تھر بدل رہا ہے

اغلب گمان ہے کہ محض چند برسوں میں تھر کے نوجوان پورے ملک کے نوجوانوں کے برابر کھڑے ہوں گے۔

muqtidakhan@hotmail.com

چند روز پہلے کی بات ہے کہ مجھے WhatsApp پر اینگرو سندھ کے CEO شمس الدین شیخ کا پیغام ملا کہ 3فروری کو وہ ایک نمایندہ ٹیم لے کر تھر جارہے ہیں، جس میں مجھے شامل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ میں چونکہ شمس الدین شیخ سے پہلے سے واقف نہیں تھا، اس لیے ایکسپریس کے منیجنگ ایڈیٹر اعجاز الحق سے رابطہ کیا۔ جنھوں نے تصدیق کی کہ میرا نام انھی کا تجویزکردہ ہے۔ اس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی تھی، چنانچہ جانے کے لیے حامی بھرلی۔

یوں 3 فروری کی صبح ساڑھے سات بجے قومی ایئر لائن کے چارٹرڈ ہوائی جہاز میں کوئی 58 افراد کا قافلہ روانہ ہوا۔ اس سے قبل 20 افراد ایک چھوٹے جہاز میں صبح 7 بجے روانہ ہوچکے تھے۔ ہمارے ساتھ سینیٹر تاج حیدر، ایم کیوایم اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے اراکین صوبائی اسمبلی، سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے ڈاکٹر دودو مہری، صنعتکار، بینکار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ شعبہ صحافت سے متعلق ہم چار لوگ (عافیہ سلام، وسعت اﷲ خان، قاضی جاوید اور راقم) شریک سفر تھے۔ پون گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ہم لوگ اسلام کوٹ کے زیر تعمیر ہوائی اڈے پر اترے۔ جہاں سے گاڑیوں میں اینگرو کے دفتر لے جایا گیا۔

پہلے منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی گئی، اس کے بعد سائٹس کے معائنے کے لیے لے جایا گیا۔ سب سے پہلے کوئلے کی تلاش کا مقام دکھایا گیا۔ یہاں بتایا گیا کہ بھاری ٹرالر چلانے کے لیے خواتین کو تربیت دی جارہی ہے۔ کچھ خواتین ڈرائیونگ میں ماہر بھی ہوچکی ہیں۔ ان کے ساتھ گھر کے ایک مرد (شوہر یا بھائی) کو بھی ملازمت دی گئی ہے۔ اس کے بعد ماڈل اسکول دکھایا گیا، جہاں بچوں نے ٹیبلو اور گیت پیش کیے۔ یہ بتایا گیا کہ اسکول میں بچوں کو یونیفارم اور کتابیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ وہاں سے پاور جنریٹر سائٹس کی جانب لے جایا گیا، جس کا 70 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے، صرف 30 فیصد کام باقی ہے۔

اس کے بعد نوتعمیر اسپتال اور پارک لے کرگئے۔ اسپتال کے بارے میں بتایا کہ اس کا تعلق کراچی کے Indus اسپتال سے ہے۔ اگر مرض پیچیدہ ہو تو مریض کو کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔ اسپتال میں مریضوں کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹر کے ذریعے Indus کراچی میں بھی محفوظ کیا جاتا ہے، تاکہ ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جاسکے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ماڈل ولیج دکھایا گیا اور صحرا میں تعمیر کیے گئے پارک کا دورہ کرایا گیا۔ چونکہ ائیر پورٹ زیر تعمیر ہے، اس لیے اس پر مناسب روشنی کا بندوبست ابھی نہیں ہوسکا ہے، جس کی وجہ سے ہم پانچ بجے کراچی واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔

اب جو دیکھا، جو لوگوں سے سن رہے ہیں اور جو کچھ سوشل میڈیا پر تبصرے ہورہے ہیں، ان کی روشنی میں گفتگو کی جانی چاہیے۔ مختلف دوستوں نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔ اب کون درست ہے اور کون غلط، اس کا فیصلہ تو پاور جنریشن کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ دوست مکالمے کو فروغ دے رہے ہیں، جو معاشرے میں دلیل کی بنیاد پر بات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ مختلف آرا کی روشنی میں منصوبہ سازوں کے لیے احسن فیصلے تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔

یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کوئلے سے پاور جنریشن ساہیوال میں کیوں غلط اور تھر میں کیوں درست ہے۔ اس موضوع پر بھی کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق کوئلے سے بجلی سب سے زیادہ چین پیدا کرتا ہے۔ دوسرا نمبر امریکا کا ہے۔ ہمیں کسی ایک جانب جھک جانے کے بجائے اس منصوبے کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک تھر کا تعلق ہے، تو ہم نے قحط زدہ تھر کئی بار دیکھا ہے۔ 2002ء میں تھر دیپ کی جانب سے کرائے گئے دورے کے دوران جابجا مرے ہوئے مویشی، ہرن اور مور دیکھے تھے۔ 2015ء اور 16ء میں قحط سالی کے نتیجے میں معصوم بچوں کی اموات دیکھیں۔ باہنھ بیلی کی جانب سے لگائے گئے پانی کے منصوبے بھی دیکھ چکے ہیں۔ مگر مقامی آبادی کو متحرک اور فعال کرکے معاشی بااختیاریت دینے کا عمل پہلی بار دیکھا ہے۔ ہم ہمیشہ سے اس بات پر متفق رہے ہیں کہ ترقی باہر سے درآمد کردہ نہیں ہوتی، بلکہ کمیونٹیز کی اپنے شعور، آگہی اور بصیرت کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔


ہمارے لیے تھرواسیوں کی ترقی، خوشحالی اور پرسکون زندگی مقدم ہونی چاہیے۔ یہ ذاتی انا، سیاسی اختلافات کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک علاقے کے عوام کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ اس لیے کج بحثی میں الجھنے کے بجائے سندھ حکومت، اینگرو، پاور سیکٹر کے ماہرین، تھر واسیوں کے منتخب نمایندوں اور سول سوسائٹی کے درمیان بامقصد مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے، تو ٹھوس اور پائیدار تجاویز سامنے آسکتی ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تھر کے لوگ اگر علم و آگہی سے لیس ہوں گے، معاشی طور پر خوشحال اور مستحکم ہوں گے، تو پھر قومی اور صوبائی فیصلہ سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ان تک سہولیات پہنچانا ریاست کا کام ہے۔ ریاست انھیں تعلیم دے، روزگار کے ذرایع مہیا کرے اور صحت کی سہولیات فراہم کرے تو یہ علاقہ خود اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش کرسکے گا۔

یہ حقیقت بھی دوستوں کے علم میں ہوگی کہ اس صحرا میں ڈیپلونامی ایک قصبہ ایسا بھی ہے، جہاں قیام پاکستان سے آج تک تعلیم کی شرح ہمیشہ بلند رہی ہے۔ اس دور دراز قصبے نے نامی گرامی شخصیات، اہل علم و دانش اور نامور صحافیوں کو جنم دیا ہے۔

مجھے اینگرو کے جس پروگرام نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ صنفی امتیاز کا خاتمہ ہے۔ اس کے بعد کارکنوں کے لیے ماحولیاتی مطابقت رکھنے والی رہائش اور بچوں کے لیے مناسب تعلیم کا بندوبست ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو بھاری ٹرالر چلاتے دیکھا۔ پھر جن خواتین کو ملازمت دی گئی، ان کے گھر کے ایک فرد کو بھی ملازمت دے کر خاندان کی مالی بااختیاریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر یہ سلسلہ نیک نیتی سے جاری رہا، تو اغلب گمان ہے کہ محض چند برسوں میں تھر کے نوجوان پورے ملک کے نوجوانوں کے برابر کھڑے ہوں گے بلکہ آگے نکلنے کی جستجو میں ہوں گے۔ بہت سے منصوبے ایسے ہوتے ہیں، جنھیں نہ تو حکومتیں احسن طور پر پایۂ تکمیل تک پہنچا پاتی ہیں اور نہ ہی نجی شعبہ سرانجام دے پاتا ہے، بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہی میں تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔

اس منصوبے سے نصیر میمن کی وابستگی میرے لیے طمانیت کا باعث ہے۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ نصیر کسی ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بن سکتے، جو سندھ یا تھر دشمنی پر مبنی ہو۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ کسی منصوبے کے مثبت اور منفی اثرات کا ٹھوس تکنیکی بنیادوں پر جائزہ لیے بغیر فیصلہ صادر کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ جب ہم کسی منصوبے کے بارے میں حتمی فیصلہ صادر کردیتے ہیں، تو پھر رائے عامہ میں منفی خیالات کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ محض تنقید ہی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ عوام کی فلاح اور ان کی معاشی بااختیاریت کے لیے متبادل تجاویز بھی سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

عرض ہے کہ تھرکول منصوبے کا ہر پہلو سے ماہرانہ سطح پر جائزہ ضرور لیا جائے، بلکہ یہ مباحثہ تسلسل کے ساتھ جاری بھی رہنا چاہیے۔ مگر ساتھ ہی صنفی امتیازات کے خاتمے، خواتین کی معاشی بااختیاریت، نئی نسل کی تعلیم اور علاقہ مکینوں کے لیے صحت کی جن سہولیات کا اینگرو بندوبست کررہی ہے، ان کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یا پھر متبادل منصوبے سامنے لائے جائیں۔ تھر واسیوں کو اپنی معاشی اور سماجی صورتحال کو بہتر بنانے کا جو موقع ملا ہے، اسے محض سیاسی اور فکری اختلافات کی بھینٹ چڑھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
Load Next Story