علم بے عمل…
بچے اساتذہ کی بات کو نہ صرف مقدم سمجھتے ہیں بلکہ ان کے عمل کی تقلید کرتے ہیں۔
ایک چھوٹے سے فلاحی کام کے سلسلے میں گزشتہ پانچ ماہ سے بارہا تحصیل کھاریاں میں واقعہ گاؤں رولیہ میں جانے کا اتفاق ہوا، نہ صرف رولیہ بلکہ اسی کام کی مصروفیت کے سلسلہ میں کئی اور دیہات میں بھی جانے کا سلسلہ رہا، اپنے گاؤں بھدر سمیت۔ کئی بار وہاں کئی کئی دن رہنے کا بھی اتفاق ہوا ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اپنے ان ہنگامی دوروں کے دوران میں نے ان دیہات کے بارے میں چند باتوں کو بالخصوص نوٹ کیا ہے۔
ہمارے یہ دیہات ہرگز وہ دیہات نہیں رہے جو کہ آج سے بیس پچیس برس قبل تھے، کئی دیہات کا تو نقشہ سرے سے ہی بدل گیا ہے، ان کو سڑک سے بھی پہچاننا مشکل لگتا ہے۔ ان سب دیہات کے بیچوں بیچ ، کھاریاں تا جلالپور کی ڈیفنس روڈ گزرتی ہے۔ کچے مکان مین سڑ ک سے کافی ہٹ کر شروع ہوتے تھے، تمام کا تمام گاؤںچھتوں سے ملا ہوا ہوتا تھا، گاؤں کے لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے اور ان میں اتحاد، بھائی چارہ تھا، ایک دوسرے کے بارے میں علم بھی تھا اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی سانجھ بھی۔ اب کسی گاؤں سے بھی گزریں تو نہ صرف پکی عمارتیں بلکہ کثیر المنزلہ پلازہ بر لب سڑک، قطار در قطار نظر آتے ہیں۔
کچے گھر ... پکے مکانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں، جب تک یہ کچے تھے، یہ گھر تھے کیونکہ ان میں لوگ رہتے تھے ۔ اب لوگ باہر چلے گئے ہیں اور ڈالر، یورا اور پاؤنڈ کما کر پکے مکان بنا لیے ہیں ، ہر نیا جانے والا اور نیا نیا کمانیوالا ایک ایسی دوڑ میں شریک ہے کہ مکان کی بلندی اس کے اسٹیٹس کی علامت بن گئی ہے۔ یہ مکان خالی ہیں، ان میں کوئی رہتا نہیں ہے ، مکین غیر موجود کیونکہ وہ دیار غیر میں ہیں۔
مکان سیمنٹ اور پتھر سے بنے ہیں تو لوگوں کے دل بھی پتھر کے ہوگئے ہیں، اقدار اور معاشرتی طرز بدل گیا ہے۔ گاؤں جب چھوٹے تھے، لوگ سادہ تھے، تعلیم اور دولت کا فقدان تھا مگر امداد باہمی، تہذیب اور سخاوت کا نہیں۔ وہ گاؤں جس میں ہم اتنے سال پہلے بھی جاتے تھے جب گھروں میں پانی تک کی سہولت موجود نہ تھی، کنویں سے پانی بھرنے کے لیے ملازم ہوتے تھے، اس کے بعد اکا دکا گھروں میں نلکے لگنا شروع ہوئے تو وہ گھر مرکزی حیثیت اختیار کر گئے کہ کنوؤں پر جانے کی مشقت بچ گئی، ان گھروں سے لوگوں کو ہر محلے میں پانی حاصل کرنے کی سہولت ہو گئی۔ گاؤں سے ضرورت کی چند اشیاء ملتی تھیں ، اس سے زائد کے لیے لوگ شہر جاتے تھے۔ اب ہمارے گاؤں سمیت ، ہر گاؤں میں ہر طرح کی سہولت موجود ہے مگر اس کے باوجود چند چیزوں کا شدید فقدان ہو گیا ہے۔
جو چیز مجھے سب سے زیادہ مثبت لگی وہ ان سب دیہات میں اسکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں کوئی اضافہ ہوا ہے نہ ان کی سہولیات اور معیار میں، اسی لیے لوگوں کا ان اسکولوں پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری اسکولوں میں صرف ان لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ کی سکت نہیں ہے۔
ان میں سے نہ صرف مین سڑک پر اسکول ہیں بلکہ دیہات کے اندر بھی لاتعداد اسکول کھل گئے ہیں۔ دیہات کے اندر کھلنے والے اسکول لوگوں کو اس لحاظ سے مناسب لگتے ہیں کہ بچے پیدل وہاں تک رسائی کر لیتے ہیں۔ ان تنگ گلیوں میں کھمبیوں کی طرح اگ آنیوالے ، بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے ہوئے، پرانے گھروں میں چھوٹے چھوٹے اسکول، جن میں سے چند سرکاری سرپرستی میں بھی چل رہے ہیں اور چند نجی ہیں۔
( حکومت نے لوگوں کو اسکول قائم کرنے کے لیے ترغیب دی ہے اور اس کے تحت لوگ اپنے اسکول بنا رہے ہیں ، مگر ان اسکولوں میں استادوں کی تنخواہیں ، بچوں کی کتب اور بچوں کی فیس، سب کچھ حکومت کی طرف سے دیا جاتا ہے ) سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ان اسکولوں میں کس کس نوعیت کے فراڈ کیے جا رہے ہیں، اسے شاید کوئی چیک نہیں کرتا مگر نجی اسکولوں نے اس علاقے میں بہتر تعلیم کے لیے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے۔
جو چیز مجھے سب سے زیادہ منفی لگی ہے وہ ان دیہات میں گندگی، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور ان کے سبب پیدا ہونے والی آلودگی ہے۔ پہلے لوگ سادہ تھے، طرز زندگی سادہ تھا اور سہولیات نہ ہونے کے برابر، کوڑا کرکٹ بھی اسی طرح سادہ تھا اور ہمارا گاؤں اور دیگر دیہات صفائی کی عملی مثال تھے مگر اب گاؤں کی ان گلیوں میں چلنا بھی ناممکن نظر آتا ہے... بالخصوص اگر ایک بارش برس جائے تو گلیوں کی اطراف میں نالیاں ابل کر پوری گلی میں پھیل جاتی ہیں۔ مومی لفافے ان کے اوپر تیر رہے ہوتے ہیں، گھروں سے نکلنے والی غلاظت، جس کا باہرکوئی نکاس نہیں ہے، ساری ان گلیوں میں پھیل کر نہ صرف چلنے والوں کے لیے کوفت کا باعث بنتی ہے بلکہ کئی حادثات اور بیماریوں کا سبب بھی۔
صفائی نصف ایمان ہے... یہ حدیث ہمیں پہلی کلاس سے صبح کی اسمبلی میں بتائی جاتی تھی، اب بھی یقیناً بتائی جاتی ہو گی مگر اندازہ ہوتا ہے کہ اب علم بے عمل ہو گیا ہے۔ پڑھایا جاتا ہے کہ ماحولیاتی صفائی ہماری صحت اور تندرستی کے لیے ضروری ہے، ہمارے گھروں کی خوبصورتی کی علامت مگر عملی طور پر میں نے اس کے متضاد دیکھا ہے۔ میں نے اسکول سے لوٹ کر گھروں کو پیدل جاتے ہوئے ایک دو بچوں کو باقاعدہ روکا اور ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اسکول میں پڑھایا نہیں جاتا کہ اپنے گھر ، گلی، محلے اور گاؤں کو صاف رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔ گندگی پھیلانے سے کئی طرح کی بیماریوں کے جراثیم ماحول میں پرورش پاتے ہیں؟ ان کا جواب مثبت تھا مگر عمل منفی۔
میں نے ان کے پھینکے ہوئے ٹافیوں کے ریپر ، چپس کے خالی پیکٹ ، پکوڑوں کے لفافے اور پھلوں کے چھلکے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر انھیں دیے کہ اپنے گھروں میں جا کر کوڑے دان میں پھینکیں، وہ تھوڑے سے شرمندہ ہوئے۔ جب میں نے ان کے پھینکے ہوئے اخبار کے بنے ہوئے لفافے اٹھا کر ان کو دیے تو وہ اس طرح کہ گھی میں لتھڑے ہوئے تھے جس طرح کہ گریس ہوتی ہے، انتہائی ناقص کوالٹی کے تیل یا گھی میں تلے ہوئے وہ پکوڑے جانے انھوں نے کہاں سے خریدے تھے، کس طرح ان کے والدین انھیں اس طرح کی ناقص چیزیں کھانے کے لیے رقم اور اجازت دے دیتے ہیں؟
اپنے گاؤںکی صفائی کے معاملے میں، میں نے کئی بار ان افراد سے بات کی ہے جو گاؤں کی بہتری کے منصوبوں کے لیے کوشاں رہتے ہیں ، ان کے کہنے کے مطابق بھی لوگ اپنے بچوں کو ہر روز اسکول کی کنٹین سے اور اسکول سے واپسی پر ریڑھیوں سے خرید کر کھانے کے لیے کئی کئی سو روپے ہر روز دے دینے والے والدین، گاؤں کی گلیوں کی صفائی اور مرمت کی مد میں مہینے بھر کا سو دو سو روپیہ تک دینے کو تیار نہیں ہوتے۔
کئی بار گاؤں میں کمیٹیاں بنی ہیں، ان میں مخیر حضرات چندے بھی دیتے ہیں، لوگوں سے اپیل بھی کی جاتی ہے تا کہ گاؤں میں فلاح کے منصوبوں کے لیے کام کریں مگر لوگ یوں خود کو اکائی سمجھنے لگے ہیں، ایک دوسرے سے کٹ گئے ہیں کہ انھیں اپنے گھر کے باہر پڑا ہوا کوڑے کرکٹ کا ڈھیر برا لگتا ہے نہ اپنی نالی میں سے ابل ابل کر دوسروں کو بیمار اور بیزار کرنیوالی غلاظت سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ ان کی دنیا ، ان کا اپنے گھر کا اندرونی حصہ رہ گیا ہے۔
بچے اساتذہ کی بات کو نہ صرف مقدم سمجھتے ہیں بلکہ ان کے عمل کی تقلید کرتے ہیں، ان کی بات کو اہمیت دیتے اور انھیں خوش رکھنے کے لیے ان کے کہے پر من و عن عمل کرتے ہیں۔ جہاں میں بچوں کو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ ان کے اساتذہ کے طرزتعلیم اور تربیت میں سقم ہیں، بچوں سے پہلے غالبا ان کے اساتذہ کی تربیت کی ضرورت اب زیادہ ہو گئی ہے۔