کانگریس کی کمزور حکومت

بہر حال مستقبل پر نگاہ رکھتے ہوئے ملائم سنگھ نے بی جے پی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی کی تعریف کی ہے۔


Kuldeep Nayar March 28, 2013

جب سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادیو نے گزشتہ مہینے کہا تھا کہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ستمبر میں ممکن ہے تو وہ سنسنی خیزی نہیں پھیلا رہے تھے، وہ تو درا وڈا منترا کزہگم (ڈی ایم کے) کے صدر ایم کروناندھی کے اس بیان کے منطقی نتیجے کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس میں کروناندھی نے کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے آیندہ اجلاس میں منموہن سنگھ حکومت کی حمایت سے دست کش ہو جائیں گے۔ ڈی ایم کے چیف بالعموم اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔

چنانچہ یونائیٹڈ پراگریس الائنس (یو پی اے) کی مخلوط حکومت کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں، حالانکہ حکومت نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں سری لنکا کے خلاف پیش ہونے والی قرار داد کی حمایت پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کروناندھی اپنی بات پر قائم ہیں جو انھوں نے ملائم سنگھ کو گوش گزار کر دی ہے۔

اس وقت روشنی کا دائرہ ملائم سنگھ پر ہے کیونکہ حکومت پہلے ہی 277 اراکین کی حمایت تک مختصر ہو چکی ہے جب کہ اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے کم سے کم273 نشستیں درکار ہیں۔ وہ حکومت کو گرا تو سکتے ہیں مگر اس کے بعد کیا کریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ابھی تک آیندہ انتخابات کا سامنا کرنے پر تیار نہیں، حتیٰ کہ بعض پارٹیوں کے اندرونی تضادات اس قدر شدید ہیں کہ ان کے لیے پولنگ کے تمام تر تقاضے پور ے کرنا مشکل ہو گا۔

بہر حال مستقبل پر نگاہ رکھتے ہوئے ملائم سنگھ نے بی جے پی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی کی تعریف کی ہے اور اسے سب سے زیادہ قدآور سیاستدان قرار دیا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی میں الیکشن سے قبل اتحاد ممکن ہو جائے گا؟ گو ایسا کہنا ابھی خاصا قبل از وقت ہے لیکن ایک چیز یقینی ہے کہ سماج وادی پارٹی ممکن ہے ان عناصر سے سمجھوتہ کر لے جن کے بارے میں اس نے ایک بار کہا تھا کہ وہ فرقہ پرست اور قوم دشمن ہیں۔

مجموعی منظر نامہ مایوس کن ہے۔ حکومت جو پہلے ہی اپنی عدم کارکردگی کے حوالے سے جانی جاتی ہے' اب اور زیادہ منجمد ہو گئی ہے۔ اسے پتہ نہیں کہ وہ اقتدار میں اور کتنا عرصہ رہے گی یہی وجہ ہے کہ وہ کوئی دور رس قدم اٹھانے سے ہچکچا رہی ہے۔ یو پی اے' جس کی صدارت سونیا گاندھی کے پاس ہے' منموہن سنگھ حکومت کی حمایت کرتی ہے اور اپنے اتحادیوں کو ، جن کی تعداد اس وقت 20 سے بھی زیادہ ہے، راضی رکھنے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اب تو دو تین اراکین پر مشتمل چھوٹی چھوٹی پارٹیوں نے بھی اہمیت اختیار کر لی ہے، کیونکہ اب توازن کا قائم رکھنا یا بگاڑنا ان کے اختیار میں ہے۔

یو پی اے نے پہلے ہی منموہن سنگھ حکومت کو پورے نوسال تک اقتدار میں رکھ کر تنے ہوئے رسے پر چلنے کا مظاہرہ تو پہلے ہی کر دیا ہے۔ اس پر مخلوط حکومت کی بدانتظامی کا الزام عاید نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بی جے پی کی قیادت میں بننے والا نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) آٹھ سال تک قائم رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یو پی اے نے اپنی پہلی مدت میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی اور اس کے بعد بھی منظم طور پر چلتی رہی۔ اس نے ایک رابطہ کمیٹی تشکیل کر رکھی تھی جس کے ذریعے یہ اپنے اتحادیوں سے رابطے میں رہتی اور انھیں مختلف معاملات میں اعتماد میں لیتی رہی۔ مگر اس مرتبہ کانگریس حکومت نے اپنے کسی اتحادی کے ساتھ مشورہ نہیں کیا حتیٰ کہ ان بڑی پارٹیوں کے ساتھ بھی نہیں جو اسے باہر سے حمایت فراہم کر رہی تھیں۔

اگر کانگریس ایسا کر لیتی تو آج اس کی حالت اس قدر خراب نہ ہوتی۔ لیکن اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ اتحاد کو مضبوطی سے گانٹھا نہ جا سکے اور اتحادیوں کو حکمرانی میں شمولیت نہ سہی اعتماد کا ایک احساس تو دیا جا سکے۔ اس صورت حال کے معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس میں 4.5 فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ اس سے بیرون ملک اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اس وقت دنیا میں کوئی بھی بھارت کو اقتصادی طاقت کے حوالے سے نہیں دیکھ رہا، جو ایک افسوسناک منظر نامہ ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ تاثر ہے کہ بھارت کی امور خارجہ پر کوئی قابل قدر پالیسی نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنے داخلی مسائل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔

جب اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل میں سری لنکا کے خلاف ایک قرار داد پر بحث جاری تھی تو اس وقت بھارت کے پاس ایک موقع تھا، لیکن بھارت اپنے پڑوسی سری لنکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب کہ ڈی ایم کے سری لنکا کے خلاف نہایت شدید مذمتی قرارداد چاہتی تھی کیونکہ اس پر تامل باشندوں کا دبائو تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ سری لنکا نے بغیر اشتعال کے تاملوں کی ہلاکتیں کی تھیں، خصوصاً ایل ٹی ٹی ای کے خلاف جنگ کے آخری مرحلے میں۔ نئی دہلی نے ڈی ایم کے کو رضا مند کرنے کی کوشش کی مگر اس وقت تک کچھ زیادہ ہی دیر ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک کروناندھی نے حکومت کی حمایت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نئی دہلی کو اس حوالے سے ذرا جلدی کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ اس سوال پر ڈی ایم کے اور حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات چند سال سے تعطل کا شکار تھے۔ کاش کہ وہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کر لیتے۔

اب یہاں سے ہم کہاں جائیں گے؟ اب نئی صف بندیاں اور نئی کلیدیں استعمال کرنا پڑیں گی جو کہ ممکن ہیں۔ لیکن منموہن سنگھ حکومت کو راضی کرنے کے امکانات خاصے محدود ہیں۔ ممکن ہے کہ بھارت کی بیمار ریاست ابھی اور کچھ وقت تک ایسے ہی رہے تاآنکہ کوئی اس تعطل کو دور کرنے کی خاطر وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا اعلان کر دے۔ ملائم سنگھ اور بہوجن سماج وادی پارٹی کی مایا وتی اقتدار کے کیک میں اپنا اپنا حصہ چاہتے ہیں مگر منموہن سنگھ حکومت ایک حد سے زیادہ رعائتیں دینے پر تیار نہیں۔ وہ پراعتماد ہیں کہ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) ان کے خلاف جن مقدمات کی تفتیش کر رہا ہے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ سی بی آئی ایک حکومتی محکمہ ہے۔

مرکزی وزیر بینی پرشاد کے ساتھ ملائم سنگھ کی چپقلش ممکن ہے بجا ہو مگر منموہن سنگھ حکومت اسے کابینہ سے خارج نہیں کر سکتی' کم از کم اس وقت ایسا نہیں ہو سکتا جب کہ اس کے پاس بھی چند نشستیں موجود ہیں۔ حکومت کے قائم رہنے کے لیے وہ نشستیں بھی بے حد اہم ہو سکتی ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اس حوالے سے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں کہ انھوں نے بی جے پی کے ساتھ اختلاف مول لے لیا ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی کو مسترد کر کے نتیش کمار نے گویا بی جے پی کے پہیوں کو بریک لگا دی ہے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ اگر این ڈی اے کی ایسی حکومت کا چنائو کرنا ہو جس میں مودی شامل نہ ہو یا مودی کے بغیر بی جے پی کی حکومت ہی نہ بن سکے تو بی جے پی پہلی بات کو ترجیح دیگی۔

وزیر اعظم منموہن سنگھ کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ تازہ انتخابات کا اعلان کر دیں۔ انھیں راشٹر پتی بھون (ایوان صدر) جا کر اپنا استعفیٰ پیش کر دینا چاہیے اور نئے انتخابات کی منظوری دینا چاہیے۔ فی الوقت کوئی ایک پارٹی اس قابل نہیں کہ منموہن سنگھ حکومت کے متبادل کے طور پر اکیلے حکومت بنا سکے چنانچہ الیکشن ناگزیر ہو گئے ہیں۔

لیکن کیا انتخابات کے نتیجے میں بھارت کو کوئی مضبوط حکومت مل پائے گی، اس کا وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔ یہ بھی عموماً کہا جاتا ہے کہ اتحاد پھر چوں چوں کا مربہ ہی بنے گا۔ ممکن ہے کوئی پارٹی 200 نشستیں جیت جائے اور حکومت بنانے کا دعویٰ کر دے لیکن اس کا انحصار ووٹروں کے موڈ پر ہے اور یہی جمہوریت کی بہترین خوبی ہے کہ کوئی بھی ووٹروں پر سو فیصد بھروسہ نہیں کر سکتا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں