تبدیلی کیسے آئے گی
ذہن ساز اور وکالت نما تجزیوں سے لیس ہماری دانش نے قندیل تو اٹھا رکھی ہے مگر بجھی ہوئی
ٹینشن، فرسٹریشن، اینگزائٹی اور ڈپریشن کے اس دور میں جب ہر کوئی بولایا ہوا تبدیلی کو تاک رہا ہے، ہم ایسی خبر نما باتوں کے پرچارکے نرغے میں ہیں کہ جنھیں سن کر سوائے سٹپٹا کے ہنسنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا اور ہنسی بھی وہ والی کہ جس میں ہنستے ہنستے، ہنستے ہنستے بالآخر آنسو نکل ہی آتے ہیں۔
اس کیفیت میں بال اگر نہ بھی نوچیں جائیںتب بھی شدت جذبات سے مغلوب ہوکر سر ضرور تھام لیا جاتا ہے بلکہ سرکوبی بھی عین ممکن ہے۔ ہمارے سیاسی اور صحافتی دانشوران کی حس مزاح قومی شعور کو ایسی مسلسل گدگدیوں سے رگیدنے میں مصروف ہے کہ ہر سو ایک ہلکانی اور خلجانی نظر آتی ہے۔ ایک آواز جس کی حیثیت بھنبھناہٹ سے زیادہ نہیں سننے والوں کو سنائی دیتی ہے کہ ''ہائے اللہ کتنے مزاحیہ ہیں آپ'' آواز کمزور سہی بات ہے مگر کان دھرنے کی۔
ہمارے تدبر اور حکمت سے عاری اندھا دھند رویوں کی بڑی واضح علامت یہ ہے کہ ہم اپنی عقیدت، محبت، حمایت، مخالفت، بغاوت اور انقلاب کی رو میں کسی بھی نعرے اور سیاسی ادا پر اپنا دل، عقل سمیت ہار جاتے ہیں اور اس کے بعد دگرگوں حالات سے لبریز انتہائی کڑوے حقائق سے پر منظرنامہ بھی ہمارے اس راسخ عقیدے کی آنکھیں کھولنے میں ناکام اور ناکافی نظر آتا ہے۔
ذہن ساز اور وکالت نما تجزیوں سے لیس ہماری دانش نے قندیل تو اٹھا رکھی ہے مگر بجھی ہوئی، اس کی رہ نمائی سمت کے تعین میں آسانی کے بجائے جھونک ڈالنے کی کوشش کے مترادف نظر آرہی ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ حقیقی تبدیلی تو درخت سے لٹکا ہوا وہ حسین محل ہے جس کا صرف عکس پانی میں نظر آرہا ہے اور عوام دیوانہ وار محل کی جستجو میں چھلانگیں لگانے پر کمربستہ کیے جارہے ہیں وہ بھی ہاتھ پیر باندھ کر، آنکھیں تو کھلی رکھی گئی ہیں مگر درحقیقت پٹی عقل پر باندھی جارہی ہے۔
بسا اوقات صحیح اور غلط اور اسی طرح جھوٹ اور سچ کے مابین اصل فرق دراصل Vision(مخصوص ذہنی رویے) کا ہوتا ہے۔ ایک مدہوشی کا شربت تواتر سے قوم کے حلق میں لنڈھایا جارہا ہے کہ ''بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے'' اس کے بعد بتائیں کہ واویلوں اور نقصانات کے تخمینوں کا کون سا اخلاقی جواز باقی رہ جاتا ہے۔ مزید برآں آپ اور ہم کون سی تبدیلی کی آس امید لگائے بیٹھے ہیں جب کہ ببانگ دہل بڑی ڈھٹائی نما صفائی سے ہمیں یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بھئی! جمہوریت کے پودے کو پنپنے تو دو پھل بھی اس پر آہی جائیں گے یعنی کہ بکری کا سر اب بھی چھری کے نیچے ہے اللہ اکبر کی صدائیں ہنوز فضاؤں میں بازگشت کر رہی ہیں۔
طرز حکمرانی سے دفاع کی ایسی منطق کے تحت ساری چیخیں، دہائیاں، یتیمی، بیوگی، خوف، نفسیات، خسارہ، محرومی سب وقت کی بے رحم حرکت تلے روندے جانے کو قطعاً جائز اور برحق قرار پاتے ہیں۔ سسٹم کے شہیدوں کا لہو کیا رنگ لائے گا؟ موجودہ منظرنامے کے مطابق اس حوالے سے مثبت پیش رفت کی توقع اتنی ہی حماقت انگیز ہے جتنی کہ بھینس سے انڈہ دینے کی۔
We want change کے جس انقلاب آفریں نغمے پر ہم سب مٹکتے ٹھمکتے رطب اللسان ہیں وہ تبدیلی تو ابھی ہمارے ذہنوں میں نمودار نہیں ہوئی ہے۔ تبدیلی کے اس موسم میں بھی ہم تبدیلی لانے کے بجائے تبدیلی اترنے کے معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب قوم کو نظریات کے بجائے نعروں پر ہم آہنگ اور متفق کرنے کی ٹھانی جائے گی تو ردعمل میں بھی ٹائیں ٹائیں فش کی ہنڈیا پھوٹے گی۔ بغیر بیج کے آپ کون سا درخت اگانا چاہتے ہیں؟ ہم اس سچائی کو اپنانے پر تیار ہی نہیں ہورہے کہ تبدیلی لانے سے پہلے ہمیں خود کو تبدیل کرنا لازمی ہے۔
''کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے'' کہ میڈیا کے اس برکتی دور میں ''اتنے بہت سے'' (عبارت کو حلق کی گہرائی سے کھینچ کر پڑھا جائے سونامی خان کے انداز میں) سقراطی بقراطی مشوروں، تجزیوں تجاویز اور مسائل کے حل کے باوجود آخر وہ تبدیلی آکر کیوں نہیں دیتی کہ جس کی راہ میں نسلیں معدوم ہوئے چلے جارہی ہیں۔ استفسار یہ ہے کہ کیا زمام اقتدار و اختیار کے حاملان و کاملان فراست اور علم کے اس درجے اور پہلو سے اتنے ہی نابلد ہیں کہ بہتری کی کوئی رونق قوم کو کیسے عطا کی جاسکتی ہے؟
جو لوگ سیاہ سفید کی بازیگری کے دھنی ہیں وہ مہروں کی یہ چال چل کے ہی نہیں دینا چاہتے کہ بات پھر آجاتی ہے اسی Vision کی کہ جہاں وہ صرف ہپ ہپ ہپ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ ''تھو'' بھی نہیں کرنا چاہتے کہ مبادا اس سے کہیں فلاح کی کسی رمق کا خروج نہ ہوجائے ایسے ہاضم معدے قوم کے خازن بننے کو پھر تیار بیٹھے ہیں۔ ورائٹی شو کے طور پر ایک نئی نویلی ٹنگڑی اڑائی گئی ہے۔ جس کی ساکھ کی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر جو جواز ٹھونکا جاتا ہے اس سے آنتیں بل کھانے لگتی ہیں کہ جو ایک ادارہ بناکر اسے چلاسکتا ہے وہ ملک بھی اسی خوبی سے چلائے گا۔ سو خوابوں کی اس نگری میں سب ہی خواب خریدنے اور بیچنے نکلے ہیں بالفاظ دیگر حمام میں سب حمامی کیفیت کے فاعل و مفعول ہیں۔
ایک ادھ موئی قوم کا المیہ یہ بھی تو ہوتا ہے کہ زبردستی کے ہیروز، شہید اور پتھر کے صنم تراش کر سجدہ تعظیمی کا فرمان جاری کیا جاتا ہے اور جو جرأت رندانہ ارتکاب حکم سے انکار صادر کردے تو اسے مرتد اور راندہ درگاہ قرار دے کر زمانہ شناسوں کی فہرست سے دیس نکالا مل جاتا ہے۔ بات تو ساری یہاں آکر تھم رہی ہے کہ سسٹم کے جن جھروکوں سے قائدانہ دیانت اور منصب کی پاسداری رخصت ہوجاتی ہے ان کا علاج کیا کیا گیا اور کیا کیا جارہا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے مگر ہمارے نرالے دیس میں تو دونوں ہی عنقا ہیں۔ نیک نیتی کے سارے ارادے اور خواہشیں سسٹم کی آنچ لگتے ہی ہوا ہوجاتی ہیں اور پھر بخارات کی یہ بوندیں اس مردمجاہد کی پیشانی پر نظر آتی ہیں۔
اب جب کہ چیف الیکشن کمشنر کی میچنگ کے وزیر اعظم بھی منظرعام پر آچکے ہیںکچھ امید نہیں کہ عوام کی چوروں کو چور کہنے کی حسرت تکمیل سے روشناس ہوپائے گی۔ نظام کے چور راستوں سے قوم کو ایک بار پھر آئین کے مجرمین کی فیوض و برکات کو جھیلنا ہوگا۔ ''ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے''۔ کا سرکاری راز افشا کرنے والے مردعجب کا تازہ بیان نہ صرف وژن کے نکتے کی صراحت کرتا ہے کہ ''انھوں نے پانچ سال عوام کی خدمت کی'' اس کے ساتھ ساتھ اندر کی پاکستانی سیاست کی بھی ناقابل تردید تمثیل بیان کرتا ہے کہ ''پاکستان میں سیاست کرنے سے بہتر ہے کہ نسوار بیچی جائے''۔
سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سدھار کا واحد حل صرف اور صرف یہی نظر آتا ہے کہ اب اس اچھائی کو ووٹ دیا جائے جس کو آنکھوں نے دیکھا ہے اور زندگی نے برتا ہے جس کا فیض ہم نے اٹھایا اور جس کی برکت اور خوشحالی نے دلوں کو مس کیا۔ نمک حلالی کا یہ حق ادا کرنے سے ہی درحقیقت تبدیلی کا وہ دریچہ کھلے گا جس کی ضیا قوم کی ٹھیکری ہوتی امنگیں خود میں حلول کرنا چاہتی ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آئیے! سسٹم کی اس مستانہ چال پر ہم سب مل کر رقص جب کہ مجذوب دھمال ڈالتے ہیں اور کس کافر کی مجال ہے جو اس گردش میں مبتلا ہونے سے انکار کرسکے۔
اس کیفیت میں بال اگر نہ بھی نوچیں جائیںتب بھی شدت جذبات سے مغلوب ہوکر سر ضرور تھام لیا جاتا ہے بلکہ سرکوبی بھی عین ممکن ہے۔ ہمارے سیاسی اور صحافتی دانشوران کی حس مزاح قومی شعور کو ایسی مسلسل گدگدیوں سے رگیدنے میں مصروف ہے کہ ہر سو ایک ہلکانی اور خلجانی نظر آتی ہے۔ ایک آواز جس کی حیثیت بھنبھناہٹ سے زیادہ نہیں سننے والوں کو سنائی دیتی ہے کہ ''ہائے اللہ کتنے مزاحیہ ہیں آپ'' آواز کمزور سہی بات ہے مگر کان دھرنے کی۔
ہمارے تدبر اور حکمت سے عاری اندھا دھند رویوں کی بڑی واضح علامت یہ ہے کہ ہم اپنی عقیدت، محبت، حمایت، مخالفت، بغاوت اور انقلاب کی رو میں کسی بھی نعرے اور سیاسی ادا پر اپنا دل، عقل سمیت ہار جاتے ہیں اور اس کے بعد دگرگوں حالات سے لبریز انتہائی کڑوے حقائق سے پر منظرنامہ بھی ہمارے اس راسخ عقیدے کی آنکھیں کھولنے میں ناکام اور ناکافی نظر آتا ہے۔
ذہن ساز اور وکالت نما تجزیوں سے لیس ہماری دانش نے قندیل تو اٹھا رکھی ہے مگر بجھی ہوئی، اس کی رہ نمائی سمت کے تعین میں آسانی کے بجائے جھونک ڈالنے کی کوشش کے مترادف نظر آرہی ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ حقیقی تبدیلی تو درخت سے لٹکا ہوا وہ حسین محل ہے جس کا صرف عکس پانی میں نظر آرہا ہے اور عوام دیوانہ وار محل کی جستجو میں چھلانگیں لگانے پر کمربستہ کیے جارہے ہیں وہ بھی ہاتھ پیر باندھ کر، آنکھیں تو کھلی رکھی گئی ہیں مگر درحقیقت پٹی عقل پر باندھی جارہی ہے۔
بسا اوقات صحیح اور غلط اور اسی طرح جھوٹ اور سچ کے مابین اصل فرق دراصل Vision(مخصوص ذہنی رویے) کا ہوتا ہے۔ ایک مدہوشی کا شربت تواتر سے قوم کے حلق میں لنڈھایا جارہا ہے کہ ''بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے'' اس کے بعد بتائیں کہ واویلوں اور نقصانات کے تخمینوں کا کون سا اخلاقی جواز باقی رہ جاتا ہے۔ مزید برآں آپ اور ہم کون سی تبدیلی کی آس امید لگائے بیٹھے ہیں جب کہ ببانگ دہل بڑی ڈھٹائی نما صفائی سے ہمیں یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بھئی! جمہوریت کے پودے کو پنپنے تو دو پھل بھی اس پر آہی جائیں گے یعنی کہ بکری کا سر اب بھی چھری کے نیچے ہے اللہ اکبر کی صدائیں ہنوز فضاؤں میں بازگشت کر رہی ہیں۔
طرز حکمرانی سے دفاع کی ایسی منطق کے تحت ساری چیخیں، دہائیاں، یتیمی، بیوگی، خوف، نفسیات، خسارہ، محرومی سب وقت کی بے رحم حرکت تلے روندے جانے کو قطعاً جائز اور برحق قرار پاتے ہیں۔ سسٹم کے شہیدوں کا لہو کیا رنگ لائے گا؟ موجودہ منظرنامے کے مطابق اس حوالے سے مثبت پیش رفت کی توقع اتنی ہی حماقت انگیز ہے جتنی کہ بھینس سے انڈہ دینے کی۔
We want change کے جس انقلاب آفریں نغمے پر ہم سب مٹکتے ٹھمکتے رطب اللسان ہیں وہ تبدیلی تو ابھی ہمارے ذہنوں میں نمودار نہیں ہوئی ہے۔ تبدیلی کے اس موسم میں بھی ہم تبدیلی لانے کے بجائے تبدیلی اترنے کے معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب قوم کو نظریات کے بجائے نعروں پر ہم آہنگ اور متفق کرنے کی ٹھانی جائے گی تو ردعمل میں بھی ٹائیں ٹائیں فش کی ہنڈیا پھوٹے گی۔ بغیر بیج کے آپ کون سا درخت اگانا چاہتے ہیں؟ ہم اس سچائی کو اپنانے پر تیار ہی نہیں ہورہے کہ تبدیلی لانے سے پہلے ہمیں خود کو تبدیل کرنا لازمی ہے۔
''کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے'' کہ میڈیا کے اس برکتی دور میں ''اتنے بہت سے'' (عبارت کو حلق کی گہرائی سے کھینچ کر پڑھا جائے سونامی خان کے انداز میں) سقراطی بقراطی مشوروں، تجزیوں تجاویز اور مسائل کے حل کے باوجود آخر وہ تبدیلی آکر کیوں نہیں دیتی کہ جس کی راہ میں نسلیں معدوم ہوئے چلے جارہی ہیں۔ استفسار یہ ہے کہ کیا زمام اقتدار و اختیار کے حاملان و کاملان فراست اور علم کے اس درجے اور پہلو سے اتنے ہی نابلد ہیں کہ بہتری کی کوئی رونق قوم کو کیسے عطا کی جاسکتی ہے؟
جو لوگ سیاہ سفید کی بازیگری کے دھنی ہیں وہ مہروں کی یہ چال چل کے ہی نہیں دینا چاہتے کہ بات پھر آجاتی ہے اسی Vision کی کہ جہاں وہ صرف ہپ ہپ ہپ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ ''تھو'' بھی نہیں کرنا چاہتے کہ مبادا اس سے کہیں فلاح کی کسی رمق کا خروج نہ ہوجائے ایسے ہاضم معدے قوم کے خازن بننے کو پھر تیار بیٹھے ہیں۔ ورائٹی شو کے طور پر ایک نئی نویلی ٹنگڑی اڑائی گئی ہے۔ جس کی ساکھ کی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر جو جواز ٹھونکا جاتا ہے اس سے آنتیں بل کھانے لگتی ہیں کہ جو ایک ادارہ بناکر اسے چلاسکتا ہے وہ ملک بھی اسی خوبی سے چلائے گا۔ سو خوابوں کی اس نگری میں سب ہی خواب خریدنے اور بیچنے نکلے ہیں بالفاظ دیگر حمام میں سب حمامی کیفیت کے فاعل و مفعول ہیں۔
ایک ادھ موئی قوم کا المیہ یہ بھی تو ہوتا ہے کہ زبردستی کے ہیروز، شہید اور پتھر کے صنم تراش کر سجدہ تعظیمی کا فرمان جاری کیا جاتا ہے اور جو جرأت رندانہ ارتکاب حکم سے انکار صادر کردے تو اسے مرتد اور راندہ درگاہ قرار دے کر زمانہ شناسوں کی فہرست سے دیس نکالا مل جاتا ہے۔ بات تو ساری یہاں آکر تھم رہی ہے کہ سسٹم کے جن جھروکوں سے قائدانہ دیانت اور منصب کی پاسداری رخصت ہوجاتی ہے ان کا علاج کیا کیا گیا اور کیا کیا جارہا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے مگر ہمارے نرالے دیس میں تو دونوں ہی عنقا ہیں۔ نیک نیتی کے سارے ارادے اور خواہشیں سسٹم کی آنچ لگتے ہی ہوا ہوجاتی ہیں اور پھر بخارات کی یہ بوندیں اس مردمجاہد کی پیشانی پر نظر آتی ہیں۔
اب جب کہ چیف الیکشن کمشنر کی میچنگ کے وزیر اعظم بھی منظرعام پر آچکے ہیںکچھ امید نہیں کہ عوام کی چوروں کو چور کہنے کی حسرت تکمیل سے روشناس ہوپائے گی۔ نظام کے چور راستوں سے قوم کو ایک بار پھر آئین کے مجرمین کی فیوض و برکات کو جھیلنا ہوگا۔ ''ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے''۔ کا سرکاری راز افشا کرنے والے مردعجب کا تازہ بیان نہ صرف وژن کے نکتے کی صراحت کرتا ہے کہ ''انھوں نے پانچ سال عوام کی خدمت کی'' اس کے ساتھ ساتھ اندر کی پاکستانی سیاست کی بھی ناقابل تردید تمثیل بیان کرتا ہے کہ ''پاکستان میں سیاست کرنے سے بہتر ہے کہ نسوار بیچی جائے''۔
سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سدھار کا واحد حل صرف اور صرف یہی نظر آتا ہے کہ اب اس اچھائی کو ووٹ دیا جائے جس کو آنکھوں نے دیکھا ہے اور زندگی نے برتا ہے جس کا فیض ہم نے اٹھایا اور جس کی برکت اور خوشحالی نے دلوں کو مس کیا۔ نمک حلالی کا یہ حق ادا کرنے سے ہی درحقیقت تبدیلی کا وہ دریچہ کھلے گا جس کی ضیا قوم کی ٹھیکری ہوتی امنگیں خود میں حلول کرنا چاہتی ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آئیے! سسٹم کی اس مستانہ چال پر ہم سب مل کر رقص جب کہ مجذوب دھمال ڈالتے ہیں اور کس کافر کی مجال ہے جو اس گردش میں مبتلا ہونے سے انکار کرسکے۔