نئی حلقہ بندیاں‘نئے نئے اتحاد…
جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کی پسماندگی کسی بھی باشعور کی نگاہ سے چھپی ہوئی نہیں
ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی غرض سے اچانک صرف کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا غیرآئینی وغیر قانونی فیصلہ بھی انھی سازشوں کی کڑی معلوم ہوتا ہے اور اس سازش پر اہل کراچی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سندھ میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے اور اپنے قدم جمانے کے لیے کبھی قوم پرستوں کے سر پردست شفقت رکھا جاتا ہے توکبھی دہشت گردوں کی کھل کر حمایت کی جاتی ہے ،کبھی تانگہ پارٹیاں گٹھ جوڑ قائم کرکے ایم کیو ایم کے خلاف زہر اگلتی نظرآتی ہیں۔
کبھی مقامی حکومتوں کے نظام کو سندھ تقسیم کی سازش قرار دیا جاتا ہے،کبھی عوام کو مذہبی اور لسانی بنیادوں پرلڑا کر قتل عام کرایا جاتا ہے، توکبھی کالا باغ ڈیم کا شور مچا کر اس پر سیاست چمکائی جاتی ہے ،کبھی اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی ٹارگٹ کلنگ کا ذمے دار قرار دیکر ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح شعور و آگہی کا جو پیغام الطاف حسین کی جانب سے ملک کے کونے کونے میں پھیل رہا ہے اسے روکا جاسکے،متحدہ قومی موومنٹ کے قومی سیاست میں بڑھتے قدموں کو روکا جائے ۔عوام کو باشعور بااختیار اور مقتدر بنانے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے ۔
جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کی پسماندگی کسی بھی باشعور کی نگاہ سے چھپی ہوئی نہیں، دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والے سادہ لوح افراد کو گمراہ کرکے ان کے ووٹ کیسے ہتھیائے جاتے ہیںآپ تصور نہیں کرسکتے اور اس طرح دیہاتوں اور قصبوں میںرہنے والے 70فیصد معصوم عوام کے ووٹ سے بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے ہر بار اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ دیہاتوں میں بسنے والے ان سادہ لوح عوام کو مذہبی، لسانی، علاقائی فسادات میں الجھاکر خود اقتدار کے مزے لوٹنے والے ایم کیو ایم کی بڑھتی مقبولیت سے سخت پریشان ہیں، کیونکہ جاگیردارانہ سوچ رکھنے والے یہ بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اگر عوام میں شعور و آگہی پیدا ہوگئی تو وہ ان کوکبھی ووٹ نہیں دیں گے ۔
عوام کو ووٹ کی طاقت کا اندازہ نہ ہو جائے ،وہ اقتدار کے ایوانوں میں خود جانے کی بات نہ کردیں صرف یہی سوچ کر ایم کیو ایم کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں ۔ بڑے بڑے جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار دراصل ایم کیو ایم کے نہیں بلکہ شعوروآگہی کے اس پیغام کے دشمن ہیں جو ایم کیو ایم عوام تک پہنچانے میں مصروف عمل ہے۔ ایم کیو ایم کا پیغام انتہائی تیزی سے ملک کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے ، نت نئے سیاسی اتحاد بنانے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ کسی طرح سندھ کے شہری علاقوں میں بھی قدم جمائے جاسکیںاور ایم کیو ایم کے خلاف کوئی موثر اتحاد قائم کیا جاسکے اور اب نئی حلقہ بندیوں کی سازش بھی انھی کوششوں اور اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ کسی بھی طرح ایم کیو ایم کے پیغام کا راستہ روکا جائے۔
مگر وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہر ایک جماعت کے مینڈیٹ کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اور ایسے فیصلے نہ کیے جائیں جس سے کدورتیں، نفرتیں اور تنائو پیدا ہو،تمام زبانوں ،مسالک ،مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کیا جائے ۔استحکام پاکستان کے لیے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے قومی یگانگت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کی جائے اور ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے ایسی مضبوط جمہوری حکومت قائم کی جائے جو ملک و قوم کو مسائل کی گرداب سے نکالتے ہوئے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور اقوام عالم میں پاکستان کو ایک باوقار اور ذمے دار ریاست کے طور پر پیش کرسکے اور ہمارے ملک میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو اور عوام صحیح معنوں میں جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب ہوسکیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی جماعتیں اپنے اتحاد عام آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے کریں ، ملک و قوم کو درپیش سنگین مسائل اور بحرانوں کے دیرپا اور پائیدار حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں۔یہ اتحاد کسی فرد یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے مقاصد نیک نیتی اور خلوص پر مبنی ہوں اور یقینا ایسے اتحاد استحکام پاکستان کے لیے سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔جہالت، غربت ،بیروزگاری اور دہشت گردی پر کیسے قابو پایا جائے گا؟کیسے توانائی کا بحران حل کیا جائے گا؟اداروں کی بحالی کیسے ممکن ہوگی؟ ان سوالات کے جوابات صرف اسی صورت مل سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کو اہل قیادت حاصل ہو جو ملک و قوم کو درپیش چیلنجز و بحرانوں سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کی بھی ہمت رکھتی ہو۔
ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ بحیثیت پاکستانی تمام تر فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بلند اور عظیم مقصد کے لیے ایک ہوجائیں اور اپنے ووٹ کی طاقت سے بلاخوف و خطر اور ہر قسم کے گروہی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر انتہائی دیانت و سچائی کے ساتھ آیندہ پانچ برسوں کے لیے ملک کی قیادت کے لیے ایسے افراد کو ووٹ دیں جو غریب و متوسط طبقے کی بھلائی کے لیے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں اور کیا ہی اچھا ہو کہ ان لوگوں کو چنا جائے کہ جو بذات خود ان مسائل سے گذر چکے ہوں اور انھیں عام آدمی کی تکالیف کا بخوبی اندازہ ہو۔