محبت ہے کیا چیز
محبت، وقت، دوست اور رشتے گو ہمیں بہت ملتے ہیں لیکن ان کی قدر و قیمت کا تب پتا چلتا ہے جب یہ کہیں گم ہوجاتے ہیں۔
محبت اور نفرت کا وجود انسان کے خمیر سے اٹھتا ہے۔ جب سے یہ دنیا آباد ہوئی اور حضرت انسان نے زمین پر قدم رکھا تبھی سے یہ دونوں جذبے اس کی ذات سے جڑے نظر آتے ہیں۔ نفرت پر تو اوصاف جمیلہ کی مدد سے قابو پایا جاسکتا ہے لیکن محبت کے سرکش اور منہ زور جذبے کو لگام دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ دنیا کے سبھی مذاہب اپنے ماننے والوں کو نفرت پالنے سے روکتے ہیں لیکن کوئی محبت کرنے سے منع نہیں کرتا۔
محبت کا سودا ایک بار سر میں سما جائے تو انسان عقل وخرد سے بے گانہ ہوجاتا ہے، پھر لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، شیریں فرہاد اور سسی پنوں جیسی لازوال داستانیں جنم لیتی ہیں۔ تاریخی مقامات میں کنیز شہزادے سے محبت کرنے کے جرم میں زندہ دیوار میں چنوادی جاتی،کوئی بادشاہ اپنی ملکہ کے لیے تاج محل جیسی حسین یادگار تعمیر کرواتا ہے تو کہیں کوئی تاج برطانیہ کو ٹھوکر مارتا ہے۔ محبت کے حوالے سے یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ محبت کامیاب ہوجائے تو کہانی نہیں بنتی لیکن ناکام ہوجائے تو اس کا چرچا زمانوں تک رہتا ہے۔
عام معنوں میں کامیاب محبت وہ کہلاتی ہے جس میں فریقین کو وصل کی راحت نصیب ہوجائے اور انھیں فراق کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔ اس مفہوم میں اگر دیکھا جائے تو تاریخ کا سینہ کامیاب محبت کی داستانوں سے خالی ہے لیکن ناکام عشق کے افسانے قدم قدم پر بکھرے پڑے ہیں۔
محبت ریاضی کے اصولوں کی پیروکار ہوتی ہے۔ پہلے جمع یعنی یکجا یا متحد کرتی ہے اور پھر حاصل جمع کو ضرب دیتی چلی جاتی ہے اور یوں ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز ہوجاتا ہے جسے فنا نہیں۔ اس میں تقسیم سے مراد بانٹنا اور نفی سے مراد محبوب کے سامنے اپنی انا اور خود داری کو ختم کرکے اس کی رضا میں ڈھل جانا۔ محبت کبھی نہ مرتی ہے اور نہ ہی ختم ہوتی ہے بس اس کی دیکھ بھال یا نشوونما کرنے والا جذبہ کمزور ہوجاتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہماری توجہ ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتی بلکہ سمتوں میں بٹ جاتی ہے۔
زندگی میں اگر دیگر اشیا ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل کرلیں تو یہ جذبہ سست پڑجاتا ہے پھر بھی محبت اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے خواب میں آکر بھی اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہے کیونکہ اسے نظر انداز ہونا پسند نہیں وہ انسان کی ترجیح بن کر رہنا چاہتی ہے، اس لیے وہ دل کے در پر دستک دیتی رہتی ہے۔ افسوس ہم مطلبی، بے حس اور خود غرض انسان اس کو سمجھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے۔
دنیا داری میں الجھے لوگ اس کی دستک سن ہی نہیں پاتے اور اگر سن بھی لیں تو نظر انداز کردیتے ہیں، ان کے لیے دیگر آلامِ زندگی ہی پہاڑ بن جاتے ہیں، وہ محبت کو ثانوی حیثیت دے کر کسی پرانی الماری میں رکھ دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ محبت زندگی کے کسی دور میں بھی ثانوی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ سانس کی طرح لازم اور دھڑکن کی طرح مقدم ہوتی ہے اور اس کے بغیر جینے والے زندگی کے حسن سے نا آشنا رہتے ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ زندگی میں دیگر مقاصد کا حصول انسان کو محبت سے دور کردیتا ہے۔ انسان آگے بڑھ جاتا ہے اور محبت پیچھے رہ جاتی ہے لیکن انسان کتنا ہی مصروف ہوجائے محبت گاہے بگاہے اپنا احساس دلاتی رہتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ محبت دائم آباد رہنے والی چیز ہے مگر اس جذبے کو زندہ رکھنا پڑتا ہے، محبت کوئی خیال رکھنے والی چیز نہیں ہوتی وہ ایک پھول کی طرح ہوتی ہے جب وہ کھلتا ہے تو اس کے رنگ نظر آتے ہیں اور اس کی خوشبو پھیلتی ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یوں تو محبت لافانی جذبہ ہے لیکن وہ محبت بہت عظیم ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی عزت پر مبنی ہو۔ محبت ایسا جذبہ ہے جب یہ کسی کے دل میں جنم لے لے تو پھر کسی سے ملنے، کسی سے بات کرنے کا من ہی نہیں کرتا بس جی چاہتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے موجود رہے، محبت کرنے والے ہر انسان کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے بس لفظوں کی پوشاکیں بدلی جاتی ہیں۔ محبت میں آگ کو پانی اور پانی کو آگ بنانے کی حیرت انگیز طاقت ہوتی ہے۔
عموماً محبت میں خسارہ مقدر بنتا ہے اور پیار و محبت کا نقصان ہمیشہ دل میں گڑا رہتا ہے تاوقتیکہ دل ہی کم بخت بند نہ ہوجائے یہی محبت کی بقا ہے کہ اس کے کرنے والے بھلے سلامت رہیں یا نہ رہیں پر محبت باقی رہ جاتی ہے، گو محبت انسان کے ساتھ مر ضرور جاتی ہے لیکن محبتوں کا سفر جاری رہتا ہے، ایک نئے وجود میں ایک نئے دل میں نئی محبت کی کونپل پھوٹتی رہتی ہے۔
محبت انسان کو معراج بخشتی ہے مگر یہ قربانی کی بھی طلب گار ہوتی ہے، محبت سچی ہو تو اندھا نہیں کشادہ دل ہوتی ہے عیب نظر آتا ہے لیکن وہ اسے نظر انداز کردیتی ہے محبت میں اقرار اور انکار دونوں کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، محبت میں گزارا ایک پل ہزاروں سال جینے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ محبت ایک ایسا رشتہ ایسا تعلق ہوتا ہے جس سے انسان کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
پیار یا محبت یوں تو شرطوں پر نہیں ہوتی لیکن اگر ہو تو اس کی پہلی شرط احترام ہوتی ہے، جو کسی کا احترام کرنا نہ جانتا ہو اسے کسی سے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ محبت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں پرندے کی طرح بیٹھے رہنے کا نام ہے، محبت وہ چیز ہے جو صرف خوش نصیبوں کو ہی مل پاتی ہے اور یہ کرنے کے لیے ہی ہوتی ہے سنبھال کر رکھنے کے لیے نہیں ہوتی۔
اکثر نقاد، ادیب، دانشور محبت کو اندھا قرار دیتے ہیں مگر یہ آفاقی سچائی ہے کہ محبت شکار آنکھ والوں کا ہی کرتی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محبت کے نصاب میں فراموشی کا کوئی باب نہیں ہوتا اور یہ کہ محبتوں کے دکھ اور سکھ کا کوئی انت، کوئی انجام، کوئی حد نہیں ہوتی۔ محبتوں کے دکھ سکھ کے ساتھ لوگ جیتے اور محبت کے دکھ اور سکھ کے ساتھ ہی وہ مرجاتے ہیں۔
محبت کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ محبت کرنے کا حق کوئی کسی کو نہیں دیتا اگر دیتا تو محبت کرنے سے پہلے اجازت لینی پڑتی، محبت انسان کے لیے ضروری ہوتی ہے مگر انسان محبت کے لیے ضروری نہیں ہوتے۔ محبت بے موسم کی برسات کی مانند بھی ہوتی ہے کبھی فوراً برس پڑتی ہے اور کبھی ساری زندگی گزرجاتی ہے برسات نہیں ہوتی۔ محبت سرحد کی مانند بھی ہوتی ہے جسے اگر ایک بار پار کرلی جائے تو پھر واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔
محبت ایک ایسی لذت، ایسی نعمت، ایسی راحت بھی ہوتی ہے جو زندگی کے ریگزار میں موسم بہار یا موسم گل کی طرح سامنے آتی ہے اور پھر ایسی سرشاری یا ایسی تاثیر چھوڑجاتی ہے جو ہمیشہ رگ و پہ میں بسیرا کیے رہتی ہے۔ محبت اس اکلوتی چیز کا نام بھی ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، محبت کبھی بھی کسی سے کسی بھی وقت ہوجاتی ہے لیکن محبت کرنے والوں کی قسمت سے بڑی سخت دشمنی ہوتی ہے۔ محبت وہ روشنی ہے جو اندھوں کو بھی دکھائی دیتی ہے۔
محبت، وقت، دوست اور رشتے گو ہمیں بہت ملتے ہیں لیکن ان کی قدر و قیمت کا تب پتا چلتا ہے جب یہ کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ نفرتوں سے بھرے، سفاکی اور منافقتوں سے اٹے بے وفاؤں کی اس نگری اور جفا کاروں کی بستی میں وفا نبھانے والوں کا ہونا گو واقعی بہت بڑا اچھنبا ہے اور طمانیت اس حوالے سے یوں بہت محسوس ہوتی ہے کہ بے اعتبار موسموں میں کوئی تو ہے جو کسی کو اپنی یادوں اور محبتوں میں یاد رکھے ہوئے ہے۔
محبت کا سودا ایک بار سر میں سما جائے تو انسان عقل وخرد سے بے گانہ ہوجاتا ہے، پھر لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، شیریں فرہاد اور سسی پنوں جیسی لازوال داستانیں جنم لیتی ہیں۔ تاریخی مقامات میں کنیز شہزادے سے محبت کرنے کے جرم میں زندہ دیوار میں چنوادی جاتی،کوئی بادشاہ اپنی ملکہ کے لیے تاج محل جیسی حسین یادگار تعمیر کرواتا ہے تو کہیں کوئی تاج برطانیہ کو ٹھوکر مارتا ہے۔ محبت کے حوالے سے یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ محبت کامیاب ہوجائے تو کہانی نہیں بنتی لیکن ناکام ہوجائے تو اس کا چرچا زمانوں تک رہتا ہے۔
عام معنوں میں کامیاب محبت وہ کہلاتی ہے جس میں فریقین کو وصل کی راحت نصیب ہوجائے اور انھیں فراق کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔ اس مفہوم میں اگر دیکھا جائے تو تاریخ کا سینہ کامیاب محبت کی داستانوں سے خالی ہے لیکن ناکام عشق کے افسانے قدم قدم پر بکھرے پڑے ہیں۔
محبت ریاضی کے اصولوں کی پیروکار ہوتی ہے۔ پہلے جمع یعنی یکجا یا متحد کرتی ہے اور پھر حاصل جمع کو ضرب دیتی چلی جاتی ہے اور یوں ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز ہوجاتا ہے جسے فنا نہیں۔ اس میں تقسیم سے مراد بانٹنا اور نفی سے مراد محبوب کے سامنے اپنی انا اور خود داری کو ختم کرکے اس کی رضا میں ڈھل جانا۔ محبت کبھی نہ مرتی ہے اور نہ ہی ختم ہوتی ہے بس اس کی دیکھ بھال یا نشوونما کرنے والا جذبہ کمزور ہوجاتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہماری توجہ ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتی بلکہ سمتوں میں بٹ جاتی ہے۔
زندگی میں اگر دیگر اشیا ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل کرلیں تو یہ جذبہ سست پڑجاتا ہے پھر بھی محبت اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے خواب میں آکر بھی اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہے کیونکہ اسے نظر انداز ہونا پسند نہیں وہ انسان کی ترجیح بن کر رہنا چاہتی ہے، اس لیے وہ دل کے در پر دستک دیتی رہتی ہے۔ افسوس ہم مطلبی، بے حس اور خود غرض انسان اس کو سمجھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے۔
دنیا داری میں الجھے لوگ اس کی دستک سن ہی نہیں پاتے اور اگر سن بھی لیں تو نظر انداز کردیتے ہیں، ان کے لیے دیگر آلامِ زندگی ہی پہاڑ بن جاتے ہیں، وہ محبت کو ثانوی حیثیت دے کر کسی پرانی الماری میں رکھ دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ محبت زندگی کے کسی دور میں بھی ثانوی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ سانس کی طرح لازم اور دھڑکن کی طرح مقدم ہوتی ہے اور اس کے بغیر جینے والے زندگی کے حسن سے نا آشنا رہتے ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ زندگی میں دیگر مقاصد کا حصول انسان کو محبت سے دور کردیتا ہے۔ انسان آگے بڑھ جاتا ہے اور محبت پیچھے رہ جاتی ہے لیکن انسان کتنا ہی مصروف ہوجائے محبت گاہے بگاہے اپنا احساس دلاتی رہتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ محبت دائم آباد رہنے والی چیز ہے مگر اس جذبے کو زندہ رکھنا پڑتا ہے، محبت کوئی خیال رکھنے والی چیز نہیں ہوتی وہ ایک پھول کی طرح ہوتی ہے جب وہ کھلتا ہے تو اس کے رنگ نظر آتے ہیں اور اس کی خوشبو پھیلتی ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یوں تو محبت لافانی جذبہ ہے لیکن وہ محبت بہت عظیم ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی عزت پر مبنی ہو۔ محبت ایسا جذبہ ہے جب یہ کسی کے دل میں جنم لے لے تو پھر کسی سے ملنے، کسی سے بات کرنے کا من ہی نہیں کرتا بس جی چاہتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے موجود رہے، محبت کرنے والے ہر انسان کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے بس لفظوں کی پوشاکیں بدلی جاتی ہیں۔ محبت میں آگ کو پانی اور پانی کو آگ بنانے کی حیرت انگیز طاقت ہوتی ہے۔
عموماً محبت میں خسارہ مقدر بنتا ہے اور پیار و محبت کا نقصان ہمیشہ دل میں گڑا رہتا ہے تاوقتیکہ دل ہی کم بخت بند نہ ہوجائے یہی محبت کی بقا ہے کہ اس کے کرنے والے بھلے سلامت رہیں یا نہ رہیں پر محبت باقی رہ جاتی ہے، گو محبت انسان کے ساتھ مر ضرور جاتی ہے لیکن محبتوں کا سفر جاری رہتا ہے، ایک نئے وجود میں ایک نئے دل میں نئی محبت کی کونپل پھوٹتی رہتی ہے۔
محبت انسان کو معراج بخشتی ہے مگر یہ قربانی کی بھی طلب گار ہوتی ہے، محبت سچی ہو تو اندھا نہیں کشادہ دل ہوتی ہے عیب نظر آتا ہے لیکن وہ اسے نظر انداز کردیتی ہے محبت میں اقرار اور انکار دونوں کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، محبت میں گزارا ایک پل ہزاروں سال جینے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ محبت ایک ایسا رشتہ ایسا تعلق ہوتا ہے جس سے انسان کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
پیار یا محبت یوں تو شرطوں پر نہیں ہوتی لیکن اگر ہو تو اس کی پہلی شرط احترام ہوتی ہے، جو کسی کا احترام کرنا نہ جانتا ہو اسے کسی سے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ محبت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں پرندے کی طرح بیٹھے رہنے کا نام ہے، محبت وہ چیز ہے جو صرف خوش نصیبوں کو ہی مل پاتی ہے اور یہ کرنے کے لیے ہی ہوتی ہے سنبھال کر رکھنے کے لیے نہیں ہوتی۔
اکثر نقاد، ادیب، دانشور محبت کو اندھا قرار دیتے ہیں مگر یہ آفاقی سچائی ہے کہ محبت شکار آنکھ والوں کا ہی کرتی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محبت کے نصاب میں فراموشی کا کوئی باب نہیں ہوتا اور یہ کہ محبتوں کے دکھ اور سکھ کا کوئی انت، کوئی انجام، کوئی حد نہیں ہوتی۔ محبتوں کے دکھ سکھ کے ساتھ لوگ جیتے اور محبت کے دکھ اور سکھ کے ساتھ ہی وہ مرجاتے ہیں۔
محبت کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ محبت کرنے کا حق کوئی کسی کو نہیں دیتا اگر دیتا تو محبت کرنے سے پہلے اجازت لینی پڑتی، محبت انسان کے لیے ضروری ہوتی ہے مگر انسان محبت کے لیے ضروری نہیں ہوتے۔ محبت بے موسم کی برسات کی مانند بھی ہوتی ہے کبھی فوراً برس پڑتی ہے اور کبھی ساری زندگی گزرجاتی ہے برسات نہیں ہوتی۔ محبت سرحد کی مانند بھی ہوتی ہے جسے اگر ایک بار پار کرلی جائے تو پھر واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔
محبت ایک ایسی لذت، ایسی نعمت، ایسی راحت بھی ہوتی ہے جو زندگی کے ریگزار میں موسم بہار یا موسم گل کی طرح سامنے آتی ہے اور پھر ایسی سرشاری یا ایسی تاثیر چھوڑجاتی ہے جو ہمیشہ رگ و پہ میں بسیرا کیے رہتی ہے۔ محبت اس اکلوتی چیز کا نام بھی ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، محبت کبھی بھی کسی سے کسی بھی وقت ہوجاتی ہے لیکن محبت کرنے والوں کی قسمت سے بڑی سخت دشمنی ہوتی ہے۔ محبت وہ روشنی ہے جو اندھوں کو بھی دکھائی دیتی ہے۔
محبت، وقت، دوست اور رشتے گو ہمیں بہت ملتے ہیں لیکن ان کی قدر و قیمت کا تب پتا چلتا ہے جب یہ کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ نفرتوں سے بھرے، سفاکی اور منافقتوں سے اٹے بے وفاؤں کی اس نگری اور جفا کاروں کی بستی میں وفا نبھانے والوں کا ہونا گو واقعی بہت بڑا اچھنبا ہے اور طمانیت اس حوالے سے یوں بہت محسوس ہوتی ہے کہ بے اعتبار موسموں میں کوئی تو ہے جو کسی کو اپنی یادوں اور محبتوں میں یاد رکھے ہوئے ہے۔