سینیٹ انتخابات ضمیر کی آزمائش
سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت ختم ہو گیا
BERLIN:
سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت ختم ہو گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق 3 مارچ کو ہونیوالے سینیٹ انتخابات کے لیے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سمیت ملک بھر سے 144 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے، اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ کل ہفتہ 10فروری جب کہ فاٹا کی 4 نشستوں کے لیے آخری تاریخ پیر 12 فروری تک ہے۔الیکشن کمیشن نے اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگی ہیں، جو تفصیلات جمع نہیں کرائیں گے وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔
میڈیا میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والوں کی فہرست آچکی ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے اس بار سینیٹ کے امیدواروں کا چناؤ دلچسپ ہونے کے باوجود سخت اعصاب شکن ثابت ہورہا ہے، سیاسی کشیدگی،الزامات کی گونج اور حکمراں طبقہ سمیت سیاست دانوں ،بیوروکریٹس،سرکاری محکموں ، بلدیاتی اداروں کے انتظامی سربراہوں کے خلاف کرپشن ،غفلت اور ناقص کارکردگی کے مقدمات کے دباؤ کے باعث بعض عناصر نے اپوزیشن کی مہم جوئی ، بلوچستان کی بدلتی صورتحال کو سینیٹ انتخابات کے التوا کی افواہوں سے جوڑ دیا، جواباً حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس ایشو نے سیاسی موسم گرم رکھا اور ملک میں عمومی نتیجہ یہ اخذکیا جانے لگا کہ سینیٹ کے انتخابات موخرہوں گے اور موجودہ بساط سیاست لپیٹ کر نئے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاہم الیکشن کمیشن نے ''سو سنار کی ایک لوہار کی'' کے مصداق سینیٹ الیکشن کا شیڈول جاری کردیا جس سے افواہیں دم توڑ گئیں۔ بے یقینی امید میں بدل گئی ، جمعرات کو سینیٹ کی دوڑ میں 144 امیدوار میدان میں اترے۔
یہ خوشگوار جمہوری عمل تھا جس کو جاری رکھنے کے لیے باقی خدشات اور سسٹم کی کمزوریوں کے خاتمے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولڈرز شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کی مزید کوشش کریں ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اندیشہ ظاہر کیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں دھاندلی کا امکان ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کو سر عام ''نیم اور شیم '' کریں گے۔ ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ میں ذاتی طور پر کابینہ اور پارٹی سے بات کرونگا کہ یہ لوگ جو منتخب ہوئے ہیں ان کو صوبائی اسمبلیوں میں کوئی پشت پناہی حاصل نہ تھی پھر یہ کیسے منتخب ہوئے، یہ اس کا حساب دیں۔بلاشبہ سینیٹ کے الیکشن میں پیسے کا استعمال ہوتا ہے مگر سسٹم اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، اصولاً وزیراعظم سینیٹ الیکشن سے قبل اس بات کو یقینی بنائیں کہ سینیٹ الیکشن کا تقدس برقرار رہے۔
مالی جھرلو پھرنے کا ہر دروازہ بند ہونا چاہیے۔ انتخابات ہر قسم کی دھاندلی اور جعلسازی سے پاک ہونے چاہئیں، اپوزیشن کی تحریک ، جلسے جلوسوں، احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا نتیجہ اگر ملکی انتخابات کے شفاف ترین انعقاد کی شکل میں قوم کے سامنے آجائے تو اس سے بڑا بریک تھرو کچھ اور نہیں ہوسکتا، سیاسی مین اسٹریم جماعتیں اس نکتہ پر ایک ہوں اور حکمراں طبقہ بھی اس عہد کی پاسداری میں شانہ بشانہ رہے کہ الیکشن غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے ، ساتھ ہی الیکشن کمیشن بھی اپنی اتھارٹی ، آزادی ، بااختیاریت اور موثر انتخابی میکنزم کی افادیت کو منوائے۔ یہ ملکی تاریخ کے اہم سینیٹ الیکشن ہونگے جس سے آیندہ عام انتخابات کے خواب کی تعبیریں منسلک ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سندھ کی 12نشستوں کے لیے47امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، سندھ میں 7 جنرل نشستوں کے لیے23، ٹیکنوکریٹ کے لیے11، خواتین کی نشستوں کے لیے9 جب کہ اقلیتوں کے لیے 4 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے34 ، 34 جب کہ بلوچستان سے28امیدواروںنے سینیٹ کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ، پنجاب کی کُل12نشستوں کے لیے 34امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ان میںسے جنرل نشستوں کے لیے21، خواتین کے لیے5، ٹیکنوکریٹ کے لیے 5 جب کہ اقلیتوں کے لیے3امیدواروںنے کاغذاتنامزدگی جمع کرائے، اسی طرح خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی 11نشستوں کے لیے34امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں جنرل نشستوں کے لیے20، خواتین کے لیے 8 اور ٹیکنوکریٹ کے لیے6امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جب کہ بلوچستان کی 11 نشستوں کے لیے28امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
ان میں جنرل نشستوں کے لیے15، ٹیکنوکریٹ کے لیے 7اور خواتین کے لیے6امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ، ایم کیو ایم پاکستان کے گروپوں نے سینیٹ انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 17کاغذات نامزدگی جمع کرادیے، جمعرات کو فاروق ستار اپنے جب کہ میئر کراچی وسیم اختر اور فیصل سبزواری اپنے امیدواروں کے ساتھ الگ الگ الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے۔ تاہم متحدہ کے دونوں گروپ متفقہ امیدوار طے نہیں کرسکے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم میں تقسیم مزید گہری نہ ہوجب کہ صائب حکمت عملی یہی ہے کہ سینیٹ الیکشن بریف کیس کھلنے کے بہتان سے آلودہ نہ ہو کیونکہ مارچ میں ایوان بالا کے وقار ، سیاست دانوں کے ضمیر اور دولت کے درمیان تاریخ ساز آزمائش ہونی ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت ختم ہو گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق 3 مارچ کو ہونیوالے سینیٹ انتخابات کے لیے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سمیت ملک بھر سے 144 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے، اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ کل ہفتہ 10فروری جب کہ فاٹا کی 4 نشستوں کے لیے آخری تاریخ پیر 12 فروری تک ہے۔الیکشن کمیشن نے اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگی ہیں، جو تفصیلات جمع نہیں کرائیں گے وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔
میڈیا میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والوں کی فہرست آچکی ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے اس بار سینیٹ کے امیدواروں کا چناؤ دلچسپ ہونے کے باوجود سخت اعصاب شکن ثابت ہورہا ہے، سیاسی کشیدگی،الزامات کی گونج اور حکمراں طبقہ سمیت سیاست دانوں ،بیوروکریٹس،سرکاری محکموں ، بلدیاتی اداروں کے انتظامی سربراہوں کے خلاف کرپشن ،غفلت اور ناقص کارکردگی کے مقدمات کے دباؤ کے باعث بعض عناصر نے اپوزیشن کی مہم جوئی ، بلوچستان کی بدلتی صورتحال کو سینیٹ انتخابات کے التوا کی افواہوں سے جوڑ دیا، جواباً حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس ایشو نے سیاسی موسم گرم رکھا اور ملک میں عمومی نتیجہ یہ اخذکیا جانے لگا کہ سینیٹ کے انتخابات موخرہوں گے اور موجودہ بساط سیاست لپیٹ کر نئے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاہم الیکشن کمیشن نے ''سو سنار کی ایک لوہار کی'' کے مصداق سینیٹ الیکشن کا شیڈول جاری کردیا جس سے افواہیں دم توڑ گئیں۔ بے یقینی امید میں بدل گئی ، جمعرات کو سینیٹ کی دوڑ میں 144 امیدوار میدان میں اترے۔
یہ خوشگوار جمہوری عمل تھا جس کو جاری رکھنے کے لیے باقی خدشات اور سسٹم کی کمزوریوں کے خاتمے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولڈرز شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کی مزید کوشش کریں ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اندیشہ ظاہر کیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں دھاندلی کا امکان ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کو سر عام ''نیم اور شیم '' کریں گے۔ ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ میں ذاتی طور پر کابینہ اور پارٹی سے بات کرونگا کہ یہ لوگ جو منتخب ہوئے ہیں ان کو صوبائی اسمبلیوں میں کوئی پشت پناہی حاصل نہ تھی پھر یہ کیسے منتخب ہوئے، یہ اس کا حساب دیں۔بلاشبہ سینیٹ کے الیکشن میں پیسے کا استعمال ہوتا ہے مگر سسٹم اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، اصولاً وزیراعظم سینیٹ الیکشن سے قبل اس بات کو یقینی بنائیں کہ سینیٹ الیکشن کا تقدس برقرار رہے۔
مالی جھرلو پھرنے کا ہر دروازہ بند ہونا چاہیے۔ انتخابات ہر قسم کی دھاندلی اور جعلسازی سے پاک ہونے چاہئیں، اپوزیشن کی تحریک ، جلسے جلوسوں، احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا نتیجہ اگر ملکی انتخابات کے شفاف ترین انعقاد کی شکل میں قوم کے سامنے آجائے تو اس سے بڑا بریک تھرو کچھ اور نہیں ہوسکتا، سیاسی مین اسٹریم جماعتیں اس نکتہ پر ایک ہوں اور حکمراں طبقہ بھی اس عہد کی پاسداری میں شانہ بشانہ رہے کہ الیکشن غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے ، ساتھ ہی الیکشن کمیشن بھی اپنی اتھارٹی ، آزادی ، بااختیاریت اور موثر انتخابی میکنزم کی افادیت کو منوائے۔ یہ ملکی تاریخ کے اہم سینیٹ الیکشن ہونگے جس سے آیندہ عام انتخابات کے خواب کی تعبیریں منسلک ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سندھ کی 12نشستوں کے لیے47امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، سندھ میں 7 جنرل نشستوں کے لیے23، ٹیکنوکریٹ کے لیے11، خواتین کی نشستوں کے لیے9 جب کہ اقلیتوں کے لیے 4 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے34 ، 34 جب کہ بلوچستان سے28امیدواروںنے سینیٹ کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ، پنجاب کی کُل12نشستوں کے لیے 34امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ان میںسے جنرل نشستوں کے لیے21، خواتین کے لیے5، ٹیکنوکریٹ کے لیے 5 جب کہ اقلیتوں کے لیے3امیدواروںنے کاغذاتنامزدگی جمع کرائے، اسی طرح خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی 11نشستوں کے لیے34امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں جنرل نشستوں کے لیے20، خواتین کے لیے 8 اور ٹیکنوکریٹ کے لیے6امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جب کہ بلوچستان کی 11 نشستوں کے لیے28امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
ان میں جنرل نشستوں کے لیے15، ٹیکنوکریٹ کے لیے 7اور خواتین کے لیے6امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ، ایم کیو ایم پاکستان کے گروپوں نے سینیٹ انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 17کاغذات نامزدگی جمع کرادیے، جمعرات کو فاروق ستار اپنے جب کہ میئر کراچی وسیم اختر اور فیصل سبزواری اپنے امیدواروں کے ساتھ الگ الگ الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے۔ تاہم متحدہ کے دونوں گروپ متفقہ امیدوار طے نہیں کرسکے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم میں تقسیم مزید گہری نہ ہوجب کہ صائب حکمت عملی یہی ہے کہ سینیٹ الیکشن بریف کیس کھلنے کے بہتان سے آلودہ نہ ہو کیونکہ مارچ میں ایوان بالا کے وقار ، سیاست دانوں کے ضمیر اور دولت کے درمیان تاریخ ساز آزمائش ہونی ہے۔