راجا پرویز کو توہین عدالت کا نوٹس خط لکھ کر ریاست کی بے عزتی کی گئی چیف جسٹس

سابق وزیراعظم کومعلوم تھاکہ ان کی حدتک فیصلہ حتمی ہے،خط لکھ کراثراندازہونے اورعدالتی امور میں مداخلت کی کوشش کی

کیا بڑوں اور چھوٹوں کیلیے الگ قانون بنائیں، رعایت سے غلط روایت قائم ہوگی ،آئندہ صدراور وزیراعظم دس ،دس خط لکھیں گے،چیف جسٹس ،راجا پرویزاشرف کو پیش ہونے کا حکم فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے پرویز اشرف کے وکیل کی وضاحت اور خط واپس لینے کی درخواست مستردکرکے سابق وزیر اعظم کو عدالت پر اثر انداز ہونے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزام میںتوہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے راجا پرویز اشرف سے دو ہفتے کے اندر وضاحت طلب کی ہے کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے رینٹل پاور پروجیکٹس کی انکوائری رپورٹوں میں پرویز اشرف کو ملوث قراردیا جس پر عدالت نے ان کی گرفتاری اورکارروائی کاحکم دیا، تمام آئینی اورقانونی راستے اختیارکرنے کے بعداپنے منصب کا فائدہ اٹھاکرچیف جسٹس کوخط لکھاگیا جبکہ انھیں معلوم تھا کہ مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور ان کی حد تک فیصلے کو حتمی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔

خط لکھ کرعدالت پر اثرانداز ہونے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی۔عدالت نے کہا اگر سابق وزیر اعظم کے ساتھ رعایت کی گئی تو ایک غلط روایت قائم ہوجائے گی اور آئندہ ،صدر اور وزیر اعظم چیف جسٹس کو دس دس خط لکھیں گے۔ گزشتہ روزسماعت شروع ہوئی تو راجا پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد نے عدالت کو بتایا خط لکھنے کی وجوہ متن میں درج ہیں۔ وسیم سجاد نے کہا انکوائری کی منتقلی کی صرف درخواست کی گئی،عدالت بے شک درخواست مستردکردے۔ چیف جسٹس نے کہا اگر یہ روایت بن گئی تو آئندہ روزانہ سیکڑوں شہری انصاف کیلیے چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔


چیف جسٹس نے فاضل وکیل کوکہا نظرثانی درخواست خود خارج کروائی، اگر پرویز اشرف کی بات مان لیں گے تو دنیا کہے گی عدالت وزیر اعظم کے زیر اثر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا اب بڑوں کیلیے الگ اور چھوٹوں کیلیے الگ قانون بنائے؟ کیونکہ خط میں کہا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہے اور ان کی عزت پر فرق آیا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی خود آکر بحث کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ہم نے خط کارپٹ کے اندرنہیں چھپایا بلکہ معاملہ کھلی عدالت میں لائے۔



آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا خط وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے سرکاری طور پر بھیجا گیا' یہ عدالت ہے پوسٹ آفس نہیںکہ اسے خطوط لکھے جائیں'ہم کسی سے متاثر نہیں ہوتے، پرویز اشرف کا یہ پہلا خط نہیں ہے، قواعدکیخلاف کوئی درخواست لکھنا عدالتی کام میں مداخلت ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت نے مختصر حکم میں قرار دیا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے ، نیب کی دو رپورٹیں بھی آچکی ہیں، جن میں سے ایک میں راجہ پرویز اشرف کو ملزموں میں شامل کیا گیا۔ پرویز اشرف کا بطور وزیر اعظم سپریم کورٹ کو خط لکھنا ریاست کی بے عزتی کے مترادف ہے۔

انھوں نے عدلیہ پر اثر انداز ہو کر ریلیف لینے کی کوشش کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ہے پوسٹ آفس نہیںکہ اسے خطوط لکھے جائیں'عدالت نوٹس دے گی اور جواب بھی مانگے گی، امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، وزیر اعظم قانون سے بالاتر نہیں ہوتا کہ چیف جسٹس کو خط لکھے۔ ایک اور نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرویزاشرف ججز پر اثر انداز ہونے کی کیوں کوشش کر رہے ہیں، عدالت رینٹل پاور کیس میں فیصلہ دے چکی جس پر ہر حال میں عمل ہونا ہے ، سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم سمیت تمام ملزموں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتے تک ملتوی کردی۔
Load Next Story