ہمارے بھی ہیں رہنما کیسے کیسے
پاکستان میں جمہوریت پر تین مرتبہ شب خون مارا جاچکا ہے مگر یہ سیاستدانوں کا باہمی اتحاد و اتفاق ہی تھا۔
عمران خان نے کہا ہے کہ زرداری ایک کرپٹ انسان ہیں ان کے ساتھ بیٹھنا توکیا میں کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ۔ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں یہ بات بھی عجیب ہے کہ عمران زرداری کے ساتھ تو کھڑے نہیں ہوسکتے مگر جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ اکثر کھڑے نظر آتے ہیں۔کوئی جلسہ ایسا نہیں جاتا جس میں وہ اسٹیج پر ان دونوں کے درمیان کھڑے نہ ہوں یا بیٹھے نہ ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو زرداری اور ان کے ان دوستوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔
جہانگیر ترین کو خود عدالت عالیہ نے صادق اور امین ماننے سے انکار کرکے نااہل قرار دے دیا ہے اور علیم خان پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں اور پتا نہیں آگے کیا ہو جب کہ زرداری کسی مقدمے میں اب تک نااہل قرار نہیں دیے گئے۔ چنانچہ زرداری سے نفرت کیسی؟ لوگ جب ہی تو کہتے ہیں کہ خانصاحب کسی پر الزام لگانے سے پہلے کم سے کم اپنے دائیں بائیں تو ضرور دیکھ لیا کریں۔ بغیر تحقیق کے کسی پر الزام تراشی کرنا اور خاص طور پر کرپشن کا الزام لگانے والی پاکستان میں اب ایک نئی روایت جڑ پکڑ رہی ہے۔
پہلے بھی تو پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں زوروں پر رہی ہیں۔ ایک سے ایک تیز طرار اور تند مزاج سیاست داں رہے ہیں۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کی طوفانی سیاست کو لوگ بھول سکتے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک تیز طرار سیاستداں تھے مگر شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی برتری قائم رکھنے اور اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں ضرور مصروف رہتی تھی مگر الزام تراشی، گالم گلوچ اور کرسی سے اتارنے والی سیاست سے پرہیزکرتی تھی۔ کسی چلتی حکومت کو نقصان پہنچانے کا مطلب ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت پر تین مرتبہ شب خون مارا جاچکا ہے مگر یہ سیاستدانوں کا باہمی اتحاد و اتفاق ہی تھا کہ جس کی بدولت ملک میں جمہوریت پھر بحال ہوتی رہی ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان طے پانیالے میثاق جمہوریت کا ہی کمال تھا کہ پرویز مشرف کی آمریت کو شکست دے کر پھر سے جمہوریت کو بحال کیا گیا تھا۔
سیاست میں کسی سے نفرت یا ذاتی دشمنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سیاستداں صرف سیاسی ایشوز پر ہی لڑتے ہیں مگر ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ سیاستدانوں کے باہم ملنے جلنے سے گریز اور گفتگو کے دروازے بند کرنے سے جمہوریت پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ سیاستدانوں کی آپس کی دشمنی جمہوریت کو تباہ و برباد کرنے کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ آج کے سیاستدانوں میں ذاتی دشمنی کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے اور یہ دشمنی اتنی گہری ہوچکی ہے کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور اڈیالہ جیل پہنچانے کا نعرہ عام ہوچکا ہے۔
قومی اسمبلی کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے اب اس کی بھی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ کچھ سیاستداں اس پر کھلے عام لعنت بھیج رہے ہیں۔ جب کہ اسی اسمبلی میں پہنچنے کے لیے وہ کتنے جتن کرتے ہیں۔تو پھر کہیں اس کے اہل بنتے ہیں اور پھر اپنی رکنیت کا خراج یعنی تنخواہیں اور الاؤنسز وغیرہ بھی اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں اور پھر بعض ارکان قومی اہمیت کے اجلاسوں تک میں شرکت نہیں کرتے حتیٰ کہ کشمیر میں چل رہی تحریک آزادی کے حق میں پیش ہونے والی قرارداد تک میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے یہ کیسے سیاستداں ہیں؟ ان کی سیاست ملک و قوم کے لیے ہے یا پھر صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے؟
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اگرچہ دو مختلف نظریات کی حامل سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ان میں اس وقت ضرور دوریاں ہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود دونوں ملک و ملت کے نام پر اس وقت بھی اکٹھی ہوگئی تھیں جب قومی اسمبلی کے سامنے دو مہینوں تک دھرنا دیا گیا تھا اور حکومت کے بچنے کے تمام امکانات ختم ہوچکے تھے اس وقت یہ زرداری ہی تھے جنھوں نے صرف جمہوریت کی بقا کی خاطر میاں صاحب کی حکومت کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن افسوس کہ دھرنے والوں کو جمہوریت کا کوئی پاس نہیں تھا کہ وہ ان کے کامیاب ہونے کے بعد باقی بھی رہے گی یا نہیں۔
جمہوریت کی بقا، اچھی سیاسی فضا کے قیام اورکراچی میں امن و امان کے فروغ کے لیے پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہان نے باہمی کشیدگی کے باوجود ایک دوسرے سے گفتگوکرنے میں کبھی ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
کئی تقریبات میں مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار جب آمنے سامنے آئے تو پھر تمام گلے شکوے بھلاکر ایک دوسرے کے ساتھ خوش دلی سے بیٹھ گئے۔ یہ تو تقریبات کا حال تھا یہ دونوں رہنما تو اپنی پارٹیوں کو بھی یکجا کرکے ایک جھنڈے اور ایک نام کے تحت چلانے کے لیے مذاکرات کرچکے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوسکے مگر انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ نظریات میں اختلافات ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے قریب آکر مذاکرات کیے جاسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا بھی ہوا جاسکتا ہے اور بیٹھا بھی جاسکتا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی اگرچہ صرف پونے دو سال کی ہے مگر اس نے عوامی مقبولیت کا ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ مبصرین کیمطابق اس کی وجہ ماضی میں عوامی مسائل سے جو کھلواڑ کی گئی تھی یہ اس کا عوامی ردعمل معلوم ہوتا ہے۔ مہاجروں کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنے مسائل کے لیے اب بھی پہلے دن کی طرح پریشان ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ملازمتوں کے حصول کا ہے۔
اس سلسلے میں ان کے دو فیصد کوٹے میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا حالانکہ اب کراچی کی آبادی پہلے کی بہ نسبت دو گنی ہوچکی ہے۔ حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کا کم دکھایا جانا بھی مہاجروں کے حقوق سے چشم پوشی ہی کہا جائے گا۔ کراچی کے دیگر مسائل بھی جوں کے توں ہیں۔ لگتا ہے اب ان مسائل کے حل کا دار و مدار آیندہ انتخابات پر ہی ہے۔ مصطفیٰ کمال آج کل کراچی کی مختلف آبادیوں کا دورہ کرکے یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ پی ایس پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے کراچی کے عوام کی تمام پریشانیوں کا مداوا کردے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال نے بحیثیت ناظم شہر اہل کراچی کی جو بے مثال خدمت انجام دی تھی اس سے لگتا ہے کہ وہ عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ عام انتخابات کے قریب آتے ہی کراچی میں تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کردیا ہے۔ انھی میں پی ٹی آئی بھی ہے اس نے شہر کے مسائل کے سلسلے میں اب تک کچھ کرکے نہیں دکھایا۔
لوگوں کے مطابق یہ پارٹی دراصل عمران خان کی دھرنا پالیسی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ وہ وفاقی حکومت کو گرانے کی مہم جوئی میں کے پی کے کو بھی ایک ماڈل صوبہ نہ بناسکی اب پھر الیکشن سر پر آگئے ہیں مگر خان صاحب کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی کرشمہ انگیز کارنامہ نہیں ہے چنانچہ ایسی صورتحال میں کیا وہ الیکشن کے بعد پھر دھاندلی کا نعرہ لگا کر جیتنے والی سیاسی پارٹی کا جینا حرام کریں گے؟