زندگی کے شب و روز کا ایک جائزہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہی حقیقی اور کام یاب زندگی ہے جس پر ہم اتنا مغرور ہیں یا کسی دھوکے نے ہماری عقل پر پردے۔۔۔


March 28, 2013
ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہی حقیقی اور کام یاب زندگی ہے جس پر ہم اتنا مغرور ہیں یا کسی دھوکے نے ہماری عقل پر پردے ڈال رکھے ہیں۔ فوٹو: فائل

اکثر مشاہدے میں آتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان دو چار روز مسجد کا رخ کرنے لگے اور اللہ کے فضل سے اُس کے ہاتھوں کچھ اچھے کام بھی ہو جائیں تو اُس کے اندر غرور و تکبر کا مادہ جنم لینے لگتا ہے، اُسے اپنے اردگرد دیگر مسلمان ''گنہگار'' اور کم تر محسوس ہونے لگتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی کے پاس مال و دولت کی کثرت ہے تو اُس کی گردن اکڑ جاتی ہے، وہ غریبوں اور کم علم لوگوں سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ایسے بیسوں معاملات ہیں جن کا تذکرہ یہاں کیا جا سکتا ہے لیکن ہم انہی پہ اکتفا کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہی حقیقی اور کام یاب زندگی ہے جس پر ہم اتنا مغرور ہیں یا کسی دھوکے نے ہماری عقل پر پردے ڈال رکھے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے مومنو! کہیں تم کو تمہارا مال اور اولاد میری یاد سے غافل نہ کر دے، اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اُٹھانے والے ہیں۔'' (المنافقون: 1)

یعنی قرآن نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مال اور اولاد کی محبت تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دور کر سکتی ہے اور جو لوگ ان دونوں کی محبت میں اللہ تعالیٰ سے دور ہو گئے تو وہ خسارہ اُٹھائیں گے۔

اسی طرح نبی اکرمؐ نے بھی ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)

کیا ہم نبی کریمؐ سے اس درجے کی محبت کرتے ہیں؟ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اپنے والدین کی محبت میں نہ سہی، اپنی اولاد اور دنیا داروں کی محبت ہی میں کھوئے رہتے ہیں اور سیدِ عالمؐ کے فرامینِ مقدس پر غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ''جانتے ہو مفلس کسے کہتے ہیں؟ عرض کیا جس کے پاس درہم و دینار اور سامان کم ہو۔ فرمایا میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز زکوۃ اور روزے لے کر آئے گا اور ساتھ ساتھ کسی کو گالی دی ہوگی' کسی پر بہتان لگایا ہوگا' کسی کا مال کھایا ہوگا' کسی کا خون بہایا ہوگا' کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیاں ان مذکورہ لوگوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ اگر حق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس کے سر ڈال کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔'' (صحیح مسلم)

حدیثِ پاک پر غور کریں کہ ہمارے کتنے ہی ایسے نادان بھائی ہیں جو بے حسی کے اِن عوامل کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ کہ آج آپ کو مساجد تو بھری ہوئی نظر آئیں گی مگر نفسا نفسی کے اِس دور میں اخلاقی حوالے سے ہم کس قدر پستی کا شکار ہیں، اِس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

حدیثِ قدسی میں ربِ قدوس نے ارشاد فرمایا: ''میری محبت، واجب ہوگئی ان لوگوں کے لیے جو میری خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں۔ میری خاطر ایک دوسرے کی ملاقات کو جائیں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کریں۔'' (مسند امام احمد)

کیا آج کے اِس دور میں ہم صرف اور صرف مال وزر اور دنیاوی عہدوں کی بنیاد پر لوگوں کی عزت اور احترام نہیں کرتے؟ جسے ہم عرفِ عام میں ''جھوٹی عزت'' کہیں گے، کیوں کہ اصل عزت تو وہ ہوتی ہے جو بغیر کسی لالچ کے ایک انسان دوسرے انسان کے حسن سلوک اور اچھے کردار کی بنیاد پر کرتا ہے۔

حضرت ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں: آپؐ نے مجھے اس بات کا حکم فرمایا ہے کہ میں (ہمیشہ) اپنے سے اونچے (زیادہ مال دار) پر نظر نہ رکھا کروں، اپنے سے کم درجے والوں پر نگاہ رکھوں۔ (اگر ایسا کرو گے تو مطمئن رہو گے)'' (مشکوٰۃ شریف)

ہم اگر اپنے ارد گر نظر دوڑائیں تو یہ محسوس کریں گے کہ مال وزر اور صحت و تن درستی کے حوالے سے انسان کسی بھی مقام اور درجے پر ہو، اُس سے نیچے والے درجے اور مقام پر بھی کوئی نہ کوئی شخص ضرور ہوتا ہے مگر وہ نظر اُس وقت آتا ہے جب نیچے کی طرف دیکھا اور غور کیا جائے اور سب سے زیادہ جس چیز پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اگر ہم درج بالا سطور کی روشنی میں اپنی زندگی نہیں گزار رہے ہیں تو کیا ہمارا شمار ایسے لوگوں میں تو نہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یوں فرمایا ہے: '' اور تحقیق کثیر تعداد جنوں اور انسانوں کی ایسی ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا (کیوں کہ) ہم نے انہیں دل عطا کیے وہ اپنے دلوں سے بے خبر ہیں، ان کو آنکھیں دیں وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کو کان دیے وہ ان سے سنتے نہیں، ایسے لوگ چوپایوں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ہیں۔'' (الاعراف:۹۷۱)

ربِ قدوس ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ''آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینے میں ہوتے ہیں۔'' (الحج:۶۴)

اس حوالے سے حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے خوب فرمایا ہے کہ ؎

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدسہ بڑی رحیم اور کریم ہے، اور وہ اپنے گنہگار بندوں کی بخشش اور مغفرت فرمانے والی ذات ہے۔ بس! ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرا بندہ اپنے حقیقی خالق و مالک کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔ پھر دیکھیں کہ پروردگارِ عالم کس طرح اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔ کیوں کہ اصل زندگی تو وہی ہوتی ہے جو بامقصد ہو، ورنہ زندگی تو حیوان بھی گزارتے ہیں، اور یاد رکھیں کہ ہم گزرے ہوئے لمحوں کی گارنٹی تو دے سکتے ہیں، مگر آنے والے کسی ایک لمحے کی بھی گارنٹی دینے سے قاصر ہیں۔ پھر کیوں نہ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کو ''لمحہء آخر'' تصور کرتے ہوئے گزاریں، اور یہی دنیا و آخرت کی کام یابی کا راز ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے کینہ، بغض، حسد، نفرت، کدورت، عداوت اور دنیا کی محبت نکال کر اپنی اور اپنے حبیبؐ کی سچی محبت عطا فرمائے اور تا دمِ واپسی ہمارے ایمان کی سلامتی فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں