اپنے ووٹ کو اپنے لیے استعمال کریں

ہم یعنی عوام انتخابات میں اپنے طبقات کے نمایندوں کو کامیاب نہیں کراتے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

LONDON:
70 سال سے عوام کرپٹ اشرافیہ کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں، اس قید سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، پانچ سال بعد اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کا ایک موقع ملتا ہے، لیکن چالاک اور عیار اشرافیہ انتہائی ہوشیاری اور چالاکی سے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوئی تدبیر نکال لیتی ہے اور سیاست اور اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

2013ء کے پانچ سال بعد عوام کو ایک بار اور موقع مل رہا ہے کہ وہ اشرافیہ کی سیاسی غلامی سے آزادی حاصل کر لیں لیکن ایک دو دھاری تلوار سے ان کی آزادی کا گلا کاٹنے کا ایسے منصوبے پر کام ہو رہا ہے کہ یہ موقع بھی ضایع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس قدر چالاکی سے کردہ گناہوں کو مظلومیت کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے کہ بے چارے سادہ لوح عوام اس فریب میں آتے نظر آ رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں انتخابات اشرافیہ کی با منافع بلکہ غیر معمولی منافع کی ایسی سرمایہ کاری بنے ہوئے ہوتے ہیں جس میں ایک کروڑ کی سرمایہ کاری پر ایک ارب کا منافع بڑی آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور 70 سال سے یہ کاروبار بڑی کامیابی سے جاری ہے۔

یہ کس قدر حیرت انگیز اور دلچسپ بات ہے کہ عوام اپنے ہاتھوں سے اپنے گلے میں ایسی رسی باندھ لیتے ہیں جو پانچ سال کے لیے ان کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے، آج کل الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، پل بھر میں ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تازہ خبریں پہنچ جاتی ہیں، آج کل سیاسی اشرافیہ کے کارناموں سے سارا میڈیا بھرا ہوا ہے ملک کا بچہ بچہ ان غیر معمولی کارناموں سے واقف ہو رہا ہے لیکن عوام کی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ نہ حقائق کی طرف نظر ڈالتے ہیں، نہ انھیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آنکھ بند کر کے بھیڑوں کی طرح اس سیاسی غلامی کے راستے پر چل پڑتے ہیں، جس پر وہ 70 سال سے چلتے آرہے ہیں، اسے وہ شرمناک حقائق بھی نظر نہیں آ رہے جو روز روشن کی طرح اس کے سامنے چمک رہے ہیں۔ میڈیا ان بدنما حقائق کو عوام کے سامنے کھلی کتاب کی طرح پیش کر رہا ہے لیکن عوام نظر بندی کے ایسے کھیل میں مبتلا ہیں جو انھیں مزید پانچ سال کے لیے روایتی عذابوں میں دھکیل دے گا۔

عوام اپنی مرضی سے اپنے نمایندے چننے میں بظاہر آزاد ہیں لیکن انھیں اس طرح مسمرائز کر دیا گیا ہے کہ وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے طبقاتی دشمن چاہتے ہیں۔ وہ 70 سال سے غربت، بیروزگاری، بیماری، بھوک کے صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں اور انھیں پانچ سال میں ایک موقع ملتا ہے کہ وہ ان صحراؤں سے باہر نکل آئیں لیکن 70 سال سے یہ اندھے بہرے اور گونگے عوام اس موقع کو اپنی مرضی سے ضایع کرتے آ رہے ہیں۔


ان کے طبقات میں تعلیم یافتہ، ایماندار، مخلص اور اہل لوگوں کی بہتات ہے لیکن نہ وہ کوٹھیوں کے مالک ہیں نہ چمچماتی کروڑوں روپوں کی قیمتی کاروں کے مالک ہیں، نہ ہر شہر ہر ملک میں ان کے اربوں کی مالیت کے بنگلے اور لگژری فلیٹس ہیں، ان کے پاس ملازموں کی بھیڑ ہے نہ ان کے دروازے پر مسلح گارڈز کے دستے کھڑے ہوئے ہیں، نہ ان کے ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اربوں روپے پڑے ہوئے ہیں، نہ وہ کروڑوں روپے خرچ کرکے ''کامیاب جلسے'' کر سکتے ہیں۔

وہ عوام کی طرح رہتے ہیں، عوام کی طرح روکھی سوکھی کھاتے ہیں عوام کی طرح سستا کپڑا پہنتے ہیں، اس لیے عوام کی نظروں میں ان کی ایمانداری ان کا خلوص ان کی اپنے طبقات سے محبت ان کی اہلیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی، وہ سمجھتے ہیں یہ کڑکے ہمارے لیے کیا کریں گے؟

ہمارے پڑوسی ہمارے دشمن کافر ملک میں عوام اس قدر سمجھدار ہو گئے ہیں کہ انتخابات میں نہ وہ جاگیرداروں کو ووٹ دیتے ہیں نہ سرمایہ داروں کو نہ صنعتکاروں کو نہ بے ایمانوں کو نہ سیاسی ٹھگوں کو نہ سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں کو نہ اشرافیہ کو نہ ان کے ایجنٹوں کو وہ اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ووٹ دیتے ہیں اور ان کے منتخب نمایندے جو ان کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، قانون ساز اداروں میں پہنچ کر غریب طبقات کے لیے بہتر زندگی کے مواقع تلاش کرتے ہیں، قانون ساز اداروں اور ریاستی کابیناؤں میں غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔

اس ملک کا وزیر اعظم ارب پتی ہے نہ اس کے ملک کے اندر اور بیرون ملک اربوں مالیت کے بنگلے اور لگژری فلیٹس ہیں نہ ان کے اربوں کھربوں پر مشتمل بینک اکاؤنٹس ہیں، نہ وہ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں ان کے ملک کا وزیراعظم ڈھابے پر چائے بیچتا رہا ہے، ان کا صدر ایک غریب اور نچلی ذات کا شخص ہے ان کے قانون ساز اداروں میں مزدوروں کے نمایندے ہیں، کسانوں کے نمایندے ہیں، ادیبوں کے نمایندے ہیں، شاعروں کے نمایندے ہیں، فنکاروں کے نمایندے ہیں، چھوٹے تاجروں کے نمایندے ہیں، وکیلوں کے نمایندے ہیں، ڈاکٹروں کے نمایندے ہیں، چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کے نمایندے ہیں، جنھیں احساس ہوتا ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے، انھیں احساس ہوتا ہے کہ بیروزگاری کیا ہوتی ہے، وہ جانتے ہیں کہ بیماری کیا ہوتی ہے، وہ جانتے ہیں کہ غربت کیا ہوتی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے شادی بیاہ میں انھیں کس قسم کی مجبوریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ ان عذابوں سے نکلنے اور عوام کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، ہمارے ملک میں دیہی آبادی کا 60 فیصد کسان اور ہاری رہتے ہیں، ہمارے ملک میں کروڑوں چھوٹے ملازمین رہتے ہیں، کروڑوں چھوٹے تاجر رہتے ہیں، لاکھوں وکیل رہتے ہیں، لاکھوں ڈاکٹر رہتے ہیں، لاکھوں انجینئر رہتے ہیں، لاکھوں ادیب رہتے ہیں، لاکھوں شاعر رہتے ہیں، لاکھوں فنکار رہتے ہیں، ہزاروں دانشور رہتے ہیں، ہزاروں صحافی رہتے ہیں۔ کیا ان کے کوئی نمایندے قانون ساز اداروں میں ہیں، کیا ان کے نمایندے مرکزی اور صوبائی کابیناؤں میں ہیں، کیا ان کے نمایندے بیوروکریسی میں ہیں، ان کے نمایندے سفارتکاروں میں ہیں؟

اس لیے نہیں ہیں کہ ہم یعنی عوام انتخابات میں اپنے طبقات کے نمایندوں کو کامیاب نہیں کراتے۔ ہم مزدوروں کے نمایندوں کو ووٹ نہیں دیتے، ہم کسانوں ہاریوں کے نمایندوں کو انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں نہ کامیاب کراتے ہیں، ہم صحافیوں کے نمایندوں کو نہ انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں نہ کامیاب کراتے ہیں، ہم وکیلوں کے نمایندوں کو نہ انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں نہ کامیاب کراتے ہیں، ہم نہ ڈاکٹروں کے نمایندوں کو انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں نہ کامیاب کراتے ہیں، ہم نہ ادیبوں، شاعروں کے نمایندوں کو انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں نہ کامیاب کراتے ہیں، ہم چوروں اور لٹیروں کو انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں اور کامیاب کراتے ہیں، اسی لیے ہم بھوکے ہیں، بیروزگار ہیں، غریب ہیں اور نادار ہیں اور اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا جب تک ہم چوروں، لٹیروں کو انتخابات میں کامیاب کراتے رہیں گے۔
Load Next Story