سیاست کا جمعہ بازار
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری مکر کی چالوں سے شکست کھا کر واپس چلے گئے اور اب با انداز دگر آئے ہیں۔
تمبو لگ چکے ہیںاور سیاست کا جمعہ بازار بھی! مگر اصل تماشہ تو پھر پولنگ والے روز ہوگا۔ لوگ آنے شروع ہوگئے ہیں، مختلف سیاسی پکوان پک رہے ہیں، ہر طرف سے وعدہ فردا کی مہک ہے۔ یہ قوم آمریت کی امرت کھاچکی ہے، جمہوریت کا زہر ہلاہل بھی پی چکی، اموات بسیار اجڑتے گھراجاڑ ، اپنے ہی ملک میں خانماں خراب ہوئے،کیمپوں کے مزے چکھ چکے۔ یہ 1947 کے کیمپ نہ تھے جو غیروں کی ستم ظریفی کا پھل ہو بلکہ یہ جمہور پر جمہوریت پروروں کا تیر تھا، دوران تقریر راجہ رینٹل کی گرفتاری کی آواز نے ڈاکٹر طاہر القادری کو کچھ دیر حوصلہ بخشا، مگر ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا، لوگ انقلاب کی آس لگائے یخ بستہ ہواؤں، بادوباراں سے لڑتے ہوئے شیر خواروں کو گودوں میں سلائے انقلاب کے گیت گاتے رہے۔
جیسے کہ حیدر آباد دکن میں مخدوم محی الدین تلنگانہ تحریک میں سربکف ہوں، مگر اسمبلی کی جانب بڑھتے ہوئے قدم رک گئے، دل کے ارماں دل میں رہ گئے، کوئی گاڑی بیچ کر، کوئی جمع پونجی لے کر اسلام آباد آیا تھا، فروری کی تیز ہوائیں اسلام آباد میں عوام کو نہ روک سکتی تھیں، مگر اپنے قائد پر جان دینے والے ان کے احکامات کے منتظر تھے وہ انقلاب جس کا خواب غریب دیکھتے آئے ہیں صرف مشرق کے نہیں بلکہ مغرب کے لوگ بھی جمہوریت کا سفر طے کرنے سے پہلے انھوں نے استبدادی قوتوں کو شکست دی۔ تب آج وہاں سیاست دکانداری نہیں بلکہ جمہوریت ہے، جس شہر میں لیڈر جاتا ہے ویسی ٹوپی پہن کر آتا ہے تاکہ لگے کہ ان میں سے ہے، ان جیسا ہے، بقول غالبؔ
بدل کر فقیروںکا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری مکر کی چالوں سے شکست کھا کر واپس چلے گئے اور اب با انداز دگر آئے ہیں۔ انقلاب کا دیا گل ہوگیا۔ 63-62 کی آواز تو فخروبھائی نے انتخابی پرچی میں درج کردی، مگر گرفت سے آزاد یہ ستمگر، یہ بازی گر کھلا دھوکہ دے رہے ہیں اور بیشتر اینکر پرسن ناخدا کہیں جن کو وہ بھی اسٹیک ہولڈر بنے ہوئے ہیں جیسے ان کی مال و متاع داؤ پر ہے۔ وہ بھی ان سیاسی دکانداروں کی دکانوں پر آواز کی پرچیاں چسپاں کر رہے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کو معلوم ہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے، ایسا الیکشن ہورہا ہے جس میں آپ ایک جماعت نہ پڑھے ہوں، مگر آپ کو اسمبلی میں بیٹھ کر قانون سازی کے اختیارات ہیں، عوام میں وہ چور ڈاکو تو خوامخواہ بدنام ہوئے جو اسٹریٹ کرائم کرتے ہیں۔
ماہ مارچ میں ایک ایسا ہفتہ آیا جس میں رات گیارہ بجے تک خصوصی طور پر بینک کھولے گئے اور عوامی دولت پر ڈاکا زنی ہوئی، جمہور نے انتخابات سے بے حد توقعات باندھ لی ہیں۔ وہ نادان سمجھ رہے ہیں کہ انتخابات سے بہت کچھ حاصل ہونے والا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ مزدور کی تنخواہ 15 ہزار، کوئی بیس ہزار، کوئی تو ان کی قسمت بدلنے کو آیا ہے کراچی، جہاں سے کبھی تحریک چلا کرتی تھی، طلبہ ان کا ہراول دستہ ہوتے تھے، مگر ان ہی صاحبان اقتدار نے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے اسٹال پر جو غیرمعیاری اشیاء سے بھرا ہوا تھا اور انھیں پنڈال میں مضرصحت اشیاء فروخت کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔بالکل ایسا سمجھیے کہ سبزی کی دکان پر ادویات فروخت ہورہی ہیں، اب نہ ڈگری کی ضرورت، نہ بوگس ڈگری والوں پر کوئی قدغن۔ ہر آدمی قرضے اتارنے کی مشق کررہا ہے۔
ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ وہ ملک کا قرض اتار دیں گے ابھی تو فی کس تقریباً80 ہزار کا مقروض ہے بشمول پیدا ہونے والے بچے کیونکہ یہ قرض اور بڑھ جائے گا تو ظاہر ہے وہی صاحب یہ قرض اتاردیں گے تو ہم سب خوشحال ہوجائیں گے۔ اگر صورت حال ایسی ہے تو پھر ان کو ہی وزیر اعظم بنادیں کیونکہ مہنگائی بھی کم ہوجائے گی، قرض جاتا رہے گا۔ البتہ عمران خان کو لوگوں نے آزمایا نہیں، نوجوانوں میں خصوصیت کے ساتھ پشتو بولنے والوں میں ان کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پنجاب میں بھی وہ مقبول ہوئے ہیں ۔
کراچی میں ممکن ہے کہ ایک سیٹ پرویز مشرف خصوصاً ڈی ایچ اے کے علاقے سے اپنا جوہر دکھا جائیں، مگر پارٹی کی حیثیت سے وہ غیر منظم ہیں، آنے والا وقت کیا کہتا ہے، مگر عمران خان ایک نئی قوت Change چینج کی آواز بلند کر رہے ہیں اور لفظ سونامی کو ضروری اور غیر ضروری طور پر استعمال کر رہے ہیں وہ ایک باصلاحیت انسان ضرور ہیں مگر ان کے جلسہ گاہ میں وہ چنگاری نہیں جو طاہر القادری کے جلسے میں دیکھی گئی ۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب ورکرز یونین کے جلسوں کی صدارت بھی کرتے رہے ہیں۔
آپ صاحب کردار بھی ہیں، مگر حکومت کے روزگار میں کچھ ایسے ہی اوصاف ہیں کہ وہ 63-62 کی چھلنی جو علامہ طاہر القادری نے جمائی تھی اس میں سے لوگ صاف طور پر نکل رہے ہیں اور اسمبلی کی جانب ان کے قدم بڑھتے نظر آرہے ہیں اب کس پر اعتبار کریں، انقلابی قوتوں میں دم خم نہیں ہے اکثر انقلابی (NGO) چلانے لگے۔ محض خواتین کے مسائل پر ان کی توجہ مرکوز ہے، ایک آدھ مزدوروں کی باتیں کرتے رہے، مگر ان کے مقاصد میں سنجیدگی نہیں، اسی لیے اب میرے شہر کراچی کے باسی دست و گریباں ہیں وہ صاحبان نظر جن کی آنکھوں سے جدوجہد کے جام چھلکتے تھے تاریک راہوں میں مارے گئے یا غربت کی بھینٹ چڑھ گئے، مصنوعی انقلابی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، اسی لیے تو صاحبان ادب اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔
دامن پہ جن کے حور و ملائک پڑھیں نماز
اے صاحبان دیں وہ گنہگار کیا ہوئے
آسودگان جاہ و حشم تو ہیں ہر طرف
اہل سلاسل و رسن و دار کیا ہوئے
ملک میں یہ سب ٹھیک ہے کہ اقتدار کا جال 18 ویں ترمیم کی مشین سے بنا گیا تاکہ اقتدار اعلیٰ میں کسی بھی بیرونی عنصر کا داخلہ آسان نہ ہو۔ ایک وقت جب کمیونسٹ پارٹی فعال تھی اور نازش امروہوی یہ کہا کرتے تھے کہ اگر عقائد کے معاملات کو ہٹا دیا جائے تو جماعت اسلامی اور کمیونسٹ پارٹی کے دنیاوی مقاصد ایک ہیں گوکہ ان دونوں میں کبھی کوئی ربط نہ دیکھا بلکہ سیکولرازم کو ہی وہ راہ نجات مانتے تھے۔ سید سبط حسن نے بھی اپنی کتاب "Battle of Ideas" ، ''نظریات کی جنگ'' میں سیکولرازم کے بارے میں یہی کہا ہے کہ مذہب ضروری ہے، مگر ہر فرد کا یہ ذاتی معاملہ ہے اور آپس میںمذہبی انتشار کی یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنے مسلک کو اولیت دیتا ہے اور یہ تصادم کی شکل اختیار کر رہا ہے، یہ بحث بعض ترقی پسند حلقے کر رہے ہیں مگر یہ بحث نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔
اس کی اصل وجہ کوئی قدآور انقلابی شخصیت موجود نہیں، لوگ ایک ہی قسم کے نظام حکومت سے تنگ آچکے ہیں، مگر آپس میں تنگ آمد بجنگ آمد کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ چیف جسٹس نے کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے 15 روز کی مہلت دی ہے۔دیکھیں اس فیصلے پر کب عمل ہوتا ہے، چیف جسٹس نے بہت اچھے فیصلے لیے۔ میموگیٹ، رینٹل پاور، صدر کا غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونا، اس طرح پانچ برسوں کو گزرنے میں بھی آسانی ہوئی اور 5 برس گزرنے کی تعریف اور جمہوریت کے ترانے تمام لیڈر گا رہے ہیں مگر کارکردگی پر کوئی موازنہ اور نہ مباحثہ یا مواخذہ ہوا۔
کیونکہ اگر جمہوریت میں کچھ اچھائیاں سرزد ہوتیں تو یہ عمل حکمرانوں کے خلاف جاتا،ان کی دولت اور ان کے بنائے ہوئے بے جا اصول ان کی آسائشوں کا مخالف ہوتا، عوام کو دینے کے لیے خود پر سختیاں کرنا پڑتیں اور اہل خانہ کو مراعات نہ ملتی لیکن ملک میں کوئی اگر وڈیروں، مراعات یافتہ طبقات کی کوئی دست درازی نہیں کر رہا ہے اور اس کو خاموشی اور خوشی سمجھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مانند ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ طوفان سے قبل ہوا بند ہوجاتی ہے، ایک خاموشی چھا جاتی ہے ہم اسی طرف بڑھ رہے ہیں وقت کا یقین کرنا ابھی آسان نہیں کیونکہ انقلاب کے کئی داعی ہیں، مگر انقلاب سے قبل آپس کی قتل و غارت ختم ہونا اولین شرط ہے۔
ماوزے تنگ نے اس مسئلے پر بڑی سنجیدگی سے قلم اٹھایا ہے کہ اپنے دوست اور دشمن کو پہچاننا شرط اول ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم عقیدہ ہی ہمارا دشمن ہو ممکن ہے کہ دوسرے مسلک کا آدمی ہمارا دوست ہو کیونکہ اسلام راست بازی، سچائی، انصاف، عدل کی تاکید کرتا ہے اور بخل، گندگی، نجاست غیر ضروری منافع کمانے کی مذمت کرتا ہے ہمیں ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہوگا جو غیر مذاہب کے لیے بے نظیر حکومت ہو، ورنہ یہاں وہ کچھ ممکن ہے جس کا ہمیں ادراک بھی نہیں سیاسی جمعہ بازار عوام کے لیے راہ نجات ثابت نہ ہوگا یہ تو محض ایک اور مہلت کا وقت ہوگا۔