں تھا، جس کے دور میں رعایا خیروخوبی اور ترقی کے ساتھ خوش حال زندگی جی رہی تھی اور جس کے دور میں ہندوستان نے نہ صرف ترقی کی بلکہ منگولوں کے فتنے سے بھی محفوظ رہا جس کے لیے ہندوستان رہتی دنیا تک علاء الدین خلجی کا احسان مند رہے گا۔ خلجی کے دور کا خیر اس کے دور کے شر سے زیادہ تھا اور یہ بات اس کی ذات پر بھی صادق آتی ہے۔ البتہ اس کی طرف جو جھوٹی تاریخ کی نسبت کی جاتی ہے اس کا ابطال ضروری ہے۔

علاء الدین خلجی کے عہد سے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے شیخ محمد اکرام کی کتاب ''آب کوثر'' کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں