جمہوریت سیاست اور اسٹیبلشمنٹ

نواز شریف آج جمہوریت کے سپاہی ہیں لیکن ماضی میں وہ تیس سال آمریت کے سپاہی بنے رہے۔

www.facebook.com/shah Naqvi

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ جمہوریت کو کبھی پٹری سے اترنے نہیں دیا جائے گا کیونکہ جمہوریت ہے تو ہم ہیں۔ مانتا ہوں کہ ماضی میں عدلیہ سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن آج کی عدلیہ مکمل آزاد ہے اور ججز پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے۔ آئین کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے۔

عدلیہ کی عزت و تکریم کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔ کہا گیا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو مفلوج کردیا ہے لیکن وفاقی حکومت کی وجہ سے یہ نہیں پتہ ہم کتنے مفلوج ہوئے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کیس میں ہم نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان میں واحد عدالت ہے جس کے پاس بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ازخود نوٹس لینے کا اختیار ہے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہماری ذمے داری ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے مگر اس سے تھوڑا اوپر دیکھیں تو آئین سپریم ہے۔ ہم ان قوانین کے تابع ہیں جو مقننہ نے ہمارے لیے بنائے ہیں ہم ان پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ اگر انصاف ہوگا تو ملک اور معاشرے میں امن آئے گا اگر لوگوں کو علاج معالجہ اور صاف پانی پینے کی سہولتیں میسر نہیں آرہیں تو ہم نے ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا ہے ہم اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کررہے۔

میرا ججز سے وعدہ ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ میں ساتھی ججز کے بنا اکیلا کچھ نہیں۔ میرا مڈل کلاس سے تعلق ہے اور میں چیف جسٹس بن گیا ہوں' اس سے بڑا عہدہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں کوئی منصوبہ بندی نہیں چل رہی، عدلیہ آزاد ہے۔ عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائے گی۔ ملک میں گریٹ لیڈر اور گریٹ منصف آگئے تو ملک کی ترقی کوئی روک ہی نہیں سکتا۔

یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ چیف جسٹس نے اسی بات کا اظہار کیا کہ ماضی میں عدلیہ سے غلطیاں ہوئیں۔ ان غلطیوں میں سیاستدان اور دوسرے بھی شامل تھے جس کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا اور پاکستان ترقی میں بہت پیچھے چلا گیا۔ غلطیاں تو مجموعی طور پر تمام اداروں سے ہوئیں۔

دوسری بات جمہوریت کے بارے میں خوف خدشات اس کے باوجود ہیں کہ آرمی چیف نے سینیٹ میں اپنے خطاب میں اس چیز کی یقین دہانی کرائی کہ وہ جمہوریت پسند اور پاکستان کا مستقبل جمہوریت کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ اب نئے سال کے شروع میں چیف جسٹس نے پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ جمہوریت کو کبھی پٹری سے اترنے نہیں دیا جائے گا۔ جمہوریت کی بقا عدلیہ کی بقا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب تھا۔

یہ نظریہ ضرورت ہی تھا جس کے بطن سے مارشل لاء جنم لیتے رہے۔ یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ فوج اور عدلیہ اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ پاکستان کا روشن مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ طالبان، الطاف حسین کا چیپٹر کلوز ہوچکا، اب ماضی کے دوسرے چیپٹر بھی کلوز ہونے والے ہیں۔ طالبان کو سوویت یونین کے خلاف امریکی ضرورتوں کے تحت تخلیق کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کا ایڈونچرازم خطے میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔ چنانچہ ان کو راستے سے ہٹایا گیا۔


ہٹانے کے باوجود ان کا اثرو رسوخ مزید بڑھ گیا، لسانی بنیاد پر کراچی میں ایک پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اب یہ پارٹی کئی حصوں میں بٹ چکی ہے کیونکہ جنہوں نے اسے بنایا تھا انھیں اس کی متحدہ شکل میں ضرورت نہ رہی، اس لسانی پارٹی کے سربراہ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی فائدے میں رہے کہ اس سربراہ کی کراچی اور سندھ کے شہروں میں کئی دہائیوں تک بادشاہت قائم ہوگئی۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو یہ فائدہ ہوا کہ بھٹو فیکٹر کا کراچی اور سندھ کے کچھ شہروں سے کافی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ سارا خسارا پاکستان اور اس کے عوام کو ہوا۔ اس فارمولے کو صرف سندھ میں نہیں پنجاب میں بھی آزمایا جس کے ''مثبت نتائج'' برآمد ہوئے۔ نواز شریف دریافت ہوئے۔ پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا اس کے کے لیے علاقہ غیر ٹھہرا۔ ایک طرف وہ ماضی کہ کھمبے کو ٹکٹ دیا جائے تو جیت جائے اور آج یہ صورت حال کہ چند ہزار ووٹ لینے سے بھی قاصر ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ نواز شریف ہوں یا ایم کیو ایم دونوں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوچکے۔ اس کے عوض دونوں کو دہائیوں کا اقتدار ملا اور بھر پور عوامی حمایت بھی ملی۔ لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ نواز ہوئی ان دونوں پارٹیوں کی اہمیت ختم ہوگئی۔

جمہوریت کی اس جنگ میں ہم بھی نواز شریف کے سپاہی بننا چاہتے ہیں لیکن کیسے۔ اس یادداشت کا کیا کریں جو ان کا ماضی یاد دلاتا رہتا ہے۔ کبھی جسٹس قیوم یاد آجاتے ہیں تو کبھی سیف الرحمان۔ کبھی ان کے یہ الفاظ یوسف رضا گیلانی کے بارے میں یاد آجاتے ہیں کہ یہ حیوانوں کی بستی نہیں انسانوں کی بستی ہے، فوراً استعفی دو، گھر جاؤ، بعد میں اپیل کرکے اپنا، کبھی میموگیٹ میں کالا کوٹ پہن کر عدالت جانا یاد آجاتا ہے۔

نواز شریف آج جمہوریت کے سپاہی ہیں لیکن ماضی میں وہ تیس سال آمریت کے سپاہی بنے رہے۔ نواز رشریف اور ان کے ساتھی دن رات مشرف آمریت کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں، صرف اس لیے کہ اس نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا۔ ضیاء الحق یاد نہیں کیوں کہ اس نے انھیں سیاسی طور پر تخلیق کیا،12 اکتوبر یوم مذمت قرار پاتا ہے لیکن 5 جولائی نہیں، آخر کیوں؟دونوں تاریخیں ہی آمروں کی یادگار ہیں۔ نواز شریف نے کبھی ضیاء الحق آمریت کی مذمت کی، آخر کیوں۔ اس کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔

چیف جسٹس کے اس خطاب میں بین السطور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم 2019ء میں بھی جاری رہے گا۔ رہے نام اللہ کا۔

سیل فون: 0346-4527997
Load Next Story