معاشی بدحالی

ملک میں جو معدنیات موجود ہیں وہ حاصل کریں زراعت کریں، بہت کچھ ہے ہمارے ملک میں۔

مختلف علوم کے ماہر معیشت دان، ڈاکٹر، صنعت کار، انجینئر مختلف کار ہائے نمایاں کے افراد گفتگو میں محو ہر شخص اپنی بات کو اہمیت دینے میں کوشاں تھا۔ میں ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتا رہا آخر میں ان سے اجازت طلب کرکے مخاطب ہوا میں نے کہا بلا شبہ ہر شخص اپنی جگہ صحیح بلکہ ملک و ملت کے لیے کوشاں ہے لیکن ایک بات جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے ''معیشت'' اگر آپ لوگ میری بات کو ناگوار نہ سمجھیں تو میں معیشت داں کی گفتگو کو زیادہ اہم سمجھتا ہوں۔ اس لیے اگر آپ کے ملک میں معیشت کا فقدان، معاشی بد حالی کے شکار ہیں اس لیے کارخانے، تعلیمی ادارے، شفا خانے صفائی کا نظام اور دیگر بنیادی ضروریات کس طرح پوری کریںگے۔ کیا آپ ہمیشہ قرض لے لے کر ملک کو چلالیںگے؟ ایسا نہیں کوئی ملک اتنا مخلص نہیں جو آپ کی ہمیشہ مدد کرے یہ سب کچھ آپ نے خود کرنا ہے۔

ہر شخص جانتا ہے ہمارے ملک میں ہر شئے پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بہترین زرعی ملک ہے،کسی بھی اشیا سازی کا کارخانہ لگائیں آپ کو لیبر بے شمار ملے گی، مجھے یاد ہے ایک فیکٹری بند ہوئی جس میں تین شفٹیں ہوتی تھیں ایک شفٹ میں تین ہزار مزدورکام کرتے تھے۔ اس فیکٹری کے بند ہونے پر نو ہزار مزدور بے روزگار ہوگئے۔

ساری معیشت ملک سے حاصل ہوسکتی ہے، چار سو سال تک کوئلہ استعمال کیا جاسکتا ہے جو ہمارے ملک کی کانوں میں موجود ہے، لوہا، تانبہ، گندھک، سونا، چاندی، پیتل، بہترین اعلیٰ قسم کا نمک اور قیمتی موتی جواہرات تک موجود ہیں۔ ہم نے تو ان چیزوں کو ابھی ہاتھ تک نہیں لگایا۔ شاید یہ بھی آپ سب کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ملک میں پٹرول بھی ہے، شاید کوئی مصلحت ہو یا توجہ مرکوز نہ کی۔ اب میں ناچیز ادنیٰ انسان کیا کہہ سکتا ہوں ہمارے ملک کے ان تمام بڑے لوگوں نے کیوں توجہ نہ دی۔ ہم جو بھی کام شروع کریں ہمارے پاس مزدور موجود ہے، ہمارے بے شمار مزدور بے روزگار ہیں۔

نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ملک خطِ غربت سے نیچے جارہا ہے۔ تعمیراتی کام کے لیے زمین بہت، زراعت کے لیے زرخیز زمین اس قدر ہے جو بنجر پڑی ہے صرف معیشت نہ ہونے کے سبب کچھ نہیں ہو پارہا ۔ سرمایہ دارطبقہ فیکٹریز لگاتا ہے تو جو سامان بناتا ہے اس میں اس کو منافعے کے بجائے نقصان ملتا ہے۔ میں نے وجہ معلوم کی تو پہلے تو بھتہ، مختلف قسم کے ٹیکس اور پھر مہنگی بجلی و گیس کی وجہ سے صنعت کار مجبور ہے اپنی فیکٹری بند کرنے پر۔ وہ دوسرے ملک جاکرکاروبار شروع کرتا ہے وہاں اسے کوئی تکلیف نہیں بلکہ بہت اچھا منافع حاصل کرتا ہے۔

ملائیشیا کو دیکھیں صرف ربڑکی صنعت تھی اب اس وقت وہ کہاں سے کہاں ہیں ، ساری الیکٹرانک اشیا بنارہا ہے، اس کے علاوہ دوسرے ممالک ہیں بنگلہ دیش جو مشرقی پاکستان تھا اب وہ معیشت میں ہم سے آگے جا رہاہے ۔ اسی طرح ان ممالک کو دیکھیں جو ہم سے بہت پیچھے تھے اب وہ سب سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ اس قدر ترقی کررہے ہیں کہ لیبر ان کے پاس نہیں دوسرے ملکوں سے لیبر منگواتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں لیبرکا وافر موجود ہے، لیکن ہم روز بروز دوسروں سے پیچھے ہوتے چلے جارہے ہیں یہ ہماری اپنی نا اہلی ہے۔ میں اول درجہ ''معیشت'' کو دیتا ہوں، زیادہ مشکل بھی نہیں کوشش کی ضرورت ہے حکومتِ وقت توجہ فرمائے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ صنعت کاروں کو آسانیاں، مراعات دی جائیں تاکہ وہ اپنی فیکٹریز چلاسکیں۔

ہم اگر تاریخ کی گہرائی میں جائیں تو وہاں بھی مال غنیمت ہوتا تھا جس میں سے ادائیگی ہوتی تھی جتنے بھی ادوار گزرے ہیں سب معیشت پر منحصر ہے۔ لگان خراج ٹیکسوں کی صورت میں حکومت وصول کرتی جس کو خزانے میں محفوظ کیا جاتا اور ملک کی اہم ضروریات عوام کے مسائل و ضروریات کے لیے خزانے سے زر نکال کر خرچ کیا جاتا۔ ہاں یہ ضرور ہوا مار دھاڑ رہی ایک دوسرے کے خلاف رہے، سارا دارو مدار زر و زمین پر رہا۔


حضورؐ سے جس طرح اسلام پھیلا، معیشت کو مال غنیمت میں محفوظ رکھا بڑے انصاف حیثیت کے مطابق ادائیگی ہوئی۔ حضورؐ خود اپنی ذات میں کبھی بغیر حساب کے خزانے سے مال غنیمت حاصل نہ کیا جو ہمارے لیے بڑی مثال ہے۔ ان کے بعد ان کے آنے والوں نے ان کی پیروی کی، کامیاب رہے اسلام پھلا پھولا۔ لیکن جب کفار کے اختلافات بڑھے تو افراتفری ہوئی لیکن وہ بھی معیشت پر مستحکم ہوئی۔

ایسے ممالک جہاں صرف مچھلی وافر مقدار میں ہوتی ہے وہ پورے یورپ میں فروخت کرتے ہیں ان کی معیشت، ملک عوام خوشحال ہیں۔ یہ ان ممالک کی دانشمندی ہے خودسری نہیں یا ان کے اکابرین نے اپنے ملک و قوم کے بارے میں سوچا ان کی ملکی خدمات جو قربانی انھوں نے دی وہ بروئے کار آئی جس نے مثال ہمیں دی۔ ان باتوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن مشکل وہاں پیدا ہوتی ہے سب کچھ سمجھ کر ہم کچھ نہ کریں۔

ایک شخص چالیس سال کی ملازمت میں صرف بمشکل بچوں کو پال سکا اور گھر چلایا۔ لیکن ایسے بھی ہیں جو دس سال قبل کرائے کی سائیکل چلاتے تھے آج ان کے پاس بڑی قیمتی کاریں ہیں، محل ہیں، کئی ملکوں میں جائیدادیں ہیں تو اگر یہ کہا جائے کہ ان کی معیشت خوشحال رہی ملک کی معیشت بدحال رہی تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایسا کب تک ہوگا دوسرے ممالک قرض کب تک دیں گے اس کا سود اتنا ہوگا کہ اس کے لیے بھی قرض لینا پڑے گا۔ ایسا بالکل نہیں کہ ہمارے معیشت دان کچھ نہیں جانتے بہت اچھے معاشی مینجرکارندے موجود ہیں لیکن ان کو کام کرنے نہیں دیا جاتا یا پھر وہی کام کرنے کی اجازت جس کی اجازت ان کے افسران دیں۔

ایک پرانی بات یاد آئی ایک صاحب نے اپنے ساتھی سے تھوڑی سی رقم بطور قرض لی۔ اس نے اس رقم سے کچھ رقم منہا کرکے قرض دے دیا، اس نے پوچھا اس میں منہا کیوں کیا؟ اس نے کہا یہ میرا منافع ہے۔ تیسرا شخص جو ساتھ گیا تھا اس نے کچھ رقم اس سے لے لی پھر وہ بولا آپ نے مجھ سے کیوں رقم لی جب کہ میں نے پہلے ان کو منافع دیا۔ وہ تیسرا شخص بولا یہ میرا منافع ہے میں آپ کو ساتھ لے کر آیا۔ معلوم یہ ہوا جس شخص نے بطور قرض جو رقم لی اس کے پاس وہ نصف رقم بچی۔ لیکن ادائیگی اس نے پوری رقم کی کرنی ہے۔

اگر ایک ہزار لیے اور اب اس کے پاس پانچ سو بچے تو اس کو ادائیگی ایک ہزار کی کرنی ہے بلکہ اس پر مزید ڈھائی سو منافع بھی مزید دینا پڑے گا۔ یہ ہے قرض کی داستان، اللہ تعالیٰ قرض سے بچائے بڑے کہا کرتے تھے بیٹے بھوکے رہ جانا لیکن کسی سے قرض مت لینا۔ وہ اسی لیے کہتے تھے کہ جب آمدنی نہیں ہوگی تو قرض کس طرح ادا ہوگا۔ میرے ذاتی خیال میں ہمیں خود انحصاری پر توجہ خاص دینی ہوگی۔ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے ملک پر توجہ دیں۔

ملک میں جو معدنیات موجود ہیں وہ حاصل کریں زراعت کریں، بہت کچھ ہے ہمارے ملک میں۔ جیسا میں عرض کرچکا ہوں ہمارا ملک زراعتی طور پر زرخیز زمین سے کم نہیں۔ معدنی ذخائر موجود ہیں، دریا، سمندر، پہاڑ، ریگستان، لہلہاتے کھیت سب کچھ موجود ہے۔ ہمارے ملک کا کسان خودکفیل ہے اس کی مدد وہ نہیں جیسے دوسروں ملکوں میں کسانوں کی مدد کی جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں ذہین، ایماندار، محنتی، دیانتدار لوگوں کی کمی نہیں لیکن اپنی مرضی و مصلحت کی وجہ سے ایسے نیک، ایماندار، دیانتدار لوگوں کو دور رکھا گیا ہے۔ صرف ہمارے سرکردہ لوگ توجہ دیں تو چند دہائیوں میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ہمارے سیاسی لیڈران باتوں پر توجہ دیں عوام ان کو ووٹ دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ ہمارے لیے کچھ کریں گے۔ افسوس ایسا نہیں ہو پاتا کیوں؟ کیسے؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں معافی چاہتا ہوں۔
Load Next Story