آئی ایم ایف کا رکن ممالک کو توانائی پر سبسڈیز کم کرنے پر زور

زیادہ فائدہ امیر اٹھاتے ہیں، حکومت پر مالی بوجھ میں اضافہ، توانائی کی قلت ہو جاتی ہے۔

انرجی سبسڈیز سے بعض ممالک کو معاشی عدم استحکام کا خطرہ ہے، رپورٹ جاری فوٹو: فائل

آئی ایم ایف نے رکن ممالک کو توانائی پر سبسڈیز میں کمی کرنے پرزوردیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وجہ سے حکومتی مالیاتی پوزیشن خراب ہوجاتی ہے اور بالآخر اس کا زیادہ فائدہ غریب کے بجائے امیر کو ہوتا ہے۔

گزشتہ روز جاری رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا کہ آئل، پٹرول اور بجلی پر سبسڈیز کا مقصد صارفین کی مددکرناہوتا ہے مگر اس کے نتیجے میں ان پر بوجھ بڑھ جاتا ہے کیونکہ حکومتوں کواس لاگت کابوجھ اٹھانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پرتا ہے، اس کے علاوہ ان سبسڈیز سے توانائی کے ضیاع کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور توانائی کے حوالے سے کفایتی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، ساتھ ہی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2011 میں دنیا بھر میں صارفین کو سستی توانائی کی فراہمی کے لیے براہ راست 480ارب ڈالر کی سبسڈیز دی گئیں اور ماحولیات پرمنفی اثرات جیسے چیزیں شامل کرکے یہ مالیت 1.9 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔




آئی ایم ایف کے اول ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ لپٹن نے واشنگٹن میں رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ حالیہ برسوں میں ممالک کے لیے انرجی سبسڈیز کا مالی بوجھ اٹھانے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے، بعض ممالک میں بجٹ خسارہ ناقابل برداشت ہورہا ہے اور اس سے معیشت کے استحکام کوخطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ صارفین کی مدد کیلیے سبسڈیز دینے والے ممالک مالی طور پر مفلوج ہونے کے ساتھ توانائی کی قلت کا شکار بھی ہو گئے ہیں۔

دنیا میں 20 ممالک اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد سبسڈیز دے رہے ہیں، یہ سبسڈیز صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچر کے لیے درکار رقم میں کمی لانے کا باعث بنتے ہوئے بلند شرح نمو میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پوسٹ ٹیکس سبسڈیز کو شامل کرلیا جائے تودنیا میں سب سے بڑے نقصان اٹھانے والے ممالک میں امریکا، چین اور روس شامل ہیں جو مجموعی طور پر 900 ارب ڈالر کے قریب سبسڈیز دے رہے ہیں۔ لپٹن کا کہنا تھا کہ سبسڈیز میں کمی سے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے نمایاں پیشرفت ہوسکتی ہے۔
Load Next Story