میاں صاحب اداروں کی تضحیک آپ کو گہری کھائی میں گرا دیگی
اگرمیاں صاحب کی حالیہ تقریروں اورخطبات کا جائزہ لیا جائے توصاف عیاں ہوتا ہے کہ یہ دونوں کیفیات اُن پر طاری ہو چکی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف پاکستان کے وہ خوش بخت شہری، صنعتکار، سرمایہ دار اور سیاستدان ہیں جو مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بنے۔ کبھی تو اسٹیبلشمنٹ اُن پر مہربان رہی اور کبھی ووٹر بھی۔ یہ اعزاز مگر اُن سے کوئی چھین سکتا ہے نہ غصب کر سکتا ہے کہ وہ تین بار وزیر اعظم بنے۔ پاکستان کی سات عشروں پر مشتمل تاریخ میں یہ منفرد اعزاز کسی اور کا مقدر نہیں بن سکا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو میاں صاحب اپنے نصیبے اور قسمت پر جتنا بھی فخر اور مان کریں، کم ہے۔ اُن پریہ احسانِ عظیم پاکستان کا بھی ہے اور پاکستانی عوام کا بھی۔ گزشتہ جولائی سے مگراُنہوں نے اپنے خطبات اور تقاریر میں پاکستان، پاکستانی عدلیہ اور پاکستانی اداروں کے بارے میں جو اسلوب اختیار کررکھا ہے، اِن میں احسان فراموشی کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ اس بازگشت میں پاکستانی اداروں کے خلاف دل آزاری کا عنصر بھی واضح طور پر سنائی اور دکھائی دے رہا ہے۔
وطنِ عزیز کی جمہور عوام میاں محمد نواز شریف کے اس لہجے اور اسلوب کو قطعی پسند نہیں کررہے ہیں۔ جب سے میاں صاحب کو ہماری عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے نااہل قرار دیا ہے، اُن کے لہجے کی تلخی بڑھ سی گئی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحبان کے انصاف پر مبنی فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہُوئے ملک کے اندر ایک منفرد مثال قائم کرتے، مگر شومئی قسمت سے اُنہوں نے مرکزِ گریز لہجہ اختیار کرکے نہ صرف اپنے سابقہ مثبت رویوں پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ انصاف پسند حلقوں میں اپنے لیے ناپسندیدگی اور بیزاری کا ماحول بھی پیدا کیا ہے۔
اداروں کے خلاف اُن کے اختیار کردہ مستقل لہجے کی بنیاد پر، سچی بات یہ ہے کہ، اُن کے خلاف عوام میں عدم اعتماد بھی بڑھ رہا ہے اور اُن کا کردار بھی مشکوک ہوتا جارہا ہے۔ میاں صاحب اگر تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ وطنِ عزیز کے مستحکم اداروں کے خلاف تقریری مہم جُوئی کرکے اپنے لیے کوئی راہ ہموار کرلیں گے یا کسی کو جھکانے میں کامیاب وکامران ہو سکیں گے تو یہ اُن کی سراسر غلط فہمی ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے نہ کبھی ہوگا ہی!!وہ ووٹ کی تقدیس اور حُرمت کی بات تو کررہے ہیں، جلسے جلوسوں میں سامعین سے ووٹ کے احترام کے حق میں نعرے بھی خود لگواتے ہیں لیکن وہ یہ بتانے اور اقرار کرنے سے بوجوہ قاصر ہیں کہ جب ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں بار کی حکومتوں کو اُنہوں نے لانگ مارچوں، عدم اعتمادوں اور سازشوں کی بنیاد پر بلڈوز کرنے کی کوششیں کی تھیں تو کیا یہ سب جمہور دوستی تھی؟
اُس وقت ووٹ کی تقدیس اور حُرمت کا خیال کیوں نہ آتا رہا؟ آج جب میاں صاحب خود شدیدبھنورمیں پھنسے ہیں تو اُنہیں یہ سب ''اصولی'' باتیں بھی شدت سے یاد آنے لگی ہیں۔ سچی مگر تلخ بات یہ ہے کہ میاں صاحب کبھی جمہوریت پسند اور جمہوریت نواز رہے ہی نہیں۔ ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کے حصول کا لالچ ہمیشہ اُنہیں اپنی گرفت میں لیے رہا ہے۔ جب تک کچھ چھتریاں اُن کے سر پر تنی رہی ہیں، اُنہیں ووٹ کی حُرمت یاد تھی نہ جمہوریت کی مبادیات۔ اب ذرا سی دھوپ نکلی ہے تو اُن کا سانس پھُول گیا ہے۔
اُنہیں صبر، تحمل اور اعراض ایسے آموختے بھی یاد نہیں رہے۔حیرت کی بات ہے کہ اب وہ دھمکی دیتے ہُوئے ''کشتیاں جلانے'' کی بات بھی کررہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ یہ دھمکی آمیز لہجہ کس کے خلاف اختیار کیے ہُوئے ہیں؟ اُن کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟کہیں وہ مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں تو گرتے نہیں جارہے؟ عربی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ''انسان جب مایوس ہو جاتا ہے تو یا وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یا اُس کی زبان غیر محتاط اور بے قابو ہو جاتی ہے۔''
اگر میاں صاحب کی حالیہ تقریروں اور خطبات کا جائزہ لیا جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ یہ دونوں کیفیات اُن پر طاری ہو چکی ہیں۔ممکن ہے میاں نواز شریف کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ اداروں کے بارے میں اُن کے کئی الفاظ دل آزاری کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن عقل سے عاری اُن کی میڈیا ٹیم بھی کیا ان معاملات سے بے خبر ہے؟ کیا میاں صاحب تک سپریم کورٹ کے یہ الفاظ نہیں پہنچے ہیں: ''آئینی اداروں پر تنقید آرٹیکل5 کی خلاف ورزی ہے۔
عدلیہ کو بھی بدنام کیا جارہا ہے۔''شکر کیا جانا چاہیے کہ ہمارے معزز جج صاحبان نہ تو دانستہ کسی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ پہلے سے کسی کے خلاف ذہن بنا کر بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے غیر جانبدار ہو کر محض اور مطلق انصاف کا ترازو تھام رکھا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ میاں صاحب نے آخر کس کے کہنے پربھارت کو بھی اپنے دل کے ساتھ لگا رکھا ہے؟ اُن کے موافقین اور مخالفین حیرت سے پوچھتے اور استفسار کرتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف پاکستان پر بھارتی مفادات کو کیسے ترجیح دے سکتے ہیں؟
آخر وہ کونسی وجوہ ہیںجن کی بنیادپر وہ پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہفوات کا جواب دینے سے قاصر ہیں؟ پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں اور دشمنیوں کا ذکر آخر کیوں میاں صاحب کی زبان پر نہیں آتا؟ وہ 5فروری کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کے موقع پر بڑے طمطراق کے ساتھ مظفر آباد گئے۔ ایک جلسہ بھی کیا۔آزاد کشمیر کی ''اپنی'' حکومت کو فنڈز دینے اور ترقیاتی منصوبے پروان چڑھانے کی بلند بانگ باتیں بھی کیں لیکن اصل مقصد کی طرف دانستہ نہیں آئے۔
موقع مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے ذکر کا تھا۔ کشمیریوں کے دکھوں اور غموں میں شریک ہونے کا تھا۔ جن ہزاروں کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے پیلٹ بندوقوں کے ذریعے کامل یا نیم نابینا کر دیا ہے، اُن بھارتیوں کی مذمت کی جانی چاہیے تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے آرمی چیف، بپن راوت، نے جو نئے مظالم ڈھائے ہیں، اُن خوں آشام مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی لازم تھی۔ سُنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں نے مگر یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ میاں محمد نواز شریف کی زبان پر ظالم بھارتی فوجوں اور متعصب بھارتی وزیر اعظم کا ذکر تک نہ آیا۔
اُنہوں نے پیلٹ بندوقیں چلانے والوں کی مذمت میں ایک لفظ تک ادا نہ کیا۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے اُن کی آواز میں توانائی محسوس نہیں کی گئی۔ آخر کیوں؟ کیوں اُن کی زبان پر بھارتی مظالم کا ذکر نہیں آتا؟ آخر جھجک کیا اور کیوں ہے؟ کونسے مفادات میاں صاحب کو کشمیر اور پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں کا جواب دینے سے روک دیتے ہیں؟ پھر اُن کے بارے میں شبہات اور شکوک کے طوفان کیوں نہ اُٹھیں؟
اُس دن اُن کی صاحبزادی صاحبہ نے بھی فرمایا کہ ''میری رگوں میں بھی کشمیری خون ہے'' لیکن افسوس یہ ہے کہ دونوں باپ اور بیٹی کشمیریوں سے وفا کرنے اور مظلوم کشمیریوں سے عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہ تو تضادات کی عجب داستان ہے۔ حیرت انگیز اور افسوسناک داستان!!پھر لوگ کیوں نہ اُن کہانیوں پر یقین کریں جو کہانیاں ممتاز بھارتی صحافی برکھا دَت نے اپنی کتاب میں میاں صاحب کی بھارت سے محبتوں کے بارے میں رقم کی ہیں؟؟
بھارت کے بارے میں میاں محمد نواز شریف کے دل میں جو محبت موجزن ہے، کیا پاکستان کے بارے میں اِس کا عشرِ عشیر بھی کسی بھارتی وزیر اعظم کی زبان پرکبھی دیکھا اور سُنا گیا ہے؟ جَلی اور خفی طور پر، ڈھکے چھپے انداز میں اور کھلے و بین السطوراسلوب میں تین بار بننے والے سابق وزیر اعظم عدلیہ کو جس طرح ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں، اس سے صرف منصفوں ہی کی دل آزاری نہیں ہورہی ہے بلکہ عوام بھی میاں صاحب کے لہجے سے بیزار اور متنفر ہورہے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ اُن کے لہجے میں دل آزاری کا عنصر دھیما پڑنے کے بجائے روز افزوں ہے۔ یہ ہم سب کے لیے الارمنگ ہے۔ اگر کسی ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے بلند اور معزز ایوان بھی سیاستدانوں کی ہوس اور تنقید سے محفوظ نہ ہوں تو اُس مملکت کے مستقبل کے بارے میں یقینی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم چرچل نے تو کئی عشرے قبل یہ سنہری بات کہہ دی تھی کہ اگر میرے ملک میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو مجھے کسی جنگ سے بھی کوئی خدشہ ہے نہ فکر۔ اور ایک ہمارے یہ سابق وزیر اعظم ہیں جو مملکتِ خداداد کے بارے میں مسموم فضا پیدا کرکے ہر شے بلڈوز کردینا چاہتے ہیں۔
عوام اور ہماری عدلیہ میں تشریف فرما معزز جج صاحبان ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حالیہ ایام کے دوران ہماری عدلیہ نے ظالموں اور غاصبوں کے خلاف جو شاندار فیصلے سنائے ہیں، سماج دشمن عناصر کو کیفرِ کردارتک پہنچانے میں جو واضح راستہ اختیار کیا ہے، ملک بھر میں اس کی تحسین کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر قصور کے اُس سفاک شخص کو ہر صورت میں گرفتار کرنے پر زور دینا جس نے زینب نامی بچی سمیت نصف درجن سے زائد معصوم بچیوں کو نہ صرف بے حُرمت کیا بلکہ اُن کی جانیں بھی ہڑپ کرلیں۔
مثال کے طور پر سینیٹر نہال ہاشمی کو بدتمیزی کی سزا دینا۔ اور سب سے بڑھ کر ولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم (مشال خان) کے قاتلوں کو دس ماہ کے اندر اندر سزا ئیں سنانا۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ غیر معمولی فیصلے ہیں اور جرأت مندانہ بھی۔ یقینی طور پر ہماری سوسائٹی پر ان کے دُور رَس اثرات مرتّب ہوں گے۔عوام نے ان فیصلوں پر اطمینان اور سکون کا اظہار کیا ہے۔ پرسچ یہ ہے کہ اگر عدلیہ بھی ان مظالم پر خاموش رہتی تو پنجاب حکومت کے ''خدمت گزار'' بھی اس ظلم کو پی جاتے کہ یہ تو غریب غرباکے مسائل ہیں۔
اگر پنجاب کے ''خدمت گزاروں'' نے زینب کے قاتلوں اور ظالموں کو از خود تلاش کرنا ہوتا تو جج صاحبان کے زور دیے بغیر ہی یہ کام اپنے انجام کو پہنچ جاتا۔ ایسا مگر نہ ہو سکا۔ شاباش دینی چاہیے ہمارے عظیم ججوں کو جنھوں نے تڑپتی اور چیختی انسانیت پر فوری توجہ مبذول کی۔وزیر مملکت طلال چوہدری اور وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز کو عدلیہ کی طرف سے جس عدالتی پُرسش کا سامنا ہے، پاکسان بھر کے عوام نے اِن اقدامات پر بھی مسرت کا اظہار کیا ہے۔
بڑی وجہ یہ ہے کہ ان آزار پسند مقتدر سیاسی لوگوں نے شائد یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ اپنے سیاسی لیڈر کی خوشنودی کے لیے عدلیہ کو خواہ کتنا ہی بے جا تنقید کا نشانہ بنا دیں گے، کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ اب انہیں پوچھا گیا ہے تو ان کی چیخیں سارے ملک میں سنائی دی جارہی ہیں۔ ابھی تو ان کے بارے میں فیصلے ہونے باقی ہیں لیکن ابھی سے ان دونوں کی پریشانیاں دیدنی ہیں۔ جب فیصلہ سامنے آئے گا، تب کیا کیفیت ہو گی؟
عوام مطمئن ہیں کہ ہماری عدلیہ نے ا ن نام نہاد ''بڑے لوگوں'' پر بھی ہاتھ ڈالا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر دوچار درجن بے مہار مقتدر اور سیاسی لوگوں کو سخت سزائیں سنا دی جائیں تو باقی خود بخود ہی صراطِ مستقیم پر آ جائیں گے۔ قانون اور عدل کا پرچم ہر شکل میں بلند رہنا چاہیے۔عدلیہ کو سیکنڈلائز کرنے سے باز رہا جائے۔ یہی بعض لوگوں کے لیے مناسب مشورہ ہے۔
پاکستانی عوام نے یہ منظر بھی حیرت سے دیکھا ہے کہ بنگلہ دیشی سیاستدان خالدہ ضیاء، جو اپنے ملک کی دوبار وزیر اعظم رہ چکی ہیں،کو8فروری2018ء کو ڈھاکہ عدالت نے پانچ سال کی سزا سنائی ہے تو خالدہ ضیاء کے منہ سے عدالت اور ججوں کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں ہُوا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ہم اپیل کے لیے اگلی عدالت کے دروازے پر دستک دیں گے لیکن خالدہ ضیاء کی زبان سے وہ قابلِ اعتراض الفاظ ادا ہوتے ہُوئے کسی نے نہیں سُنے ہیں جو الفاظ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بننے والے صاحب کی زبان سے اپنے ملک کی عدلیہ کے بارے میں نکل رہے ہیں۔
اگر کوئی ''شخص''یہ خیال کیے بیٹھا ہے کہ اُس کے دل آزار بیانات کوئی سُن نہیں رہا ہے، تووہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ سُننے والے اور دیکھنے والے بعض لوگوں کی توقعات سے زیادہ سُن اور دیکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب کا یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ اگر عدالتیں ختم ہو جائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا۔ اُن کا یہ ارشادِ گرامی بھی بعض لوگوں کے لیے انتباہ کا درجہ رکھتا ہے کہ توہینِ عدالت کی سزا چھ ماہ سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
جناب چیف جسٹس کی اس مختصر بات کی گہرائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔مذاق اور ٹھٹھول کا وقت گزر چکا ہے۔ پاکستانی عوام جب شاہد خاقان عباسی کو یہ کہتے ہُوئے سُنتے ہیں کہ ''میرا وزیر اعظم میاں نواز شریف ہے'' تو یہ دراصل وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کی توہین ہے۔ ٹھیک ہے شاہد خاقان عباسی صاحب اپنے لیڈر سے بہت پیار کرتے ہوں گے۔ اُن کا احترام بھی اُن کے دل میں بے حد ہوگا لیکن وزیر اعظم کے عہدے کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے۔
اس کا ادراک اور احساس اُنہیں بھی ہوگا۔ لیکن اس سب کے باوجود جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ''میرے وزیر اعظم نواز شریف ہیں'' تو یہ دراصل جگ ہنسائی کے مترادف ہے۔وہ بیرونِ ملک بھی اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم یقیناً اُن کی وفا پر خوش ہوتے ہوں گے لیکن سارے لوگ اُن کا مذاق اڑاتے ہیں؛ چنانچہ چیف جسٹس صاحب نے بجا طور پر اس کا نوٹس لیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کسی کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے سنائی دیتے ہیں۔ وہ نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کو برسرِ مجلس ماننے سے انکاری ہیں۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟
شاہد خاقان عباسی آخر کیوں نئی روایات تخلیق کرنے پر تُلے ہیں؟ اُنہیں زیاں کاری کا احساس تک نہیں ہے۔اگر ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی عدلیہ اور اداروں کے احترام سے پہلو تہی کررہاہو تو پھر وزیر اعظم کے آس پاس پھرنے والوں سے کیا گلہ کیا جاسکتا ہے؟ اُن کے روئیے ہی سے طلال، دانیال اور نہال ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ بیہودہ رویوں کو نکیل ڈالنے کے لیے عدلیہ اور اداروں ہی کو بسرعت حرکت میں آنا ہوگا۔ تاخیر ہوگی تو سب کچھ بہہ جائے گا۔ خدانخواستہ!!
یوں دیکھا جائے تو میاں صاحب اپنے نصیبے اور قسمت پر جتنا بھی فخر اور مان کریں، کم ہے۔ اُن پریہ احسانِ عظیم پاکستان کا بھی ہے اور پاکستانی عوام کا بھی۔ گزشتہ جولائی سے مگراُنہوں نے اپنے خطبات اور تقاریر میں پاکستان، پاکستانی عدلیہ اور پاکستانی اداروں کے بارے میں جو اسلوب اختیار کررکھا ہے، اِن میں احسان فراموشی کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ اس بازگشت میں پاکستانی اداروں کے خلاف دل آزاری کا عنصر بھی واضح طور پر سنائی اور دکھائی دے رہا ہے۔
وطنِ عزیز کی جمہور عوام میاں محمد نواز شریف کے اس لہجے اور اسلوب کو قطعی پسند نہیں کررہے ہیں۔ جب سے میاں صاحب کو ہماری عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے نااہل قرار دیا ہے، اُن کے لہجے کی تلخی بڑھ سی گئی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحبان کے انصاف پر مبنی فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہُوئے ملک کے اندر ایک منفرد مثال قائم کرتے، مگر شومئی قسمت سے اُنہوں نے مرکزِ گریز لہجہ اختیار کرکے نہ صرف اپنے سابقہ مثبت رویوں پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ انصاف پسند حلقوں میں اپنے لیے ناپسندیدگی اور بیزاری کا ماحول بھی پیدا کیا ہے۔
اداروں کے خلاف اُن کے اختیار کردہ مستقل لہجے کی بنیاد پر، سچی بات یہ ہے کہ، اُن کے خلاف عوام میں عدم اعتماد بھی بڑھ رہا ہے اور اُن کا کردار بھی مشکوک ہوتا جارہا ہے۔ میاں صاحب اگر تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ وطنِ عزیز کے مستحکم اداروں کے خلاف تقریری مہم جُوئی کرکے اپنے لیے کوئی راہ ہموار کرلیں گے یا کسی کو جھکانے میں کامیاب وکامران ہو سکیں گے تو یہ اُن کی سراسر غلط فہمی ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے نہ کبھی ہوگا ہی!!وہ ووٹ کی تقدیس اور حُرمت کی بات تو کررہے ہیں، جلسے جلوسوں میں سامعین سے ووٹ کے احترام کے حق میں نعرے بھی خود لگواتے ہیں لیکن وہ یہ بتانے اور اقرار کرنے سے بوجوہ قاصر ہیں کہ جب ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں بار کی حکومتوں کو اُنہوں نے لانگ مارچوں، عدم اعتمادوں اور سازشوں کی بنیاد پر بلڈوز کرنے کی کوششیں کی تھیں تو کیا یہ سب جمہور دوستی تھی؟
اُس وقت ووٹ کی تقدیس اور حُرمت کا خیال کیوں نہ آتا رہا؟ آج جب میاں صاحب خود شدیدبھنورمیں پھنسے ہیں تو اُنہیں یہ سب ''اصولی'' باتیں بھی شدت سے یاد آنے لگی ہیں۔ سچی مگر تلخ بات یہ ہے کہ میاں صاحب کبھی جمہوریت پسند اور جمہوریت نواز رہے ہی نہیں۔ ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کے حصول کا لالچ ہمیشہ اُنہیں اپنی گرفت میں لیے رہا ہے۔ جب تک کچھ چھتریاں اُن کے سر پر تنی رہی ہیں، اُنہیں ووٹ کی حُرمت یاد تھی نہ جمہوریت کی مبادیات۔ اب ذرا سی دھوپ نکلی ہے تو اُن کا سانس پھُول گیا ہے۔
اُنہیں صبر، تحمل اور اعراض ایسے آموختے بھی یاد نہیں رہے۔حیرت کی بات ہے کہ اب وہ دھمکی دیتے ہُوئے ''کشتیاں جلانے'' کی بات بھی کررہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ یہ دھمکی آمیز لہجہ کس کے خلاف اختیار کیے ہُوئے ہیں؟ اُن کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟کہیں وہ مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں تو گرتے نہیں جارہے؟ عربی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ''انسان جب مایوس ہو جاتا ہے تو یا وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یا اُس کی زبان غیر محتاط اور بے قابو ہو جاتی ہے۔''
اگر میاں صاحب کی حالیہ تقریروں اور خطبات کا جائزہ لیا جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ یہ دونوں کیفیات اُن پر طاری ہو چکی ہیں۔ممکن ہے میاں نواز شریف کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ اداروں کے بارے میں اُن کے کئی الفاظ دل آزاری کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن عقل سے عاری اُن کی میڈیا ٹیم بھی کیا ان معاملات سے بے خبر ہے؟ کیا میاں صاحب تک سپریم کورٹ کے یہ الفاظ نہیں پہنچے ہیں: ''آئینی اداروں پر تنقید آرٹیکل5 کی خلاف ورزی ہے۔
عدلیہ کو بھی بدنام کیا جارہا ہے۔''شکر کیا جانا چاہیے کہ ہمارے معزز جج صاحبان نہ تو دانستہ کسی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ پہلے سے کسی کے خلاف ذہن بنا کر بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے غیر جانبدار ہو کر محض اور مطلق انصاف کا ترازو تھام رکھا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ میاں صاحب نے آخر کس کے کہنے پربھارت کو بھی اپنے دل کے ساتھ لگا رکھا ہے؟ اُن کے موافقین اور مخالفین حیرت سے پوچھتے اور استفسار کرتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف پاکستان پر بھارتی مفادات کو کیسے ترجیح دے سکتے ہیں؟
آخر وہ کونسی وجوہ ہیںجن کی بنیادپر وہ پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہفوات کا جواب دینے سے قاصر ہیں؟ پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں اور دشمنیوں کا ذکر آخر کیوں میاں صاحب کی زبان پر نہیں آتا؟ وہ 5فروری کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کے موقع پر بڑے طمطراق کے ساتھ مظفر آباد گئے۔ ایک جلسہ بھی کیا۔آزاد کشمیر کی ''اپنی'' حکومت کو فنڈز دینے اور ترقیاتی منصوبے پروان چڑھانے کی بلند بانگ باتیں بھی کیں لیکن اصل مقصد کی طرف دانستہ نہیں آئے۔
موقع مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے ذکر کا تھا۔ کشمیریوں کے دکھوں اور غموں میں شریک ہونے کا تھا۔ جن ہزاروں کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے پیلٹ بندوقوں کے ذریعے کامل یا نیم نابینا کر دیا ہے، اُن بھارتیوں کی مذمت کی جانی چاہیے تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے آرمی چیف، بپن راوت، نے جو نئے مظالم ڈھائے ہیں، اُن خوں آشام مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی لازم تھی۔ سُنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں نے مگر یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ میاں محمد نواز شریف کی زبان پر ظالم بھارتی فوجوں اور متعصب بھارتی وزیر اعظم کا ذکر تک نہ آیا۔
اُنہوں نے پیلٹ بندوقیں چلانے والوں کی مذمت میں ایک لفظ تک ادا نہ کیا۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے اُن کی آواز میں توانائی محسوس نہیں کی گئی۔ آخر کیوں؟ کیوں اُن کی زبان پر بھارتی مظالم کا ذکر نہیں آتا؟ آخر جھجک کیا اور کیوں ہے؟ کونسے مفادات میاں صاحب کو کشمیر اور پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں کا جواب دینے سے روک دیتے ہیں؟ پھر اُن کے بارے میں شبہات اور شکوک کے طوفان کیوں نہ اُٹھیں؟
اُس دن اُن کی صاحبزادی صاحبہ نے بھی فرمایا کہ ''میری رگوں میں بھی کشمیری خون ہے'' لیکن افسوس یہ ہے کہ دونوں باپ اور بیٹی کشمیریوں سے وفا کرنے اور مظلوم کشمیریوں سے عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہ تو تضادات کی عجب داستان ہے۔ حیرت انگیز اور افسوسناک داستان!!پھر لوگ کیوں نہ اُن کہانیوں پر یقین کریں جو کہانیاں ممتاز بھارتی صحافی برکھا دَت نے اپنی کتاب میں میاں صاحب کی بھارت سے محبتوں کے بارے میں رقم کی ہیں؟؟
بھارت کے بارے میں میاں محمد نواز شریف کے دل میں جو محبت موجزن ہے، کیا پاکستان کے بارے میں اِس کا عشرِ عشیر بھی کسی بھارتی وزیر اعظم کی زبان پرکبھی دیکھا اور سُنا گیا ہے؟ جَلی اور خفی طور پر، ڈھکے چھپے انداز میں اور کھلے و بین السطوراسلوب میں تین بار بننے والے سابق وزیر اعظم عدلیہ کو جس طرح ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں، اس سے صرف منصفوں ہی کی دل آزاری نہیں ہورہی ہے بلکہ عوام بھی میاں صاحب کے لہجے سے بیزار اور متنفر ہورہے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ اُن کے لہجے میں دل آزاری کا عنصر دھیما پڑنے کے بجائے روز افزوں ہے۔ یہ ہم سب کے لیے الارمنگ ہے۔ اگر کسی ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے بلند اور معزز ایوان بھی سیاستدانوں کی ہوس اور تنقید سے محفوظ نہ ہوں تو اُس مملکت کے مستقبل کے بارے میں یقینی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم چرچل نے تو کئی عشرے قبل یہ سنہری بات کہہ دی تھی کہ اگر میرے ملک میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو مجھے کسی جنگ سے بھی کوئی خدشہ ہے نہ فکر۔ اور ایک ہمارے یہ سابق وزیر اعظم ہیں جو مملکتِ خداداد کے بارے میں مسموم فضا پیدا کرکے ہر شے بلڈوز کردینا چاہتے ہیں۔
عوام اور ہماری عدلیہ میں تشریف فرما معزز جج صاحبان ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حالیہ ایام کے دوران ہماری عدلیہ نے ظالموں اور غاصبوں کے خلاف جو شاندار فیصلے سنائے ہیں، سماج دشمن عناصر کو کیفرِ کردارتک پہنچانے میں جو واضح راستہ اختیار کیا ہے، ملک بھر میں اس کی تحسین کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر قصور کے اُس سفاک شخص کو ہر صورت میں گرفتار کرنے پر زور دینا جس نے زینب نامی بچی سمیت نصف درجن سے زائد معصوم بچیوں کو نہ صرف بے حُرمت کیا بلکہ اُن کی جانیں بھی ہڑپ کرلیں۔
مثال کے طور پر سینیٹر نہال ہاشمی کو بدتمیزی کی سزا دینا۔ اور سب سے بڑھ کر ولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم (مشال خان) کے قاتلوں کو دس ماہ کے اندر اندر سزا ئیں سنانا۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ غیر معمولی فیصلے ہیں اور جرأت مندانہ بھی۔ یقینی طور پر ہماری سوسائٹی پر ان کے دُور رَس اثرات مرتّب ہوں گے۔عوام نے ان فیصلوں پر اطمینان اور سکون کا اظہار کیا ہے۔ پرسچ یہ ہے کہ اگر عدلیہ بھی ان مظالم پر خاموش رہتی تو پنجاب حکومت کے ''خدمت گزار'' بھی اس ظلم کو پی جاتے کہ یہ تو غریب غرباکے مسائل ہیں۔
اگر پنجاب کے ''خدمت گزاروں'' نے زینب کے قاتلوں اور ظالموں کو از خود تلاش کرنا ہوتا تو جج صاحبان کے زور دیے بغیر ہی یہ کام اپنے انجام کو پہنچ جاتا۔ ایسا مگر نہ ہو سکا۔ شاباش دینی چاہیے ہمارے عظیم ججوں کو جنھوں نے تڑپتی اور چیختی انسانیت پر فوری توجہ مبذول کی۔وزیر مملکت طلال چوہدری اور وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز کو عدلیہ کی طرف سے جس عدالتی پُرسش کا سامنا ہے، پاکسان بھر کے عوام نے اِن اقدامات پر بھی مسرت کا اظہار کیا ہے۔
بڑی وجہ یہ ہے کہ ان آزار پسند مقتدر سیاسی لوگوں نے شائد یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ اپنے سیاسی لیڈر کی خوشنودی کے لیے عدلیہ کو خواہ کتنا ہی بے جا تنقید کا نشانہ بنا دیں گے، کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ اب انہیں پوچھا گیا ہے تو ان کی چیخیں سارے ملک میں سنائی دی جارہی ہیں۔ ابھی تو ان کے بارے میں فیصلے ہونے باقی ہیں لیکن ابھی سے ان دونوں کی پریشانیاں دیدنی ہیں۔ جب فیصلہ سامنے آئے گا، تب کیا کیفیت ہو گی؟
عوام مطمئن ہیں کہ ہماری عدلیہ نے ا ن نام نہاد ''بڑے لوگوں'' پر بھی ہاتھ ڈالا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر دوچار درجن بے مہار مقتدر اور سیاسی لوگوں کو سخت سزائیں سنا دی جائیں تو باقی خود بخود ہی صراطِ مستقیم پر آ جائیں گے۔ قانون اور عدل کا پرچم ہر شکل میں بلند رہنا چاہیے۔عدلیہ کو سیکنڈلائز کرنے سے باز رہا جائے۔ یہی بعض لوگوں کے لیے مناسب مشورہ ہے۔
پاکستانی عوام نے یہ منظر بھی حیرت سے دیکھا ہے کہ بنگلہ دیشی سیاستدان خالدہ ضیاء، جو اپنے ملک کی دوبار وزیر اعظم رہ چکی ہیں،کو8فروری2018ء کو ڈھاکہ عدالت نے پانچ سال کی سزا سنائی ہے تو خالدہ ضیاء کے منہ سے عدالت اور ججوں کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں ہُوا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ہم اپیل کے لیے اگلی عدالت کے دروازے پر دستک دیں گے لیکن خالدہ ضیاء کی زبان سے وہ قابلِ اعتراض الفاظ ادا ہوتے ہُوئے کسی نے نہیں سُنے ہیں جو الفاظ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بننے والے صاحب کی زبان سے اپنے ملک کی عدلیہ کے بارے میں نکل رہے ہیں۔
اگر کوئی ''شخص''یہ خیال کیے بیٹھا ہے کہ اُس کے دل آزار بیانات کوئی سُن نہیں رہا ہے، تووہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ سُننے والے اور دیکھنے والے بعض لوگوں کی توقعات سے زیادہ سُن اور دیکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب کا یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ اگر عدالتیں ختم ہو جائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا۔ اُن کا یہ ارشادِ گرامی بھی بعض لوگوں کے لیے انتباہ کا درجہ رکھتا ہے کہ توہینِ عدالت کی سزا چھ ماہ سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
جناب چیف جسٹس کی اس مختصر بات کی گہرائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔مذاق اور ٹھٹھول کا وقت گزر چکا ہے۔ پاکستانی عوام جب شاہد خاقان عباسی کو یہ کہتے ہُوئے سُنتے ہیں کہ ''میرا وزیر اعظم میاں نواز شریف ہے'' تو یہ دراصل وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کی توہین ہے۔ ٹھیک ہے شاہد خاقان عباسی صاحب اپنے لیڈر سے بہت پیار کرتے ہوں گے۔ اُن کا احترام بھی اُن کے دل میں بے حد ہوگا لیکن وزیر اعظم کے عہدے کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے۔
اس کا ادراک اور احساس اُنہیں بھی ہوگا۔ لیکن اس سب کے باوجود جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ''میرے وزیر اعظم نواز شریف ہیں'' تو یہ دراصل جگ ہنسائی کے مترادف ہے۔وہ بیرونِ ملک بھی اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم یقیناً اُن کی وفا پر خوش ہوتے ہوں گے لیکن سارے لوگ اُن کا مذاق اڑاتے ہیں؛ چنانچہ چیف جسٹس صاحب نے بجا طور پر اس کا نوٹس لیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کسی کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے سنائی دیتے ہیں۔ وہ نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کو برسرِ مجلس ماننے سے انکاری ہیں۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟
شاہد خاقان عباسی آخر کیوں نئی روایات تخلیق کرنے پر تُلے ہیں؟ اُنہیں زیاں کاری کا احساس تک نہیں ہے۔اگر ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی عدلیہ اور اداروں کے احترام سے پہلو تہی کررہاہو تو پھر وزیر اعظم کے آس پاس پھرنے والوں سے کیا گلہ کیا جاسکتا ہے؟ اُن کے روئیے ہی سے طلال، دانیال اور نہال ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ بیہودہ رویوں کو نکیل ڈالنے کے لیے عدلیہ اور اداروں ہی کو بسرعت حرکت میں آنا ہوگا۔ تاخیر ہوگی تو سب کچھ بہہ جائے گا۔ خدانخواستہ!!