تخلیقی زاویے
خیال آفاقی کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہ کتاب اور قلم کے بغیر ان کی شخصیت کا تصور ممکن نہیں۔
''تخلیقی زاویے'' پروفیسر غازی علم الدین کے شخصی خاکے اور تنقید اور ادب پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین جیسا کہ ڈاکٹر اسلم انصاری فرماتے ہیں، لکھنے والے کے مطالعے کی وسعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان اور ادب سے ان کی گہری دلچسپی اور وابستگی کا ثبوت ہیں، خاص طور پر اردو کے معاملے میں تو ان کی کمٹمنٹ قابل رشک ہے۔
پروفیسر غازی علم الدین نے جن شخصیات پر قلم اٹھایا ہے ان کا خاکہ نہیں لکھا، ان کا مطالعہ کیا ہے۔ ایک شخصیت سیف اللہ خالد کی ہے۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں ''سیف اﷲ خالد جینوئن ادیب، شاعر اور نقاد ہیں۔ وہ روایتی تمکنت، کج کلاہی، وضع داری، صاف گوئی، بے باکی، بانکپن، زندہ دلی، شائستگی اور نفاست کا مرقع ہیں۔ وہ ایسے ہیں کہ ہواؤں سے لڑ کر چراغ روشن رکھنے کی ضد کرتے ہیں۔ ان کی رومانوی شاعری میں جذبہ دل کی آئینہ داری ہے اور نثر اپنا ایک الگ اسلوب رکھتی ہے۔ ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو ان کی درد مندی اور رقت قلبی ہے۔''
ڈاکٹر انور سدید کا ذکر کرتے ہیں تو علم الدین ان کی فکرکے کچھ درخشاں پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ لکھتے ہیں '' انور سدید کا ادبی، تحقیقی، تنقیدی اور شعری اثاثہ اس حقیقت کا شاہد ہے کہ وہ عمر بھر اردو زبان کی بقا کی جنگ لڑتے رہے، انھیں اپنی قومی زبان سے شدید محبت تھی اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ان کا کل تخلیقی اور ادبی سرمایہ صرف اسی ایک زبان میں ہے۔ ان کا ایقان تھا کہ ملکی سالمیت، قومی یکجہتی اور صوبائی ہم آہنگی کے فروغ میں اردو ہی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے'' غازی علم الدین انور سدید کی غزل کو زندہ غزل قرار دیتے ہیں اور ان کے انسانوں میں انھیں ماحول کے ہر رنگ کی عکاسی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر ماجد دیوبندی کی شخصیت کا تجزیہ پروفیسر علم الدین نے ان کی شاعری کے حوالے سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں '' ڈاکٹر ماجد کی غزلوں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک شگفتہ خاندانی وراثت کے پاسبان ہیں۔ ان کا دل پذیر انداز غزل گوئی ان کے فکروخیال کی پاکیزگی اور رعنائی کا آئینہ دار ہے۔''
پروفیسر غازی علم الدین نے ایک مضمون میں جامعہ کراچی کی علمی شخصیت، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی خدمات کا جائزہ لیا ہے وہ لکھتے ہیں ''صاف ستھرے اور اعلیٰ ادبی ذوق کی حامل، ایک پھول کا مضمون سورنگ میں باندھنے کا ہنر جاننے والی ڈاکٹر نگارکے قلمی میدان کی تگ و تاز کی کئی جہتیں ہیں اور ان جہتوں کے متنوع پرتیں اور تہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اسلامی تاریخ کی استاد اور محققہ ہیں اردو ادب کی مشاق ادیبہ ہیں، دینی مباحث پر ان کی تحقیقی حاصلات ان کے مطالعے کی وسعت کا پتہ دیتے ہیں، تحقیقی، صحافتی اور تجزیاتی محاذ پر بھی کامیابی سے براجمان ہیں۔ اسلامی تاریخ پر آٹھ کتابوں سے ان کی ناقدانہ بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔''
پروفیسر منیر احمد یزدانی معروف اقبال شناس ہیں غازی علم الدین لکھتے ہیں ''وہ ایک محقق، مصنف اور مدرس ہیں جو ہر سہ جہات پر سادہ اور عام فہم انداز میں فکر اقبال کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، منیر احمد یزدانی نے اقبالیات میں تحقیق کی اور اس موضوع پر ان کی دو کتابوں نے اہل علم و قلم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی، انشا پرداز ہیں کہ یہ ایک استاد کی شان ہوتی ہے۔ تنقید پڑھاتے اور لکھتے ہیں''
پروفیسر غازی علم الدین کی کتاب میں ایک باب نقد و نظر کا ہے اور ایک زبان و ادب کا آخر میں ''روبرو'' کے عنوان کے دو انٹرویو ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اس باب میں جن ادیبوں اور شاعروں کی کاوشوں پر تنقیدی نظر ڈالی ہے ، ان میں ندیم صدیقی کی کتاب ''پرسہ'' حامد سعید اختر کی تحقیقی تصنیف ''صد شعرِ غالبؔ'' خواجہ محمد عارف اور ڈاکٹر ماجد دیوبندی کی نعت گوئی، صائمہ کامران کا خوبصورت شعری مجموعہ ''پانچواں موسم'' نذیر فتح پوری کی خود نوشت ''بیتے کل کا اِک اِک پل'' جس میں انھوں نے دانہ دانہ واقعات جمع کرکے اپنے بچپن اور نوجوانی کی بازیافت کی ہے اور رفعت شمیم کا تیسرا شعری مجموعہ ''ریت کا سمندر'' ہے جس میں نئی فکر اور نئے تجربوں کے نقوش اور عصری آگہی کے واضح اشارے ملتے ہیں، کرشن کمار طور کی غزل جس میں معرفت، فلسفہ اور تصوف کے عناصر کا پروفیسر علم الدین نے کھوج لگایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ طور کی شاعری میں روایت پسندی اور جدت پسندی دونوں دکھائی دیتی ہیں ان کے کلام کی ایک خوبی سادگی اور روانی ہے۔
پروفیسر رفیق بھٹی کی غزلوں کے مجموعے ''ریگ زار'' کے بارے میں غازی علم الدین لکھتے ہیں ''انھوں نے روایتی موضوعات سے گریز کیا ہے۔ ان کا اپنا ایک فکری، نظری اور علمی پس منظر ہے ان کاکلام ماضی اور مستقبل سے زیادہ حال کا غماز ہے اگرچہ ماضی کا تجربہ اور مستقبل کی پیش بینی بھی نظر آتی ہے''ڈاکٹر ندیم شفیق ملک مطالعہ اور تحقیق کے مرد میدان ہیں، ان کی تصنیف، ''نوادرات علامہ اقبال'' کے بارے میں پروفیسر غازی لکھتے ہیں کہ یہ کتاب دراصل حقائق کی بازیافت ہے ڈاکٹر صاحب نے اسے مرتب کرکے اقبال کی شخصیت اور شاعری مخفی گوشے تلاش کرکے محفوظ کردیے ہیں، اسی طرح کی ایک کاوش ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے علامہ اقبال کے چند نادر و نایاب خطوط حواشی اور تشریحات کے ساتھ جمع کیے ہیں۔ یہ خطوط بھی علامہ کی زندگی کی مخفی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
''پرسہ'' ندیم صدیقی کی تصنیف اور اردو قبیلہ، ممبئی (ہندوستان) کی خوبصورت پیشکش ہے جس پر پروفیسر غازی علم الدین اپنی کتاب میں اظہار خیال کیا ہے۔ یہ ان کے الفاظ میں ایک ''تاثراتی اور لسانی مطالعہ'' ہے وہ لکھتے ہیں ''مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ ندیم صدیقی نے خاکہ نگاری، شخصیت نگاری اور تذکرہ نگاری میں سے کسے اپنے تخلیقی ہنر کا میدان ٹھہرایا ہے۔ مصنف نے منتخب شخصیات کے باطن اور ماحول کی ایسی لفظی تصویر کشی کی ہے کہ جس سے ممدوح اپنی بیشتر خصوصیات کے ساتھ تاثرات، تصورات کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ ان تحریروں میں ندیم صدیقی مختلف جہتوں سے واضح تصویر ہی بناتے ہیں اور ثقافت، تہذیب اور گزرے لمحوں کے المیے کو بھی سامنے لاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کو پرسہ ہے جو زبان وادب سے مخلص تھے۔''
غازی علم الدین لکھتے ہیں ''پرسہ'' میں بڑا متنوع ادبی و ثقافتی، لسانی و شعری پس منظر غیر معمولی عمق کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اپنے اساتذہ، ہم عصر شعرا اور اہل صحافت کے بارے میں ندیم صدیقی نے ایسے نفیس جذبات و تاثرات قلم بند کیے ہیں جو صرف دل کی گہرائیوں سے محسوس کیے جاتے ہیں، ان کے لیے کسی تجزیے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے ساری زندگی ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی درمیان گزاری ہے، ان کے دکھ درد اورکرب کو قریب سے دیکھا ہے ان کی تخلیقی مہارت، ان کے علم و ادب اور شعر و نثر کو پرکھنے کا ہنر بھی سیکھا ہے۔''
''تخلیقی زاویے'' میں پروفیسر غازی علم الدین کے ساتھ ایک انٹرویو بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اپنے بچپن، تعلیمی کیریئر، تدریس اور اپنے ادارتی اور تدوینی سفر اور تجربے کا ذکرکیا ہے۔ اپنے بچپن کے دور کا حال بیان کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں ''میری پیدائش کسان گھرانے میں ہوئی، بچپن سے لے کر نوجوانی تک مجھے کھیتی باڑی کا کام بہت کرنا پڑا، گندم کی بوائی، کٹائی، کھلیان بنانا اور پھلہے کے ساتھ گاہنے میں بھی مجھ سے اچھی خاصی مشقت لی جاتی جون جولائی کے مہینے میں دھان کی فصل کے لیے پنیری اگانا، اکھاڑنا اور لاب لگانا، ایک ایک پودا زمین گاڑنا، پھر فصل پکنے پر کاٹنا، جھاڑنا اور سنبھالنا مشقت اور مسرت ایک ساتھ چلتے تھے''
در حقیقت یہ ساری مشقت اس تخلیقی عمل کی تیاری تھی جو آگے چل کر پروفیسر علم الدین کو انجام دینا تھا۔ خیال آفاقی کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہ کتاب اور قلم کے بغیر ان کی شخصیت کا تصور ممکن نہیں، غازی صاحب ان کا ایک شعر لکھتے ہیں جو خود پروفیسر صاحب پر صادق آتا ہے۔
مجھے قلم، فرہاد کو تیشہ، مجنون کو کشکول دیا
عشق نے دل والوں کو جو بھی کام دیا انمول دیا