آہ صدیق بلوچ
اپنی جوانی کے دور میں انھوں نے طالب علموں کے حقوق کے لیے علم بلند کیا
DG KHAN/RAJANPUR/لاہور:
آسمانِ صحافت کا ایک درخشاں ستارہ غروب ہوگیا۔ محمد صدیق بلوچ منگل6 فروری کی صبح ملکِ عدم سدھارگئے۔ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون!)
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
مرنجان مرنج، ملنسار، یاروں کے یار محمد صدیق بلوچ 1940کراچی کے مشہور علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی سے گریجویشن کیا اور اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے میدان صحافت کا انتخاب کیا اور 1968 میں انگریزی زبان کے انتہائی موقر روزنامے سے اپنے سفر صحافت کا آغاز کیا۔ وہ عرصۂ دراز تک اسی روزنامے سے بحیثیت اسٹاف رپورٹر، کرائم رپورٹر وابستہ رہے۔ اس کے بعد انھوں نے اس اخبار سے استعفیٰ دے دیا اور اس وقت کے گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ بحیثیت پریس سیکریٹری وابستہ ہوگئے۔
آٹھ ماہ بعد جب بلوچستان کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تو انھیں بھی پارٹی لیڈروں کے ساتھ ساتھ جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ 1977 میں جب انھیں نیپ (NAP) کے لیڈروں کے ساتھ رہائی ملی تو انھوں نے اپنے سابقہ انگریزی اخبار میں سینئر رپورٹر کی حیثیت سے دوبارہ شمولیت اختیار کرلی۔ وہ اس حیثیت سے 1989 تک صحافتی خدمات انجام دیتے رہے جس کے بعد انھوں نے ''سندھ ایکسپریس'' کے نام سے اپنا ذاتی اخبار نکالنا شروع کردیا، لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ کاروباری مشکلات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا اور دو سال بعد یہ اخبار بند ہوگیا۔ اس کے بعد صدیق بلوچ کراچی سے کوئٹہ منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے 1992 میں اپنا انگریزی اخبار ''بلوچستان ایکسپریس'' نکالنا شروع کیا اور اس کے بعد 2000 میں اردو اخبار ''آزادی'' کی اشاعت بھی شروع کردی۔
صدیق بلوچ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انھیں بلوچی اور سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں پر بھی یکساں عبور حاصل تھا۔ وہ ان چاروں زبانوں میں یکساں روانی کے ساتھ لکھ اور بول سکتے تھے۔ بلوچستان کے حالات سے انھیں غیر معمولی آگاہی حاصل تھی اور عوام کے علاوہ صوبے کے مقتدر حلقوں میں بھی انھیں نہایت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بلوچستان کی معاشی حالت اور قدرتی وسائل کے بارے میں ان کی تحریر کردہ کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ایک تیسری کتاب بھی تحریر کررہے تھے مگر افسوس کہ زندگی نے انھیں اس کی تکمیل کی مہلت نہ دی۔ صدیق بلوچ ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے اور وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے فن میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایک فلاحی معاشرے کا قیام ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جس کے لیے وہ تادمِ آخر جد وجہد کرتے رہے۔
اپنی جوانی کے دور میں انھوں نے طالب علموں کے حقوق کے لیے علم بلند کیا اور ایس ایم کالج طلبہ یونین کے صدر منتخب کیے گئے۔ اپنے صحافتی کیریئر کے دوران وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی مجلس عاملہ کے ممبر اور کراچی پریس کلب کے نائب صدر بھی منتخب ہوتے رہے۔ ان کا صحافتی سفر پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
بدھ 7 فروری کو جب صبح سویرے ان کی رحلت کی خبر پڑھی تو دل کو بڑا زبردست دھچکا لگا اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے سنہری لمحات ایک فلم کی طرح آنکھوں کے آگے سے گزرگئے۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ ان کے ساتھ ہماری پہلی اور آخری ملاقات پی آئی ڈی کوئٹہ میں ہوئی تھی جب ہم ریڈیو پاکستان، کوئٹہ کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، تب ہماری محفلیں پی آئی ڈی میں خوب جماکرتی تھی اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا ۔ پی آئی ڈی کے سربراہ شجاع زیدی جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ان محفلوں کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ بلوچ صاحب کا ریڈیو پاکستان، کوئٹہ آنے کا بھی بہت اتفاق ہوتا تھا جہاں ہمارے شریک محفل امداد نظامی اور شجاع زیدی ہوا کرتے تھے۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے The Past is Another Country بقول شاعر:
گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا!
صدیق بلوچ اور ہمارے درمیان مرحوم شجاع زیدی کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ ہیں نادر شاہ عادل جنھیں ہم سب پیار سے شاہ جی کہتے ہیں۔ آج 7 فروری کو یہ کالم سپرد قلم کرنے سے پہلے شاہ جی اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ اظہار تعزیت کر رہے تھے اور بلوچ صاحب کی یادیں ایک دوسرے کے ساتھ تازہ کررہے تھے۔ شاہ جی کا کہناتھا کہ میں بلوچ صاحب کو صحافت میں اپنے استاد کا درجہ دیتا ہوں اور انھیں اپنا Mentor تسلیم کرتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا ہوں۔ صدیق بلوچ کے حوالے سے شاہ جی نے ایک اور مرحوم شخصیت کا بھی تذکرہ فرمایا جنھیں بلوچ صاحب کی شاید سب سے زیادہ قرب حاصل رہا۔ یہ تھے غلام علی کاکا جن کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے کبھی کسی اسکول یا مکتب کا منہ نہ دیکھا تھا مگر میدان صحافت میں اپنا لوہا منوالیا۔ موصوف صدیق بلوچ کے شاگرد بھی تھے اور جگری دوست بھی۔
آسمانِ صحافت کا ایک درخشاں ستارہ غروب ہوگیا۔ محمد صدیق بلوچ منگل6 فروری کی صبح ملکِ عدم سدھارگئے۔ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون!)
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
مرنجان مرنج، ملنسار، یاروں کے یار محمد صدیق بلوچ 1940کراچی کے مشہور علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی سے گریجویشن کیا اور اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے میدان صحافت کا انتخاب کیا اور 1968 میں انگریزی زبان کے انتہائی موقر روزنامے سے اپنے سفر صحافت کا آغاز کیا۔ وہ عرصۂ دراز تک اسی روزنامے سے بحیثیت اسٹاف رپورٹر، کرائم رپورٹر وابستہ رہے۔ اس کے بعد انھوں نے اس اخبار سے استعفیٰ دے دیا اور اس وقت کے گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ بحیثیت پریس سیکریٹری وابستہ ہوگئے۔
آٹھ ماہ بعد جب بلوچستان کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تو انھیں بھی پارٹی لیڈروں کے ساتھ ساتھ جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ 1977 میں جب انھیں نیپ (NAP) کے لیڈروں کے ساتھ رہائی ملی تو انھوں نے اپنے سابقہ انگریزی اخبار میں سینئر رپورٹر کی حیثیت سے دوبارہ شمولیت اختیار کرلی۔ وہ اس حیثیت سے 1989 تک صحافتی خدمات انجام دیتے رہے جس کے بعد انھوں نے ''سندھ ایکسپریس'' کے نام سے اپنا ذاتی اخبار نکالنا شروع کردیا، لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ کاروباری مشکلات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا اور دو سال بعد یہ اخبار بند ہوگیا۔ اس کے بعد صدیق بلوچ کراچی سے کوئٹہ منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے 1992 میں اپنا انگریزی اخبار ''بلوچستان ایکسپریس'' نکالنا شروع کیا اور اس کے بعد 2000 میں اردو اخبار ''آزادی'' کی اشاعت بھی شروع کردی۔
صدیق بلوچ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انھیں بلوچی اور سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں پر بھی یکساں عبور حاصل تھا۔ وہ ان چاروں زبانوں میں یکساں روانی کے ساتھ لکھ اور بول سکتے تھے۔ بلوچستان کے حالات سے انھیں غیر معمولی آگاہی حاصل تھی اور عوام کے علاوہ صوبے کے مقتدر حلقوں میں بھی انھیں نہایت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بلوچستان کی معاشی حالت اور قدرتی وسائل کے بارے میں ان کی تحریر کردہ کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ایک تیسری کتاب بھی تحریر کررہے تھے مگر افسوس کہ زندگی نے انھیں اس کی تکمیل کی مہلت نہ دی۔ صدیق بلوچ ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے اور وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے فن میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایک فلاحی معاشرے کا قیام ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جس کے لیے وہ تادمِ آخر جد وجہد کرتے رہے۔
اپنی جوانی کے دور میں انھوں نے طالب علموں کے حقوق کے لیے علم بلند کیا اور ایس ایم کالج طلبہ یونین کے صدر منتخب کیے گئے۔ اپنے صحافتی کیریئر کے دوران وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی مجلس عاملہ کے ممبر اور کراچی پریس کلب کے نائب صدر بھی منتخب ہوتے رہے۔ ان کا صحافتی سفر پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
بدھ 7 فروری کو جب صبح سویرے ان کی رحلت کی خبر پڑھی تو دل کو بڑا زبردست دھچکا لگا اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے سنہری لمحات ایک فلم کی طرح آنکھوں کے آگے سے گزرگئے۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ ان کے ساتھ ہماری پہلی اور آخری ملاقات پی آئی ڈی کوئٹہ میں ہوئی تھی جب ہم ریڈیو پاکستان، کوئٹہ کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، تب ہماری محفلیں پی آئی ڈی میں خوب جماکرتی تھی اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا ۔ پی آئی ڈی کے سربراہ شجاع زیدی جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ان محفلوں کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ بلوچ صاحب کا ریڈیو پاکستان، کوئٹہ آنے کا بھی بہت اتفاق ہوتا تھا جہاں ہمارے شریک محفل امداد نظامی اور شجاع زیدی ہوا کرتے تھے۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے The Past is Another Country بقول شاعر:
گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا!
صدیق بلوچ اور ہمارے درمیان مرحوم شجاع زیدی کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ ہیں نادر شاہ عادل جنھیں ہم سب پیار سے شاہ جی کہتے ہیں۔ آج 7 فروری کو یہ کالم سپرد قلم کرنے سے پہلے شاہ جی اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ اظہار تعزیت کر رہے تھے اور بلوچ صاحب کی یادیں ایک دوسرے کے ساتھ تازہ کررہے تھے۔ شاہ جی کا کہناتھا کہ میں بلوچ صاحب کو صحافت میں اپنے استاد کا درجہ دیتا ہوں اور انھیں اپنا Mentor تسلیم کرتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا ہوں۔ صدیق بلوچ کے حوالے سے شاہ جی نے ایک اور مرحوم شخصیت کا بھی تذکرہ فرمایا جنھیں بلوچ صاحب کی شاید سب سے زیادہ قرب حاصل رہا۔ یہ تھے غلام علی کاکا جن کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے کبھی کسی اسکول یا مکتب کا منہ نہ دیکھا تھا مگر میدان صحافت میں اپنا لوہا منوالیا۔ موصوف صدیق بلوچ کے شاگرد بھی تھے اور جگری دوست بھی۔