عوام کو جواب دو

یہ بات ہر کسی کو بالخصوص سیاست دانوں کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عوام بیوقوف نہیں ہیں۔

PARO VALLEY, BHUTAN:
ہم اپنے بچپن میں سنتے تھے کہ ''پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، جو کھیلو گے، کودو گے، ہوگے خراب''، تمام والدین اپنے بچوں کو دیگر نصیحتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بار بار اور زور دار انداز میں بتاتے، بلکہ یاد کراتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزرا، زندگیاں تبدیل ہوتی چلی گئیں، پہلے بچپن میں خواہشیں کہتے ہی پوری ہوجاتی تھیں اب ان کی جگہ ذمے داریوں نے لے لی اور پھر بڑی تبدیلی یہ آئی کہ جو کھیل کود میں جیت گئے وہ زیادہ بڑے نواب بن گئے۔ یہاں ہم لفظ ''نواب'' کو مالی آسودگی اور بہتر معیار زندگی کے حوالے سے استعمال کررہے ہیں ورنہ جو دل و ذہن سے نواب ہیں انھیں مالی آسودگی کی فکر نہیں، وہ خود میں مگن رہ کر دنیاوی چکروں کو اہمیت نہیں دیتے۔

بات اب نکلی ہے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ گزشتہ 10 سے12 سال میں ہمارے ملک کے عوام کی خبروں تک رسائی، حالات و واقعات تک پہنچ اور ہر معاملے کے بارے میں علم بہت زیادہ پڑھا ہے، جس کی وجہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی روز افزوں ترقی اور سوشل میڈیا کے ذرایع کی فراوانی ہے۔

یہ بات خوش آیند کہی جاسکتی ہے کیونکہ چیز کوئی بری نہیں ہوتی اصل بات اس کا اچھا یا برا استعمال ہے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے زندگی کے ہر گوشے کو طشت ازبام کردیا ہے اور بہت سے پردے بھی ہٹادیے ہیں۔ پہلے اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے فیصلے کئی دنوں بعد عوام تک پہنچتے تھے لیکن اب تو لمحہ لمحہ کی صورتحال سب کے سامنے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میدان سیاست کے کھلاڑی بھی میڈیا کی وجہ سے کافی محتاط ہوگئے ہیں۔

اب تو سیلفیوں (Selfies) کا زمانہ ہے، لیکن اب بھی جہاں فوٹوگرافرز تصاویر لیتے ہیں تو وہ ضرور کہتے ''پلیز اسمائل! Plesse smile'' یا ذرا مسکرائیے۔ سیلفی لیتے وقت بھی ہر کوئی حقیقی یا زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا ہی لیتا ہے، اس کو مجبوری کہیں، فیشن یا ضرورت، کیمرے کے سامنے مسکراہٹ ضروری ہے۔ اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر ہمارے سیاسی رہنما بھی کیمروں کے سامنے خود کو سب سے ہنستا مسکراتا شخص بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو بھی یہ دکھایا جاتا ہے کہ ہم سے اچھا کوئی نہیں، یہ سب میڈیا کی وجہ سے ہی ہے۔

اور اس طاقتور میڈیا نے جو آج ہر گھرکا حصہ ہے عوام کو بھی میدان سیاست کے بہت سے امور سکھا دیے ہیں، جب کوئی سیاسی رہنما تقریر کر رہا ہوتا ہے تو عوام کو پتہ ہوتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ ہر بار الیکشن کے موقع پر سیاسی بیان بازیاں، جوڑ توڑ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ، اتحادکے نام پر ''سیاسی مک مکا'' اور ''میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو'' کے ''اصولوں'' نے سیاست کو ہمارے ملک میں اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سیاست کاروبار اور منافع بخش کام بن چکی ہے جہاں ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے لیے حسب استطاعت سرمایہ کاری کرتاہے، یہ سرمایہ کاری لفظوں سے بھی ہوتی ہے اورعمل سے بھی۔

سینیٹ کے الیکشن کا موسم آگیا ہے، ہر طرف سیاسی جوڑتوڑ، معاملات طے کرنے کے لیے طویل بیٹھکیں اور ایک دوسرے سے ناراضیاں دور کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی حوالے سے زیادہ سنگین صورت حال کراچی میں ہے، یہاں سینیٹ کے انتخابات کے لیے بہت زیادہ ہلچل مچی ہوئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاک سرزمین پارٹی نے بھی سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اپنے دو تین امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔

چیئرمین پی ایس پی مصطفیٰ کمال ناظم کراچی کی حیثیت سے خود کو منوا چکے ہیں۔ آج بھی شہر کی مختلف شاہراہوں، فلائی اوورز اور انڈر پاس سے سفر کرتے وقت مصطفیٰ کمال کا کام ہی ذہن میں آتا ہے۔ انھوں نے ناظم کراچی کی حیثیت سے جو خدمات انجام دیں انھیں سب نے سراہا ہے، لیکن اب ان سے یہ سوال بنتا ہے کہ پی ایس پی کیسے سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے؟


ہم کسی جماعت کے مخالف نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جس مینڈیٹ کو آپ بانی متحدہ کا مینڈیٹ کہہ کر ایم کیو ایم پاکستان پر شدید تنقید کرتے رہے، یہ کہتے رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان تازہ مینڈیٹ لے کیونکہ یہ مینڈیٹ ان کا نہیں متحدہ کے بانی کا ہے۔ اسی مینڈیٹ کے کچھ حصے کو اپنا کر سینیٹ الیکشن میں حصہ کیوں لیا جارہا ہے؟

صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ اگر یہ بانی متحدہ کا مینڈیٹ ہے تو پھر اس کے ذریعے جیتنے والے کیا بانی متحدہ کے لیے ہی سیٹیں جیتیں گے؟ اس سوال کا جواب ہمیں محترم مصطفیٰ کمال سے چاہیے۔

عوام کے سامنے قومی سیاست کی ایسی مثالیں موجود ہیں جب کم اکثریت کی حامل جماعت نے اقتدار سنبھالا یا چند ووٹوں کو حکومت سازی کے عمل میں کلیدی حیثیت حاصل ہوئی۔ حال ہی میں بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی ایک اور اہم واقعہ ہے جس میں اس جماعت پر حکومت تبدیل کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں جس کا ایک رکن بھی نہیں ہے۔ ن لیگ والے کہتے ہیں کہ یہ سب زرداری کا کیا دھرا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے، اس سوال کا جواب بھی عوام مانگتے ہیں۔

یہ واقعہ بھی کوئی نہیں بھولا جب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری اور دیگر نے جس جماعت کو ''قاتل لیگ'' کہا، اس کے ہی مرکزی رہنما کو پیپلز پارٹی کی حکومت میں نائب وزیراعظم بنایا گیا۔ یہ مجبوری تھی؟ مفاہمت کی اعلیٰ مثال تھی؟ یا اعلیٰ ظرفی کا نمونہ؟ یا کچھ اور؟ کوئی ان سوالات کے جواب دے گا۔

اسی طرح ن لیگ کی تقریباً پوری سیاست پرویز مشرف کے فیصلوں پر تنقید اور ان کی مخالفت میں گزری ہے لیکن عوام ن لیگ سے بھی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے کافی سارے ارکان ن لیگ کی حکومت میں وزیر بنے بیٹھے ہیں۔ سوال تو بنتا ہے کہ ایسی کون سی لانڈری کھل گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک شخص کے سوا سب صاف ستھرے ہوگئے؟

سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان میں جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پارٹی سربراہ کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنانا چاہتے ہیں جس پر رابطہ کمیٹی کے کافی اراکین کو اعتراضات ہیں۔ بات صرف یہیں نہیں رہی بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی کی گئی، پھر غلط فہمیاں دور کرنے کے وعدے بھی ہوئے، گلے بھی ملے لیکن تنازع شاید اتنا بڑا نہیں جتنا طویل ہوگیا۔

کراچی کا عام شہری ایم کیو ایم پاکستان کے تمام رہنماؤں سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا شہر کے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں جو سینیٹ کے چند ٹکٹوں کے لیے پورا نظام تقریباً معطل ہے۔ نظام اس لیے معطل ہے کہ میئر کراچی بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، اجلاسوں میں شریک ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کے مسائل کی جانب سے ان کی توجہ کم ہوگئی ہے، جس کا خمیازہ شہریوں کو ہی بھگتنا پڑا ہے۔

سینیٹ الیکشن میں ووٹ ارکان صوبائی اسمبلی اور ایم این ایز نے ڈالے ہیں، یہ بات ہر عقل رکھنے والے کے ذہن میں ہے کہ کسی بھی صوبے میں اگر اس جماعت کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی جس کی وہاں اکثریت نہیں یا نمایندگی نہیں تو سمجھ لینا ہوگا کہ وہاں ''کچھ نہ کچھ'' ضرور ہوا ہے۔ اب اس ''کچھ نہ کچھ'' کی تشریح کئی طرح ہوسکتی ہے۔ ایسی پیش گوئیوں کا سن کر تو عام آدمی بھی سوچ رہا ہے کہ کاش ہم عوامی نمایندے ہوتے ۔

یہ بات ہر کسی کو بالخصوص سیاست دانوں کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عوام بیوقوف نہیں ہیں، وہ ہر کسی کی باتوں، دعووں اور وعدوں کی حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں۔ مختلف سطحوں پر انتخابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن ''عوامی نمایندہ'' ہونے کے دعویداروں کو اصل توجہ عوام کی خدمت پر دینی چاہیے۔ سینیٹ الیکشن میں کروڑوں کی بولیاں لگنے کی باتیں، اپنے مفادات کے لیے ایک جماعت سے دوسری جماعت میں چھلانگیں، کیا یہی جمہوریت ہے؟ اس کا جواب ''نہیں'' ہے اور یہی ہونا چاہیے۔ سیاست سے ''نظریہ ضرورت'' ختم کیا جانا ضروری ہے۔
Load Next Story