صادقین اور چربہ تصاویر کا کاروبار
صادقین کی تصاویر کی قیمتیں لاکھوں روپے تک پہنچ گئیں تو پھر صادقین کی تصاویر کی چربہ تصاویر تیارکرنے کا سلسلہ شروع ہوا
پاکستان کی شناخت مصوروں، فنکاروں،گلوکاروں، شاعروں،کھلاڑیوں اور سماجی کارکنوں سے ہوتی ہے ۔ مصوری کی دنیا میں چغتائی شاکر علی، صادقین علی امام، بشیر مرزا جیسے فنکاروں سے پاکستان کا روشن خیال اور ترقی پسند چہرہ دنیا کے سامنے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ شاکر علی نے نیشنل کالج آف آرٹس جیسا ادارہ قائم کیا ۔ صادقین نے مصوری کی دنیا میں نئی جہت روشناس کرائی۔ صادقین کا تعلق برصغیر کے ثقافتی مرکز امروہہ سے تھا۔
امروہہ میں رئیس امروہوی، سید محمد تقی، جان ایلیا اور نازش امروہی جیسے ادیب، دانشور اور شاعر اور سیاسی کارکن پیدا ہوئے۔ صادقین کا بچپن امروہہ کے دانشورانہ ماحول میں گزرا۔ انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آگرہ یونیورسٹی بھیجا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان بٹوارے کے قریب تھا۔ ایک طرف کانگریس اور دوسری طرف مسلم لیگ کا زور تھا اور دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی متحرک تھی۔
سجاد ظہیر، جوش ملیح آبادی، رشید جہاں، منٹو، مجاز علی، سردار جعفری، کیفی اعظمی، راجندر سنگھ بیدی جیسے شاعر ادیب اور تخلیق کار متحرک تھے، صادقین ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گئے۔ انھوں نے اپنی رباعیوں میں انسانی جذبات کو ایک انداز میں پیش کیا اور مصوری کے ذریعے انسانوں کے تعلقات خاص طور پر عورت کے بارے میں اپنی تصاویر کے ذریعے نئے تصورات کو ابھارا، صادقین اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔
وہ کراچی میں اپنے بھائی کے ساتھ ناظم آباد میں سبطین منزل میں مقیم ہوئے۔ یوں 50ء اور 60ء کی دھائی میں ان کی تصاویر کی نمائش پورے ملک میں ہونے لگیں۔ صادقین کی شہرت بیرون ملک تک پھیل گئی۔ حکومت پاکستان نے مارچ 1960ء میں انھیں تمغہ امتیاز دیا۔ یہ ایک قدامت پرست معاشرے میں ایک فنکارکی پذیرائی کے لیے ریاست کی طرف سے ایک قابل ستائش اقدام تھا ۔انھیں قومی تصاویرکی نمائش پر بہترین تصویر کا انعام دیا گیا۔
دسمبر 1960ء میں صادقین کو پیرس کے دورے کی دعوت دی گئی۔ فرانس کا دارالحکومکت پیرس اپنی ثقافتی سرگرمیوں کی بناء پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پکاسو کی شہرۂ آفاق تصویر مونا لیزا پیرس اور فرانس کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔ صادقین کی میزبان تنظیم فرانس انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پلاسٹک آرٹس تھی۔ انھیں انٹرنیشنل جیوری آف کریٹس نے Laureate Biennale de Paris کا ایوارڈ دیا ۔ ایک پاکستانی فنکار کے لیے یہ ایک منفرد اعزاز تھا۔
صادقین کے فن پاروں کی لندن ، پیرس اور واشنگٹن میں نمائش منعقد ہوئی۔ صادقین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کی انفرادی نمائش بھی منعقد ہوئی اور فنکاروں کی مشترکہ نمائشوں میں بھی ان کی شاہکار تصاویر کے لیے علیحدہ گوشے مختص کیے گئے۔ صادقین دوسرے ترقی پسند دانشوروں اور ادیبوں کی طرح عتاب کا شکار ہوئے۔
70ء کی دہائی کے وسط میں الحمرا سینٹر لاہور میں ان کی تصاویر کی نمائش منعقد ہوئی۔ دائیں بازو کے رجعت پسندوں نے ان پر فحاشی اور عریانی کے الزامات لگائے۔ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کردی گئی۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی پنجاب میں حکومت تھی۔ پنجاب حکومت نے صادقین کی بعض تصاویر کو نمائش سے اٹھوانے کے احکامات دیے۔
یہ ایک بڑے فنکار کے ساتھ بدترین سلوک تھا، مگر صادقین کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ انھوں نے اپنا تخلیقی عمل جاری رکھا۔ صادقین نے 80ء کی دہائی میں کراچی کے تاریخی فریئر ہال کی حقیقت پر قرانی آیات کی خطاطی کا تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ صادقین نے الٹا لٹک کر یہ خطاطی ایسے وقت کی جب ان کی صحت خاصی خراب تھی۔ اس وقت کے میرعبدالستار افغانی کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔
میرعبدالستار افغانی صادقین کی خطاطی سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں تمام تر سہولتیں فراہم کیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں صادقین کی قرآنی آیات کی خطاطی ایک تاریخی کام ہے۔ صادقین بنیادی طور پر رحم دل انسان تھے۔ انھوں نے اپنے شاگردوں، دوستوں اور دیگر چاہنے والوں کو تحائف میں تصاویر دیں۔ یہ تصاویر ایک قیمتی اثاثے میں تبدیل ہوگئیں۔
صادقین کی تصاویر کی قیمتیں لاکھوں روپے تک پہنچ گئیں تو پھر صادقین کی تصاویر کی چربہ تصاویر تیارکرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بقول ایک نقاد کے صادقین کی رحلت کے بعد ان کی زیادہ تصاویر آرٹ کی مارکیٹ میں بکنے لگیں، یوں جعلی تصاویر لوگوں کے ڈرائنگ رومز ،دفاتر، بڑے ہوٹلوں اوربڑے شاپنگ سینٹروں میں نظر آنے لگیں۔ صادقین کے ایک شاگرد سینئر صحافی عابد علی سید کہتے ہیںکہ صادقین کا فطرت، انسانی تعلقات اور رویوں کے حوالے سے مشاہدہ حیرت انگیز تھا، یوں ان کی تصاویر میں زندگی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صادقین کا فن ان کے انتقال کے 21 برسوں بعد بھی مقبول ہے۔
آرٹ کی ایک اور دلدارہ یاسمین عابد علی کا کہنا ہے کہ عام آدمی کے لیے صادقین کی حقیقی تصاویر اور ان کی چربہ تصاویر میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صادقین کی لائنیں بہت گہری ہوتی ہیں اور رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ مگر چربہ تصاویر میں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یوں حقیقی فرق ماہر ہی محسوس کرسکتا ہے۔ بہت سے نوجوان آرٹسٹ آرٹ اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، کچھ نوجوانوں میں فطری طور پر تصاویر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ فنکار عمومی طور پر کام کے طالب ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بڑی آرٹ گیلریوں کے مالکان ان سے صادقین کی چربہ تصاویر بنواتے ہیں۔ ان آرٹسٹوں کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے اور آرٹ گیلریوں کے مالکان خطیر منافع کماتے ہیں۔ صادقین کی تصاویر کی مشرق وسطی، یورپ اور امریکا میں بڑی مارکیٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چربہ تصاویرکا کاروبار عروج پر ہے۔
مصوری سے دلچسپی رکھنے والے دانشور اور با ذوق افرا د کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف صادقین کی چربہ تصاویر تک محدو دنہیں ہے بلکہ ملک کے دیگر فنکاروں کی چربہ تصاویر بھی مارکیٹ میں خوب فروخت ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بااثر افراد اورسیاستدان اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ قدیم اشیاء، تصاویر اور آثار قدیمہ سے متعلق اشیاء اور تاریخی دستاویزات کے چربہ بنانے اور ان کی فروخت کا کاروبار یورپ میں بہت پرانا ہے۔ صادقین اور دیگر فنکاروں کے فن پاروں کے چربہ بنانے کے کئی نقصان ہیں۔
ایک نقصان تو یہ ہے کہ جب دیگر ممالک میں اس جعل سازی کا پتہ چل جاتا ہے تو ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور غیر ملکیوں کا پاکستان کی مصنوعات پر اعتماد ختم ہوتا ہے۔ ان فنکاروں کے پسماندگان بھی ان فن پاروں کی رائلٹی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک عظیم فنکارکا تشخص خراب ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فنکاروں کے فن پاروں اور آثار قدیمہ جیسے متعلق مصنوعات اور تاریخی دستاویزات کے چربہ بنانے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور جدید سائنسی بنیادوں پر ایک ادارہ قائم کیا جائے جو حقیقی تصاویر اور چربہ تصاویر میں فرق بتاسکے اور اس قومی جرم میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا مل سکے۔
امروہہ میں رئیس امروہوی، سید محمد تقی، جان ایلیا اور نازش امروہی جیسے ادیب، دانشور اور شاعر اور سیاسی کارکن پیدا ہوئے۔ صادقین کا بچپن امروہہ کے دانشورانہ ماحول میں گزرا۔ انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آگرہ یونیورسٹی بھیجا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان بٹوارے کے قریب تھا۔ ایک طرف کانگریس اور دوسری طرف مسلم لیگ کا زور تھا اور دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی متحرک تھی۔
سجاد ظہیر، جوش ملیح آبادی، رشید جہاں، منٹو، مجاز علی، سردار جعفری، کیفی اعظمی، راجندر سنگھ بیدی جیسے شاعر ادیب اور تخلیق کار متحرک تھے، صادقین ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گئے۔ انھوں نے اپنی رباعیوں میں انسانی جذبات کو ایک انداز میں پیش کیا اور مصوری کے ذریعے انسانوں کے تعلقات خاص طور پر عورت کے بارے میں اپنی تصاویر کے ذریعے نئے تصورات کو ابھارا، صادقین اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔
وہ کراچی میں اپنے بھائی کے ساتھ ناظم آباد میں سبطین منزل میں مقیم ہوئے۔ یوں 50ء اور 60ء کی دھائی میں ان کی تصاویر کی نمائش پورے ملک میں ہونے لگیں۔ صادقین کی شہرت بیرون ملک تک پھیل گئی۔ حکومت پاکستان نے مارچ 1960ء میں انھیں تمغہ امتیاز دیا۔ یہ ایک قدامت پرست معاشرے میں ایک فنکارکی پذیرائی کے لیے ریاست کی طرف سے ایک قابل ستائش اقدام تھا ۔انھیں قومی تصاویرکی نمائش پر بہترین تصویر کا انعام دیا گیا۔
دسمبر 1960ء میں صادقین کو پیرس کے دورے کی دعوت دی گئی۔ فرانس کا دارالحکومکت پیرس اپنی ثقافتی سرگرمیوں کی بناء پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پکاسو کی شہرۂ آفاق تصویر مونا لیزا پیرس اور فرانس کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔ صادقین کی میزبان تنظیم فرانس انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پلاسٹک آرٹس تھی۔ انھیں انٹرنیشنل جیوری آف کریٹس نے Laureate Biennale de Paris کا ایوارڈ دیا ۔ ایک پاکستانی فنکار کے لیے یہ ایک منفرد اعزاز تھا۔
صادقین کے فن پاروں کی لندن ، پیرس اور واشنگٹن میں نمائش منعقد ہوئی۔ صادقین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کی انفرادی نمائش بھی منعقد ہوئی اور فنکاروں کی مشترکہ نمائشوں میں بھی ان کی شاہکار تصاویر کے لیے علیحدہ گوشے مختص کیے گئے۔ صادقین دوسرے ترقی پسند دانشوروں اور ادیبوں کی طرح عتاب کا شکار ہوئے۔
70ء کی دہائی کے وسط میں الحمرا سینٹر لاہور میں ان کی تصاویر کی نمائش منعقد ہوئی۔ دائیں بازو کے رجعت پسندوں نے ان پر فحاشی اور عریانی کے الزامات لگائے۔ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کردی گئی۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی پنجاب میں حکومت تھی۔ پنجاب حکومت نے صادقین کی بعض تصاویر کو نمائش سے اٹھوانے کے احکامات دیے۔
یہ ایک بڑے فنکار کے ساتھ بدترین سلوک تھا، مگر صادقین کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ انھوں نے اپنا تخلیقی عمل جاری رکھا۔ صادقین نے 80ء کی دہائی میں کراچی کے تاریخی فریئر ہال کی حقیقت پر قرانی آیات کی خطاطی کا تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ صادقین نے الٹا لٹک کر یہ خطاطی ایسے وقت کی جب ان کی صحت خاصی خراب تھی۔ اس وقت کے میرعبدالستار افغانی کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔
میرعبدالستار افغانی صادقین کی خطاطی سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں تمام تر سہولتیں فراہم کیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں صادقین کی قرآنی آیات کی خطاطی ایک تاریخی کام ہے۔ صادقین بنیادی طور پر رحم دل انسان تھے۔ انھوں نے اپنے شاگردوں، دوستوں اور دیگر چاہنے والوں کو تحائف میں تصاویر دیں۔ یہ تصاویر ایک قیمتی اثاثے میں تبدیل ہوگئیں۔
صادقین کی تصاویر کی قیمتیں لاکھوں روپے تک پہنچ گئیں تو پھر صادقین کی تصاویر کی چربہ تصاویر تیارکرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بقول ایک نقاد کے صادقین کی رحلت کے بعد ان کی زیادہ تصاویر آرٹ کی مارکیٹ میں بکنے لگیں، یوں جعلی تصاویر لوگوں کے ڈرائنگ رومز ،دفاتر، بڑے ہوٹلوں اوربڑے شاپنگ سینٹروں میں نظر آنے لگیں۔ صادقین کے ایک شاگرد سینئر صحافی عابد علی سید کہتے ہیںکہ صادقین کا فطرت، انسانی تعلقات اور رویوں کے حوالے سے مشاہدہ حیرت انگیز تھا، یوں ان کی تصاویر میں زندگی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صادقین کا فن ان کے انتقال کے 21 برسوں بعد بھی مقبول ہے۔
آرٹ کی ایک اور دلدارہ یاسمین عابد علی کا کہنا ہے کہ عام آدمی کے لیے صادقین کی حقیقی تصاویر اور ان کی چربہ تصاویر میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صادقین کی لائنیں بہت گہری ہوتی ہیں اور رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ مگر چربہ تصاویر میں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یوں حقیقی فرق ماہر ہی محسوس کرسکتا ہے۔ بہت سے نوجوان آرٹسٹ آرٹ اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، کچھ نوجوانوں میں فطری طور پر تصاویر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ فنکار عمومی طور پر کام کے طالب ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بڑی آرٹ گیلریوں کے مالکان ان سے صادقین کی چربہ تصاویر بنواتے ہیں۔ ان آرٹسٹوں کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے اور آرٹ گیلریوں کے مالکان خطیر منافع کماتے ہیں۔ صادقین کی تصاویر کی مشرق وسطی، یورپ اور امریکا میں بڑی مارکیٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چربہ تصاویرکا کاروبار عروج پر ہے۔
مصوری سے دلچسپی رکھنے والے دانشور اور با ذوق افرا د کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف صادقین کی چربہ تصاویر تک محدو دنہیں ہے بلکہ ملک کے دیگر فنکاروں کی چربہ تصاویر بھی مارکیٹ میں خوب فروخت ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بااثر افراد اورسیاستدان اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ قدیم اشیاء، تصاویر اور آثار قدیمہ سے متعلق اشیاء اور تاریخی دستاویزات کے چربہ بنانے اور ان کی فروخت کا کاروبار یورپ میں بہت پرانا ہے۔ صادقین اور دیگر فنکاروں کے فن پاروں کے چربہ بنانے کے کئی نقصان ہیں۔
ایک نقصان تو یہ ہے کہ جب دیگر ممالک میں اس جعل سازی کا پتہ چل جاتا ہے تو ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور غیر ملکیوں کا پاکستان کی مصنوعات پر اعتماد ختم ہوتا ہے۔ ان فنکاروں کے پسماندگان بھی ان فن پاروں کی رائلٹی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک عظیم فنکارکا تشخص خراب ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فنکاروں کے فن پاروں اور آثار قدیمہ جیسے متعلق مصنوعات اور تاریخی دستاویزات کے چربہ بنانے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور جدید سائنسی بنیادوں پر ایک ادارہ قائم کیا جائے جو حقیقی تصاویر اور چربہ تصاویر میں فرق بتاسکے اور اس قومی جرم میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا مل سکے۔