بسنت کی یاد میں

نوجوانوں کو ہم نے اپنی ثقافت سے دور کردیا اور انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے حوالے کر دیا

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور میں سردی تو آئی نہیں اور اس طرح سردیوں کا موسم بغیر سردی کے ہی گزر گیا البتہ اس پورے سیزن میں چند دن قابل برداشت حد تک ٹھنڈ کا راج رہا جس میں معمول کے گرم کپڑوں سے ہی گزارا ہو گیا ورنہ کہاں لاہور کی سردی اور اس میں ٹھٹھرنے والے لاہوری باشندے جو سردیوں کی ٹھنڈ کا مزہ بھی حلوؤں اور رنگ برنگے گرم مشروبات سے لطف اندوز ہو کر لیتے مگر اس بار تو موسم نے حیران ہی کر دیا اور ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ کسی نے سردی کی شکایت کی ہو۔

کہاں سردیوں کی اُداس اور ٹھنڈی شامیں جس کا ذکر ہمارے شعراء نے بڑی حسرت کے ساتھ لطف لیتے ہوئے بھی کیاجن میںگرم ملبوسات اور گیس کے ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر خشک میوہ جات سے اندر کی سردی کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، اس بار سردیوں کی یاد میں خشک میوہ جات سے تو انصاف کیا گیا لیکن خود سردی نے اپنی جھلک دکھانے کی زحمت نہیں کی اور لاہور میں ایک طویل عرصے کے بعد سردیوں کا موسم بغیر سردی کے ہی گزر گیا اور ہم نیم لاہوری بھی جو لاہور کی سردیوں کے عادی ہو چکے ہیں ان سردیوں کی یاد میں اداس رہے ۔

سردیوں کی زیادہ یاد اس لیے بھی آرہی ہے کہ اخبارات کے کونوں کھدروں میں ڈری سہمی ہوئی خبریں لاہور کے روائتی بسنت کے تہوار کے متعلق چھپ رہی ہیں۔ لاہوریئے اس تہوار کو بہار کی آمد سے موسوم کرتے ہیں اور ہر سال یہ بسنت کے نعروں کو بلند کر کے منائی جاتی تھی لیکن برا ہو ہمارے اپنے ہی ساتھیوں کا جنہوں نے اس موسمی تہوار کو بھی کاروباری مقاصد کے لیے خون ریزی میں بدل دیا اور وہ وقت آگیا جب حکومت مجبور ہو گئی کہ لاہور کے اس سب سے بڑے ثقافتی تہوار کو بند کر دے اور اب پچھلے کئی سال سے یہ بہار کا موسم خاموشی سے آتا اور گزر جاتا ہے اور بہار کی آمد کاجو ڈھول ڈھمکے والا اعلان بسنت کی صورت میں ہوتا تھا وہ اب کہیں گم ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود فروری کے آغاز میں بسنتئے اس آس پر واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ شائد ان کی سنی جائے اور حکومت بسنت تہوارکی اجازت دے دے مگر حکومت بھی اپنے اس موقف پر سختی سے اور بجا طور پر قائم ہے، یہ ایک دن کا تہوار کئی انسانی جانیں نگل جاتا ہے ،کچھ لوگ چھتوں سے گر کر اور کچھ کیمیکل کی ڈور سے گلے کٹوا کر اگلے جہان پہنچ جاتے ہیں اور اپنے خون سے پیلے بسنتی رنگ کو سرخ رنگ میں تبدیل کر جاتے ہیں ۔

یہی سرخ رنگ بسنت جیسے بین لاقوامی تہوار پر پابندی کا باعث بنا اور اب کئی سالوں سے بسنت منانے والوں اور لاہور میں گڈی ڈور کا کاروبار کرنے والوں کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی حکومت اس بات پر آمادہ نہیں ہے کہ بسنت منانے کا دوبارہ سے اعلان کر سکے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہیں گے اور خونی ڈور تیار کر کے اسے پتنگ بازوں کو فروخت کریں گے۔


بسنت لاہور کا سالانہ ثقافتی تہوار تھا جس میں دنیا بھر سے لوگ شریک ہوتے اور لاہور چند دنوں کے لیے بسنتی رنگوں میں رنگ جاتا ۔لڑکیاں بالیاںبسنتی چولے سلواتیں اور جوان لڑکے ان کی بسنتی اداؤں پر فریقہ ہونے کو ہر دم تیار رہتے۔ بسنت کے تہوار کو سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں ایک نئی جہت و مقبولیت ملی اور سرکاری سطح پر بھی بسنت منانے کا آغاز ہوا ۔ اندرون لاہور کی پرانی خوبصورت عمارتوں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجا کر رات بھر لاہوری کھانے اوربو کاٹا کی آوازیں پورے لاہور میں گونجتی رہتیں ۔کچھ چھتوں پر گانوں اور رقص و سرور کی محفلیں بھی برپا کی جاتیں مگر ایسی محفلوں میں شامل ہونے والوں میں پتنگ باز بھی ہوتے تھے جو گڈیاں اُڑانے میں مصروف رہتے اور بوقت ضرورت اونچی چھتوں سے ڈولتے مہمانوں کو باحفاظت نیچے گلی تک پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دیتے۔

بسنت کے تہوار کو منائے ہوئے ایک طویل مدت گزر گئی اور اور اب اس کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں میں نے گھر میں دسویں جماعت کے طالبعلم اپنے پوتے کو بلا کر پوچھا کہ کیا تمہیں یاد ہے کہ لاہور میں بسنت منائی جاتی تھی تو اس کا بے ساختہ جواب تھا کہ بسنت کا نام تو سنا ہوا ہے اور ساتھ ہی سوال کر دیا کہ یہ بسنت کیاہوتی تھی اور میں اب اس کے سوال کا جواب اس کالم کی صورت میں دے رہا ہوں، ہماری جوان ہوتی نسل سے ہم نے کئی تہوار اور خوشیاں چھین لیں ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے جس نے ملک کے حسن کو گہنا دیا ہے کئی تہوار اور میلے ٹھیلے اس لیے بند کر دیے گئے کہ ہم ان میں شامل ہونے والوں کی حفاظت نہیں کر سکتے ہیں۔

نوجوانوں کو ہم نے اپنی ثقافت سے دور کردیا اور انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے حوالے کر دیا جس میںگم ہو کر وہ اپنے گردو پیش کو بھول جاتے ہیں اور یہ نئی دنیا کی خرافات ان کی ذہنی بالیدگی میں خلفشار کا باعث بن رہی ہیں ۔ ہم نے اپنی بدانتظامی کو چھپانے کے لیے سیکیورٹی اور دوسری وجوہات کا بھی سہارا لیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب انتظامیہ کمزور پڑتی ہے تو ظاہر ہے کہ بد انتظامی کو فروغ ملتا ہے اورپتنگ بازی ایک معمول کی تفریح ہے جو مدتوں سے چلی آرہی ہے لیکن جب لوگوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو تفریح کے موڈ میں تفریح باز حد سے گزر جاتے ہیں، یہی کچھ بسنت کے ساتھ ہوا ہے اور یہ تفریح ایک ذریعہ قتل اور وہ بھی نہایت ہی بے رحمانہ شکل اختیار کر گئی ہے اور معاملہ عدالت تک بھی پہنچ گیا ۔

حکومت اس تمام عمل کو دیکھتی رہی اور ڈھیل دیتی رہی وہ تو بعد میں یہ عقد کھلا کہ بڑے لوگ لاہور میں بسنتی رنگ میں رنگنے اور لطف اندوز ہونے کو تیار ہوتے ا س لیے کوئی خاص سختی نہیں کی گئی جس کا نقصان یہ ہو اکہ بسنت بازی کی ڈور ڈھیلی چھوڑ دی گئی اور جب بسنتی رنگ سرخ ہونے لگا تو یہ اعلانات ہو گئے کہ سب کچھ بند نہ کوئی پتنگ اُڑائے گا نہ کوئی بسنت دیکھنے آئے گا جس نے لاہوریوںکو اداس کر رکھا ہے وہ بہار کا استقبال بسنت کے روائتی انداز سے تو نہیں کر سکتے لیکن بسنت کی یاد میں اکھٹے ہو کر دو چار آنسو ضرور بہا لیتے ہیں اور اس بات کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ پنجاب کے سخت گیر وزیر اعلیٰ بھی خطرناک ڈور لگانے والوں کے ہاتھوں بے بس ہو گئے ورنہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ لاہور یئے بسنت نہ منا سکتے لیکن انسانی جانوں کی قیمت پر ہر گز نہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ میاں شہباز بھی بسنت کو یاد ضرور کرتے ہوں گے۔
Load Next Story