شام کے وقت کے تماشے
پاکستان دنیا کا واحد نیم جمہوری ملک ہے جہاں سیاستدانوں کی اکثریت تمام تر اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہیں۔
حضرت عیسی کی پیدائش سے سو سال پہلے ایک رومی شاعر پیلوس سائرس نے کہا تھا ''ہم انھی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہمیں پسند کریں'' چنانچہ اگر آپ لوگوں کے دلوں میں گھرکرنا چاہتے ہیں تو اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ دوسرے لوگوں میں سچے دل سے دلچسپی لیجیے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جو زندگی بھر یہ غلطی کرتے ہیں اور اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ لوگ ان کی ذات میں دلچسپی لیں، ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت انھی بیشمار لوگوں میں شامل ہے۔ یاد رہے لوگوں کو آپ سے زیادہ اپنے آپ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لوگ آپ میں کوئی دلچسپی کیوں لیں جب پہلے خود آپ ان میں دلچسپی کااظہار نہیں کرینگے۔
ویانا کے مشہور ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے مقصد زندگی۔ وہ اس میں لکھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سر چشمہ ہیں۔
ایک مرتبہ نیویارک یونیورسٹی میں افسانہ نگاری کے امتحان کے کورس کے دوران مشہور رسالہ ''کولیر'' کے مدیر نے ایک لیکچر دیا اس نے کہا کہ میں اپنی میز پر بکھری پڑی درجنوں کہانیوں میں سے کسی ایک کو اٹھا کر چند پیرے ہی پڑھ کربتا سکتاہوں کہ افسانہ نگارکو لوگوں سے واقعی محبت ہے یا نہیں۔ اس نے کہا اگر مصنف لوگوں سے محبت نہیں کریگا تو لوگ بھی اس سے محبت نہیں کرینگے۔ اس نے کہا اگر آپ کامیاب افسانہ نگار بننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں سے محبت کرنا پڑیگی۔
آپ نے تھرسٹن کا نام تو سنا ہوگا جو دنیا بھر کے جادوگروں کا بے تاج بادشاہ اور شعبدے بازوں کا سردار تھا وہ چالیس برس تک دنیا میں گھومتا رہا لوگوں کو شعبدے دکھا تا اور ورطہ حیرت میں ڈالتا تھا۔ اس کا تماشا دیکھنے کے لیے چھ کروڑ سے زیادہ انسانوں نے ٹکٹ خرید ے اوراس نے آٹھ کروڑ سے زیادہ نفع کمایا اس کی کامیابی میں اس کی تعلیم کاکوئی دخل نہ تھا کیونکہ وہ بچپن ہی میں گھر سے بھاگ گیا تھا آوارہ پھرا گھاس پھوس میں سویا دردر بھیک مانگتا پھرا، ریلوے کی ملازمت کے دوران میں سفری ہوٹل سے باہر جھانک جھانک کر ریلوے لائن کے اردگرد لگے ہوئے سائن بورڈوں کو دیکھ کر پڑھنا سیکھا۔
اس نے کہا تھا کہ وہ انسانی فطرت سے واقف تھا اور اسے لوگوں سے سچا لگاؤ تھا اس نے بتایا تھا کہ اکثر جادو گر حاضرین پر ایک نظر ڈال کر اپنے آپ سے کہتے ہیں ''یہ چند الوؤں کا جھمگٹا ہے چند بیوقوفوں کا ٹولہ ہے میں انھیں اچھی طرح بے وقوف بنا سکتا ہوں'' لیکن وہ اسٹیج پر اس وقت تک قدم نہ رکھتا تھا جب تک وہ اپنے دل سے کئی بار یہ نہ کہہ لیتا کہ ''میں اپنے حاضرین سے محبت کرتا ہوں میں اپنے حاضرین کو دل و جان سے چاہتا ہوں'' دنیا کے اکثر جادوگروں کی طرح پاکستان کے سیاستدانوں کی اکثریت یہ سو چ رکھتی ہے کہ یہ عوام چند الوؤں کا جھمگٹا ہے چند بیوقوفوں کا ٹولہ ہے میں انھیں اچھی طرح سے بیوقوف بنا سکتا ہوں۔وہ عوام کو اس سے زیادہ کچھ اور نہیں سمجھتے 70سال سے ہمارا سماج دراصل اسی گمراہ کن آزمائش میں مبتلا ہے تقریباً ہر سیاستدان کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اٹھے جیتے اور لوٹنا کھسوٹنا شروع کر دے۔
پاکستان دنیا کا واحد نیم جمہوری ملک ہے جہاں سیاستدانوں کی اکثریت تمام تر اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہیں، تمام سانحات سے لاتعلقی، ملکی وقومی مسائل سے ناآشنا لوگوں سے بے پرواہ جن کا واحد مقصد لوٹ مارکرنا اور شام ہو تے ہی مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر تماشا لگانا رہ گیا ہے۔ یاد رہے تماشوں کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے کوئی نہ کوئی خیرکا پہلو ہوتا ہے، اس کے لیے بھی تیاری کی جاتی ہے، محنت کی جاتی ہے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
یہ واحد تماشے ہیں جنکا کوئی مقصد نہیں ہوتا یہ سیاستدان ملک و قوم کو مشکلوں اور بحرانوں سے کیا نکالیں گے جو خود مشکل اور بحران میں ہیں جن کا دن رات کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرتا کہ پاکستان کسی مرض میں مبتلا ہے دراصل وہ اپنے مرض کے علاج معالجے میں اتنے مصروف ہیں کہ انھیں اپنے ملک اور قوم کے مرض کے بارے میں غورکر نے کا موقع ہی نہیں ملتا، یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کرسکتے جو اخلاقی طور پر انتہائی پست ہیں۔
سیاست میں آنے کے بعد اپنے ملک کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا درس دینے کے لیے نکلے پڑے ہیں یہ سب کے سب بونے ہیں نہ تو ان کا کوئی ویژن ہے نہ ہی ان میں سمجھداری ہے۔ نہ ان میں اخلاق یا قابلیت ہے ان کی سو چ اور عمل صرف انتخابی سیاست تک محدود ہے اس سے زیادہ نہ یہ کوئی سوچ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت ان میں موجود ہے یہ صرف اپنے علاقے کی پولیس، ضلع انتظامیہ، علاقائی پٹواری تک ذہنی طورپر قید ہیں نہ ہی ان سب حضرات کو مطالعے یالکھنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی انھیں ملک وقوم کی ترقی، خوشحالی، مسائل، منصوبوں میں کوئی دلچسپی ہے ۔
ان کی روح لنگڑی دماغ اپاہج زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں یہ کیسے ملک اور قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں جو ملک اور قوم کا پیسہ لوٹ لوٹ کر اپنی جیبیں بھررہے ہیں آپ ان کی ہر سانس میں ریاکاری اور دغا بازی کا تعفن محسوس کرسکتے ہیں ، مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں '' میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دارہے ''ان سب حضرات کے لیے عرض ہے کہ عوام کو بیوقوف سمجھنے والو عوام تم سے زیادہ ذہن ، سمجھدار بااخلاق ، ایماندار اور تم سے زیادہ ویژن رکھنے والے ہیں، انھیں نہ صرف اپنے مسائل بلکہ ملکی مسائل سے بھی اچھی طرح آگاہی حاصل ہے اور ساتھ ساتھ وہ تمہاری ریاکاری سے بھی واقف ہیں،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم ان کے غم میں آنسو اس لیے بہاتے ہوکہ تم اپنا الو سیدھا کر سکو۔ پاکستان کے عوام ایسے لیڈرکے منتظر ہیں جو حضرت عمرؓکا سا اخلاص رکھتا ہو ۔ جو قائداعظم جیسی سوچ کا حامل ہو جو لنکن جیسا جذبہ رکھتا ہو جس میں خمینی جیسی جرأت ہو جس کے سینے میں کما ل اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جو زندگی بھر یہ غلطی کرتے ہیں اور اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ لوگ ان کی ذات میں دلچسپی لیں، ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت انھی بیشمار لوگوں میں شامل ہے۔ یاد رہے لوگوں کو آپ سے زیادہ اپنے آپ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لوگ آپ میں کوئی دلچسپی کیوں لیں جب پہلے خود آپ ان میں دلچسپی کااظہار نہیں کرینگے۔
ویانا کے مشہور ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے مقصد زندگی۔ وہ اس میں لکھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سر چشمہ ہیں۔
ایک مرتبہ نیویارک یونیورسٹی میں افسانہ نگاری کے امتحان کے کورس کے دوران مشہور رسالہ ''کولیر'' کے مدیر نے ایک لیکچر دیا اس نے کہا کہ میں اپنی میز پر بکھری پڑی درجنوں کہانیوں میں سے کسی ایک کو اٹھا کر چند پیرے ہی پڑھ کربتا سکتاہوں کہ افسانہ نگارکو لوگوں سے واقعی محبت ہے یا نہیں۔ اس نے کہا اگر مصنف لوگوں سے محبت نہیں کریگا تو لوگ بھی اس سے محبت نہیں کرینگے۔ اس نے کہا اگر آپ کامیاب افسانہ نگار بننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں سے محبت کرنا پڑیگی۔
آپ نے تھرسٹن کا نام تو سنا ہوگا جو دنیا بھر کے جادوگروں کا بے تاج بادشاہ اور شعبدے بازوں کا سردار تھا وہ چالیس برس تک دنیا میں گھومتا رہا لوگوں کو شعبدے دکھا تا اور ورطہ حیرت میں ڈالتا تھا۔ اس کا تماشا دیکھنے کے لیے چھ کروڑ سے زیادہ انسانوں نے ٹکٹ خرید ے اوراس نے آٹھ کروڑ سے زیادہ نفع کمایا اس کی کامیابی میں اس کی تعلیم کاکوئی دخل نہ تھا کیونکہ وہ بچپن ہی میں گھر سے بھاگ گیا تھا آوارہ پھرا گھاس پھوس میں سویا دردر بھیک مانگتا پھرا، ریلوے کی ملازمت کے دوران میں سفری ہوٹل سے باہر جھانک جھانک کر ریلوے لائن کے اردگرد لگے ہوئے سائن بورڈوں کو دیکھ کر پڑھنا سیکھا۔
اس نے کہا تھا کہ وہ انسانی فطرت سے واقف تھا اور اسے لوگوں سے سچا لگاؤ تھا اس نے بتایا تھا کہ اکثر جادو گر حاضرین پر ایک نظر ڈال کر اپنے آپ سے کہتے ہیں ''یہ چند الوؤں کا جھمگٹا ہے چند بیوقوفوں کا ٹولہ ہے میں انھیں اچھی طرح بے وقوف بنا سکتا ہوں'' لیکن وہ اسٹیج پر اس وقت تک قدم نہ رکھتا تھا جب تک وہ اپنے دل سے کئی بار یہ نہ کہہ لیتا کہ ''میں اپنے حاضرین سے محبت کرتا ہوں میں اپنے حاضرین کو دل و جان سے چاہتا ہوں'' دنیا کے اکثر جادوگروں کی طرح پاکستان کے سیاستدانوں کی اکثریت یہ سو چ رکھتی ہے کہ یہ عوام چند الوؤں کا جھمگٹا ہے چند بیوقوفوں کا ٹولہ ہے میں انھیں اچھی طرح سے بیوقوف بنا سکتا ہوں۔وہ عوام کو اس سے زیادہ کچھ اور نہیں سمجھتے 70سال سے ہمارا سماج دراصل اسی گمراہ کن آزمائش میں مبتلا ہے تقریباً ہر سیاستدان کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اٹھے جیتے اور لوٹنا کھسوٹنا شروع کر دے۔
پاکستان دنیا کا واحد نیم جمہوری ملک ہے جہاں سیاستدانوں کی اکثریت تمام تر اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہیں، تمام سانحات سے لاتعلقی، ملکی وقومی مسائل سے ناآشنا لوگوں سے بے پرواہ جن کا واحد مقصد لوٹ مارکرنا اور شام ہو تے ہی مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر تماشا لگانا رہ گیا ہے۔ یاد رہے تماشوں کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے کوئی نہ کوئی خیرکا پہلو ہوتا ہے، اس کے لیے بھی تیاری کی جاتی ہے، محنت کی جاتی ہے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
یہ واحد تماشے ہیں جنکا کوئی مقصد نہیں ہوتا یہ سیاستدان ملک و قوم کو مشکلوں اور بحرانوں سے کیا نکالیں گے جو خود مشکل اور بحران میں ہیں جن کا دن رات کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرتا کہ پاکستان کسی مرض میں مبتلا ہے دراصل وہ اپنے مرض کے علاج معالجے میں اتنے مصروف ہیں کہ انھیں اپنے ملک اور قوم کے مرض کے بارے میں غورکر نے کا موقع ہی نہیں ملتا، یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کرسکتے جو اخلاقی طور پر انتہائی پست ہیں۔
سیاست میں آنے کے بعد اپنے ملک کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا درس دینے کے لیے نکلے پڑے ہیں یہ سب کے سب بونے ہیں نہ تو ان کا کوئی ویژن ہے نہ ہی ان میں سمجھداری ہے۔ نہ ان میں اخلاق یا قابلیت ہے ان کی سو چ اور عمل صرف انتخابی سیاست تک محدود ہے اس سے زیادہ نہ یہ کوئی سوچ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت ان میں موجود ہے یہ صرف اپنے علاقے کی پولیس، ضلع انتظامیہ، علاقائی پٹواری تک ذہنی طورپر قید ہیں نہ ہی ان سب حضرات کو مطالعے یالکھنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی انھیں ملک وقوم کی ترقی، خوشحالی، مسائل، منصوبوں میں کوئی دلچسپی ہے ۔
ان کی روح لنگڑی دماغ اپاہج زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں یہ کیسے ملک اور قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں جو ملک اور قوم کا پیسہ لوٹ لوٹ کر اپنی جیبیں بھررہے ہیں آپ ان کی ہر سانس میں ریاکاری اور دغا بازی کا تعفن محسوس کرسکتے ہیں ، مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں '' میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دارہے ''ان سب حضرات کے لیے عرض ہے کہ عوام کو بیوقوف سمجھنے والو عوام تم سے زیادہ ذہن ، سمجھدار بااخلاق ، ایماندار اور تم سے زیادہ ویژن رکھنے والے ہیں، انھیں نہ صرف اپنے مسائل بلکہ ملکی مسائل سے بھی اچھی طرح آگاہی حاصل ہے اور ساتھ ساتھ وہ تمہاری ریاکاری سے بھی واقف ہیں،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم ان کے غم میں آنسو اس لیے بہاتے ہوکہ تم اپنا الو سیدھا کر سکو۔ پاکستان کے عوام ایسے لیڈرکے منتظر ہیں جو حضرت عمرؓکا سا اخلاص رکھتا ہو ۔ جو قائداعظم جیسی سوچ کا حامل ہو جو لنکن جیسا جذبہ رکھتا ہو جس میں خمینی جیسی جرأت ہو جس کے سینے میں کما ل اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو۔