چیتے اورمکھیاں
احتساب کی یہ کارروائی کیسے عمل میں لائی گئی،یہ بذات خودیونیورسٹیوں میں پڑھانے کے لیے بے مثال کیس اسٹڈی ہے۔
چین میں اصل حکومت پولٹ بیوروکے ممبران کی ہے۔2012ء میں زی جنگ پنگ کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکریٹری بن چکا تھا۔زی کوصرف ایک خدشہ تھا کہ چین کی ترقی اندرونی کرپشن کی وجہ سے خطرے میں پڑسکتی ہے۔ زی کویقین تھاکہ اگرحکومت میں شامل بڑے لوگوں پرہاتھ ڈالا گیا،توشدیدردعمل بھی ہوگااورمسائل بڑھ سکتے ہیں۔اس نے کرپٹ عناصرکے لیے دواصطلاحیں ترتیب دیں۔چیتے اور مکھیاں۔چیتے،وہ سیاسی مگرمچھ تھے،جن کاکمیونسٹ پارٹی پر اَزحداثرتھا۔
کئی صوبوں پران کی دہائیوں سے حکومت چلتی آرہی تھی۔ہرصوبہ کی بیوروکریسی کی طاقت ان کے سامنے ہاتھ جوڑکرکھڑی ہوئی تھی۔مکھیاں،وہ سرکاری ملازم تھے،جو ان بے عمل سیاستدانوں کے دستِ راست تھے۔ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے تھے۔
کمیشن لیتے اورآگے تقسیم کرتے تھے۔حکمرانوں کے کہنے پرملک دشمنی کا الزام لگاکرکسی کو بھی قتل کردیتے تھے۔زی نے جب یہ ترتیب مکمل کرلی، تو سب سے پہلے اس نے چین کے سب سے مضبوط اور مردِآہن پرنظرڈالی۔یہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا بلکہ چین کی سیاست کا روشن ستارہ تھا۔ذویونگ کانگ،چین کے اقتدارکے کھیل میں،بہت کم عرصے میں ایک مضبوط ترین انسان کے طور پراُبھرا تھا۔تمام پولیس،خفیہ ادارے، عدالتیں اورسیکیورٹی کا نظام اس کے تابع تھا۔زی،اپنے آپ کوچین کی تاریخ کے سب سے بڑے چیتے پرہاتھ ڈالنے کے لیے تیارکرچکا تھا۔
2013ء میں پولٹ بیوروکا اجلاس ہوا۔زی نے انتہائی سنجیدگی سے ذویونگ کے خلاف تمام الزامات اور ثبوت، ممبران کے سامنے رکھ دیے۔پوری مجلس میں خوفناک سناٹا چھاگیا۔سب لوگ خاموش ہوگئے۔اب زی نے ایک ایک کرکے،ذویونگ کے تمام جرائم پولٹ بیوروکوبتانے شروع کردیے۔معاملہ اس درجہ اہم تھاکہ پولٹ بیورونے دیگرتمام کارروائی معطل کردی۔پورا دن بحث ہوتی رہی۔ ہر جرم اور ثبوت کابغورجائزہ لیاگیا۔یہ بھی بحث ہوئی کہ ذو، بطور گورنر یا چیف ایگزیکٹیوسیچوان صوبہ پرحد درجہ عمل دخل رکھتا ہے۔ وہاں کی تمام سرکاری مشینری اس کی بنائی ہوئی ہے۔ ترقی، تنزلی،مارنا،سزادلوانا سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔
گمان تھاکہ یہ نہ ہو،کہ صوبائی اورمرکزی اداروں کے درمیان کشیدگی پھیل جائے اور ریاست کونقصان پہنچے۔ معاملہ اس درجہ گھمبیرتھاکہ پولٹ بیوروکے ممبران چاردن تک،اس پر بحث کرتے رہے۔آخرمیں فیصلہ ہوا،کہ شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ ذویونگ کے خلاف مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔زی نے دوسرافیصلہ یہ کیا،کہ کیونکرملزم بے حدطاقتوراوراقتدارکے گھوڑے کاشہسوارہے۔لہذا اسے چین کے سرکردہ ریٹائرڈ رہنماؤں کوبھی اس کیس پراعتماد میں لیناچاہیے۔
چنانچہ زی چنگ،سابقہ سیکریٹری جنرل جیانگ زیمن اورہوجنتوسے بھی ملا۔انھیں بتایاکہ کس طرح زویونگ اوراس کے خاندان نے چین کے سرکاری اداروں کواستعمال کرکے اربوں ڈالرکی کرپشن کی ہے اورکس طرح بیرونی ممالک میں بیش قیمت جائیدادیں بنائی ہیں۔زویونگ کو معلوم ہوچکاتھاکہ اس کے خلاف حکومتی سطح پرکرپشن کی تحقیقات شروع ہوچکی ہیں۔
اس نے وہی کیا،جوانسانی فطرت کے نزدیک ترین ہے۔دومرتبہ زی جنگ سے ملا۔اسے بتایاکہ میں نے ملک کے لیے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔مختلف ممالک میں تیل کے میدان میں چین کے لیے بہت بڑے بڑے معاہدے حاصل کیے ہیں۔اپنے صوبہ یعنی سیچوان میں بے مثال اصلاحات کی ہیں۔ بطور وزیر داخلہ،چین کوکس کس آفت سے محفوظ رکھاہے۔مگرپارٹی کے سیکریٹری جنرل کا صرف ایک سوال تھا۔کیایہ تمام خدمات اس بات کی اجازت دیتی ہیںکہ آپ بیرون ملک محلات خریدیں،بینک اکاؤنٹس رکھیں اورملک کے اداروں کاسہارالیکراربوں ڈالرکی کرپشن کریں۔
زویونگ کواندازہ ہوچکاتھاکہ اس کا کھیل ختم ہونے کوہے۔لہذااس نے کمیونسٹ پارٹی سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔گزارش کی،کہ وہ کرپشن سے کمائے گئے سارے پیسے واپس کردیتا ہے۔ اسے عدالت کے سامنے نہ لے جایاجائے۔اس کی عزت پربٹہ نہ آنے پائے۔پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے مکمل طور پر انکار کر دیا اور کہا کہ تمہیں عام مجرم کی طرح قانون کا سامنا کرناپڑیگا۔
احتساب کی یہ کارروائی کیسے عمل میں لائی گئی،یہ بذات خودیونیورسٹیوں میں پڑھانے کے لیے بے مثال کیس اسٹڈی ہے۔جیسے ہی تحقیقات کاآغازہوا،چینی حکومت نے وہ تمام افسران،جنھیں زویونگ کااعتمادحاصل تھا،انھیں ایک ایک کرکے عہدوں سے فارغ کردیاگیا۔اس میں تیل کی کمپنی کے ہیڈ،سیچوان صوبے کے اعلیٰ عہدیداران،وزارت داخلہ کے عمال اورزویونگ کے ساتھ منسلک سیکریٹری لیول کے افسران کوگرفتارکرلیاگیا۔
یعنی،وہ تمام سرکاری دنیاکے بااثرترین لوگ،جوزویونگ نے اپنی جنبش قلم سے اعلیٰ اور ارفع بنائے تھے،دھڑام کرکے گرادیے گئے۔انھیں جیل بھیج دیاگیا۔صرف دوسے تین دنوں میں،ان تمام عہدیداران نے کرپشن کی تمام وارداتیں اورطریقہ کارحکومتی پولیس کے سامنے رکھ دیں جس کے ذریعے زویونگ،رشوت لیتا تھا اور باہرجائیدادیں خریدتاتھا۔
اس کے ساتھ ساتھ،تحقیقاتی اداروں نے زویونگ کے تعلقات کاایک چارٹ بنایا۔اسکودرمیان میں،کہ گزشتہ پچیس برس میں جس جس اہم آدمی سے اسکارابطہ ہواتھا،وہ اس فلوچارٹ میں شامل کیاگیا۔اہل خانہ،ان کی شادیاں، خانگی تعلقات،مہمان اوربیرون ملک دوروں میں جس جس اہم حکومتی عمال سے ملاتھا،وہ تمام اس چارٹ میں شامل تھے۔اس پربے حدمحنت کی گئی۔تحقیقاتی اداروں نے عرق ریزی کرکے ان تمام لوگوں کوشامل تحقیق کرلیا،جوزویونگ کی ناجائزدولت کے ٹرسٹی اورفائدہ اُٹھانے والوں میں سے تھے۔اس کی بیٹی اوردامادکے بینک اکاؤنٹ بھی چیک کیے گئے۔
تحقیقاتی اداروں نے اٹھارہ بلین ڈالرکی خوردبردکاکیس مکمل کرلیا۔زوکے سب سے بڑے بیٹے کے اکاؤنٹ سے دوبلین ڈالربرآمدہوئے۔یہ ہانگ کانگ کے ایک بینک میں تھے۔بیٹے نے گرفتاری کے بعدبتایاکہ یہ تمام پیسے اس نے صرف ایک شہر Chongqing کے تعمیراتی ٹھیکوں سے بطورکمیشن وصول کیے ہیں۔اسی برس یعنی 2014 میں اس کی بیٹی اور داماد کو گرفتار کرلیا گیا۔
کیاآپ تصورکرسکتے ہیں کہ،زویونگ پرپہلاسرکاری الزام کیالگا۔صرف یہ کہ اس نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔چین کے میڈیانے زویونگ کے خلاف صرف اتنی سی خبردی کہ وہ پارٹی ممبرہونے کے باوجودنظم وضبط سے عاری مجرمانہ حرکات کرتارہاہے۔لہذااس کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔زویونگ کوکمیونسٹ پارٹی سے نکال دیاگیا۔سیاسی طورپراتنے طاقتورانسان کو پارٹی سے نکالنے کایہ پہلاواقعہ تھا۔
گرفتاری کے بعداسے ایک فوجی چھاؤنی کے ایک کمرے میں بطور نظر بند کردیا گیا۔چینی حکومت نے پابندی لگادی کہ کوئی بھی اسے مل نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ مقدمہ کی تمام سماعت کوبھی پریس کی آنکھوں سے دورکردیاگیا۔زویونگ کوعدالت نے کرپشن پرعمرقیدکی سزا دی۔طاقت کے غلط استعمال پر مزیدسات سال کی سزاسنائی گئی۔ یہ تمام فیصلہ چھ سے سات مہینے میں سنادیاگیا۔زوکی اہلیہ پرالگ مقدمہ چلایا گیا اور اسے نوسال کی قیدکاحکم دیا گیا۔بیٹے ذاؤکواٹھارہ سال قید دی گئی۔جرمانے کی سزا اس کے علاوہ تھی۔زویونگ کی اربوں ڈالرکی جائیدادضبط کرلی گئی اورساراپیسہ حکومت کے خزانے میں جمع کروادیا گیا۔ چین کی تاریخ میں کرپشن کایہ سب سے سنجیدہ مقدمہ تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان میں زویونگ کی سطح کے طاقتورسیاستدان کاکبھی احتساب ہوپائے گا۔ اس کا جواب مکمل نفی میں ہے۔جس طرح ہم تحقیقات کرتے ہیں یا نظامِ انصاف کوچلاتے ہیں، اس میں اگلے ہزاروں برس بھی ملک میں غیرجانبداراحتساب کی کوئی اُمیدنہیں ہے۔ وجوہات بے حدسادہ ہیں۔ان کوسمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ اولین، ہمارے پاس پورے ملک میں ایک بھی غیرجانبدارتحقیقاتی ادارہ موجودنہیں ہے۔
جنھیں ہم ،نسبتاً نیوٹرل یا غیرجانبدار گردانتے ہیں،ان کے سربراہ اس درجہ کمزور لوگ چن کر لگائے جاتے ہیں،جوتقریریں توکرسکتے ہیں، کرپشن کے خلاف نعرے لگاسکتے ہیں مگر مضبوط فیصلے کرنے کی صلاحیت سے یکسرمحروم ہیں۔ تحقیقاتی اداروں میں لگانے سے پہلے، سرکاری عمال سے مکمل حلف لیاجاتاہے کہ وہ مقتدرطبقے کے مخصوص لوگوں کوہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔
یہ لوگ اپنے عہدوں کاحلف ہی اسی وقت اُٹھاسکتے ہیں جب تک کرپٹ مقتدر طبقہ مکمل طورپرمطمئن نہ ہوجائے کہ وہ ہر طریقے سے محفوظ ہیں ان کی آل اولادبھی محفوظ ہے۔ان کے بیرونی بینک اکاؤنٹس پربھی ہاتھ نہیں ڈالاجائیگا۔اس انتظام کے بعد جو احتساب ہوتاہے،وہ آپکواس عظیم ملک میں ہرطرف نظر آرہا ہے۔
جان بوجھ کرانصاف کی عدالتوں کا نظام اس درجہ پیچیدہ رکھاگیاہے کہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔ جب مقتدر کرپٹ طبقہ،اپنے آپکوہرطریقے سے محفوظ کرلیتا ہے، تو وہ اپنے سیاسی مخالفین اوراپنی سوچ سے مختلف لوگوں کو احتساب کے نام پربربادکرتاہے۔یہ اسے میرٹ کانام دیتے ہیں،کبھی بے لاگ انصاف کانام دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں"چیتے اورمکھیوں"کوپکڑنے کے لیے کوئی ادارہ نہیں۔ یہاں چیتے بھی پُراعتمادہیں اورمکھیوں کوبھی یقین ہے کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اُٹھاکرنہیں دیکھ سکتا!