پاکستان میں ٹیکس گزار افغانستان سے بھی کم
حکومت نادہندہ امیروں کو ہر قیمت پرٹیکس نیٹ میں لائے،ایف پی سی سی آئی تعاون کریگی
سارک چیمبرکے نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی شرح افغانستان سے بھی کم ہے۔
افتخار علی ملک نے ملک میں ٹیکس بیس کو وسعت دینے کے وزیر اعظم کے منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے دولت مند افراد کو ہر قیمت پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، اس حوالے سے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی شرح افغانستان سے بھی کم ہے جو قابل فکر ہے، اس صورتحال میں ٹیکس نیٹ کو توسیع دینا قومی معیشت کے استحکام اور ملکی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کی قیادت نے اس حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کا اصولی فیصلہ کیا ہے، ٹیکس نیٹ میں توسیع اور قومی خزانے کا ضیاع روکنے کے اقدامات کا فائدہ ٹیکسوں کی بھاری شرح میں کمی کی صورت میں موجودہ ٹیکس دہندگان کو بھی پہنچے گا، حکومت نے بھی ان کے مسائل حل کرنے میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی موجودہ تعداد12 لاکھ ہے جبکہ بجلی کے بلز میں ٹیکس دینے والے تاجروں کی تعداد70 لاکھ کے قریب ہے، اس فرق کو دور کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے، ٹیکس دہندگان میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ان مسائل کی بڑی وجہ مالیاتی قوانین پر موثر انداز میں عملدرآمد نہ ہونا ہے، کارپوریٹ سیکٹر کے مقابلے میں خدمات، ہول سیل و پرچون، ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبوں کے کم دستاویزی ہونے کی وجہ سے نہ صرف قومی آمدن میں ان کا حصہ کم ہے بلکہ ان کا بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے بھی باہر ہے، اس حوالے سے ایف بی آر اور آڈٹ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا ہوگا اور اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔
وزیر اعظم کی طرف سے ٹیکس دہندگان کے پروفائلز تیار کرنے میں نادرا سے مدد لینے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ نادرا نے پہلے بھی30 لاکھ ایسے ممکنہ ٹیکس دہندگان کی نشاندہی کی تھی جو اکثر بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور لگژری گھروں اور گاڑیوں کے مالک ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن ان افراد کو ارسال کیے جانے والے نوٹسز مختلف وجوہ کی بنا پر ان کو وصول ہی نہ کرائے جا سکے، اس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کے حکام کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ ضروری ہے۔
انہوں نے اس موقع پر وزیر اعظم کی طرف سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کی تجویز بھی دی اور ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ سرچارج کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
افتخار علی ملک نے ملک میں ٹیکس بیس کو وسعت دینے کے وزیر اعظم کے منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے دولت مند افراد کو ہر قیمت پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، اس حوالے سے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی شرح افغانستان سے بھی کم ہے جو قابل فکر ہے، اس صورتحال میں ٹیکس نیٹ کو توسیع دینا قومی معیشت کے استحکام اور ملکی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کی قیادت نے اس حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کا اصولی فیصلہ کیا ہے، ٹیکس نیٹ میں توسیع اور قومی خزانے کا ضیاع روکنے کے اقدامات کا فائدہ ٹیکسوں کی بھاری شرح میں کمی کی صورت میں موجودہ ٹیکس دہندگان کو بھی پہنچے گا، حکومت نے بھی ان کے مسائل حل کرنے میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی موجودہ تعداد12 لاکھ ہے جبکہ بجلی کے بلز میں ٹیکس دینے والے تاجروں کی تعداد70 لاکھ کے قریب ہے، اس فرق کو دور کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے، ٹیکس دہندگان میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ان مسائل کی بڑی وجہ مالیاتی قوانین پر موثر انداز میں عملدرآمد نہ ہونا ہے، کارپوریٹ سیکٹر کے مقابلے میں خدمات، ہول سیل و پرچون، ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبوں کے کم دستاویزی ہونے کی وجہ سے نہ صرف قومی آمدن میں ان کا حصہ کم ہے بلکہ ان کا بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے بھی باہر ہے، اس حوالے سے ایف بی آر اور آڈٹ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا ہوگا اور اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔
وزیر اعظم کی طرف سے ٹیکس دہندگان کے پروفائلز تیار کرنے میں نادرا سے مدد لینے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ نادرا نے پہلے بھی30 لاکھ ایسے ممکنہ ٹیکس دہندگان کی نشاندہی کی تھی جو اکثر بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور لگژری گھروں اور گاڑیوں کے مالک ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن ان افراد کو ارسال کیے جانے والے نوٹسز مختلف وجوہ کی بنا پر ان کو وصول ہی نہ کرائے جا سکے، اس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کے حکام کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ ضروری ہے۔
انہوں نے اس موقع پر وزیر اعظم کی طرف سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کی تجویز بھی دی اور ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ سرچارج کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔