افریقہ کی سمعیہ اور پاکستان کا سعد
پھر وہی ہوا، جو کھیل تقریباً روز ہوتا ہے، کشتی سمندرمیں ڈوب گئی، سارے مسافرمارے گئے۔
LONDON:
سمعیہ عمریوسف،افریقی ملک صومالیہ میں پیداہونے والی عام سی لڑکی تھی۔سیاہ رنگ اورسپاٹ چہرہ۔کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جواسے دوسروں سے ممتازبنائے۔سمعیہ پیدائشی اتھلیٹ تھی جسے قدرت نے مضبوط جسم اور اس سے بھی مضبوط روح عطاکی تھی۔جس طبقے سے سمعیہ کاتعلق تھا، اس میں بنیادی سہولتوں کافقدان نہیں بلکہ تصورہی نہیں تھا۔
سمعیہ کے پاس جوتے تک نہیں تھے۔ننگے پیربھاگتی تھی۔ رفتارناقابل یقین تھی۔دو سو میٹر ریس میں ایسے لگتا تھاکہ سمعیہ عمر بھاگ نہیں رہی بلکہ ہوامیں چوکڑیاں بھر رہی ہے۔ ہوا میں تیررہی ہے۔اس نے ملک میں تیز رفتاری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
اب اس کاایک ہی خواب تھا۔ورلڈ چمپئن بنے۔ اولمپک کے مقابے میں حصہ لے اورپوری دنیا کوحیران کر ڈالے۔سب کویقین تھاکہ سمعیہ ناقابل شکست ہے۔ اسے اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سمعیہ نے محنت شروع کردی۔ 2008-09ء میں صومالیہ کے دارالحکومت، موگادیشو اسٹیڈیم میں دن رات ٹریننگ کرتی رہتی تھی۔
اسی اثناء میں، ملک میں اسلامی بنیاپرست جماعت، اَل شباب طاقتورہوگئی۔صومالیہ کے اکثرحصے اَل شباب کے قبضہ میں چلے گئے۔اس نے لڑکیوں کے لیے ہرکھیل پرپابندی لگادی۔یہ اعلان بھی کر ڈالاکہ لڑکیوں کے لیے ریس میں حصہ لینامذہب کے خلاف ہے۔لڑکیوں کو توخیرگھربٹھاہی دیا گیا۔مگرتمام لڑکے جوکھیلوں میں دلچسپی رکھتے تھے،انکو لشکر میں زبردستی شامل کردیاگیا۔یعنی اب ہرنوجوان اَل شباب کاسپاہی تھا۔سمعیہ صرف اس وجہ سے بچ گئی کہ وہ صومالیہ کے دارالحکومت میں رہتی تھی۔
بنیادپرست دارالحومت سے صرف دومیل دور گئے تھے۔خوش قسمتی سے دارالحکومت، اَل شباب کے قبضہ میں نہ آسکا۔سمعیہ صرف اپنی دھن میں مگن تھی۔صومالیہ سے2008ء کی اولمپک کے لیے جس ٹیم کا انتخاب کیا گیا، سمعیہ اسکااہم ترین حصہ تھی لیکن چین میں منعقداولمپک سمعیہ کی زندگی کا بلندترین لمحہ تھا۔جیسے ہی ریس کاافتتاح ہوا،سمعیہ نے پوری طاقت کے ساتھ دوڑنا شروع کردیا۔اس کی پھرتی اورہمت دیکھ کر پورا اسٹیڈیم دیوانہ وار تالیاں بجانے لگا۔
سمعیہ اس ریس میں ہارگئی۔ مگر جسمانی استطاعت اورٹیلنٹ نے سب لوگوں کو اس کا فین بنادیا۔وہ جہاں جاتی تھی،لوگ اس کے ساتھ تصویریں بنواتے تھے۔ سمعیہ کواولمپک میں حصہ لے کرپتہ چل گیاتھاکہ اسے کیوں شکست ہوئی ہے۔اس کے ملک یعنی صومالیہ میں جدید ٹریننگ کے لیے کوئی اسٹیڈیم اورکوچ موجودنہیں ہے۔کوئی ایسا ادارہ نہیں جو دوڑنے کے لیے ماڈرن طریقوں پرمشق کا اہتمام کرپائے۔ صومالیہ واپس آکر اس کمزوری کودور کرنے کے لیے ہروقت سوچناشروع کردیا۔
دوستوں اورریس کے شعبہ سے منسلک کھلاڑیوں نے سمعیہ کوبتایاکہ جدیدفنی سہولتیں صرف اور صرف مغربی ممالک میں موجود ہیں۔ جب تک وہ کسی مغربی ملک میں نہیں پہنچتی،اسکاکوئی مستقبل نہیں۔صومالیہ کے ناگفتہ حالات میں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی۔اس نے انسانی اسمگلرزسے رابطہ کیا۔انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ پوری دنیامیں موجود ہیں۔ انھی کے ذریعے سوڈان، ایتھوپیا اور لیبیاتک پہنچ گئی۔ چاہتی تھی کہ کسی بھی طریقے سے اٹلی پہنچ کر ٹریننگ کرے اور 2012ء کے اولمپک مقابلوں میں حصہ لے۔
اسمگلروں نے سمعیہ اورسوکے قریب بدقسمت لوگوں کو ایک پرانی سی کشتی میں بٹھادیا۔ سمندرمیں دودن سفرکرنے کے بعدکشتی میں پٹرول ختم ہوگیا۔تھوڑی دیرکے بعدخستہ حال کشتی،سمندری طوفان کا مقابلہ نہ کرسکی اورکئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔سارے مسافر سمندربردہوگئے۔اس میں صومالیہ کی اولمپک اتھلیٹ سمعیہ بھی شامل تھی۔
جدید سہولتوں کی تلاش میں اٹلی پہنچنے کی کوشش میں سمندرکی خوراک بن گئی۔آج تک سمعیہ کی لاش نہیں مل سکی۔اس کاجرم صرف یہ تھاکہ ترقی کے خواب دیکھتی تھی۔ایسے خواب جوآبائی ملک پورے نہیں کرسکتا تھا۔ سنہرے خواب، جو دیکھنا اس کا بنیادی حق تھا۔مرتے وقت اس کی عمرصرف اکیس برس تھی۔
بالکل اسی طرح اسی سمندر،یعنی بحیرہ روم میں صرف چنددن پہلے کشتی ڈوبنے کاایک اورسانحہ پیش آیا۔اس میں بھی سوکے قریب لوگ تھے۔پنتیس پاکستانی بھی تھے۔ان میں گجرات سے تعلق رکھنے والااسماعیل بھی شامل تھا۔ نوجوان شخص۔شادی ہوئے صرف چندبرس ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ اہلیہ اورپانچ سال کابیٹاسعدبھی تھا۔ والد اور والدہ نے سعدکوبتایاتھاکہ جیسے ہی وہ لیبیاسے روانہ ہونگے، بس چند گھٹنے بعداٹلی پہنچ جائیں گے۔ وہاں ہرطرح کی سہولت ہوگی۔
سماجی انصاف،روزگارکے وسیع مواقع اوربہترین زندگی۔ سعدکوبھی بہت شوق تھاکہ ایک بہت اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرے۔گجرات کے ایک مقامی اسکول میں پڑھنے والاسعد،اپنی عمرکے مطابق خواب دیکھنے میں مصروف تھا۔ چنددوستوں کوبتارکھاتھاکہ والدکے ساتھ گوروں کے دیس میں جارہاہے۔جہاں اسکول میں تختی اور قلم دوات نہیں ہوگی۔بلکہ تمام تعلیم کمپیوٹرپردی جائے گی۔ رات کوسعدسوتے ہوئے خواب میں دیکھتا تھا کہ ایک صاف ستھرے اسکول کے ایک کمرے میں بیٹھا ہے۔
انگریز ٹیچر اسے بڑی محبت سے پڑھارہی ہے۔ٹیبل پراس کے لیے چھوٹاساکمپیوٹربھی رکھا ہواہے۔اسکول میں کھیلنے کے لیے بڑے بڑے گراؤنڈ ہیں۔ جس میں انگریزبچوں کے ساتھ فٹ بال کھیل رہاہے۔ خواب میں یہ بھی دیکھتاتھاکہ اس کا والد اسماعیل،بڑی سی گاڑی میںاسکول چھوڑنے آتاہے اور واپسی بھی اسی بڑی گاڑی میں ہوتی ہے۔گھرمیں ہرطرح کی سہولت موجود نظر آتی تھی۔ سعد کے والد،اسماعیل نے زندگی بہتربنانے کے لیے بہت بڑا فیصلہ کیاتھا۔انسانی اسمگلروں کے ذریعے غیرقانونی طریقے سے اٹلی پہنچنے کاارادہ۔قرض وغیرہ لے کراس گروہ کوبارہ لاکھ روپیہ دیا۔پھروہی موت کا سفرشروع ہوگیا۔
ایک ملک سے دوسرے ملک،دوسرے سے تیسرے اور پھر لیبیا۔ یہاں سے سمندرپارکرنے کے لیے بردہ فروشوں نے بوسیدہ سی کشتی کاانتظام کر رکھا تھا۔ ایک شام کواٹلی جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔ پھر وہی ہوا،جوکھیل تقریباً روز ہوتا ہے۔ کشتی سمندرمیں ڈوب گئی۔سارے مسافرمارے گئے۔ سعداور اس کے والد اسماعیل بھی سمندرکابے جان حصہ بن گئے۔ پانچ سالہ سعد، زندگی میں کبھی اچھے اسکول نہ جاسکا۔ بلکہ سمندری مچھلیوں کی خوراک بن گیا۔اس کی لاش کسی کوبھی نہ مل سکی۔
صومالیہ کی سمعیہ اورپاکستان کے سعدمیں آپکوکچھ بھی مشترک نظرنہیں آئیگا۔انکاآپس میں کسی طرح کاربط بھی محسوس نہیں ہوگا۔دومختلف ممالک کے شہریوں کی سچی کہانیاں ہیں جوایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں۔ ان کی زبان اورہے،معاشرتی روایات بالکل مختلف ہیں، تہذیب وتمدن بھی آپس میں میل نہیں کھاتا۔ان کی جلدکارنگ بھی بالکل مختلف ہے۔ مگر غور سے دیکھیے، سوچیے، تو دونوں میں ہرچیز یکساں ہے۔ دونوں ایک بہترمستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے۔
کامیابی کے سنہرے گھوڑے پرسوار ہونا چاہتے تھے۔ سعد اوراسے والداسماعیل،ایک اجنبی مگر بہتر ملک کے شہری بنناچاہتے تھے۔سمعیہ عمریوسف بھی بالکل یہی چاہتی تھی۔ ان کے خواب بھی ایک جیسے تھے اور پھر مقدر بھی۔ دونوں،ایک ہی ملک یعنی اٹلی جاناچاہتے تھے۔ دونوں،ایک ہی سمندر میں،یکساں حالات میں ڈوب کرجان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
غورکیجئے،توان لوگوں نے مرکے ہمارے جیسے ممالک کے اصل حالات کودنیاکے سامنے برہنہ کرڈالا۔ بتا دیاکہ ان جیسے ملکوں میں عوام پر زندگی اورترقی کاہردروازہ بند کردیا گیا ہے۔سارے دعوے جھوٹے اورترقی کے بلند و بانگ نعرے مکمل طورپردروغ گوئی پرمبنی ہیں۔عام لوگ، بالکل جانوروں کی سطح پرزندگی گزارنے پرمجبورکردیے گئے۔ وہ صرف سانس لے رہے ہیں۔
سمعیہ اورسعددونوں نے ملکر،جھوٹ کے دروازے کے پٹ کھول کررکھ دیے ہیں۔ننگاسچ بالکل سامنے آگیا ہے۔ سانحہ ہونے کے بعد،اخباروں میں آیاکہ حکومتی اداروں نے گجرات اوراس کے اردگرد،کئی بین الاقوامی انسانی اسمگلروں کو گرفتارکرلیاہے۔یہ اقدامات صرف مضحکہ خیز نہیں،بلکہ انتہائی ادنیٰ درجے کے ہیں۔
ایف آئی اے اور دیگراداروں کوسوفیصدمعلوم ہے کہ وسطی پنجاب میں موت کے سوداگر کون کون ہیں۔ان کی پشت پناہی کون سے طاقتور اشخاص کر رہے ہیں۔ان کو کس درجہ کی سیاسی حفاظت میسر ہے۔کون سا اعلیٰ سرکاری ملازم اورکون سا سیاستدان،جبر کے اس کھیل میں ملوث ہے۔ مگر چند دنوں کی جزوی اورنیم دلانہ حرکت صرف اورصرف اس لیے ہے کہ سعداوراس کے خاندان کے مرنے کی خبر،اخباروں میں شایع ہوگئی۔ورنہ کون پوچھتا ہے،اورکسے فکرہے۔
عملی طورپرہمارے سارے ائیرپورٹ بکے ہوئے ہیں۔پیسے دیکرجب چاہیں، جہاں چاہیں، بلاروک ٹوک جاسکتے ہیں۔کوئی آپکو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔بلکہ سرکاری عمال جہازکی نشست تک حفاظت سے بٹھا کر آئینگے۔ہماری بندرگاہوں کابھی یہی حال ہے۔ بری راستوں پرچوکیوں کادھندابھی یہی ہے۔ پیسہ دیکرآپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
مگردوسری طرف بھی دیکھیے۔فوجی ڈکٹیٹروں سے لے کرسیاسی آمراؤں نے ساٹھ برس سے لوگوں کوجھوٹ کی تلوارسے مفتوح کیاہواہے۔ہرقائد،اپنی اپنی راگنی الاپتا ہے۔ بے مثال ترقی،حیران کن اعدادوشمار،خیرہ کن اشتہاری دعوے۔مگرعام انسان وہیں کاوہیں ہے۔اس ملک میں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔اپنے بنیادی خواب پورے کرنے کے لیے، سمندرمیں ڈوبنے کے لیے بھی تیارہے۔تیسری دنیاکے تمام ممالک کاایک جیساالمیہ ہے۔
ایک جیسے جھوٹ ہیں۔ایک جیسے قائدین ہیں۔شایدجلدکافرق ہو۔مگرسمعیہ اورسعدکی موت،ہمارے پورے نظامِ حکومت،نظامِ انصاف اورسماج پرزوردارچانٹا ہے۔شائداس کی آوازکوئی سن پائے۔مگرگونگے اوربہرے معاشرے کیاسنیں گے!