سانحہ کراچی ملزمان کی شناخت کیلئے پولیس نے شہریوں کو یر غمال بنا لیا
پھل فروش، کباڑی،سبزی فروش،راج مستری،مکینکوں سمیت دیگر کو10سے12گھنٹے تک ’’حراست‘‘ میں رکھا گیا تھا
پولیس نے ملزمان کی شناخت پریڈ کرانے کی غرض سے سیکڑوں شہریوں کو یرغمال بناکر شدید پریشانی میں مبتلا کردیا ۔
6 ملزمان کو تین روز مسلسل شناخت پریڈ کرانے کیلیے عدالت لایا گیا لیکن ڈمی کے طور پر لائے گئے پھل فروش ،کباڑی ، سبزی فروش ، رنگ ساز ، راج مستری، گاڑیوں کے مکینک سمیت دیگر شہریوں کو 10سے 12 گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا، جج کے گھر میں چوری ہونے کا جھانسہ دیکر ڈرا دھمکا کر خوف زدہ کیا اوران کے قومی شناختی کارڈ قبضے میں لے لیے گئے تھے ۔
شناخت پریڈ کے بعد انھیں مطلوبہ چیزیں تھانے سے حاصل کرنے کی ہدایات کی گئی تھی ، تین روز مسلسل دھکے کھانے کے بعد قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلیے تھانے کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں، تفصیلات کے مطابق پولیس نے عباس ٹاؤن بم دھماکے میں ملوث گرفتار خیر الدین ، محمد اسحاق ، انعام اﷲ ، محمد شفیق ، عالم شیر اور عرفان کو شناخت پریڈ کیلیے تین روز تک مسلسل جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نوید اصغر شیخ کے روبرو پیش کیا تھا، پہلے روز ایک سو کے قریب شہریوں کو ملیر کورٹ لایا گیا تھا،اس موقع پر محمد اکبر نامی شخص نے بتایا کہ اس کی تھانہ فیریئر کے علاقے میں کباڑی کی دکان ہے۔
تھانہ فیریئر کے ایس ایچ او اور 2 سپاہی دکان پر آئے تھے اور کہا کہ جج کے گھر چوری ہوگئی ہے ،چوری مولوی نے کی ہے، علاقے کے تمام مولویوں کو شناخت کرنے کیلیے بلوایا ہے ،چند منٹ میں واپس آجانا ،اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی کینسر کی مریضہ اور اسپتال میں زیر علاج ہے ، والدہ تیماداری کیلیے اسپتال میں ہی ہیں، 6 ماہ کا بیٹا اس کی گود میں تھا جسے وہ پڑوسی دکاندار کے حوالے کرکے تھانے آگیا تھا ، تھانے میں شناختی کارڈاور موبائل فون لے لیا گیا، وہاں درجنوں داڑھی والے افراد موجود تھے ۔
بعدازاں انھیں ملیر کورٹ لایا گیا تاکہ جج انھیں شناخت کرلے کہ چوری کس نے کی ہے کورٹ آکر معلوم ہوا کہ ملزمان کی شناخت پریڈ ہے اور انھیں ڈمی کے طور پر کھڑا ہونا ہے 10 گھنٹے گزر نے کے بعد بھی پولیس نے'' آزاد '' نہیں کیا، نذیر احمد نے بتایا کہ وہ رنگ ساز ہے اور روزانہ مزدوری کیلیے سٹرک کے کنارے کھڑے ہوکرکام کی تلاش کرتا ہے، کوئی نہ کوئی کام مل جاتا ہے جب جا کر گھر کا چولہا جلتا ہے لیکن پولسی والوں نے انھیں اس مزدوری سے بھی محروم کردیا، صبح سے انھیں تھانے لاکر بٹھایا، شام بھی عدالت میں ہو گئی۔
عزیزاﷲ نامی شہری نے بتایا کہ وہ اورنگی ٹاؤں کا رہائشی ہے، اپنے دوست فضل سے ملنے آیا تھا ،پولیس والوں نے تلاشی کے بہانے اسے روکا اور شناختی کارڈ نکال لیا اورکہا کہ شناختی کارڈ کی تصدیق ہورہی ہے، کورٹ سے ملے گا ،آٹھ گھنٹے سے کورٹ میں موجود ہوں، محمد خان نے بتایا کہ وہ راج مستری کا کام کرتا ہے اور مزدوری کی تلاش میں ٹھیکیدار کے پاس آیا تھا، ایک ہفتے بعد مزدوری ملی تھی لیکن پولیس ملزمان کی شناخت پریڈ کیلیے کورٹ لے آئی ، اس طرح دوسرے روز بھی تقریباً سو سے زاید شہریوں کو ملزمان کی شناخت پریڈ کیلیے عدالت لایا گیا تھا جس میں زیادہ تر پھل فروش ، سبزی فروش وغیرہ تھے۔
ٹھیلے تھانے میں بند کرکے انھیں زبردستی لایا گیا،شہریوں نے بتایا کہ وہ علاقے میں ٹھیلے پر گھوم کر پھل و سبزی فروخت کرتے ہیں اگرایک روز سبزی فروخت نہ ہوتو وہ باسی ہو جاتی ہے اور گاہک دوبارہ نہیں خریدتا ،روزانہ کی آمدنی سے ہی گھر کا گزارہ ہوتا ہے لیکن پولیس کو کون بتائے کہ ایک روز نہ کمانے سے انکے گھر کی کیا حالت ہوتی ہے ، متعدد افراد نے کہا کہ شناختی پریڈ سے فارغ ہوجانے کے بعد انھیں بتایاگیا کہ شناختی کارڈ تھانے سے ملے گا لیکن جب تھانے جاؤ توکہا جاتا ہے کہ صاحب نہیں ہیں۔
ان ہی کے پاس شناختی کارڈ ہے، پہلے کورٹ کے چکر میں بھوکے پیاسے دھکے کھائے، اب قومی شناختی کارڈ اور موبائل فون حاصل کرنے کیلیے تھانوں کے چکرلگانے پر مجبور ہیں ، پولیس نے تین روز میں تقریباً ڈھائی سو سے زائد شہریوں کو یرغمال بناکر انھیں پریشانی میں مبتلا کیا۔
6 ملزمان کو تین روز مسلسل شناخت پریڈ کرانے کیلیے عدالت لایا گیا لیکن ڈمی کے طور پر لائے گئے پھل فروش ،کباڑی ، سبزی فروش ، رنگ ساز ، راج مستری، گاڑیوں کے مکینک سمیت دیگر شہریوں کو 10سے 12 گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا، جج کے گھر میں چوری ہونے کا جھانسہ دیکر ڈرا دھمکا کر خوف زدہ کیا اوران کے قومی شناختی کارڈ قبضے میں لے لیے گئے تھے ۔
شناخت پریڈ کے بعد انھیں مطلوبہ چیزیں تھانے سے حاصل کرنے کی ہدایات کی گئی تھی ، تین روز مسلسل دھکے کھانے کے بعد قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلیے تھانے کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں، تفصیلات کے مطابق پولیس نے عباس ٹاؤن بم دھماکے میں ملوث گرفتار خیر الدین ، محمد اسحاق ، انعام اﷲ ، محمد شفیق ، عالم شیر اور عرفان کو شناخت پریڈ کیلیے تین روز تک مسلسل جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نوید اصغر شیخ کے روبرو پیش کیا تھا، پہلے روز ایک سو کے قریب شہریوں کو ملیر کورٹ لایا گیا تھا،اس موقع پر محمد اکبر نامی شخص نے بتایا کہ اس کی تھانہ فیریئر کے علاقے میں کباڑی کی دکان ہے۔
تھانہ فیریئر کے ایس ایچ او اور 2 سپاہی دکان پر آئے تھے اور کہا کہ جج کے گھر چوری ہوگئی ہے ،چوری مولوی نے کی ہے، علاقے کے تمام مولویوں کو شناخت کرنے کیلیے بلوایا ہے ،چند منٹ میں واپس آجانا ،اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی کینسر کی مریضہ اور اسپتال میں زیر علاج ہے ، والدہ تیماداری کیلیے اسپتال میں ہی ہیں، 6 ماہ کا بیٹا اس کی گود میں تھا جسے وہ پڑوسی دکاندار کے حوالے کرکے تھانے آگیا تھا ، تھانے میں شناختی کارڈاور موبائل فون لے لیا گیا، وہاں درجنوں داڑھی والے افراد موجود تھے ۔
بعدازاں انھیں ملیر کورٹ لایا گیا تاکہ جج انھیں شناخت کرلے کہ چوری کس نے کی ہے کورٹ آکر معلوم ہوا کہ ملزمان کی شناخت پریڈ ہے اور انھیں ڈمی کے طور پر کھڑا ہونا ہے 10 گھنٹے گزر نے کے بعد بھی پولیس نے'' آزاد '' نہیں کیا، نذیر احمد نے بتایا کہ وہ رنگ ساز ہے اور روزانہ مزدوری کیلیے سٹرک کے کنارے کھڑے ہوکرکام کی تلاش کرتا ہے، کوئی نہ کوئی کام مل جاتا ہے جب جا کر گھر کا چولہا جلتا ہے لیکن پولسی والوں نے انھیں اس مزدوری سے بھی محروم کردیا، صبح سے انھیں تھانے لاکر بٹھایا، شام بھی عدالت میں ہو گئی۔
عزیزاﷲ نامی شہری نے بتایا کہ وہ اورنگی ٹاؤں کا رہائشی ہے، اپنے دوست فضل سے ملنے آیا تھا ،پولیس والوں نے تلاشی کے بہانے اسے روکا اور شناختی کارڈ نکال لیا اورکہا کہ شناختی کارڈ کی تصدیق ہورہی ہے، کورٹ سے ملے گا ،آٹھ گھنٹے سے کورٹ میں موجود ہوں، محمد خان نے بتایا کہ وہ راج مستری کا کام کرتا ہے اور مزدوری کی تلاش میں ٹھیکیدار کے پاس آیا تھا، ایک ہفتے بعد مزدوری ملی تھی لیکن پولیس ملزمان کی شناخت پریڈ کیلیے کورٹ لے آئی ، اس طرح دوسرے روز بھی تقریباً سو سے زاید شہریوں کو ملزمان کی شناخت پریڈ کیلیے عدالت لایا گیا تھا جس میں زیادہ تر پھل فروش ، سبزی فروش وغیرہ تھے۔
ٹھیلے تھانے میں بند کرکے انھیں زبردستی لایا گیا،شہریوں نے بتایا کہ وہ علاقے میں ٹھیلے پر گھوم کر پھل و سبزی فروخت کرتے ہیں اگرایک روز سبزی فروخت نہ ہوتو وہ باسی ہو جاتی ہے اور گاہک دوبارہ نہیں خریدتا ،روزانہ کی آمدنی سے ہی گھر کا گزارہ ہوتا ہے لیکن پولیس کو کون بتائے کہ ایک روز نہ کمانے سے انکے گھر کی کیا حالت ہوتی ہے ، متعدد افراد نے کہا کہ شناختی پریڈ سے فارغ ہوجانے کے بعد انھیں بتایاگیا کہ شناختی کارڈ تھانے سے ملے گا لیکن جب تھانے جاؤ توکہا جاتا ہے کہ صاحب نہیں ہیں۔
ان ہی کے پاس شناختی کارڈ ہے، پہلے کورٹ کے چکر میں بھوکے پیاسے دھکے کھائے، اب قومی شناختی کارڈ اور موبائل فون حاصل کرنے کیلیے تھانوں کے چکرلگانے پر مجبور ہیں ، پولیس نے تین روز میں تقریباً ڈھائی سو سے زائد شہریوں کو یرغمال بناکر انھیں پریشانی میں مبتلا کیا۔