اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے
حریت رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال
مسئلہ کشمیر 1947ء سے حل طلب ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی اندوہ ناک داستان 7 دہائیوں پر محیط ہے جبکہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی اسی جوش و جذبے کے ساتھ جاری ہے جو تقسیم ہند کے وقت برصغیر کے مسلمانوں میں موجود تھا۔
بھارتی مظالم سے اب تک لاکھوں کشمیری شہید جبکہ ہزاروں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے مگر اس کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کی تحریک پورے آب و تاب سے جاری ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے پر راضی نہیں ہے جبکہ پاکستان، اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ '' کشمیرمیں بھارتی مظالم'' کے حوالے سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں 'ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی و حریت رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
غلام محمد صفی (کنوینئرسید علی گیلانی گروپ)
کشمیری عوام روز اول سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں مگر ان تمام قربانیوں کے باوجود مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی بنیادی وجوہات، ہندوستان کی ہٹ دھرمی، عالمی طاقتوں کی نیم دلی، اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں اورکشمیر سے متعلق ریاستی پالیسی میں تسلسل کا فقدان ہیں۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے ہر دور میں مسئلہ کشمیر کے حل اور اسے عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے کردار ادا کیا ہے مگر ان کوششوں کو ہمیشہ ادھورا چھوڑا گیا ۔پاکستان کو اب اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔ مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو مختلف ممالک میں بطور ایلچی بھجوانے کا اقدام قابل ستائش تھا مگر ان ممبران کی کوششوں کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی ''فالواپ ''نہیں کیا گیا حالانکہ اس وقت کے وزیر اعظم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود ان ممالک میں جاکر اس بارے مزید معلومات اور آگاہی حاصل کریں گے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سفارتی سطح پر بھرپور انداز میں اٹھانے کیلئے بیرون ملک تعینات سفارتکاروں کو خصوصی ٹاسک دے ، اسلامی تعاون تنظیم کو فعال بنائے اور مسلم امہ کو اس مسئلے پر متفق کرکے موثر آواز بلند کرے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نہ صرف اپنی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے بلکہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے، اگر اقوام متحدہ کا طرز عمل اسی طرح رہا تو اس کا حال بھی مستقل میں لیگ آف نیشنز کی طرح ہوگا۔ حریت قیادت گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق اور پاکستان کا حصہ تسلیم کرنے کے خلاف نہیں، ہمارا تو مطالبہ ہی یہی ہیں کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں اور پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ ریاست کشمیر کی تمام اکائیوں جس میں مقبوضہ و آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی قسمت کا فیصلہ ایک ساتھ کیا جائے جو کہ اقوام متحدہ کی قراداد میں درج ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کے عوام کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔
امجد حسین ایڈووکیٹ ( صدر پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان)
گلگت بلتستان کے عوام گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کی قسمت کا فیصلہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ہوگامگر پاکستان کے حکمران یہ فیصلہ تو کریں کہ آیا گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ اور متنازعہ علاقہ ہے یا نہیں، اگر ہے تو اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی سٹیٹ سبجیکٹ کو بحال اور متنازعہ حیثیت کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اگر حکومت پاکستان کا موقف یہ ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے تو پھر حکومت اسے پاکستان کا صوبہ بنانے سے کیوں خوفزدہ ہے ۔ ہمارے حکمران اس مسئلے پر گزشتہ ستر برسوں سے کنفیوژن کا شکار ہیں اور فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کی متنازعہ حیثیت کوآئینی تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس کی سٹیٹ سبجیکٹ کو برقرار رکھا ہوا ہے مگر محض گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جس کی متنازعہ حیثیت کو تاحال آئینی تحفظ نہیں دیاجا سکا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے جب کچھ لینے کی بات ہوتی ہے تو یہ پاکستان کا حصہ بن جاتا ہے جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ میں کیا جارہا ہے لیکن جب کچھ دینے کی بات ہوتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ تقسیم پاک ہند کے ستر سال بعد بھی آج گلگت بلتستان کے عوام کا علاقے کے وسائل پر کوئی اختیارنہیں۔ آخرکب تک وہاں کے عوام کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔ گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ ان کی متنازعہ حیثیت کو آئینی تحفظ دیا جائے، ان کو وہ حقوق دئے جائیں جو اس ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔
سید فیض نقشبندی (کنوینئر میر واعظ عمر فاروق گروپ )
موجودہ حالات میں جس انداز میں کشمیری عوام حق خود ارادیت اور آزادی کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وادی کے اندر آزادی اظہار پر قدغن لگادی گئی ہے، عوام کو سڑکوں پر نکلنے نہیں دیا جارہا، جلسے جلوس پر گولیاں برسادی جاتی ہیں، حریت قیادت کو نظر بند اور پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تحریک کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی تو بھارتی سرکارنے سوشل میڈیا پر پابندی لگاتے ہوئے باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ کشمیر میں اگرکسی فرد کا سوشل میڈیا اکاونٹ ہوتو اس کو سرکاری ملازمت نہیں ملے گی اور اگر کسی سرکاری ملازم کا سوشل میڈیا اکاونٹ ہوتو اس کو ملازمت سے برطرف کیا جائے گا لیکن ان تمام حربوں اور سختیوں کے باوجود کشمیری عوام روز جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، پاکستان سے الحاق کا نعرہ لگاتے ہیں اور پاکستانی پرچم میں دفن ہورہے ہیں۔حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے اور عالمی سطح پر اسے اجاگر کرنے کیلئے تمام سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرے اور انہیں ٹاسک دے کہ وہ ان ممالک کے عوام، اکیڈیمیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ روابط بڑھائیں۔ حکومت پاکستان اقوام متحدہ کو تجویز پیش کرے کہ وہ کشمیر کیلئے بھی اپنا خصوصی نمائندہ اور بھارتی فوج کے مظالم کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن مقرر کرے۔ پاکستان عالمی برادری کے ذریعے بھارت پر دباو بڑھائے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر کی شہری آبادیوں سے فوری طور پر سکیورٹی فورسز کو واپس بلا لے،بے گناہ کشمیری قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے' عوامی اجتماعات سے پابندی اٹھائے اورکشمیری حریت رہنماوں کی نظر بندی کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں اور ہر فورم پر اس مسئلہ کو اجاگر کریں۔
میر طاہر مسعود ( سابق کنوینئر میر واعظ گروپ)
آزادی کشمیر کی تحریک 2016ء کے دوران برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر عروج پر پہنچی مگر موثر حکومتی سرپرستی نہ ملنے کے باعث کامیابی نہ مل سکی۔کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ملٹرائزڈ ریاست ہے جہاں تقریباً ہر سات شہریوں کیلئے ایک سکیورٹی اہلکار موجود ہے۔ہندوستانی فوج نے کشمیر کو ایک اوپن جیل بنایاہوا ہے۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی ظلم و بربریت کے واقعات کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور اقوام عالم کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈالے کہ کشمیریوں کی ان کی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے متعلق تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر جامع پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیلئے جانے سے قبل حریت قائدین سے مشاورت کی تھی جس میں حریت قائدین نے انہیں اپنی تجاویز پر مبنی تحریری دستاویز پیش کی تھیں جنہیں میاں نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران دہرایا اور اس بات کو عالمی سطح پر پزیرائی ملی۔ میاں نواز شریف نے حریت قائدین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ واپسی پر دوبارہ ملاقات کرکے تازہ پیشرفت سے آگاہی حاصل کریں گے مگر جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی۔ موجودہ حکومت کے دور میں مسئلہ کشمیر کو اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک میں موثر طورپر اجاگر ہونے کی توقع تھی مگر پوری نہ ہو سکی۔ کشمیری قیادت اور حریت قائدین چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ملک کے دیگر خطوں کے برابر حقوق دیے جائیں، وہاں کے عوام کو بااختیار بنایا جائے اور ان کی متنازعہ حیثیت کو آزاد کشمیرکی طرز پرآئینی تحفظ فراہم کریں۔
محمود احمد ساغر ( حریت رہنما)
اقوام متحدہ گذشتہ 70 برسوں کے دوران اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے 5 نکات میں سے 2 پر عملدرآمد ہوچکا مگر باقی تین نکات پر عملدرآمد کی راہ میں بھارتی ہٹ دھڑمی بڑی رکاوٹ ہے۔ کشمیری عوام کا شروع دن سے یہ مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق انہیں حق خودارادیت دیا جائے۔ بھارتی سرکار کشمیری عوام کے اس مطالبہ کو دبانے کیلئے کشمیر میں ظلم کر رہی ہے، اس وقت کشمیر میں 8 لاکھ کے قریب فوجی موجود ہیں جو وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں اس کا نوٹس لینے سے گریزاں ہیں اور واضح طور پر جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہیں۔حریت قائدین اور کشمیری عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر جاری مظالم کا جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کے مبصر مشن اور انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ یہاں پر کس بے دردی سے کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہیں اور کس طرح انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔یہ بات دنیا جانتی ہے کہ اقوام متحدہ میں آج تک مسئلہ کشمیر سے پیش کی جانے والی کوئی بھی قرارداد مسترد نہیں ہوئی بلکہ تمام پیش کردہ قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور اقوام عالم میں لابنگ کرے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے بھارت پر دباؤ بڑھائیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کو یقینی بنانے کیلئے راہ ہموار کریں ۔اگر حکومت پاکستان اس ضمن میں کسی بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہے تو وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت کو بااختیار بنائے اور انہیں آگے لے آئے تاکہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے موثر انداز میں کام کرسکیں۔
عبدالحمید لون (سیکریٹری اطلاعات آل پارٹیز حریت کانفرنس پاکستان چیپٹر)
کشمیری عوام اور حریت قائدین کا اقوام متحدہ سے پرزورمطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے اوررائے شماری کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے بھارت پر دباؤ بڑھائے۔حریت قائدین بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارتی مظالم کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے جبکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکوازسرنو اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کونسل اور '' اوآئی سی'' میں اٹھائے تاکہ حالیہ واقعہ کے تناظر میں کشمیر کی آزادی کیلئے بین الاقوامی سطح پر کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔ کشمیری عوام 1931ء سے اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک انہیں آزادی نصیب نہیں ہوتی۔ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے اور کشمیریوں کا وکیل بھی جس کے ناطے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے اقوام متحدہ اور عالمی فورم پر موثر آواز بلند کریں۔
بھارتی مظالم سے اب تک لاکھوں کشمیری شہید جبکہ ہزاروں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے مگر اس کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کی تحریک پورے آب و تاب سے جاری ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے پر راضی نہیں ہے جبکہ پاکستان، اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ '' کشمیرمیں بھارتی مظالم'' کے حوالے سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں 'ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی و حریت رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
غلام محمد صفی (کنوینئرسید علی گیلانی گروپ)
کشمیری عوام روز اول سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں مگر ان تمام قربانیوں کے باوجود مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی بنیادی وجوہات، ہندوستان کی ہٹ دھرمی، عالمی طاقتوں کی نیم دلی، اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں اورکشمیر سے متعلق ریاستی پالیسی میں تسلسل کا فقدان ہیں۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے ہر دور میں مسئلہ کشمیر کے حل اور اسے عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے کردار ادا کیا ہے مگر ان کوششوں کو ہمیشہ ادھورا چھوڑا گیا ۔پاکستان کو اب اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔ مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو مختلف ممالک میں بطور ایلچی بھجوانے کا اقدام قابل ستائش تھا مگر ان ممبران کی کوششوں کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی ''فالواپ ''نہیں کیا گیا حالانکہ اس وقت کے وزیر اعظم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود ان ممالک میں جاکر اس بارے مزید معلومات اور آگاہی حاصل کریں گے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سفارتی سطح پر بھرپور انداز میں اٹھانے کیلئے بیرون ملک تعینات سفارتکاروں کو خصوصی ٹاسک دے ، اسلامی تعاون تنظیم کو فعال بنائے اور مسلم امہ کو اس مسئلے پر متفق کرکے موثر آواز بلند کرے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نہ صرف اپنی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے بلکہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے، اگر اقوام متحدہ کا طرز عمل اسی طرح رہا تو اس کا حال بھی مستقل میں لیگ آف نیشنز کی طرح ہوگا۔ حریت قیادت گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق اور پاکستان کا حصہ تسلیم کرنے کے خلاف نہیں، ہمارا تو مطالبہ ہی یہی ہیں کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں اور پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ ریاست کشمیر کی تمام اکائیوں جس میں مقبوضہ و آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی قسمت کا فیصلہ ایک ساتھ کیا جائے جو کہ اقوام متحدہ کی قراداد میں درج ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کے عوام کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔
امجد حسین ایڈووکیٹ ( صدر پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان)
گلگت بلتستان کے عوام گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کی قسمت کا فیصلہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ہوگامگر پاکستان کے حکمران یہ فیصلہ تو کریں کہ آیا گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ اور متنازعہ علاقہ ہے یا نہیں، اگر ہے تو اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی سٹیٹ سبجیکٹ کو بحال اور متنازعہ حیثیت کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اگر حکومت پاکستان کا موقف یہ ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے تو پھر حکومت اسے پاکستان کا صوبہ بنانے سے کیوں خوفزدہ ہے ۔ ہمارے حکمران اس مسئلے پر گزشتہ ستر برسوں سے کنفیوژن کا شکار ہیں اور فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کی متنازعہ حیثیت کوآئینی تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس کی سٹیٹ سبجیکٹ کو برقرار رکھا ہوا ہے مگر محض گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جس کی متنازعہ حیثیت کو تاحال آئینی تحفظ نہیں دیاجا سکا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے جب کچھ لینے کی بات ہوتی ہے تو یہ پاکستان کا حصہ بن جاتا ہے جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ میں کیا جارہا ہے لیکن جب کچھ دینے کی بات ہوتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ تقسیم پاک ہند کے ستر سال بعد بھی آج گلگت بلتستان کے عوام کا علاقے کے وسائل پر کوئی اختیارنہیں۔ آخرکب تک وہاں کے عوام کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔ گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ ان کی متنازعہ حیثیت کو آئینی تحفظ دیا جائے، ان کو وہ حقوق دئے جائیں جو اس ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔
سید فیض نقشبندی (کنوینئر میر واعظ عمر فاروق گروپ )
موجودہ حالات میں جس انداز میں کشمیری عوام حق خود ارادیت اور آزادی کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وادی کے اندر آزادی اظہار پر قدغن لگادی گئی ہے، عوام کو سڑکوں پر نکلنے نہیں دیا جارہا، جلسے جلوس پر گولیاں برسادی جاتی ہیں، حریت قیادت کو نظر بند اور پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تحریک کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی تو بھارتی سرکارنے سوشل میڈیا پر پابندی لگاتے ہوئے باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ کشمیر میں اگرکسی فرد کا سوشل میڈیا اکاونٹ ہوتو اس کو سرکاری ملازمت نہیں ملے گی اور اگر کسی سرکاری ملازم کا سوشل میڈیا اکاونٹ ہوتو اس کو ملازمت سے برطرف کیا جائے گا لیکن ان تمام حربوں اور سختیوں کے باوجود کشمیری عوام روز جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، پاکستان سے الحاق کا نعرہ لگاتے ہیں اور پاکستانی پرچم میں دفن ہورہے ہیں۔حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے اور عالمی سطح پر اسے اجاگر کرنے کیلئے تمام سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرے اور انہیں ٹاسک دے کہ وہ ان ممالک کے عوام، اکیڈیمیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ روابط بڑھائیں۔ حکومت پاکستان اقوام متحدہ کو تجویز پیش کرے کہ وہ کشمیر کیلئے بھی اپنا خصوصی نمائندہ اور بھارتی فوج کے مظالم کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن مقرر کرے۔ پاکستان عالمی برادری کے ذریعے بھارت پر دباو بڑھائے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر کی شہری آبادیوں سے فوری طور پر سکیورٹی فورسز کو واپس بلا لے،بے گناہ کشمیری قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے' عوامی اجتماعات سے پابندی اٹھائے اورکشمیری حریت رہنماوں کی نظر بندی کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں اور ہر فورم پر اس مسئلہ کو اجاگر کریں۔
میر طاہر مسعود ( سابق کنوینئر میر واعظ گروپ)
آزادی کشمیر کی تحریک 2016ء کے دوران برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر عروج پر پہنچی مگر موثر حکومتی سرپرستی نہ ملنے کے باعث کامیابی نہ مل سکی۔کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ملٹرائزڈ ریاست ہے جہاں تقریباً ہر سات شہریوں کیلئے ایک سکیورٹی اہلکار موجود ہے۔ہندوستانی فوج نے کشمیر کو ایک اوپن جیل بنایاہوا ہے۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی ظلم و بربریت کے واقعات کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور اقوام عالم کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈالے کہ کشمیریوں کی ان کی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے متعلق تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر جامع پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیلئے جانے سے قبل حریت قائدین سے مشاورت کی تھی جس میں حریت قائدین نے انہیں اپنی تجاویز پر مبنی تحریری دستاویز پیش کی تھیں جنہیں میاں نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران دہرایا اور اس بات کو عالمی سطح پر پزیرائی ملی۔ میاں نواز شریف نے حریت قائدین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ واپسی پر دوبارہ ملاقات کرکے تازہ پیشرفت سے آگاہی حاصل کریں گے مگر جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی۔ موجودہ حکومت کے دور میں مسئلہ کشمیر کو اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک میں موثر طورپر اجاگر ہونے کی توقع تھی مگر پوری نہ ہو سکی۔ کشمیری قیادت اور حریت قائدین چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ملک کے دیگر خطوں کے برابر حقوق دیے جائیں، وہاں کے عوام کو بااختیار بنایا جائے اور ان کی متنازعہ حیثیت کو آزاد کشمیرکی طرز پرآئینی تحفظ فراہم کریں۔
محمود احمد ساغر ( حریت رہنما)
اقوام متحدہ گذشتہ 70 برسوں کے دوران اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے 5 نکات میں سے 2 پر عملدرآمد ہوچکا مگر باقی تین نکات پر عملدرآمد کی راہ میں بھارتی ہٹ دھڑمی بڑی رکاوٹ ہے۔ کشمیری عوام کا شروع دن سے یہ مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق انہیں حق خودارادیت دیا جائے۔ بھارتی سرکار کشمیری عوام کے اس مطالبہ کو دبانے کیلئے کشمیر میں ظلم کر رہی ہے، اس وقت کشمیر میں 8 لاکھ کے قریب فوجی موجود ہیں جو وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں اس کا نوٹس لینے سے گریزاں ہیں اور واضح طور پر جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہیں۔حریت قائدین اور کشمیری عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر جاری مظالم کا جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کے مبصر مشن اور انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ یہاں پر کس بے دردی سے کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہیں اور کس طرح انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔یہ بات دنیا جانتی ہے کہ اقوام متحدہ میں آج تک مسئلہ کشمیر سے پیش کی جانے والی کوئی بھی قرارداد مسترد نہیں ہوئی بلکہ تمام پیش کردہ قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور اقوام عالم میں لابنگ کرے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے بھارت پر دباؤ بڑھائیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کو یقینی بنانے کیلئے راہ ہموار کریں ۔اگر حکومت پاکستان اس ضمن میں کسی بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہے تو وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت کو بااختیار بنائے اور انہیں آگے لے آئے تاکہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے موثر انداز میں کام کرسکیں۔
عبدالحمید لون (سیکریٹری اطلاعات آل پارٹیز حریت کانفرنس پاکستان چیپٹر)
کشمیری عوام اور حریت قائدین کا اقوام متحدہ سے پرزورمطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے اوررائے شماری کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے بھارت پر دباؤ بڑھائے۔حریت قائدین بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارتی مظالم کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے جبکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکوازسرنو اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کونسل اور '' اوآئی سی'' میں اٹھائے تاکہ حالیہ واقعہ کے تناظر میں کشمیر کی آزادی کیلئے بین الاقوامی سطح پر کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔ کشمیری عوام 1931ء سے اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک انہیں آزادی نصیب نہیں ہوتی۔ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے اور کشمیریوں کا وکیل بھی جس کے ناطے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے اقوام متحدہ اور عالمی فورم پر موثر آواز بلند کریں۔