بلوچستان کے مسائل توجہ کے طالب
یہ صداقت کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے و آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں ناراضگی کا عنصر موجود ہے۔
مناسب ہوتا کہ شروع سے ہی تمام صوبوں کو بااختیار بنایا جاتا تمام صوبوں کا صوبائی خودمختاری کا حق تسلیم کیا جاتا، تمام صوبے اپنے معدنی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے خود مالک ہوتے اور اپنے وسائل سے حاصل شدہ آمدن سے اپنے صوبے پر خرچ کرنے میں آزاد ہوتے، البتہ اس کیفیت میں وفاق کے پاس جو محکمے ہوتے ان میں امور خارجہ، دفاع، ذرایع آمد ورفت اورکرنسی۔ بہرکیف مناسب اقدام ہوتا کہ بلوچستان کے عوام کو مساوی حقوق حاصل ہوتے مگر ایسا نہ ہوسکا اور آغاز ہی سے بلوچستان کے عوام کو وہاں کے بلوچ سرداروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا یوں بھی بلوچستان میں بلوچ سرداروں نے صدیوں سے قبائلی نظام قائم کر رکھا ہے۔
ملک کی ایک نامور سیاسی جماعت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم نے بلوچستان میں سرداری نظام کا 1974 میں خاتمہ کردیا تھا ، البتہ یہ سرداری نظام کے خاتمے کا اس سیاسی جماعت کی جانب یہ دعویٰ حقائق کے منافی ہے کیونکہ بلوچستان میں نہ صرف سرداری نظام قائم ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ قوت حاصل کرچکا ہے اور آج بھی بلوچ سرداروں کے رحم وکرم پر ہیں۔
ہم اس وقت بلوچستان کے عوام کو درپیش چند مسائل کا تذکرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اولین مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں 2005 سے خشک سالی نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں سیب کی پیداوار ہوتی ہے خشک سالی سے قبل 16 لاکھ میٹرک ٹن سیب پیدا ہوتا تھا۔ اس میں تمام قسم کا اعلیٰ ترین کوالٹی کا سیب بھی شامل ہے، البتہ اب خشک سالی کے باعث اور زرعی پانی کی قلت کے باعث اس وقت سیب کی پیداوار 16 لاکھ میٹرک ٹن سے گھٹ کر 12 لاکھ میٹرک ٹن رہ گئی ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ یہ 12 لاکھ میٹرک ٹن سیب بھی پورے ملک کی ضروریات سے زائد ہے۔
ضرورت تو اس امرکی تھی کہ خشک سالی سے متاثرہ کاشتکاروں کے مسائل پر فوری توجہ دی جاتی اور ان متاثرہ کاشتکاروں کے مسائل کا فوری حل ڈھونڈا جاتا مگر ایسا نہ ہوسکا، البتہ ضرورت تو اس امرکی بھی تھی کہ جو سیب کی پیداوار ہماری ملکی ضروریات سے زائد تھی سیب کی وہ پیداوار برآمد کی جاتی اور ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا جاتا۔
سیب برآمد تو نہ کیا جاسکا، البتہ اس کے برعکس یہ ضرور ہوا کہ ہمارے ملک میں ایران و افغانستان سے سیب کی درآمد شروع ہوگئی جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے پاکستان تو افغانستان کا برادر اسلامی ملک ہونے کا دعویدار ہے اور قیام پاکستان سے آج تک افغانستان کے لیے قربانیاں دے رہا ہے، البتہ افغانستان نے اول روز ہی سے ہمارے ملک کے لیے سرد مہری کا مظاہرہ کرتا چلا آرہا ہے پھر بھی سیب جیسی چیزکی افغانستان سے درآمد کرنا چہ معنی کہ سیب ہمارے ہاں ہماری ملکی ضروریات سے زائد پیدا ہو رہا ہے پھرکیوں افغانستان سے برآمد کیا جا رہا ہے؟
دوسری جانب ایران ہمارا پڑوسی دوست ملک ضرور ہے مگر ہماری اولین ترجیح ہمارے ملکی مفادات ہونے چاہئیں۔ ضروری ہے کہ اپنے ملک کے کاشتکاروں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان و ایران سے سیب کی برآمد فوری بند کی جائے اور بلوچستان کے کاشتکاروں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے پیدا کردہ سیب کو پورے ملک تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ بلوچستان میں بہترین معیارکی کھجور پیدا ہوتی ہے جسے بین الاقوامی معیارکی کھجور کے معیار کے مطابق پرکھا جاسکتا ہے مگرکھجورکے معاملے میں بھی عجیب صورتحال ہے وہ یوں کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والی کھجور ایران برآمد کردی جاتی ہے اور پھر وہی کھجور ڈبہ پیک ہوکر ایرانی کھجور کے نام سے پاکستان میں فروخت ہوتی ہے۔ کیا یہ بلوچستان کے کاشتکاروں کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے؟ چنانچہ کھجورکے معاملے میں بھی ضرورت اس امرکی ہے کہ کھجورکی ایران سے اس قسم کی برآمد ودرآمد پر فوری پابندی عائد کی جائے۔
ایران ہمارا برادر اسلامی و دوست ملک ہے مگر ہمارے حکومتی فیصلے ہمارے ملکی عوام کے مفاد میں ہونے چاہئیں جیسے کہ ایران اپنے حکومتی فیصلے اپنے عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتا ہے۔ ایرانی فیصلوں کی ایک مثال چاہ بہار کی بندرگاہ ہے جس کا افتتاح کوئی دو ماہ قبل ہوچکا ہے چاہ بہار بندرگاہ گوادر سے فقط ایک سوکلومیٹر کی مسافت پر ہے چاہ بہار بندرگاہ کی تکمیل سے ہندوستان جس نے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے پچاس کروڑ روپے حکومت ایران کو ادا کیے تھے کی رسائی افغانستان کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ریاستوں تک ہوگئی ہے۔
بہرکیف ہم تذکرہ کر رہے تھے بلوچستان کے کاشتکاروں کے مسائل کا جوکہ 60 فیصد زراعت سے وابستہ آبادی کے مسائل ہیں چنانچہ مناسب ہوگا کہ تھوڑا ذکر گوادر کا بھی ہوجائے۔ گوادر جس کے بارے میں 30-25 برس سے ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ گوادر کی ترقی ملک کی ترقی ہے گویا گوادر بندرگاہ کی تکمیل سے پاکستان میں معاشی و صنعتی انقلاب آجائے گا۔ اس ضمن میں ہم فقط اتنا ہی عرض کریں گے کہ اچھا خواب ہے اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی
۔ پاک چین جس مشترکہ منصوبے سی پیک کا جس قدر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ فقط چینی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کے لیے شروع کیا گیا ہے اور اس منصوبے کے فوائد بھی چینی سرمایہ کار کمپنیوں کو ہی ہوں گے۔ ممکن ہے ان فوائد میں تھوڑا حصہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی حاصل ہوجائے البتہ عام پاکستانی کو سی پیک منصوبے سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
یہ ممکن ہے کہ چند من پسند افراد کو ملازمتیں مل جائیں جب کہ گوادر شہر میں پینے کے پانی جیسی سہولت پوری طرح نہیں ہے۔ گوادر کو پینے کے پانی کے دو ذرایع ہیں ایک ذریعہ ہے آکڑا ڈیم جوکہ خشک سالی کے باعث پانی کی گرتی ہوئی سطح سے دوچار ہے کہ آکڑا ڈیم کی پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے جب کہ گوادر کو پانی کی فراہمی کا دوسرا ذریعہ ہے۔ میرانی ڈیم جہاں سے گوادرکو پانی فراہم کیا جاتا ہے تو کیفیت یہ ہے کہ میرانی ڈیم کی مسافت ہے گوادر سے چھ گھنٹے کی ہے۔ میرانی ڈیم کا پانی اس قدر ناقص ہے کہ ایک تو بدبودار ہوتا ہے جس کے باعث لوگ مختلف امراض میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔
دوئم میرانی ڈیم سے فراہم کیا جانے والا پانی عام صارفین کو حاصل ہوتا ہے ایک ٹینکر 12 ہزار روپے میں یہ ہے گوادر شہر میں پینے کے پانی کی صورتحال اس گوادر کی جس کی ترقی سے پورے ملک کی ترقی کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ ہم حکمرانوں سے فقط اتنا ہی عرض کریں گے کہ آپ پورے ملک کے صدر و وزیر اعظم یا پورے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں اس لیے پورے ملک کے مسائل حل کرنا یا پورے صوبے کے مسائل حل کرنا آپ کی ذمے داری ہے اور بلوچستان کے مسائل آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔