ڈیووس 2018ء میں پاکستان کی نمائندگی
اس فورم پر پاکستان کی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ہمیں بساط بھر کوشش کرنی ہوگی۔
ہر برس عالمی اقتصادی فورم ڈیووس کے سیاحتی شہر میں منعقد ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ امیروں کا کلب ہے، صرف دولت مندوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور یہاں ہونے والی سرگرمیوں کا سروکار صرف دنیا کے امیرترین اور ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ عالمی اقتصادی فورم اس بنیاد پر قائم کیا گیا تھا کہ اگر سماج کے سبھی حلقے انسانیت کو درپیش مسائل کا مل جل کر حل تلاش نہ کریں تو ان مسائل کے باعث پیدا ہونے والے خلا میں کاروباری سرگرمیاں نمو پذیر نہیں ہوسکتیں۔
دنیا کو درپیش پیچیدہ مسائل میں سے اہم ترین کے حل کی جانب پیش قدمی کے لیے یہ ایک انتہائی منفرد فورم ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی اقتصادی فورم حقیقی معنوں میں ایک آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تنظیم ہے، جس کے کوئی مخصوص مفادات نہیں اور نہ یہ کسی گروہی مفاد سے منسلک ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کی 48سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس برس پاکستان کی بھرپور نمایندگی کے لیے پاکستان پویلین کا قیام عمل میں آیا۔ یہ پاکستان کے نجی شعبے کے دو صف اول کے بزنس ہاؤسز پاتھ فائنٹر گروپ اور مارٹن ڈو گروپ کا مشترکہ اقدام تھا۔ اس پویلین کی صورت میں ایک منی پاکستان دکھانے کی کوشش کی گئی، جس میں شرکاء کو ترقی کی منازل طے کرتے پاکستان کی وہ تصویر پیش کی گئی جو دنیا میں قائم اس سے متعلق عام تصورات سے یکسر مختلف تھی۔
اس پویلین میں معاشی خدمات، فلاح و بہبود، آئی ٹی ، میڈیا اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی انٹرپرینیور اور پروفیشنلز کی بڑی تعداد موجود تھی، جو عالمی فورم میں شریک بین الاقوامی سرمایہ کاروں، ماہرین اور عام افراد سے میل میلاپ اور گفت و شنید کے لیے خصوصی طور پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ اس پویلین کے قیام کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان سے متعلق پائے جانے والے منفی تصورات کو زائل کرنے کے لیے اس کا مثبت امیج حاضرین اور شرکاء کے سامنے پیش کیا جائے۔
پویلین کے لیے سوئز ایشیئن چیمبر آف کامرس (SACC)کی معاونت حاصل رہی۔ پاکستان پویلین اس لیے بھی متعلق ثابت ہوا کہ یہ مختلف سیکٹرز سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کو متوجہ کرنے میں کام یاب رہا۔ SACCکی سیکریٹری جنرل محترمہ باربرا موکلی شنیڈر نے جس فراخ دلی اور جوش و جذبے سے تعاون کیا، اس کے بغیر ''پاکستان پویلین'' ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری جانب ایک حکومتی اہل کار تھے جو عدم تعاون پر اڑے رہے، ان کی ٹال مٹول کی وجہ سے قریب تھا کہ یہ کام تکمیل ہی کو نہ پہنچتا جب کہ باربرا مسلسل اسے سوئز نمایندگی کے لیے بہتر موقع قراردینے کے مؤقف پر مصر رہیں۔
قواعد و ضوابط کا اطلاق کس طرح ہونا چاہیے ، انھیں تشکیل دینے والے اس حوالے سے اختیارات بھی رکھتے ہیں اور کوئی بھی ذمے دار فرد اس بات سے بے خبر نہیں ہوتا۔ اسی لیے باربرا جیسے لوگ کسی معمولی افسر کے مقابلے میں دو ممالک کے باہمی تعلقات کے اعتبار سے بہت زیادہ اہم ہیں۔ شکریہ SACC، شکریہ باربرا!
مارٹن ڈو کیمیکلز کے سی ای او جاوید اکھائی اور بطور چیئرمین پاتھ فائنڈر گروپ راقم نے پاکستان پویلین میں نجی شعبے کی نمایندگی کی۔ پاتھ فائنڈر گروپ کی مختلف کمپنیوں کے سربراہان بھی موجود رہے۔ پاتھ فائنڈر ملک میں سیکیورٹی خدمات فراہم کرنے والا سب سے بڑا گروپ ہے،یہ پاکستان کے سبھی بڑے شہروں اور قصبوں میں خدمات فراہم کررہا ہے۔ چیئرمین مارٹن ڈو پاکستان پویلین سے متعلق بہت پر امید تھے۔ان کا کہنا تھا ''یہ پلیٹ فورم پاکستان کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کئی مقررین نے پاکستانی تناظر میں گفتگو کی اور یہی سب سے اہم بات ہے کہ دنیا کے سامنے ہمارا نقطہ نظر واضح ہونا چاہیے۔''
کراچی میں قائم ہونے والا فلاحی ادارہ امن فاؤنڈیشن پاکستان پویلین کے شرکاء میں شامل تھا۔ اس فاؤنڈیشن نے صحت عامہ کے اہم مسائل سے متعلق غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ معیاری تعلیم و صحت کی خدمات تک یکساں رسائی فراہم کرنے کے لیے کوشاں یہ ادارہ سماج میں ان شعبوں سے متعلق مطابقت پیدا کرنے کے لیے وسیع بنیادوں پر کام کررہا ہے۔ پویلین کا دورہ کرنے والوں کو فاؤنڈیشن کی فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
عالمی اقتصادی فورم میں امن فاؤنڈیشن کی شرکت سے متعلق فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن اور شریک بانی فائزہ نقوی کا کہنا تھا:''ہماری دنیا کو آج جو گنجلک سماجی اور معاشی چیلنج درپیش ہیں ہم ان کے جدید، اور قابل عمل حل کی راہیں کھوجنے کے لیے یہاں پاکستان کے سوشل انٹرپریونرز کی نمایندگی کررہے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ شرکت ہماری ان آرزؤں کو عملی صورت میں لانے کے قریب تر کرے گی جو ہم شدید خطرات کا شکار کمیونٹیز کی زندگیوں میں تبدیلی اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے رکھتے ہیں۔ '' ہمیں بلا شبہ ایک فلاحی ادارے کے طور پر ڈیووس 2018میں امن فاؤنڈیشن کی شرکت پر فخر ہونا چاہیے کیوں کہ'' عوام کو اپنے لیے راہ عمل متعین کرنے کے قابل کرنا ہمارا وژن ہے۔ اس سلسلے میں امن فاؤنڈیشن نے غیر معمولی پروگرام تشکیل دیے ہیں۔''
پاکستان سے شرکت کرنے والی ممتاز شخصیات میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین اور ہرٹ لائف کی صدر اور بانی ثانیہ نشتر بھی شامل تھے۔ پاکستان کو درپیش کئی چیلنجز کے باوجود عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں کئی پُرکشش مواقع پر بات کی گئی۔ ڈاکٹر عشرت نے انتہائی باوقار انداز میں معیشت اور حکمرانی سے متعلق مسائل پر اظہار خیال کیا۔ پویلین کا دورہ کرنے والے حقائق پر ان کی گرفت اور مسائل کے ممکنہ حل سے متعلق ان کی بصیرت افروز تجاویز سے بہت متاثر ہوئے۔
مقررین میں ڈاکٹر ہما بقائی ، سدرہ اقبال، عامر محمود اور دیگر کے علاوہ سفیر مصطفی کمال قاضی بھی شامل تھے۔ پاکستان کی معیشت، خارجہ پالیسی، صنفی توازن، نظام قانون و انصاف اور دیگر اہم موضوعات سے تمام مقررین نے پورا انصاف کیا۔ صنفی توازن سے متعلق ہونے والے مباحثے میں اس وقت گرمجوشی دیدنی تھی جب کئی شرکاء نے پاکستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق اپنا مؤقف پرُزور انداز میں پیش کیا۔ پویلین کے کئی مہمانوں کے لیے یہ بات حیران کُن تھی کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں پارلیمان میں خواتین کو غیر معمولی نمایندگی حاصل ہے۔
دونوں دن مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے وزیٹر پاکستان کے متعلق گہری آگاہی کے لیے پویلین کا تسلسل سے دورہ کرتے رہے، یہی اس پویلین کی بڑی کام یابی رہی۔ متعلقہ شعبوں میں مثبت تأثر تشکیل دینے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 25 جنوری 2018کو پاکستان بریک فاسٹ سے 30منٹ کے اپنے خطاب میں، ملک کی معاشی اور سلامتی امور پر بات کرتے ہوئے اس اقدام کی بے حد تحسین کی۔
بدقسمتی سے پاکستان کی عالمی سطح پر پروموشن کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ پاکستان پویلین کو ملنے والی پذیرائی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگر اس جانب توجہ دی جائے تو دنیا میں پاکستان کے منفی تصور کو تبدیل کرنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔
پاکستان پویلین عالمی برادری کو مثبت پیغام دینے میں کام یاب رہا۔ منتظمین کے مطابق ''پاکستان کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے اور یہ پویلین اسی سلسلے میں کیا گیا تجربہ ہے۔'' ہر چند کہ یہ پہلا اور چھوٹا قدم ہے، لیکن اسے امید افزا مستقبل کی جانب سفر کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے متعلق عالمی سطح پر پائے جانے والے تأثر کو مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے حوالے سے پاکستان پویلین میں دور رس نتائج مرتب کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
دیگر باتوں کے ساتھ اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر ضروری ہے۔ پاکستان سے متعلق پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کی وجہ سے اس کی پروموشن کوئی آسان کام نہیں، اس لیے پاکستان سے تعلق رکھنے والے نمایاں انٹرپرینیورز کو ڈیووس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ قدم بڑھانے کا یہی وقت ہے تاکہ ہم بھی شمار قطار میں آئیں۔
ہم ڈیووس میں ہونے والے اس اجتماع کو نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس فورم پر پاکستان کی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ہمیں بساط بھر کوشش کرنی ہوگی۔ ان کوششوں کا نتیجہ اسی طرح ہماری توقع سے بڑھ کر ہوسکتا ہے جس طرح ''پاکستان پویلین'' ملک کا روشن اور مثبت چہرہ دکھانے کے لیے ایک بڑا قدم ثابت ہوا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں)
دنیا کو درپیش پیچیدہ مسائل میں سے اہم ترین کے حل کی جانب پیش قدمی کے لیے یہ ایک انتہائی منفرد فورم ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی اقتصادی فورم حقیقی معنوں میں ایک آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تنظیم ہے، جس کے کوئی مخصوص مفادات نہیں اور نہ یہ کسی گروہی مفاد سے منسلک ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کی 48سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس برس پاکستان کی بھرپور نمایندگی کے لیے پاکستان پویلین کا قیام عمل میں آیا۔ یہ پاکستان کے نجی شعبے کے دو صف اول کے بزنس ہاؤسز پاتھ فائنٹر گروپ اور مارٹن ڈو گروپ کا مشترکہ اقدام تھا۔ اس پویلین کی صورت میں ایک منی پاکستان دکھانے کی کوشش کی گئی، جس میں شرکاء کو ترقی کی منازل طے کرتے پاکستان کی وہ تصویر پیش کی گئی جو دنیا میں قائم اس سے متعلق عام تصورات سے یکسر مختلف تھی۔
اس پویلین میں معاشی خدمات، فلاح و بہبود، آئی ٹی ، میڈیا اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی انٹرپرینیور اور پروفیشنلز کی بڑی تعداد موجود تھی، جو عالمی فورم میں شریک بین الاقوامی سرمایہ کاروں، ماہرین اور عام افراد سے میل میلاپ اور گفت و شنید کے لیے خصوصی طور پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ اس پویلین کے قیام کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان سے متعلق پائے جانے والے منفی تصورات کو زائل کرنے کے لیے اس کا مثبت امیج حاضرین اور شرکاء کے سامنے پیش کیا جائے۔
پویلین کے لیے سوئز ایشیئن چیمبر آف کامرس (SACC)کی معاونت حاصل رہی۔ پاکستان پویلین اس لیے بھی متعلق ثابت ہوا کہ یہ مختلف سیکٹرز سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کو متوجہ کرنے میں کام یاب رہا۔ SACCکی سیکریٹری جنرل محترمہ باربرا موکلی شنیڈر نے جس فراخ دلی اور جوش و جذبے سے تعاون کیا، اس کے بغیر ''پاکستان پویلین'' ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری جانب ایک حکومتی اہل کار تھے جو عدم تعاون پر اڑے رہے، ان کی ٹال مٹول کی وجہ سے قریب تھا کہ یہ کام تکمیل ہی کو نہ پہنچتا جب کہ باربرا مسلسل اسے سوئز نمایندگی کے لیے بہتر موقع قراردینے کے مؤقف پر مصر رہیں۔
قواعد و ضوابط کا اطلاق کس طرح ہونا چاہیے ، انھیں تشکیل دینے والے اس حوالے سے اختیارات بھی رکھتے ہیں اور کوئی بھی ذمے دار فرد اس بات سے بے خبر نہیں ہوتا۔ اسی لیے باربرا جیسے لوگ کسی معمولی افسر کے مقابلے میں دو ممالک کے باہمی تعلقات کے اعتبار سے بہت زیادہ اہم ہیں۔ شکریہ SACC، شکریہ باربرا!
مارٹن ڈو کیمیکلز کے سی ای او جاوید اکھائی اور بطور چیئرمین پاتھ فائنڈر گروپ راقم نے پاکستان پویلین میں نجی شعبے کی نمایندگی کی۔ پاتھ فائنڈر گروپ کی مختلف کمپنیوں کے سربراہان بھی موجود رہے۔ پاتھ فائنڈر ملک میں سیکیورٹی خدمات فراہم کرنے والا سب سے بڑا گروپ ہے،یہ پاکستان کے سبھی بڑے شہروں اور قصبوں میں خدمات فراہم کررہا ہے۔ چیئرمین مارٹن ڈو پاکستان پویلین سے متعلق بہت پر امید تھے۔ان کا کہنا تھا ''یہ پلیٹ فورم پاکستان کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کئی مقررین نے پاکستانی تناظر میں گفتگو کی اور یہی سب سے اہم بات ہے کہ دنیا کے سامنے ہمارا نقطہ نظر واضح ہونا چاہیے۔''
کراچی میں قائم ہونے والا فلاحی ادارہ امن فاؤنڈیشن پاکستان پویلین کے شرکاء میں شامل تھا۔ اس فاؤنڈیشن نے صحت عامہ کے اہم مسائل سے متعلق غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ معیاری تعلیم و صحت کی خدمات تک یکساں رسائی فراہم کرنے کے لیے کوشاں یہ ادارہ سماج میں ان شعبوں سے متعلق مطابقت پیدا کرنے کے لیے وسیع بنیادوں پر کام کررہا ہے۔ پویلین کا دورہ کرنے والوں کو فاؤنڈیشن کی فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
عالمی اقتصادی فورم میں امن فاؤنڈیشن کی شرکت سے متعلق فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن اور شریک بانی فائزہ نقوی کا کہنا تھا:''ہماری دنیا کو آج جو گنجلک سماجی اور معاشی چیلنج درپیش ہیں ہم ان کے جدید، اور قابل عمل حل کی راہیں کھوجنے کے لیے یہاں پاکستان کے سوشل انٹرپریونرز کی نمایندگی کررہے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ شرکت ہماری ان آرزؤں کو عملی صورت میں لانے کے قریب تر کرے گی جو ہم شدید خطرات کا شکار کمیونٹیز کی زندگیوں میں تبدیلی اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے رکھتے ہیں۔ '' ہمیں بلا شبہ ایک فلاحی ادارے کے طور پر ڈیووس 2018میں امن فاؤنڈیشن کی شرکت پر فخر ہونا چاہیے کیوں کہ'' عوام کو اپنے لیے راہ عمل متعین کرنے کے قابل کرنا ہمارا وژن ہے۔ اس سلسلے میں امن فاؤنڈیشن نے غیر معمولی پروگرام تشکیل دیے ہیں۔''
پاکستان سے شرکت کرنے والی ممتاز شخصیات میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین اور ہرٹ لائف کی صدر اور بانی ثانیہ نشتر بھی شامل تھے۔ پاکستان کو درپیش کئی چیلنجز کے باوجود عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں کئی پُرکشش مواقع پر بات کی گئی۔ ڈاکٹر عشرت نے انتہائی باوقار انداز میں معیشت اور حکمرانی سے متعلق مسائل پر اظہار خیال کیا۔ پویلین کا دورہ کرنے والے حقائق پر ان کی گرفت اور مسائل کے ممکنہ حل سے متعلق ان کی بصیرت افروز تجاویز سے بہت متاثر ہوئے۔
مقررین میں ڈاکٹر ہما بقائی ، سدرہ اقبال، عامر محمود اور دیگر کے علاوہ سفیر مصطفی کمال قاضی بھی شامل تھے۔ پاکستان کی معیشت، خارجہ پالیسی، صنفی توازن، نظام قانون و انصاف اور دیگر اہم موضوعات سے تمام مقررین نے پورا انصاف کیا۔ صنفی توازن سے متعلق ہونے والے مباحثے میں اس وقت گرمجوشی دیدنی تھی جب کئی شرکاء نے پاکستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق اپنا مؤقف پرُزور انداز میں پیش کیا۔ پویلین کے کئی مہمانوں کے لیے یہ بات حیران کُن تھی کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں پارلیمان میں خواتین کو غیر معمولی نمایندگی حاصل ہے۔
دونوں دن مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے وزیٹر پاکستان کے متعلق گہری آگاہی کے لیے پویلین کا تسلسل سے دورہ کرتے رہے، یہی اس پویلین کی بڑی کام یابی رہی۔ متعلقہ شعبوں میں مثبت تأثر تشکیل دینے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 25 جنوری 2018کو پاکستان بریک فاسٹ سے 30منٹ کے اپنے خطاب میں، ملک کی معاشی اور سلامتی امور پر بات کرتے ہوئے اس اقدام کی بے حد تحسین کی۔
بدقسمتی سے پاکستان کی عالمی سطح پر پروموشن کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ پاکستان پویلین کو ملنے والی پذیرائی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگر اس جانب توجہ دی جائے تو دنیا میں پاکستان کے منفی تصور کو تبدیل کرنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔
پاکستان پویلین عالمی برادری کو مثبت پیغام دینے میں کام یاب رہا۔ منتظمین کے مطابق ''پاکستان کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے اور یہ پویلین اسی سلسلے میں کیا گیا تجربہ ہے۔'' ہر چند کہ یہ پہلا اور چھوٹا قدم ہے، لیکن اسے امید افزا مستقبل کی جانب سفر کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے متعلق عالمی سطح پر پائے جانے والے تأثر کو مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے حوالے سے پاکستان پویلین میں دور رس نتائج مرتب کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
دیگر باتوں کے ساتھ اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر ضروری ہے۔ پاکستان سے متعلق پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کی وجہ سے اس کی پروموشن کوئی آسان کام نہیں، اس لیے پاکستان سے تعلق رکھنے والے نمایاں انٹرپرینیورز کو ڈیووس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ قدم بڑھانے کا یہی وقت ہے تاکہ ہم بھی شمار قطار میں آئیں۔
ہم ڈیووس میں ہونے والے اس اجتماع کو نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس فورم پر پاکستان کی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ہمیں بساط بھر کوشش کرنی ہوگی۔ ان کوششوں کا نتیجہ اسی طرح ہماری توقع سے بڑھ کر ہوسکتا ہے جس طرح ''پاکستان پویلین'' ملک کا روشن اور مثبت چہرہ دکھانے کے لیے ایک بڑا قدم ثابت ہوا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں)