سحر کے آنسو…

عورت میٹامارفوسس (تبدیلی کے عمل) سے گزرتی رہتی ہے، اسے دوسروں کی خاطر من کو مارنا پڑتا ہے۔


Shabnam Gul March 29, 2013

شاعری جذبوں کے اظہار کا موثر ذریعہ ہے۔ شاعری الہامی کیفیت ہے، جسے تحت الشعور میں محفوط تجربے و مشاہدے دریافت کرتے ہیں۔ شعر داخلی کیفیات کا ترجمان ہے اور عورت بھی من کی دنیا کی مسافر ہے، لہٰذا شاعری عورت کے احساس کی نزاکت کے قریب تر ہے۔ سندھی سماج کی ذہنی و سماجی ارتقا کے پس منظر میں سندھی عورت کا بھرپور حصہ رہا ہے۔

خاص طور پر شاعرات نے ہر دور میں ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور صنفی تفریق کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔ ثریا سوز ڈیپلائی سندھی شاعری کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ ان کے والد جناب محمد عثمان علی ڈیپلائی کا شمار سندھ کے ترقی پسند ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ثریا نے اس وقت شعر کہنا شروع کیا جب خواتین کے لیے ادب تخلیق کرنا یا شعر کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 1958 میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شاعری شایع ہوئی۔

اے نسیم سنتی ہوں آواز آشنا

دل کی دھڑکن میں ہے یہ کون پوشیدہ

ستّر کی دہائی سے سندھی معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور خواتین افسانے و شاعری میں عہد حاضر کے مسائل کا اظہار بے باکی سے کرنے لگیں۔ سحر امداد کا شمار بھی ترقی پسند شاعرات میں ہوتا ہے۔ سحر نے نظم، آزاد نظم، گیت اور ہائیکو کی صنفوں پر طبع آزمائی کی۔ سحر نے ون یونٹ کے خلاف ہونے والی سیاسی جدوجہد میں حصہ لیا۔ سحر کے موضوعات متنوع اور حقیقت پسندانہ ہیں۔

مجھ کو بے حد

بھوک لگی ہے

پر ان ڈگریوں کو

کیش بھی نہیں کرایا جاسکتا

سندھی معاشرہ سیاسی و سماجی الجھنوں کا شکار ہونے کے باوجود، شعوری طور پر ترقی پسند سوچ کا حامی رہا ہے۔ خاص طور پر شاعرات نے ہمیشہ روایتی سوچ اور غیر انسانی رویوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان میں ایک نمایاں نام نورالہدیٰ شاہ کا بھی ہے۔ گو کہ ان کی وجہ شہرت ٹی وی ڈرامے ہیں مگر وہ سندھی ادب میں اپنے افسانوں کے منفرد موضوعات اور شاعری کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ درد کی گہرائی میں ڈوبے ان کے الفاظ خود آگہی کا عذاب جھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔

درد صدا دے کر نہ آیا تھا

جسم سارا پتھر تھا

ہاتھ تھے صلیب کی مانند ٹنگے ہوئے

درد نے نیزہ اٹھایا

دل نگر میں رقص کیا

کتنی ہی یادوں کے بخیے ایک ایک کرکے

ادھڑ گئے کتنی کہاریں تھیں

حلق کے خارزار میں

گھٹتی چلی گئیں

دل تھا بے بس و بے نوا

درد سوا دوڑتا ہی رہا

سندھی شاعری کے افق پر چمکتا ایک اور درخشاں ستارہ مریم مجیدی نے تحقیق، مضمون نویسی، کالم، افسانے لکھنے کے ساتھ شاعری کی صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ کلاسیکی رنگ میں رچے ہوئے ان کے اشعار دھرتی کی محبت سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ مریم مجیدی نے زمینی حقائق اور مسائل کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے۔

سحر کے آنسو پونچھ کر

شام خون میں ڈوب گئی

جبر سے خوفزدہ ہوکر

سورج آسمان میں چھپ گیا

دن پر ڈاکا پڑا

رات بھی بالآخر اندھی ہوگئی

دور جدید کی سندھی شاعرہ خود آگہی کے عذاب کو جھیلتے ہوئے حوصلے کا مضبوط استعارہ بنی ہے۔ وہ ذات کے بھنور میں ڈوب کر جب باہر نکلتی ہے تو پوری کائنات اس کے دیدہ تر میں سمٹ آتی ہے اور اس کا تخیل زمان و مکاں کی حدوں سے دور نکل جاتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کی بحالی کے لیے سرگرداں عطیہ داؤد وومن ایکشن فورم کی سرگرم رکن بھی ہیں۔ ان کے باغی اور چونکا دینے والے لہجے نے سندھی شاعری کی ساکن لہروں میں ایک ارتعاش پیدا کردیا۔

مضبوط سمجھتے ہو تو پہاڑ کی مانند

پھوٹ نکلوں تو چشمہ ہوں میں

میرا عکس نہ بناؤ

چہرے پر چھائی ہوئی خاموشی

کو نہ دیکھ

تڑپ اٹھوں تو طوفان ہوں

اوس کی طرح شفق نہیں

بھڑک اٹھوں تو آگ ہوں

پشپا ولبھ سندھ کے معروف ادیب و ترجمہ نگار ولی رام ولبھ کی صاحبزادی ہیں۔ پشپا کے اظہار میں سادگی اور لہجے میں بے ساختگی متاثر کن ہے۔ پشپا کی نظم ''برسات کا پانی'' سے نوسٹلجیا یاد ماضی کی کیفیت عیاں ہے۔

ایک گا ؤں تھا

بے نام اور انجان

چھوٹا، خاموش اور پرسکون

ایک لڑکی تھی

کچھ خاص نہ تھی

برسات کا موسم تھا

مگر وہاں نکلے نہ تھے

رات کو اس کی دادی کہانی

سنایا کرتی

میرا دل کہتا ہے

ایک مرتبہ وہ گاؤں جاکے دیکھوں

گاؤں کی تصویر

کیا ویسی ہی ہوگی

جو میں سوچتی ہوں!

عورت میٹامارفوسس (تبدیلی کے عمل) سے گزرتی رہتی ہے، اسے دوسروں کی خاطر من کو مارنا پڑتا ہے۔ امر سندھو کے شعر کا محور تبدیلی کے تکلیف دہ عمل سے گزرتی سندھی عورت ہے، جو اپنے دکھوں کو ذات کی شکست تسلیم کرنے کے بجائے تخلیق کی قوت میں بدل دیتی ہے۔

جو شام تمہارے پاس سے ہوکر

اداس لوٹی تھی

میں نے آج شام کی چائے

اس کے ساتھ پی ہے

تمہاری آنکھوں کی گیلی شام

میں نے نہیں دیکھی ہو مگر

تمہارے گیلے وجود کو محسوس

کرسکتی ہوں

بارش جسم اور شام

روم کو گیلا کرنے آتے ہیں

سندھی شاعرات نے فقط داخلی کیفیات کی ترجمانی نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے معاشرتی تضادات اور مسائل کی حقیقت پسندانہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ ان کا تخیل وجود سے زندگی اور کائنات کی مختلف سمتوںکی طرف سفر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے شعر کا مرکز غیر انسانی رویے، محبت، دھرتی اور تصوف کے گوناگوں رخ رہے ہیں۔ اس سفر میں بہت سے نام ہیں جو منفرد انداز بیاں کی وجہ سے سندھی شاعری میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ جن میں شگفتہ شاہ، رخسانہ پریت، حسینہ ساند، گلشن لغاری، زیب نظامانی، گلبدن جاوید مرزا، ارم محبوب، روبینہ ابڑو، شبنم گل، حمیرہ نور، گوری ولبھ، شبنم موتی، سوسن مرزا، سلطانہ وقاص اور آمنہ ابڑو کے نام شامل ہیں۔

سندھی شاعری کا ایک بڑا حصہ مزاحمتی ادب پر مشتمل ہے۔ جس میں شاعرات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ذیل میں، میں اپنی سندھی نظم ''مصلحت'' پیش کرنے کی جسارت کر رہی ہوں۔

میری خاموشی نے

مجھے دوسروں پر یوں عیاں کردیا ہے

جس طرح قید کی گئی خوشبو

شیشے کے بدن سے اچانک

آزاد ہوجاتی ہے

آنکھیں میری مصلحتوں کے بوجھ تلے

جھکی ہوئی ہیں

پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ

بہت بولتی ہیں

میں نے بہت کچھ دیکھا اور سہا ہے

مگر مجھ سے سچ کہنے کا اختیار چھین کر

پتھروں کے دیس کے باسیوں نے

اپنی آنکھوں و سماعتوں پر

پہرے رکھ دیے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں