ادب میں وفاداری
مراد یہ کہ دوسرے بہت سے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی ہمارے ادب میں بالکل نیا تو نہیں ہے۔
ادب میں وفاداری سے کیا مراد ہے؟
اس سوال کو یوں بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ادیب جب اپنی وابستگی کا اظہار کرتا ہے تو کس سے اور کس بنیاد پر؟ آیا کسی فکر یا نظریے کی بنیاد پر وہ اپنا یہ رشتہ استوار کرتا ہے کہ لسانی یا علاقائی بنیاد پر یا پھر وہ تہذیبی یا مذہبی بنیاد پر ایسا کرتا ہے یا ان سب سے الگ اور کوئی حوالہ اس کے پیشِ نظر ہوسکتا ہے؟ سوال کسی بھی طرح قائم کیا جائے، لیکن اس ذیل میں تفتیش اس بنیاد کی ہوگی جو ادیب کے یہاں وابستگی کا جواز بنتی ہے اور جس کے لیے وہ اپنے ہنر کو آزماتا ہے۔
کب سے ہمارے یہاں یہ مصرع گونج رہا ہے:
وفاداری بشرطِ استواری
اسی طرح گوئٹے نے کارلائل کے نام خطوط میں ایک جگہ لکھا ہے:
A genius is nothing but loyalty.
گویا مشرق ہو یا مغرب، دونوں ہی جگہ یہ مسئلہ عرصے سے توجہ طلب چلا آتا ہے۔ اپنے عصری، معاشرتی اور تہذیبی تناظر میں آج پھر یہ سوال ہمیں ایک نئی تفتیش کی دعوت دیتا ہے۔
مراد یہ کہ دوسرے بہت سے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی ہمارے ادب میں بالکل نیا تو نہیں ہے۔ تاہم کسی پرانے سوال کو ایک نئے تناظر میں دوبارہ دیکھنا کوئی ایسی نامناسب بات بھی نہیں۔ اس لیے کہ ہر عہد اپنے تناظر میں اپنی تہذیب اور اس کے ادب و فکر کے لیے کچھ نئے سوال قائم کرتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ماقبل ادوار میں قائم کیے گئے بعض بڑے سوالوں کو بارِ دگر اٹھا کر بھی دیکھ سکتا ہے، بلکہ دیکھتا ہے اور اپنے حوالے سے ان کے جوابات کی جستجو کرتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جب کوئی نیا عہد اپنے گزشتہ ادوار کے کسی مسئلے کو پلٹ کر دیکھتا ہے تو وہ دراصل اپنے ماضی کا اثبات کرتا ہے۔ اُس سے اپنے رشتے کا اقرار کرتے ہوئے نئے زمانے کے مطالبات کے لیے اپنی تہذیب کو کمک فراہم کرتا ہے۔ یوں قومی اور تہذیبی بقا کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
ابتدا میں جب قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کے برسوں میں ادیب کی وفاداری کا یہ سوال ہمارے یہاں پوچھا گیا تھا، اُس وقت اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ ایک نئی اور نظریاتی مملکت کے قیام کے فوری بعد، دائیں اور بائیں کی باہم آویز قوتوں کی کشاکش کے مابین دنیا میں جب تہذیبیں ایک نقطۂ توازن کی تلاش میں تھیں، اُس وقت اس سوال کا معنیٰ وہ نہیں تھا، جو آج ہے۔
اس لیے کہ حالات، واقعات اور معاملات بہت بدل چکے ہیں۔ آج ہم یک قطبی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں طاقت کے توازن کا تصور مفقود ہے، اس لیے کہ اقتصادی، سیاسی اور حربی اعتبار سے ایک غالب قوت یا مقتدرہ اپنی منشا اور اپنے متعینہ مفادات کے ہر ممکن تحفظ کی خواہش کے تحت اس دنیا کی ازسرِ نو اپنے انداز سے نظام سازی کر رہی ہے، بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ نظام بڑی حد تک اب دنیا کے مختلف خطوں میں رُو بہ عمل ہے اور اس کے زیرِ اثر اس دنیا کی صورت بھی خاصی حد تک بدل چکی ہے اور خاصی تیزی سے مزید بدلتی چلی جارہی ہے۔ یہ تبدیلی کہیں سیاسی نوعیت کی ہے تو کہیں جغرافیائی اور کہیں اقتصادی نوعیت کی۔ کہیں اس کی بنیاد مذہب پر ہے، کہیں ثقافتی عناصر پر اور کہیں سائنس اور ٹیکنولوجی پر۔ جہاں پر جو فیکٹر مفید اور مؤثر ہوسکتا ہے، وہاں اسی کو کام میں لایا جارہا ہے۔
چناںچہ تبدیلی کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس کیا جارہا ہے کہ آج کی دنیا نصف صدی قبل کی دنیا سے بڑی حد تک مختلف ہے، یعنی اتنی کہ اس میں زندگی کے اسلوب اور انسانی تجربہ و احساس کے سانچے میں بھی نمایاں قسم کی تبدیلی آچکی ہے۔
ذرا ایک عمومی بنیاد کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس تبدیلی کا سرنامہ ٹیکنالوجی میں برپا ہونے والا انقلاب ہے، جس نے ایک طرف رسل و رسائل اور نقل و حمل کی دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف اس کے زیرِاثر روزمرہ انسانی صورتِ حال میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا غیرمعمولی اثر انسانی سائیکی میں آنے والے تغیر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اس بات کو ذرا کھول کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دیکھیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اب ہم ایک گلوبل ولیج میں سانس لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں نہ صرف حقیقتوں کی نوعیت بدل گئی ہے، بلکہ ان کے انکشافات کا تناسب اور رفتار بھی بدل گئی ہے۔
اس گلوبل ولیج میں ذہنِ انسانی کے جو بنیادی فطری عصبی رویے ہیں، وہ ابھی نہیں بدلے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حالات میں وہ پہلے کی نسبت کچھ زیادہ نمایاں ہوئے ہیں اور ان میں ایک طرح کی حساسیت بھی در آئی ہے۔ البتہ اجتماعیت کا معاملہ اس جدید دنیا میں خاصا مختلف نظر آتا ہے۔ آج دیکھا جاسکتا ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے وہ امتیازی نقوش جو ان کے نظامِ اقدار اور طرزِحیات میں ظاہر ہوتے تھے، وہ ماند پڑتے جاتے ہیں- اور یہ کام قدرے تیزی سے ہو رہا ہے۔ غالب نے جب کہا تھا:
ہم مؤحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہوگئیں
تو اُس کے پیشِ نظر مسئلہ ترکِ رسوم کا تھا، جب کہ عہدِ جدید کا تہذیبوں سے مطالبہ اپنے اپنے اصلِ اصول سے دست برداری کا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے آج کی سپرپاور جو متبادل نظام پیش کررہی ہے، اس کے پس منظر میں کارفرما اصل مقصد کو تہ در تہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے، مختصر لفظوں میں بس یہ سمجھ لیجیے کہ دراصل عہدِجدید کی یہ واحد سپرپاور پورے عالمِ انسانی کو ایک ایسا ریوڑ بنانا چاہتی ہے جسے ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاسکے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورے انسانی سماج کو ایک روبوٹ قسم کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنا عہدِجدید کا بنیادی ایجنڈا اور اس کے کار پردازوں کا اصل منشا ہے۔
اس کے لیے جو کاوش اور اہتمام کیا گیا ہے، اس کے خاطرخواہ نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے، اس کو جاننے کے لیے ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ سعدی، حافظ، رومی اور قاآنی کی قوم یا بابا فرید، بابا بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی قوم یا اسی طرح میر، غالب، انیس اور اقبال کی قوم ذرا ایک نظر خود پر ڈال پائے تو بہ آسانی اندازہ کرسکتی ہے کہ کہ وہ آج کولا، فاسٹ فوڈ، موبائل اور انٹرنیٹ والی قوم کے سانچے میں کسی حد تک سماچکی ہے اور پوری طرح فٹ بیٹھنے میں جو تھوڑی بہت کسر باقی ہے، اس کے لیے اُسے مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔
تمہید نے طول کھینچا، لیکن اس صراحت کے بغیر ہم اپنے سوال کی نوعیت اور معنویت کو اپنے عہد کے سیاق میں درست طور پر سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ تو آیئے اب اس عہد کے ان بنیادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس سوال کو ایک بار پھر قائم کرتے ہیں- اب سوال یہ کہ عہدِ جدید کے اس گلوبل ولیج میں کہ جہاں تہذیبیں اپنا اقداری نظام کھو رہی ہیں اور اُن کے امتیازی نشانات زائل ہو رہے ہیں، ذہنی سرگرمیوں کا مزاج اور جذبہ و احساس کا رنگ بدل رہا ہے، ادیب کی وابستگی کس سے ہوگی یا ادب میں وفاداری سے کیا مراد لی جائے گی؟
ہر طرح کی نظریاتی اور فکری آویزش سے قطعِ نظر، ہمیں اس سچائی کو تسلیم کرنے میں تردّد نہیں ہونا چاہیے کہ ادب اور ادیب کا اصل اور بنیادی سروکار انسانیت سے ہوتا ہے، لہٰذا اس کی وفاداری بھی بلاامتیازِ رنگ و نسل اور بلاتفریقِ ملک و ملت، انسان سے اور انسانیت سے ہونا چاہیے۔ انسانیت کے آدرش ادب کے آدرش ہونے چاہییں۔ بادی النظر میں یہ جواب درست اور جامع ہے، لیکن دشواری یہ ہے کہ آج کے مخصوص انسانی حالات کے پیشِ نظر یہ مسئلہ خاصا پیچیدہ ہوچکا ہے، لہٰذا آج یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ جواب اپنے اندر جو عینیت لیے ہوئے ہے، کیا وہ اس عہد کی زندگی کے ٹھوس اور اٹل حقائق کے تقابل میں کوئی معنویت اور کوئی جواز رکھتی ہے؟
جی نہیں-!
ادیب کے خواب، اس کی تمنائیں، آرزوئیں اور اس کے آدرش خواہ کتنے ہی بلند، مثالی اور عینیت پسندانہ کیوں نہ ہوں لیکن اس کا تمام تر سروکار اپنے عہد کی حقیقتوں کی روشنی میں زندگی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے خواب اگر زندگی سے ربط اُستوار نہیں کرتے اور متصل نہیں ہوتے، تو وہ صرف اور صرف خواب ہیں، محض فینٹیسی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ خواب اور فینٹیسی بھی ادب کے Paraphernalia میں بے کار نہیں ہوتے، یہ بھی کام آنے والی اشیا میں شامل سمجھے جاتے ہیں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ادب کے اجزا کی حیثیت رکھتے ہیں، کل ادب بہرحال نہیں ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی ادب حقیقت سے ماورا نہیں ہوسکتا اور کوئی حقیقت اپنے عصری، سماجی اور تہذیبی تناظر سے لاتعلق نہیں ہوسکتی۔ حقیقت انفرادی ہو یا اجتماعی اس کی معنویت کا تعین زمانی و مکانی حوالوں کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ چناںچہ ادیب اپنے زمانے سے لاتعلق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی زمین سے۔ اس کا فن ان دو حوالوں کے بغیر تعینِ قدر کے دائرے میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ وہ جس انسانی تجربے کی جمالیاتی تشکیل کرتا ہے، وہ زمان و مکاں سے مشروط ہے۔ ان حوالوں کے بغیر قدر و قیمت تو رہی ایک طرف، اس واقعے کی محض واقعیت تک کا اثبات بھی نہیں ہوسکتا۔
اگر آج یہ سوال کہ ادب کسی نظریے کے تحت تخلیق ہوسکتا ہے یا نظریے کے بغیر، اتنا اہم نہیں رہا-تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ایسی بحث طلب نہیں رہی کہ ادیب کا مشرب انسانیت بہ حیثیتِ قدر ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ جس طرح یہ طے ہوچکا ہے کہ وہ شے جو کسی ادبی نگارش کو بڑا بناتی ہے، وہ ادیب کا صرف کوئی نظریہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ کچھ اور عناصر ہوتے ہیں جو کسی نظریے کے ہونے یا نہ ہونے سے اوّل تو مشروط نہیں ہوتے اور اگر اُن کا کوئی تعلق کسی خارجی نظریے سے ہو بھی تو یہ ثانوی درجے کا معاملہ ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ ادیب کا پہلا سروکار اس انسانی، سماجی اور تہذیبی دائرے سے ہوتا ہے جس میں وہ جی رہا ہے، جو اس کے مشاہدات، تجربات، تعقّلات یہاں تک کہ تعصبات تک کی بنیاد میں عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس مرحلے پر اس امر کے اظہار میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے سماج اور اس کے اقداری نظام سے ضروری نہیں کہ ادیب کا رشتہ ہمیشہ اور مکمل طور پر قبولیت ہی کا ہو، یہ ایک حد تک اختلاف یا مکمل طور پر رد کا بھی ہوسکتا ہے۔ ادیب یوں بھی اپنی فطرت میں non-conformist ہوتا ہے۔ اپنے عہد اور اپنے سماج سے عدم اطمینان کا اظہار وہ آزادی سے کرسکتا ہے، بلکہ اگر وہ عدم اطمینانی محسوس کرتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اختلاف اور ردِ عمل کا اظہار کرے۔ اسی سے اُس کے فن کو آب ملتی ہے اور بیان کو تاثیر۔ تاہم معاملہ قبول کا ہو یا رد کا، ادیب کا رشتہ بہرحال اپنے عہد اور اپنے سماج سے سب سے پہلے ہوتا ہے۔ باقی جو کچھ ہے، وہ بعد میں ہے، اضافی یا ثانوی ہے۔
ادیب کی اپنے سماج سے وابستگی کی ضرورت اور اہمیت محض آج کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ یوں دیکھا جائے تو گوئٹے اور ٹامس مان کو جرمن سماج سے، جب کہ چوسر اور شیکسپیئر اور وکٹورین عہد کے سارے ناول نگاروں کو برطانوی سماج سے اپنی وابستگی عزیز تھی، ییٹس نے تو جنگ کے زمانے میں نغمے تک لکھے تھے اور ٹی ایس ایلیٹ تو اپنی سماجی وابستگی پر باقاعدہ اصرار کرتا ہے۔ اسی طرح روس کے عہدِزرّیں کے جس افسانہ یا ناول نگار کو اٹھا کر دیکھیے ٹالسٹائے، دوستوفسکی، گورکی، چیخوف، شولوخوف سب کے سب اپنے سماج سے وابستگی کو اعزاز جانتے تھے، یہ الگ بات کہ ان میں سے بعض فن کار بعض مواقع پر کچھ مسائل کی وجہ سے کھلے لفظوں میں مقننہ اور کلیسا سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے رہے۔
اسی طرح فرانس میں فلوبیئر، بالزاک، بودلیئر، والیری اور راںبو کو دیکھ لیجیے، وہ چاہے اپنے سماجی ڈھانچے کی کم زوری اور خامی سے کتنے ہی نالاں اور شاکی ہوں، اس کے اجتماعی رویوں اور انفرادی رجحانات کو کتنی ہی قوت سے مسترد کرتے ہوں، لیکن اپنی وابستگی کا اظہار بہرحال غیرمشروط طور پر اپنے سماج سے کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یورپ کے مختلف معاشروں اور مختلف ادوار میں ہمیں اپنے عہد اور اس کی انسانی اور مخصوص سماجی صورتِ حال سے ادیبوں کی وابستگی اور وفاداری کا اظہار کھلے بندوں نظر آتا ہے۔ سو، یہ قطعاً کوئی اچنبھے کی بات نہیں اگر آج ہم اپنے ادیب سے اُس کی اپنے عہد اور اپنے سماج سے وابستگی کا سوال کرتے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اُس کی پہلی وفاداری کا یقین چاہے کیسے بھی انسانی معیارات پر ہو، لیکن اس کا بنیادی حوالہ اُس کا سماج اور اس کے عہد کی انسانی حقیقت اور صورتِ حال ہوگی۔
دیکھا جائے تو عہدِجدید کے ادیب کے ساتھ تو مسئلہ اور گمبھیر ہے۔ اس کی انسان دوستی یا انسانیت پسندی اپنی جگہ، مگر اس عہد میں جس طرح تہذیبوں کو فنا کا اور شناخت کے گم ہوجانے کا خوف، بلکہ حقیقی خطرہ لاحق ہے، اس وقت تو ادیب کی بالخصوص یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے اور اس کے تہذیبی نقوش کی بقا کے اہتمام میں بالارادہ اور بالالتزام شامل ہو۔
انسانیت اور اس کے آدرشوں سے اس کی وفاداری بے شک اہمیت رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے بھی پہلے تو اصل میں اُسے اپنے عہد اور سماج کے انسانی رویوں اور تہذیبی رُجحانات کی فکر کرنی ہے، جس معاشرے نے اُسے انسانیت کا شعور دیا اور اقدارِ حیات سے آگاہ کیا ہے اور جو اس کے فن کے لیے raw material فراہم کرتا ہے، اس کی بقا اور پاس داری کا احساس اُسے سب سے پہلے کرنا ہے۔ چناںچہ آج پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی اپنے عہد کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے اپنے تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے امتیازی نشانات کی بقا اور تحفظ کا نہ صرف ادراک کرنا ہے بلکہ اپنے فن کے ذریعے اس شعور کو اُجاگر بھی کرنا ہے۔ اپنے فن سے، ادب سے، تہذیب سے اور انسانیت سے ان کی وفاداری کا یہی اہم ترین اور اوّلین مطالبہ ہے۔
اس سوال کو یوں بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ادیب جب اپنی وابستگی کا اظہار کرتا ہے تو کس سے اور کس بنیاد پر؟ آیا کسی فکر یا نظریے کی بنیاد پر وہ اپنا یہ رشتہ استوار کرتا ہے کہ لسانی یا علاقائی بنیاد پر یا پھر وہ تہذیبی یا مذہبی بنیاد پر ایسا کرتا ہے یا ان سب سے الگ اور کوئی حوالہ اس کے پیشِ نظر ہوسکتا ہے؟ سوال کسی بھی طرح قائم کیا جائے، لیکن اس ذیل میں تفتیش اس بنیاد کی ہوگی جو ادیب کے یہاں وابستگی کا جواز بنتی ہے اور جس کے لیے وہ اپنے ہنر کو آزماتا ہے۔
کب سے ہمارے یہاں یہ مصرع گونج رہا ہے:
وفاداری بشرطِ استواری
اسی طرح گوئٹے نے کارلائل کے نام خطوط میں ایک جگہ لکھا ہے:
A genius is nothing but loyalty.
گویا مشرق ہو یا مغرب، دونوں ہی جگہ یہ مسئلہ عرصے سے توجہ طلب چلا آتا ہے۔ اپنے عصری، معاشرتی اور تہذیبی تناظر میں آج پھر یہ سوال ہمیں ایک نئی تفتیش کی دعوت دیتا ہے۔
مراد یہ کہ دوسرے بہت سے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی ہمارے ادب میں بالکل نیا تو نہیں ہے۔ تاہم کسی پرانے سوال کو ایک نئے تناظر میں دوبارہ دیکھنا کوئی ایسی نامناسب بات بھی نہیں۔ اس لیے کہ ہر عہد اپنے تناظر میں اپنی تہذیب اور اس کے ادب و فکر کے لیے کچھ نئے سوال قائم کرتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ماقبل ادوار میں قائم کیے گئے بعض بڑے سوالوں کو بارِ دگر اٹھا کر بھی دیکھ سکتا ہے، بلکہ دیکھتا ہے اور اپنے حوالے سے ان کے جوابات کی جستجو کرتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جب کوئی نیا عہد اپنے گزشتہ ادوار کے کسی مسئلے کو پلٹ کر دیکھتا ہے تو وہ دراصل اپنے ماضی کا اثبات کرتا ہے۔ اُس سے اپنے رشتے کا اقرار کرتے ہوئے نئے زمانے کے مطالبات کے لیے اپنی تہذیب کو کمک فراہم کرتا ہے۔ یوں قومی اور تہذیبی بقا کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
ابتدا میں جب قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کے برسوں میں ادیب کی وفاداری کا یہ سوال ہمارے یہاں پوچھا گیا تھا، اُس وقت اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ ایک نئی اور نظریاتی مملکت کے قیام کے فوری بعد، دائیں اور بائیں کی باہم آویز قوتوں کی کشاکش کے مابین دنیا میں جب تہذیبیں ایک نقطۂ توازن کی تلاش میں تھیں، اُس وقت اس سوال کا معنیٰ وہ نہیں تھا، جو آج ہے۔
اس لیے کہ حالات، واقعات اور معاملات بہت بدل چکے ہیں۔ آج ہم یک قطبی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں طاقت کے توازن کا تصور مفقود ہے، اس لیے کہ اقتصادی، سیاسی اور حربی اعتبار سے ایک غالب قوت یا مقتدرہ اپنی منشا اور اپنے متعینہ مفادات کے ہر ممکن تحفظ کی خواہش کے تحت اس دنیا کی ازسرِ نو اپنے انداز سے نظام سازی کر رہی ہے، بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ نظام بڑی حد تک اب دنیا کے مختلف خطوں میں رُو بہ عمل ہے اور اس کے زیرِ اثر اس دنیا کی صورت بھی خاصی حد تک بدل چکی ہے اور خاصی تیزی سے مزید بدلتی چلی جارہی ہے۔ یہ تبدیلی کہیں سیاسی نوعیت کی ہے تو کہیں جغرافیائی اور کہیں اقتصادی نوعیت کی۔ کہیں اس کی بنیاد مذہب پر ہے، کہیں ثقافتی عناصر پر اور کہیں سائنس اور ٹیکنولوجی پر۔ جہاں پر جو فیکٹر مفید اور مؤثر ہوسکتا ہے، وہاں اسی کو کام میں لایا جارہا ہے۔
چناںچہ تبدیلی کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس کیا جارہا ہے کہ آج کی دنیا نصف صدی قبل کی دنیا سے بڑی حد تک مختلف ہے، یعنی اتنی کہ اس میں زندگی کے اسلوب اور انسانی تجربہ و احساس کے سانچے میں بھی نمایاں قسم کی تبدیلی آچکی ہے۔
ذرا ایک عمومی بنیاد کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس تبدیلی کا سرنامہ ٹیکنالوجی میں برپا ہونے والا انقلاب ہے، جس نے ایک طرف رسل و رسائل اور نقل و حمل کی دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف اس کے زیرِاثر روزمرہ انسانی صورتِ حال میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا غیرمعمولی اثر انسانی سائیکی میں آنے والے تغیر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اس بات کو ذرا کھول کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دیکھیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اب ہم ایک گلوبل ولیج میں سانس لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں نہ صرف حقیقتوں کی نوعیت بدل گئی ہے، بلکہ ان کے انکشافات کا تناسب اور رفتار بھی بدل گئی ہے۔
اس گلوبل ولیج میں ذہنِ انسانی کے جو بنیادی فطری عصبی رویے ہیں، وہ ابھی نہیں بدلے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حالات میں وہ پہلے کی نسبت کچھ زیادہ نمایاں ہوئے ہیں اور ان میں ایک طرح کی حساسیت بھی در آئی ہے۔ البتہ اجتماعیت کا معاملہ اس جدید دنیا میں خاصا مختلف نظر آتا ہے۔ آج دیکھا جاسکتا ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے وہ امتیازی نقوش جو ان کے نظامِ اقدار اور طرزِحیات میں ظاہر ہوتے تھے، وہ ماند پڑتے جاتے ہیں- اور یہ کام قدرے تیزی سے ہو رہا ہے۔ غالب نے جب کہا تھا:
ہم مؤحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہوگئیں
تو اُس کے پیشِ نظر مسئلہ ترکِ رسوم کا تھا، جب کہ عہدِ جدید کا تہذیبوں سے مطالبہ اپنے اپنے اصلِ اصول سے دست برداری کا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے آج کی سپرپاور جو متبادل نظام پیش کررہی ہے، اس کے پس منظر میں کارفرما اصل مقصد کو تہ در تہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے، مختصر لفظوں میں بس یہ سمجھ لیجیے کہ دراصل عہدِجدید کی یہ واحد سپرپاور پورے عالمِ انسانی کو ایک ایسا ریوڑ بنانا چاہتی ہے جسے ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاسکے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورے انسانی سماج کو ایک روبوٹ قسم کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنا عہدِجدید کا بنیادی ایجنڈا اور اس کے کار پردازوں کا اصل منشا ہے۔
اس کے لیے جو کاوش اور اہتمام کیا گیا ہے، اس کے خاطرخواہ نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے، اس کو جاننے کے لیے ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ سعدی، حافظ، رومی اور قاآنی کی قوم یا بابا فرید، بابا بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی قوم یا اسی طرح میر، غالب، انیس اور اقبال کی قوم ذرا ایک نظر خود پر ڈال پائے تو بہ آسانی اندازہ کرسکتی ہے کہ کہ وہ آج کولا، فاسٹ فوڈ، موبائل اور انٹرنیٹ والی قوم کے سانچے میں کسی حد تک سماچکی ہے اور پوری طرح فٹ بیٹھنے میں جو تھوڑی بہت کسر باقی ہے، اس کے لیے اُسے مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔
تمہید نے طول کھینچا، لیکن اس صراحت کے بغیر ہم اپنے سوال کی نوعیت اور معنویت کو اپنے عہد کے سیاق میں درست طور پر سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ تو آیئے اب اس عہد کے ان بنیادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس سوال کو ایک بار پھر قائم کرتے ہیں- اب سوال یہ کہ عہدِ جدید کے اس گلوبل ولیج میں کہ جہاں تہذیبیں اپنا اقداری نظام کھو رہی ہیں اور اُن کے امتیازی نشانات زائل ہو رہے ہیں، ذہنی سرگرمیوں کا مزاج اور جذبہ و احساس کا رنگ بدل رہا ہے، ادیب کی وابستگی کس سے ہوگی یا ادب میں وفاداری سے کیا مراد لی جائے گی؟
ہر طرح کی نظریاتی اور فکری آویزش سے قطعِ نظر، ہمیں اس سچائی کو تسلیم کرنے میں تردّد نہیں ہونا چاہیے کہ ادب اور ادیب کا اصل اور بنیادی سروکار انسانیت سے ہوتا ہے، لہٰذا اس کی وفاداری بھی بلاامتیازِ رنگ و نسل اور بلاتفریقِ ملک و ملت، انسان سے اور انسانیت سے ہونا چاہیے۔ انسانیت کے آدرش ادب کے آدرش ہونے چاہییں۔ بادی النظر میں یہ جواب درست اور جامع ہے، لیکن دشواری یہ ہے کہ آج کے مخصوص انسانی حالات کے پیشِ نظر یہ مسئلہ خاصا پیچیدہ ہوچکا ہے، لہٰذا آج یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ جواب اپنے اندر جو عینیت لیے ہوئے ہے، کیا وہ اس عہد کی زندگی کے ٹھوس اور اٹل حقائق کے تقابل میں کوئی معنویت اور کوئی جواز رکھتی ہے؟
جی نہیں-!
ادیب کے خواب، اس کی تمنائیں، آرزوئیں اور اس کے آدرش خواہ کتنے ہی بلند، مثالی اور عینیت پسندانہ کیوں نہ ہوں لیکن اس کا تمام تر سروکار اپنے عہد کی حقیقتوں کی روشنی میں زندگی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے خواب اگر زندگی سے ربط اُستوار نہیں کرتے اور متصل نہیں ہوتے، تو وہ صرف اور صرف خواب ہیں، محض فینٹیسی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ خواب اور فینٹیسی بھی ادب کے Paraphernalia میں بے کار نہیں ہوتے، یہ بھی کام آنے والی اشیا میں شامل سمجھے جاتے ہیں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ادب کے اجزا کی حیثیت رکھتے ہیں، کل ادب بہرحال نہیں ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی ادب حقیقت سے ماورا نہیں ہوسکتا اور کوئی حقیقت اپنے عصری، سماجی اور تہذیبی تناظر سے لاتعلق نہیں ہوسکتی۔ حقیقت انفرادی ہو یا اجتماعی اس کی معنویت کا تعین زمانی و مکانی حوالوں کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ چناںچہ ادیب اپنے زمانے سے لاتعلق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی زمین سے۔ اس کا فن ان دو حوالوں کے بغیر تعینِ قدر کے دائرے میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ وہ جس انسانی تجربے کی جمالیاتی تشکیل کرتا ہے، وہ زمان و مکاں سے مشروط ہے۔ ان حوالوں کے بغیر قدر و قیمت تو رہی ایک طرف، اس واقعے کی محض واقعیت تک کا اثبات بھی نہیں ہوسکتا۔
اگر آج یہ سوال کہ ادب کسی نظریے کے تحت تخلیق ہوسکتا ہے یا نظریے کے بغیر، اتنا اہم نہیں رہا-تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ایسی بحث طلب نہیں رہی کہ ادیب کا مشرب انسانیت بہ حیثیتِ قدر ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ جس طرح یہ طے ہوچکا ہے کہ وہ شے جو کسی ادبی نگارش کو بڑا بناتی ہے، وہ ادیب کا صرف کوئی نظریہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ کچھ اور عناصر ہوتے ہیں جو کسی نظریے کے ہونے یا نہ ہونے سے اوّل تو مشروط نہیں ہوتے اور اگر اُن کا کوئی تعلق کسی خارجی نظریے سے ہو بھی تو یہ ثانوی درجے کا معاملہ ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ ادیب کا پہلا سروکار اس انسانی، سماجی اور تہذیبی دائرے سے ہوتا ہے جس میں وہ جی رہا ہے، جو اس کے مشاہدات، تجربات، تعقّلات یہاں تک کہ تعصبات تک کی بنیاد میں عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس مرحلے پر اس امر کے اظہار میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے سماج اور اس کے اقداری نظام سے ضروری نہیں کہ ادیب کا رشتہ ہمیشہ اور مکمل طور پر قبولیت ہی کا ہو، یہ ایک حد تک اختلاف یا مکمل طور پر رد کا بھی ہوسکتا ہے۔ ادیب یوں بھی اپنی فطرت میں non-conformist ہوتا ہے۔ اپنے عہد اور اپنے سماج سے عدم اطمینان کا اظہار وہ آزادی سے کرسکتا ہے، بلکہ اگر وہ عدم اطمینانی محسوس کرتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اختلاف اور ردِ عمل کا اظہار کرے۔ اسی سے اُس کے فن کو آب ملتی ہے اور بیان کو تاثیر۔ تاہم معاملہ قبول کا ہو یا رد کا، ادیب کا رشتہ بہرحال اپنے عہد اور اپنے سماج سے سب سے پہلے ہوتا ہے۔ باقی جو کچھ ہے، وہ بعد میں ہے، اضافی یا ثانوی ہے۔
ادیب کی اپنے سماج سے وابستگی کی ضرورت اور اہمیت محض آج کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ یوں دیکھا جائے تو گوئٹے اور ٹامس مان کو جرمن سماج سے، جب کہ چوسر اور شیکسپیئر اور وکٹورین عہد کے سارے ناول نگاروں کو برطانوی سماج سے اپنی وابستگی عزیز تھی، ییٹس نے تو جنگ کے زمانے میں نغمے تک لکھے تھے اور ٹی ایس ایلیٹ تو اپنی سماجی وابستگی پر باقاعدہ اصرار کرتا ہے۔ اسی طرح روس کے عہدِزرّیں کے جس افسانہ یا ناول نگار کو اٹھا کر دیکھیے ٹالسٹائے، دوستوفسکی، گورکی، چیخوف، شولوخوف سب کے سب اپنے سماج سے وابستگی کو اعزاز جانتے تھے، یہ الگ بات کہ ان میں سے بعض فن کار بعض مواقع پر کچھ مسائل کی وجہ سے کھلے لفظوں میں مقننہ اور کلیسا سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے رہے۔
اسی طرح فرانس میں فلوبیئر، بالزاک، بودلیئر، والیری اور راںبو کو دیکھ لیجیے، وہ چاہے اپنے سماجی ڈھانچے کی کم زوری اور خامی سے کتنے ہی نالاں اور شاکی ہوں، اس کے اجتماعی رویوں اور انفرادی رجحانات کو کتنی ہی قوت سے مسترد کرتے ہوں، لیکن اپنی وابستگی کا اظہار بہرحال غیرمشروط طور پر اپنے سماج سے کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یورپ کے مختلف معاشروں اور مختلف ادوار میں ہمیں اپنے عہد اور اس کی انسانی اور مخصوص سماجی صورتِ حال سے ادیبوں کی وابستگی اور وفاداری کا اظہار کھلے بندوں نظر آتا ہے۔ سو، یہ قطعاً کوئی اچنبھے کی بات نہیں اگر آج ہم اپنے ادیب سے اُس کی اپنے عہد اور اپنے سماج سے وابستگی کا سوال کرتے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اُس کی پہلی وفاداری کا یقین چاہے کیسے بھی انسانی معیارات پر ہو، لیکن اس کا بنیادی حوالہ اُس کا سماج اور اس کے عہد کی انسانی حقیقت اور صورتِ حال ہوگی۔
دیکھا جائے تو عہدِجدید کے ادیب کے ساتھ تو مسئلہ اور گمبھیر ہے۔ اس کی انسان دوستی یا انسانیت پسندی اپنی جگہ، مگر اس عہد میں جس طرح تہذیبوں کو فنا کا اور شناخت کے گم ہوجانے کا خوف، بلکہ حقیقی خطرہ لاحق ہے، اس وقت تو ادیب کی بالخصوص یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے اور اس کے تہذیبی نقوش کی بقا کے اہتمام میں بالارادہ اور بالالتزام شامل ہو۔
انسانیت اور اس کے آدرشوں سے اس کی وفاداری بے شک اہمیت رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے بھی پہلے تو اصل میں اُسے اپنے عہد اور سماج کے انسانی رویوں اور تہذیبی رُجحانات کی فکر کرنی ہے، جس معاشرے نے اُسے انسانیت کا شعور دیا اور اقدارِ حیات سے آگاہ کیا ہے اور جو اس کے فن کے لیے raw material فراہم کرتا ہے، اس کی بقا اور پاس داری کا احساس اُسے سب سے پہلے کرنا ہے۔ چناںچہ آج پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی اپنے عہد کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے اپنے تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے امتیازی نشانات کی بقا اور تحفظ کا نہ صرف ادراک کرنا ہے بلکہ اپنے فن کے ذریعے اس شعور کو اُجاگر بھی کرنا ہے۔ اپنے فن سے، ادب سے، تہذیب سے اور انسانیت سے ان کی وفاداری کا یہی اہم ترین اور اوّلین مطالبہ ہے۔