درندہ صفت ماں نے اپنے ہی بچے کی جان لے لی

تفتیش کے دوران آسیب اور جنات کا ڈھونگ رچانے والی نے اقبالِ جرم کر لیا۔


Noor Muhammad Soomro February 11, 2018
تفتیش کے دوران آسیب اور جنات کا ڈھونگ رچانے والی نے اقبالِ جرم کر لیا۔ فوٹو: فائل

MIAMI: انسانی بے حسی کے شکار معاشرہ میں معصوم بچوں سے زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے یا پھر شاید معصوم زینب کے واقعہ کے بعد میڈیا بھی اب تواتر سے آئے روز ایسے واقعات کو نمایاں کوریج دے رہا ہے۔ دکھ کی بات مگر یہ ہے کہ انسان نما درندے بڑی دلیری کی ساتھ معصوم بچوں کو نہ صرف اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ انہیں درندگی کے ساتھ قتل کردیتے ہیں۔

رحیم یار خان میں بھی ایک بچے کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نامعلوم درندے کو تلاش کرنے اور اندھے قتل کا سراغ لگانے میں مصروف تھی مگر اچانک انکشاف ہوا کہ بجے کا قاتل کوئی اور نہیں اس کی حقیقی ماں ہے۔ ماں اپنے ہی بیٹے کی قاتلہ نکلی۔ پولیس نے ملزمہ کے اعترافی بیان پر اسے حراست میں لے لیا۔

رحیم یارخان شہر سے پانچ کلو میٹر فاصلے پر واقع میاں ٹاؤن کا رہائشی 7 سالہ وقاص احمد 5 جنوری 2018ء کو معمول کے مطابق گھر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع گورنمنٹ پرائمری سکول میں حصول تعلیم کیلئے گیا۔ وقاص کی والدہ نسیم بی بی کے پولیس کو دیئے گئے ابتدائی بیان کے بطابق وہ اس کے بعد گھر کے کام میں مصروف ہوگئی جبکہ بچے کا والد رانا محمد حنیف 9 بجے اپنے آفس چلا گیا۔ اس دن جمعتہ المبارک تھا، سکول میں چھٹی کی گھنٹی کی آواز سن کر وقاص کی ماں اپنے بیٹے کی راہ تکنے لگی۔

چند منٹ توقف کے بعد بھی وقاص نہ آیا تو والدہ نسیم بی بی نے اپنے گھر کی چھت سے گلی میں جھانک کر دیکھا تو گھر کے دروازے پر مبینہ طور پر وقاص کے تین طالب علم ساتھی وقاص کو گھر کے دروازے کے سامنے پھینک رہے تھے۔ نسیم بی بی کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسے زخمی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ والدہ بھاگتی بھاگتی سیڑھیوں سے نیچے آئی' دروازہ کھولا تو وقاص تڑپ رہا تھا۔ اس کی گردن کو تیز دھار آلے سے گولائی میں کٹ لگایا گیا تھا اور معمولی سا خون بہہ رہا تھا۔

چیخ وپکار اور آہ وبکا کرتی ماں نے وقاص کو اٹھایا اور چھت پر لے آئی۔ اوپر آکر قمیض کا بٹن کھول کر دیکھا تو گردن اور ایک بازو کی نسیں کٹی ہوئی تھیں۔ نسیم نے اپنے شوہر رانا محمد حنیف کو فون کرکے روتے ہوئے ماجرا سنایا اور گھر جلدی آنے کو کہا۔ محمد حنیف نے اپنے دو تین دوستوں کو بلوایا اور انہیں لیکر گھر پہنچ گیا۔ اس دوران معصوم وقاص نے تڑپتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ وقاص کی موت نے نسیم بی بی پر سکتہ طاری کردیا۔

اسی دوران پولیس اور میڈیا کے نمائندگان بھی گھر پہنچ گئے اور معاملہ کی چھان بین شروع کردی گئی۔ ماں کو ہوش آیا تو اس نے پولیس کو سارا ماجرا سنایا۔ اس دوران اس نے پولیس آفیسر کے سامنے انکشاف کیا کہ وہ بھاگنے والے لڑکوں میں سے دو لڑکوں کو پہچانتی ہے۔ ایک کا نام سیف اللہ عرف سیفی ہے جبکہ دوسروں کا نام نہیں جانتی، مگر تینوں اس کے سکول میں پڑھتے ہیں۔ 200 کلو میٹر فاصلے پر موجود ڈویژنل ہیڈکوارٹر بہاولپور سے پولیس فرانزک ٹیم 8 بجے رات کو پہنچی۔

موقع پر شواہد اکٹھے کیے' عینی شاہدین کے بیانات لئے اور معاملہ کی چھان بین شروع کردی۔ مقتول وقاص کی نماز جنازہ دوسرے روز صبح ادا کی گئی، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ بعدازاں بچے کی تدفین کردی گئی۔ پولیس تفتیشی ٹیم ہومی سائیڈ انچارج سب انسپکٹر وزیر احمد جب چھان بین اور شواہد کیلئے سکول پہنچے اور سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنا چاہی تو انکشاف ہوا کہ سکول میں تو سی سی ٹی وی کیمرے ہی نہیں ہیں۔

تاہم سکول ٹیچر نے بتایا کہ وقاص سکول آیا تھا اور ساڑھے 12 بجے سکول چھٹی کے وقت سکول سے اپنے دوستوں کے ساتھ نکلا ہے۔ جس پر پولیس ٹیم نے سیفی سمیت اس کے تینوں مشکوک دوستوں کو حراست میں لے لیا۔ ڈی پی او ذیشان اصغر' ایس پی انوسٹی گیشن شاہنواز چاچڑ اور ڈی ایس پی سٹی سرکل چودھری مسعود گجر کی نگرانی میں انچارج ہومی سائیڈ ڈیپارٹمنٹ سب انسپکٹر وزیر احمد نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا تو قتل کی واردات مشکوک ہوگئی۔

مقتول کی والدہ نسیم بی بی نے جن بچوں کا نام ملزمان میں لکھوایا تھا، ان بچوں کی عمریں بھی 8 سے 12 سال کے درمیان تھیں۔ مقتول کی گردن کو چھری سے کاٹا گیا تھا جبکہ جائے وقوعہ پر خون کا ایک قطرہ بھی نہ پایا گیا۔اس وجہ سے مقتول کی والدہ نسیم بی بی کا بطور عینی شاہد دیا ہوا بیان مشکوک ہوگیا۔ تاہم پولیس نے مکمل چھان بین کے بعد حراست میں لیے گئے تینوں بچوں کو بے قصور گردانتے ہوئے آزاد کردیا۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتول وقاص کی والدہ نسیم بی بی نے اپنے سابقہ شوہر معروف فنکار ملتان کے منیر تاج سے طلاق لیکر رحیم یار خان کے مقامی صحافی رانا محمد حنیف سے شادی کر رکھی تھی۔ اس کے دیگر بچے اپنے حقیقی والد منیر تاج کے پاس تھے جبکہ مقتول وقاص اپنی والدہ اور سوتیلے والد کے ساتھ رہ رہا تھا۔ مقتول کی والدہ نسیم بی بی کے بیان کی روشنی اور واردات کو مشکوک گردانتے ہوئے تفتیش کا دائرہ وسیع کیا تو قتل کی واردات مشکوک ہو گئی۔

نسیم بی بی کے متصاد بیانات کے باعث والدہ کو شامل تفتیش کیا تو انکشاف ہوا کہ مقتول کی والدہ ہی معصوم بجے کی قاتلہ ہے۔ پولیس نے نسیم بی بی کو حراست میں لیا تو اس نے ڈرامہ بازی شروع کردی اور آسیب کا فرضی سایہ اوڑھتے ہوئے خود کو جنات کے زیراثر رہنے کا ڈرامہ کیا۔

تفتیشی افسران اور اپنے رشتہ داروں پر حملے شروع کر دیئے اور جنات کے ذریعے سب کو مروانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ مگر ہومی سائیڈ انچارج سب انسپکٹر وزیر احمد کی قیادت میں جب تفتیشی ٹیم نے تحقیقات کیں تو سنگدل قاتلہ ماں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور یوں قتل کی اندھی واردات ٹریس ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کی سنگدلی کا ایک اور واقعہ سامنے آ گیا۔ ڈی پی او ذیشان اصغر اور ایس پی انویسٹی گیشن شاہ نواز چاچڑ نے ملزمہ کا اقبالی بیان سننے کے بعد تفتیشی ٹیم کو اندھے قتل کا سراغ لگانے پر شاباش دی اور ملزمہ کو جوڈیشل کرنے کی ہدایت کی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں