افغانستان 2 جرنیلوں سمیت اعلیٰ فوجی افسران کی معطلی

پاکستان خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنی مقدور بھر مخلصانہ کوششوں میں مصروف عمل ہے

پاکستان خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنی مقدور بھر مخلصانہ کوششوں میں مصروف عمل ہے . فوٹو : فائل

افغانستان میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دارالحکومت کابل میں بڑھتے ہوئے حملوں میں اپنے فرائض سے لاپروائی برتنے کی وجہ سے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے 2 جرنیلوں سمیت 7 اعلیٰ سطح کے فوجی حکام کو معطل کردیا ہے۔

حالیہ دنوں میں کابل میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا، لیکن افغان حکومت اپنی پرانی روش پر چلتے ہوئے بنا کسی تحقیق اور اپنی غلطیوں کے ازالے کی کوشش کیے حملوں کا الزام پاکستان کے سر منڈھنے کی روایت کو دہراتی رہی، افغان حکومت کی اسی فاش غلطی نے دہشت گرد عناصر کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ واضح رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 2 ہفتے قبل وزارت داخلہ کی عمارت کے قریب بم سے مسلح ایمبولینس کے ساتھ کیے گئے خودکش حملے میں 103 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ شنید ہے کہ افغانستان میں معطل کیے گئے فوجی حکام کو تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا، جب کہ صدارتی محل کے ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے جاری کردہ بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ صدر غنی نے فوج کے شعبے میں نئی اصلاحات کرنے کے لیے 164 جرنیلوں کو ریٹائر بھی کیا ہے۔


یہ امر اس جانب اشارہ دے رہا ہے کہ افغان حکومت کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوچلا ہے اور وہ اپنی خامیوں پر قابو پانے کے لیے راست اقدام کی جانب گامزن ہے۔ جب کہ اس سے پیشتر افغانستان اپنی تمام تر سیاسی، سماجی اور معاشی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے الزام عائد کرتا رہا کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت کرنے سمیت دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اصل نقص افغانستان کے اندر موجود ہے جب تک اسے دور نہیں کیا جائے گا خطے میں دہشت گردی یونہی پروان چڑھتی رہے گیا۔

پاکستان خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنی مقدور بھر مخلصانہ کوششوں میں مصروف عمل ہے، جس کا اعتراف ایک دنیا کررہی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ رہنے کا خواہاں ہے لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور بالادستی کی خواہش کے باعث پاکستان پر دباؤ بھی ڈالتا رہتا ہے۔امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کانگریس کے سامنے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روک کر دباؤ ڈالنے کا حربہ بری طرح شکست سے دوچار ہوا اور اسلام آباد تاحال اپنی پالیسی پر گامزن ہے۔ امریکا کی نئی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمت عملی کے حوالے سے سینیٹ فارن ریلیشن کمیٹی میں امریکی حکام اور پارلیمانی وفد نے اعتراف کیا کہ اسلام آباد کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ناممکن ہے۔

تاہم امریکا اب بھی پاکستان کی عسکری امداد روکنے کے فیصلے پر اڑا ہوا ہے جسے ایک احمقانہ اقدام سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان اور امریکا کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار ناگزیر ہے، ایسے میں لایعنی الزام تراشیوں اور دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے ایک پیج پر رہتے ہوئے برابری کی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
Load Next Story