ناپختہ ذہن پر نشے کے اثرات
انسان نشے کی طرف تب جاتا ہے جب اسے اپنا غم ہلکا کرنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا، جب وہ اپنے دکھ نہیں بانٹ پاتا
میں شہر کے ایک نجی مگر چھوٹے سکول میں پڑھتا تھا میں 12سال اسی سکول میں پڑھا میں نے میڑک یہیں سی کی۔ سکول میں پرنسپل اور وائس پرنسپل تعینات تھے۔ میں ان دونوں کے رویوں کو بڑی غور سے دیکھتا تھا کیوں کہ ان دونوں اصحاب کے متعلق ایک بات مشہور تھی کہ یہ چھپ کر سگریٹ نوشی کیا کرتے ہیں۔ میں بھی کئی بار مرتبہ انھیں اسی طرح سگریٹ سلگاتے ہوئے دیکھ چکا تھا یہ بات تقریباََ تمام سکول میں مشہور تھی۔ اس لیے میرا تجسس بڑھا کہ نہ جانے ایسی کونسی وجہ ہے جو انھیں چھپ چھپا کر سگریٹ پینے پر مجبور کرتی ہے۔ حالانکہ باقی ساری دنیا بڑے اہتمام سے ہاتھ میں سگریٹ لہراتے ہوئے اور اس کا دھوان ایک دوسرے کے منہ پر مارتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس یہ دونوں صاحب جب اپنے اپنے کاموں سے تھک جاتے ہیں تو اطمینان کےلیے سگریٹ سلگا لیتے ہیں لیکن کسی کو بتاتے نہیں۔ میں 12سال سکول میں پڑھتا رہا۔ میڑک کے امتحان ہوئے لیکن یہ معمہ حل نہ ہوا اور الجھتا چلا گیا۔
میں میڑک کے بعد انٹر کرنے کےلیے کالج میں داخل ہوا۔ تو یہاں حالات اور ہی قسم کے تھے۔ یہاں بیشتر اساتذہ لیکچر کی اختتامی گھنٹی کے انتظار میں رہتے اور جونہی ان کی سماعتوں سے گھنٹی کی آواز ٹکراتی یہ کالج کے سامنے والے ڈاھبے پر جاتے اور سگریٹ نوش فرماتے۔ اساتذہ تو اساتذہ لیکن بہت سے طلبہ نو عمری کے باوجود ان کے شریک کار ہوتے۔ یہاں میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا۔ میرے اردگرد ایسے عناصر موجود تھے۔ جو مختلف اقسام کے نشوں میں ملوث رہتے۔ سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیاء نے میری زندگی پر بہت سے اثرات مرتب کئے۔ اب نشہ مجھے اپنی طرف کھینچتا لیکن میں پھر بھی اس سے دور رہنے کا سوچتا۔ میرے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ گردش کرتا کہ ناجانے کیوں لوگ چھپ کر یا سر عام نشہ کرتے ہیں ؟میں کم عمری اور ناپختہ سوچ کے باعث کبھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ ایک آدھ بار میں نے ایک نشہ کرنے والے صاحب سے نشہ کرنے کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ سب لوگ سکون اور تسکین یعنی Satisfactionکےلیے نشہ کرتے ہیں۔ یہ جواب بھی عجیب سا تھا یعنی یوں کہئے کہ ہم لوگ چائے پیتے ہیں، سینما دیکھتے ہیں، صبح سیر کو جاتے ہیں، کئی لوگ سکون اور تسکین کےلیے موسیقی سنتے ہیں، کئی لوگ عادتاََ اور شوق سے کتابیں پڑھتے ہیں، بہت سے لوگوں کو اخبار پڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن معاشرے انھیں برا نہیں کہتا۔ وہ نشہ کرنے والوں کے بر عکس کم برے ہوتے ہیں جبکہ کوئی شخص اعلان کرے کہ وہ تسکین کےلیے نشہ کرتا ہے تو ریاست کی پولیس اسے اندر کر دیتی ہے۔ اگر ایک اچھے خاندان کا کوئی شخص نشہ میں ملوث ہے تو اسے اس کے گھر والے تسلیم ہی نہیں کرتے اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہ سوالات تھے جو میری ناپختہ ذہنیت میں روز بہ روز ابھرتے۔
یہ سوال ہمیشہ میرے پہلو سے بندھے رہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھا لا انھی سوالوں کو اپنے اردگرد پایا۔ گو کہ میں خود کبھی ایسی سر گر می میں ملوث ہونے سے بچا رہا۔ میں نے ایک مرتبہ ایک صاحب سے پوچھا جو صوفی طبیعت کے مالک تھے کہ معاشرے کا سب سے سب سے حساس اور سمجھدار آدمی کون سا شخص ہے ؟ کہنے لگے کہ شاعر معاشرے کا حساس اور سمجھدار شخص ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر معاشرے کا سب سے حساس اور سمجھدار آدمی ہو حالانکہ وہ نشہ بھی کرتا ہے اور شراب بھی پیتا ہے جبکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا ہے جیسا کہ مے خانہ اس کے نزدیک سب سے اچھی جگہ ہے۔ تو فرمانے لگے تم ابھی بچے ہو، یہ بات نہیں سمجھو گے۔ خیر میں یہ معاملا ت سمجھنے سے قاصر تھا۔
انٹر کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو یہاں صورتحال اس سے بھی پیچیدہ تھی۔ وہ طالبعلم جنہیں علم کی شمعیں روشن کرنا تھیں، ہر قسم کے نشے میں عادتاََ یا مجبوراََ ملوث رہتے۔ یہ نشہ ان سے ایسی حرکات بھی کرواتا جنہیں عام طور پر ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ یہاں میں نے ایک اور طرح کا بھی نشہ دیکھا جسے انگلش میں HUMAN ADDICTION کہا جاتا ہے۔ خیر یہ ایک اور موضوع ہے۔
میں نے ان سب نشہ کر نے والوں سے نشہ کر نے کی وجہ دریافت کی، نتیجہ یہی اخذ ہوا کہ اس سب کی وجہ تسکین اور سکون ہے۔ مجھے بات اب بھی سمجھ نہ آ سکی۔ میں نے اس سے متعلق پڑھنا شروع کیا، معاشرے کے نمایاں افراد کے سامنے بھی یہ سوال رکھا مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔ اب ایک ہی صورتحال نظر آنا شروع ہوئی کہ میں خود نشہ کروں اور اس کی وجہ دریافت کروں۔
مگر پھر ایک دن ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ میرے ایک ساتھی طالبعلم نے کسی دوست کے مشورے پر بھنگ کا نشہ کیا۔ میں ہا سٹل کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ نشے میں دھت اپنے ہوش حواس کھوئے ہوئے تھا۔ وہ اس سے پہلے کسی بھی قسم کے نشے میں ملوث نہیں رہا مگر اس روز نجانے کیا سوچتے ہوئے وہ بھنگ پی بیٹھا۔ میں اس کے قریب گیا اور اسے ایسا کرنے پر ڈانٹنے لگا۔ وہ میری بات سنتے ہی رونا شروع ہوگیا۔ میں نے اسے سنبھالا اور آرام سے بیٹھ جانے کی تلقین کی، مگر وہ روتا گیا۔ میں نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی۔ گو کہ وہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا لیکن اس نے روتے روتے مجھے وجہ بتا نہ شروع کردی۔
اس نے اپنے سارے شکوے میرے سامنے رکھ دیے۔ شکوے اس کے والدین سے متعلق بھی تھے، دوستوں سے بھی اور اساتذہ سے بھی۔ وہ کچھ کچھ توتلا کر بولتا ہے، سو اس نے اس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ نے اسے نامکمل پیدا کیا ہے۔ میں اس روز نشہ کر نے کی تمام وجوہات سمجھ گیا۔ میں نے جانا کہ انسان اس لیے نشے کی طرف جاتا ہے جب اسے اپنا غم ہلکا کرنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا، جب وہ اپنے دکھ نہیں بانٹ پاتا، جب اس کی بات نہیں سنی جاتی، وہ اپنا احوال کہنا بھی چاہتا ہے لیکن اس شرط پر کہ اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ مجھے ا س روز اس بات کی بھی سمجھ آئی کہ جس طرح ہم خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ پیش پیش ہوتے ہیں، اسی طرح غم میں بھی ہمیں ساتھ ساتھ رہنا چاہیے۔
آپ اگر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ایک 10 سے 12 سال کا نابالغ بچہ جب ہوش سنبھالتے ہی لوگوں کو نشے سے اپنا غم ہلکا کرتے دیکھے تو اس کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جیسے ہمارا تعلیم و معاشرتی نظام تشکیل پا چکا ہے تو اس میں ایک طالبعلم کےلیے بہت سے مسائل ہیں۔ اگر وہ نشہ کو پریشانیوں کے حل کےلیے استعمال کر ے گا تو ہم کس طرح آگے بڑھ پائیں گے۔ اس سلسلے میں نہ تو والدین اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ۔ جب ایک طالبعلم پر تنقید کے تیر برسائے جائیں گے، جب اسے کوئی گلے لگانے والا ہی نہ ہو گا۔ جب اسے مستقبل کی ضمانت ہی نہ دی جائے گی، جب اس کی بات ہی نہ سنی جائے گی تو کیونکر وہ نشے اور برے لوگوں سے بچ پائے گا اور صحت مند معاشرے کو تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔
میں یہاں گزراش کروں گا کہ اگر آپ ایک والد ہیں، استاد ہیں یا سرپرست ہیں تو خدا کےلیے اپنے ماتحت بچوں کا ہاتھ تھامیں اور انھیں خوف سے آزاد کریں۔ انہیں مستقبل کے خدشات سے آزاد کروا کر حال میں خوشگوار زندگی گزارنے کا درس دیں، انہیں غلط اور صحیح کی پہچان سکھائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ایک اچھا ماحول چھوڑ کر جائیں۔
یہاں خود سمیت تمام نوجوانوں سے بھی عرض کروں گا کہ اپنے اعصاب پر قابو رکھیں اور خواہشات و جذبات کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اچھے دوست بنائیں اور مثالی زندگی گزاریں؛ وگرنہ دوسری صورت خطرناک ہے۔ یہ نشہ ساغر صدیقی جیسے لازوال شاعر کو شعر کی محفلوں سے اٹھا کر میانی صاحب سے ملحقہ سڑک پر پہنچا دیتا ہے جہاں اس کا کل اثاثہ ایک کالی چادر رہ جاتا ہے، اور جہاں وہ یہ شعر کہتے کہتے اسی کالی چادر میں لپٹا ایک گم نام موت مر جاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میں میڑک کے بعد انٹر کرنے کےلیے کالج میں داخل ہوا۔ تو یہاں حالات اور ہی قسم کے تھے۔ یہاں بیشتر اساتذہ لیکچر کی اختتامی گھنٹی کے انتظار میں رہتے اور جونہی ان کی سماعتوں سے گھنٹی کی آواز ٹکراتی یہ کالج کے سامنے والے ڈاھبے پر جاتے اور سگریٹ نوش فرماتے۔ اساتذہ تو اساتذہ لیکن بہت سے طلبہ نو عمری کے باوجود ان کے شریک کار ہوتے۔ یہاں میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا۔ میرے اردگرد ایسے عناصر موجود تھے۔ جو مختلف اقسام کے نشوں میں ملوث رہتے۔ سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیاء نے میری زندگی پر بہت سے اثرات مرتب کئے۔ اب نشہ مجھے اپنی طرف کھینچتا لیکن میں پھر بھی اس سے دور رہنے کا سوچتا۔ میرے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ گردش کرتا کہ ناجانے کیوں لوگ چھپ کر یا سر عام نشہ کرتے ہیں ؟میں کم عمری اور ناپختہ سوچ کے باعث کبھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ ایک آدھ بار میں نے ایک نشہ کرنے والے صاحب سے نشہ کرنے کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ سب لوگ سکون اور تسکین یعنی Satisfactionکےلیے نشہ کرتے ہیں۔ یہ جواب بھی عجیب سا تھا یعنی یوں کہئے کہ ہم لوگ چائے پیتے ہیں، سینما دیکھتے ہیں، صبح سیر کو جاتے ہیں، کئی لوگ سکون اور تسکین کےلیے موسیقی سنتے ہیں، کئی لوگ عادتاََ اور شوق سے کتابیں پڑھتے ہیں، بہت سے لوگوں کو اخبار پڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن معاشرے انھیں برا نہیں کہتا۔ وہ نشہ کرنے والوں کے بر عکس کم برے ہوتے ہیں جبکہ کوئی شخص اعلان کرے کہ وہ تسکین کےلیے نشہ کرتا ہے تو ریاست کی پولیس اسے اندر کر دیتی ہے۔ اگر ایک اچھے خاندان کا کوئی شخص نشہ میں ملوث ہے تو اسے اس کے گھر والے تسلیم ہی نہیں کرتے اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہ سوالات تھے جو میری ناپختہ ذہنیت میں روز بہ روز ابھرتے۔
یہ سوال ہمیشہ میرے پہلو سے بندھے رہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھا لا انھی سوالوں کو اپنے اردگرد پایا۔ گو کہ میں خود کبھی ایسی سر گر می میں ملوث ہونے سے بچا رہا۔ میں نے ایک مرتبہ ایک صاحب سے پوچھا جو صوفی طبیعت کے مالک تھے کہ معاشرے کا سب سے سب سے حساس اور سمجھدار آدمی کون سا شخص ہے ؟ کہنے لگے کہ شاعر معاشرے کا حساس اور سمجھدار شخص ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر معاشرے کا سب سے حساس اور سمجھدار آدمی ہو حالانکہ وہ نشہ بھی کرتا ہے اور شراب بھی پیتا ہے جبکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا ہے جیسا کہ مے خانہ اس کے نزدیک سب سے اچھی جگہ ہے۔ تو فرمانے لگے تم ابھی بچے ہو، یہ بات نہیں سمجھو گے۔ خیر میں یہ معاملا ت سمجھنے سے قاصر تھا۔
انٹر کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو یہاں صورتحال اس سے بھی پیچیدہ تھی۔ وہ طالبعلم جنہیں علم کی شمعیں روشن کرنا تھیں، ہر قسم کے نشے میں عادتاََ یا مجبوراََ ملوث رہتے۔ یہ نشہ ان سے ایسی حرکات بھی کرواتا جنہیں عام طور پر ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ یہاں میں نے ایک اور طرح کا بھی نشہ دیکھا جسے انگلش میں HUMAN ADDICTION کہا جاتا ہے۔ خیر یہ ایک اور موضوع ہے۔
میں نے ان سب نشہ کر نے والوں سے نشہ کر نے کی وجہ دریافت کی، نتیجہ یہی اخذ ہوا کہ اس سب کی وجہ تسکین اور سکون ہے۔ مجھے بات اب بھی سمجھ نہ آ سکی۔ میں نے اس سے متعلق پڑھنا شروع کیا، معاشرے کے نمایاں افراد کے سامنے بھی یہ سوال رکھا مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔ اب ایک ہی صورتحال نظر آنا شروع ہوئی کہ میں خود نشہ کروں اور اس کی وجہ دریافت کروں۔
مگر پھر ایک دن ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ میرے ایک ساتھی طالبعلم نے کسی دوست کے مشورے پر بھنگ کا نشہ کیا۔ میں ہا سٹل کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ نشے میں دھت اپنے ہوش حواس کھوئے ہوئے تھا۔ وہ اس سے پہلے کسی بھی قسم کے نشے میں ملوث نہیں رہا مگر اس روز نجانے کیا سوچتے ہوئے وہ بھنگ پی بیٹھا۔ میں اس کے قریب گیا اور اسے ایسا کرنے پر ڈانٹنے لگا۔ وہ میری بات سنتے ہی رونا شروع ہوگیا۔ میں نے اسے سنبھالا اور آرام سے بیٹھ جانے کی تلقین کی، مگر وہ روتا گیا۔ میں نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی۔ گو کہ وہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا لیکن اس نے روتے روتے مجھے وجہ بتا نہ شروع کردی۔
اس نے اپنے سارے شکوے میرے سامنے رکھ دیے۔ شکوے اس کے والدین سے متعلق بھی تھے، دوستوں سے بھی اور اساتذہ سے بھی۔ وہ کچھ کچھ توتلا کر بولتا ہے، سو اس نے اس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ نے اسے نامکمل پیدا کیا ہے۔ میں اس روز نشہ کر نے کی تمام وجوہات سمجھ گیا۔ میں نے جانا کہ انسان اس لیے نشے کی طرف جاتا ہے جب اسے اپنا غم ہلکا کرنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا، جب وہ اپنے دکھ نہیں بانٹ پاتا، جب اس کی بات نہیں سنی جاتی، وہ اپنا احوال کہنا بھی چاہتا ہے لیکن اس شرط پر کہ اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ مجھے ا س روز اس بات کی بھی سمجھ آئی کہ جس طرح ہم خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ پیش پیش ہوتے ہیں، اسی طرح غم میں بھی ہمیں ساتھ ساتھ رہنا چاہیے۔
آپ اگر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ایک 10 سے 12 سال کا نابالغ بچہ جب ہوش سنبھالتے ہی لوگوں کو نشے سے اپنا غم ہلکا کرتے دیکھے تو اس کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جیسے ہمارا تعلیم و معاشرتی نظام تشکیل پا چکا ہے تو اس میں ایک طالبعلم کےلیے بہت سے مسائل ہیں۔ اگر وہ نشہ کو پریشانیوں کے حل کےلیے استعمال کر ے گا تو ہم کس طرح آگے بڑھ پائیں گے۔ اس سلسلے میں نہ تو والدین اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ۔ جب ایک طالبعلم پر تنقید کے تیر برسائے جائیں گے، جب اسے کوئی گلے لگانے والا ہی نہ ہو گا۔ جب اسے مستقبل کی ضمانت ہی نہ دی جائے گی، جب اس کی بات ہی نہ سنی جائے گی تو کیونکر وہ نشے اور برے لوگوں سے بچ پائے گا اور صحت مند معاشرے کو تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔
میں یہاں گزراش کروں گا کہ اگر آپ ایک والد ہیں، استاد ہیں یا سرپرست ہیں تو خدا کےلیے اپنے ماتحت بچوں کا ہاتھ تھامیں اور انھیں خوف سے آزاد کریں۔ انہیں مستقبل کے خدشات سے آزاد کروا کر حال میں خوشگوار زندگی گزارنے کا درس دیں، انہیں غلط اور صحیح کی پہچان سکھائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ایک اچھا ماحول چھوڑ کر جائیں۔
یہاں خود سمیت تمام نوجوانوں سے بھی عرض کروں گا کہ اپنے اعصاب پر قابو رکھیں اور خواہشات و جذبات کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اچھے دوست بنائیں اور مثالی زندگی گزاریں؛ وگرنہ دوسری صورت خطرناک ہے۔ یہ نشہ ساغر صدیقی جیسے لازوال شاعر کو شعر کی محفلوں سے اٹھا کر میانی صاحب سے ملحقہ سڑک پر پہنچا دیتا ہے جہاں اس کا کل اثاثہ ایک کالی چادر رہ جاتا ہے، اور جہاں وہ یہ شعر کہتے کہتے اسی کالی چادر میں لپٹا ایک گم نام موت مر جاتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ، میں شرابی ہوں
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔