خط کو فی میں لکھے شام کے بازار کا حال
دنیا کے امن پسند اس تباہی و بربادی پر گریہ فغاں ہیں کہ ریشم و اطلس و کمخواب کے طلسم اب ٹوٹ چکے۔
LONDON:
خالد جاوید نے جب اپنی شاعری میں یہ مصرعہ لکھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ چند سال بعد وہی شام کشت و خون کی نذر ہوجائے گا، جس کے بازار کی رونقیں دنیا کو خیرہ کرتی تھیں، جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، شاعر اپنی شاعری میں حسن و جمال کے لیے مثال دیا کرتے تھے، آج وہ بازار آگ و خون، آہوں و سسکیوں سے گونجتا ہے اور اس کی دھمک سن کر بے ضمیروں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ہے۔
وہ ادارہ جس کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف اس لیے عمل میں آیا کہ دنیا میں امن ہو، سلامتی ہو، آنے والی نسلیں ایک آرام دہ پرسکون دنیا دیکھ سکیں، لیکن افسوس! وہ کوئی ذمے داری پوری طرح انجام نہ دے سکا۔
دنیا کے امن پسند اس تباہی و بربادی پر گریہ فغاں ہیں کہ ریشم و اطلس و کمخواب کے طلسم اب ٹوٹ چکے، اب تو جابجا کوچہ و بازاروں میں خاک و خون میں لتھڑے ہوئے جسم نظر آتے ہیں، موت کا سناٹا، کھنڈر ہوا ایک شہر، جس کی کوئی عمارت سلامت نظر نہیں آتی، گھروں کو بے نام و نشان کردیا گیا ہے، کتنے فوت ہوئے، کہاں کون لاپتا ہوگیا؟ کچھ نہیں معلوم۔
سردی، بھوک، بیماری اور زخموں سے نڈھال بدقسمت شامی زخموں سے چور ہیں، لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے قریبی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، بہت سے مغربی ممالک اپنی سرحدوں کو خادار تار لگا کر بند کررہے ہیں، ایک عجیب قیامت صغریٰ ہے اور اس سب کے ذمے دار انسانوں کے حیوانی رویے ہیں۔
جنگ کی ہولناکی دیکھ کر فاتح سپہ سالار اپنے گھوڑے سے اتر کر تلوار پھینک دیتا ہے، رنجیدہ ہوکر جنگ سے تائب ہوتا ہے، اس وقت تک اس کے فوجیوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرلی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبضے اور اقتدار کی ہوس محض زمین کے قبضے اور اختیارات کے حصول کا نام ہے، انسان کس قدر خودغرض ہوجاتا ہے، وہ انسانی جانوں کو ختم کرنے سے دریغ نہیں کرتا، اسے بوڑھے، جوان، عورتیں اور نہ وہ معصوم بچے نظر آتے ہیں جنھوں نے اس دنیا میں ابھی قدم ہی رکھا ہے، ایسے سیکڑوں بچے جن کی آنکھوں میں خوف، دہشت بھری ہے، سخت سردیوں میں خانہ بدوشی کے یہ دن کس طرح گزارتے ہوں گے۔
اس کیفیت میں شامی بچے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ اس دنیا کو ہمارے لیے جہنم بنادیا گیا، بہن، بھائی، ماں، باپ اور دوست سب کس نے چھین لیے۔ ایک پرامن خوبصورت دنیا کو دیکھنے کا حق صرف طاقتوروں کے لیے ہے، زندگی کی آسائشوں میں جینے کا حق ترقی یافتہ اقوام کے لیے ہے، جدید سائنس کی ترقی کے ثمرات پر انھی کا اختیار ہے۔ شام کے معصوم بچے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
منو بھائی نے ایک بار کہا تھا کہ یہ دنیا ہم نے آنے والی نسلوں سے ادھار لی ہے، جسے ہمیں سود سمیت خوبصورت بنا کر لوٹانی ہے، لیکن! ہم تو ان سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں؟ کیا طاقت و مفادات کے اس کھیل میں دنیا کو پھر زمانہ جاہلیت میں پہنچادیا جائے گا۔
چھٹی صدی عیسوی میں مسلمان یہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے، ایک طویل عرصے تک اموی اور پھر عباسی حکمرانوں نے یہاں حکومت کی، انیسویں صدی میں یہ عثمانی سلطنت کے زیر نگوں رہا، لیکن 1918 میں فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ حکومت نے قبضہ کرلیا، لیکن بعد میں فرانس نے پورے طور پر اس کا قبضہ سنبھال لیا، بس ایک نام نہاد کٹھ پتلی مقامی سربراہ برسر اقتدار تھا۔ شامی قوم اس غلامی سے بیزار تھی، اس دوران شام میں مزاحمتی کارروائیاں بھی ہوتی رہیں، ایک قابض اور محکوم ملک کے درمیان جو ناروا پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں۔
شام بھی ان سب کا شکار رہا۔ اسی دوران جنگ عظیم شروع ہوئی، فرانس کی توجہ اس پر مبذول رہی، لیکن اس نے شام پر پابندیاں اور سختیاں بھی مزید تیز کردی تھیں، جس سے شامی باشندوں میں آزادی کی جدوجہد میں تیزی آئی۔
شام کو 17 اپریل 1946 میں آزاد ی مل گئی، لیکن وہاں عرصہ تک فوجی حکومت اور بغاوتیں جاری رہیں، 23 فروی 1966 کو حافظ الاسد نے صدر امین حفیظ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا، اس سے قبل وہ تین سال تک وزیر دفاع رہے تھے، اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک کئی ریفرنڈم کروا کر ملک پر قابض رہے، مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی، جس میں گولان کی پہاڑی کا کچھ حصہ آزاد کروایا۔
صدر حافظ ایک طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگئے اور اب ان کے بیٹے بشارالاسد شام کے سربراہ ہیں۔ شام میں اس وقت موروثی حاکمیت قائم ہے۔ اسد حکومت کو اس وقت اپنے ملک میں خانہ جنگی اور مزاحمت کا سامنا ہے، جس میں زیادہ تر ذمے دار اسد حکومت کی پالیسیاں رہیں، جس نے وہاں کے عوام کو ان سے متنفر کردیا۔ اسد حکومت نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے فوج کے ساتھ مل کر سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔
2011 میں جب اسد حکومت کے خلاف شامی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا تو تما م دنیا کے جمہوریت پسندوں نے اس کی حمایت کی۔ اس لیے کہ اسد حکومت کی مطلق العنانی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ فوج کے ہاتھوں عوام کو اذییتں پہنچائی جارہی تھیں، جیلیں عوام سے بھرنے لگی تھیں، لیکن کچھ عرصے بعد اس لڑائی میں انتہاپسند گروہ نظر آنے لگے، جو اسد حکومت کے خاتمے اور اپنی حاکمیت کے خواب دیکھ رہے تھے۔
یہ انتہاپسند جماعتیں اپنے نظریے اور سلوک سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی صف میں شامل ہیں، ان میں داعش کے نام سے کون واقف نہیں، جس کے رہنما ابوبکر بغدادی نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے کر سب سے بیعت کا حکم دیا، حزب اﷲ کی امن ملیشیا بھی اس جنگ میں پیش پیش ہے۔ عرب ممالک پرامن تصفیہ کروانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی اسد حکومت قبول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی تجویز نہیں جس سے ریاست کو متحد کیا جاسکے۔
ترکی اپنی سرحد کے قریب اسد حکومت کو برداشت نہیں کرنا چاہتا، تو سعودیہ بھی ترکی کا حامی ہے۔ سعودی اور ترک اسد حکومت کو مٹانے پر سارا زور لگا رہے ہیں، تو روس اور ایران اسد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان عرب ممالک کا ساتھ دینے کو برطانیہ، امریکا اور روس بھی پیش پیش ہیں۔ شام پر اپنے مفادات کے لیے فضائی بمباری بھی جاری ہے۔
یہ ممالک اپنے حملے کے الگ الگ جواز پیش کر رہے ہیں، لگتا ہے کہ آیندہ کئی برسوں تک شام کی سرزمین اسی طرح خون سے سرخ رہے گی۔ حریف و حلیف ممالک دور سے اس بازی کو جیتنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ سود و زیاں کے اس کھیل میں سب زیادہ گھاٹا ان بے بس و بے گناہ شامی عوام کا ہے جو نہ اپنے وطن میں رہ سکتے ہیں، نہ انھیں کہیں اور جائے پناہ نصیب ہے۔
سوچیے کیا انسان نے ہتھیار اسی لیے بنائے تھے کہ آبادیاں نیست ونابود کردی جائیں، جنگ و جنون کی حوصلہ افزائی ہو، زندگی کو ختم کردیا جائے۔ سیاست نے سائنس کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کرنا تھا، اہل اقتدار نے اپنی ہوس پر اسے وار دیا۔ یمن و شام کا نوحہ پوری انسانیت کے لیے باعث شرم رہے گا، اس نئی صدی میں رونما ہونے والا یہ سانحہ ہم سب کی انسانیت پر سوال اٹھاتا رہے گا۔
خالد جاوید نے جب اپنی شاعری میں یہ مصرعہ لکھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ چند سال بعد وہی شام کشت و خون کی نذر ہوجائے گا، جس کے بازار کی رونقیں دنیا کو خیرہ کرتی تھیں، جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، شاعر اپنی شاعری میں حسن و جمال کے لیے مثال دیا کرتے تھے، آج وہ بازار آگ و خون، آہوں و سسکیوں سے گونجتا ہے اور اس کی دھمک سن کر بے ضمیروں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ہے۔
وہ ادارہ جس کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف اس لیے عمل میں آیا کہ دنیا میں امن ہو، سلامتی ہو، آنے والی نسلیں ایک آرام دہ پرسکون دنیا دیکھ سکیں، لیکن افسوس! وہ کوئی ذمے داری پوری طرح انجام نہ دے سکا۔
دنیا کے امن پسند اس تباہی و بربادی پر گریہ فغاں ہیں کہ ریشم و اطلس و کمخواب کے طلسم اب ٹوٹ چکے، اب تو جابجا کوچہ و بازاروں میں خاک و خون میں لتھڑے ہوئے جسم نظر آتے ہیں، موت کا سناٹا، کھنڈر ہوا ایک شہر، جس کی کوئی عمارت سلامت نظر نہیں آتی، گھروں کو بے نام و نشان کردیا گیا ہے، کتنے فوت ہوئے، کہاں کون لاپتا ہوگیا؟ کچھ نہیں معلوم۔
سردی، بھوک، بیماری اور زخموں سے نڈھال بدقسمت شامی زخموں سے چور ہیں، لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے قریبی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، بہت سے مغربی ممالک اپنی سرحدوں کو خادار تار لگا کر بند کررہے ہیں، ایک عجیب قیامت صغریٰ ہے اور اس سب کے ذمے دار انسانوں کے حیوانی رویے ہیں۔
جنگ کی ہولناکی دیکھ کر فاتح سپہ سالار اپنے گھوڑے سے اتر کر تلوار پھینک دیتا ہے، رنجیدہ ہوکر جنگ سے تائب ہوتا ہے، اس وقت تک اس کے فوجیوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرلی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبضے اور اقتدار کی ہوس محض زمین کے قبضے اور اختیارات کے حصول کا نام ہے، انسان کس قدر خودغرض ہوجاتا ہے، وہ انسانی جانوں کو ختم کرنے سے دریغ نہیں کرتا، اسے بوڑھے، جوان، عورتیں اور نہ وہ معصوم بچے نظر آتے ہیں جنھوں نے اس دنیا میں ابھی قدم ہی رکھا ہے، ایسے سیکڑوں بچے جن کی آنکھوں میں خوف، دہشت بھری ہے، سخت سردیوں میں خانہ بدوشی کے یہ دن کس طرح گزارتے ہوں گے۔
اس کیفیت میں شامی بچے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ اس دنیا کو ہمارے لیے جہنم بنادیا گیا، بہن، بھائی، ماں، باپ اور دوست سب کس نے چھین لیے۔ ایک پرامن خوبصورت دنیا کو دیکھنے کا حق صرف طاقتوروں کے لیے ہے، زندگی کی آسائشوں میں جینے کا حق ترقی یافتہ اقوام کے لیے ہے، جدید سائنس کی ترقی کے ثمرات پر انھی کا اختیار ہے۔ شام کے معصوم بچے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
منو بھائی نے ایک بار کہا تھا کہ یہ دنیا ہم نے آنے والی نسلوں سے ادھار لی ہے، جسے ہمیں سود سمیت خوبصورت بنا کر لوٹانی ہے، لیکن! ہم تو ان سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں؟ کیا طاقت و مفادات کے اس کھیل میں دنیا کو پھر زمانہ جاہلیت میں پہنچادیا جائے گا۔
چھٹی صدی عیسوی میں مسلمان یہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے، ایک طویل عرصے تک اموی اور پھر عباسی حکمرانوں نے یہاں حکومت کی، انیسویں صدی میں یہ عثمانی سلطنت کے زیر نگوں رہا، لیکن 1918 میں فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ حکومت نے قبضہ کرلیا، لیکن بعد میں فرانس نے پورے طور پر اس کا قبضہ سنبھال لیا، بس ایک نام نہاد کٹھ پتلی مقامی سربراہ برسر اقتدار تھا۔ شامی قوم اس غلامی سے بیزار تھی، اس دوران شام میں مزاحمتی کارروائیاں بھی ہوتی رہیں، ایک قابض اور محکوم ملک کے درمیان جو ناروا پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں۔
شام بھی ان سب کا شکار رہا۔ اسی دوران جنگ عظیم شروع ہوئی، فرانس کی توجہ اس پر مبذول رہی، لیکن اس نے شام پر پابندیاں اور سختیاں بھی مزید تیز کردی تھیں، جس سے شامی باشندوں میں آزادی کی جدوجہد میں تیزی آئی۔
شام کو 17 اپریل 1946 میں آزاد ی مل گئی، لیکن وہاں عرصہ تک فوجی حکومت اور بغاوتیں جاری رہیں، 23 فروی 1966 کو حافظ الاسد نے صدر امین حفیظ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا، اس سے قبل وہ تین سال تک وزیر دفاع رہے تھے، اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک کئی ریفرنڈم کروا کر ملک پر قابض رہے، مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی، جس میں گولان کی پہاڑی کا کچھ حصہ آزاد کروایا۔
صدر حافظ ایک طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگئے اور اب ان کے بیٹے بشارالاسد شام کے سربراہ ہیں۔ شام میں اس وقت موروثی حاکمیت قائم ہے۔ اسد حکومت کو اس وقت اپنے ملک میں خانہ جنگی اور مزاحمت کا سامنا ہے، جس میں زیادہ تر ذمے دار اسد حکومت کی پالیسیاں رہیں، جس نے وہاں کے عوام کو ان سے متنفر کردیا۔ اسد حکومت نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے فوج کے ساتھ مل کر سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔
2011 میں جب اسد حکومت کے خلاف شامی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا تو تما م دنیا کے جمہوریت پسندوں نے اس کی حمایت کی۔ اس لیے کہ اسد حکومت کی مطلق العنانی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ فوج کے ہاتھوں عوام کو اذییتں پہنچائی جارہی تھیں، جیلیں عوام سے بھرنے لگی تھیں، لیکن کچھ عرصے بعد اس لڑائی میں انتہاپسند گروہ نظر آنے لگے، جو اسد حکومت کے خاتمے اور اپنی حاکمیت کے خواب دیکھ رہے تھے۔
یہ انتہاپسند جماعتیں اپنے نظریے اور سلوک سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی صف میں شامل ہیں، ان میں داعش کے نام سے کون واقف نہیں، جس کے رہنما ابوبکر بغدادی نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے کر سب سے بیعت کا حکم دیا، حزب اﷲ کی امن ملیشیا بھی اس جنگ میں پیش پیش ہے۔ عرب ممالک پرامن تصفیہ کروانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی اسد حکومت قبول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی تجویز نہیں جس سے ریاست کو متحد کیا جاسکے۔
ترکی اپنی سرحد کے قریب اسد حکومت کو برداشت نہیں کرنا چاہتا، تو سعودیہ بھی ترکی کا حامی ہے۔ سعودی اور ترک اسد حکومت کو مٹانے پر سارا زور لگا رہے ہیں، تو روس اور ایران اسد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان عرب ممالک کا ساتھ دینے کو برطانیہ، امریکا اور روس بھی پیش پیش ہیں۔ شام پر اپنے مفادات کے لیے فضائی بمباری بھی جاری ہے۔
یہ ممالک اپنے حملے کے الگ الگ جواز پیش کر رہے ہیں، لگتا ہے کہ آیندہ کئی برسوں تک شام کی سرزمین اسی طرح خون سے سرخ رہے گی۔ حریف و حلیف ممالک دور سے اس بازی کو جیتنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ سود و زیاں کے اس کھیل میں سب زیادہ گھاٹا ان بے بس و بے گناہ شامی عوام کا ہے جو نہ اپنے وطن میں رہ سکتے ہیں، نہ انھیں کہیں اور جائے پناہ نصیب ہے۔
سوچیے کیا انسان نے ہتھیار اسی لیے بنائے تھے کہ آبادیاں نیست ونابود کردی جائیں، جنگ و جنون کی حوصلہ افزائی ہو، زندگی کو ختم کردیا جائے۔ سیاست نے سائنس کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کرنا تھا، اہل اقتدار نے اپنی ہوس پر اسے وار دیا۔ یمن و شام کا نوحہ پوری انسانیت کے لیے باعث شرم رہے گا، اس نئی صدی میں رونما ہونے والا یہ سانحہ ہم سب کی انسانیت پر سوال اٹھاتا رہے گا۔