قاضی واجد ’ خدا کی بستی ‘ سے رخصت
ریڈیو، ٹی وی، تھیٹراورفلم میں لازوال کردار نبھانے والے عمدہ فنکاراورشاندارانسان تھے، فنکاروں کا خراج عقیدت
پاکستان شوبزانڈسٹری کی پہچان کہلانے والے عظیم اداکارقاضی واجد 87 برس کی عمرمیں انتقال کرگئے، انہیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
چند روزقبل ان کی اچانک طبیعت بگڑی ، جس کے بعد انہیں ہسپتال لیجایا گیا اوروہ مختصرعلالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مرحوم کی وفات کی خبرجونہی الیکٹرانک اورسوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی توجنگل کی آگ کی طرح دنیا بھرمیں پھیل گئی۔
کسی نے مرحوم کے یادگار کرداروں پربات کی توکسی نے اپنے ساتھ تصاویرلگائیں۔ بس یوں کہئے کہ قاضی واجد کے چاہنے والوں کی آنکھیں اشکبارہونے کی گواہی ان کی ٹوٹی پھوٹی تحریروں کی شکل میں سامنے آرہی تھیں۔ کوئی ان کی اداکاری کی تعریف کررہا تھا توکوئی ان کی ملنساری کی۔
یہ سب دیکھ کریہی خیال آرہا تھا کہ ''جیسے شوبزانڈسٹری کاکوئی انمول رتن ہم سے دورہوگیا ہو''۔ مگرموت توبرحق ہے اوراس کا وقت مقرر ہے، جس کے مطابق ہرکسی کواس دنیا سے جانا ہی ہے، لیکن جس انداز سے قاضی واجد نے بھرپور زندگی گزاری اوراپنی زندگی کے کئی برس فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے گزارے ، اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ وہ اپنی عمر کے آخری حصے تک بھی بڑے پرامید دکھائی دیتے تھے۔ جہاں وہ اپنے پرانے ساتھی فنکاروں کے ساتھ دلچسپ گفتگومیں مشغول رہتے، وہیں نوجوان فنکاروںکی رہنمائی بھی ان کا خاصا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پرشوبزانڈسٹری سوگ میں ہے۔
مرحوم قاضی واجد نے اپنے فنی سفرکا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ ان کا شمار ریڈیو انڈسٹری کے بانیوں میں ہوتا تھا ، جبکہ فنون لطیفہ کے دیگرشعبوں میں گراں قدرخدمات کے اعتراف میں انہیں 1988ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔
انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا، تاہم ٹی وی ان کی پہچان بنا، ملک میں ٹیلی وژن کی آمد کے بعد '' خدا کی بستی'' میں راجا کا یادگارکردار ادا کیا، جبکہ ان کے مشہورڈراموں میں '' کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، تعلیم بالغاں، دھوپ کنارے، تنہائیاں اوربہت سے دیگر شامل ہیں۔
سینئر اداکار قاضی واجد نے لاتعداد ڈراموں کے علاوہ چند فلموں میں بھی اداکاری کے جوہردکھائے۔ قاضی واجد کواردو ادب سے بھی بے حد لگاؤتھا اور وہ اکثرادبی محفلوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ جہاں تک ان کی فنی زندگی کا تعلق ہے توانہوں نے ریڈیو سے شروع ہونے والے سفرکے بعد جب ٹی وی کے شعبے میں قدم رکھا توان کا شمار جلد ہی منجھے ہوئے فنکاروں میں ہونے لگا۔ انہوں نے سنجیدہ، مزاحیہ اورمنفی کرداروںکواپنی عمدہ اداکاری سے امر کیا۔ ان کی فنی صلاحیتوںکا اثران کی صاحبزادی فضیلہ قاضی میں بھی خوب دکھائی دیا۔
قاضی واجد کے انتقال پر''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے سینئراداکارقوی خان نے کہا ''قاضی واجد کے ساتھ میں نے بہت طویل عرصے تک کام کیا، جب ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا تو ہم دونوں لاہور تھیٹر پر ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ جب بھی کراچی سے لاہور آتے، میرے ساتھ ہی رہتے تھے۔ بعدازاں ہم نے کئی ٹیلی ویڑن ڈراموں میں کام کیا، چنانچہ نام کے پہلے حرف کی وجہ سے ہماری جوڑی بہت مقبول ہوئی اور 'کیوز' کی جوڑی کہلانے لگی۔ قاضی واجد جیسے دوست اب کہاں ملیں گے۔ ان کی موت نے مجھے ذاتی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ بہترین انسان اوردوست تھے۔ ان کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ہم نے اپنا فنی سفرجن حالات میں شروع کیا اورآج ہم جس مقام پرہیں، یہ ایک لمباسفر ہے، جس میں اب میں خود کو تنہا محسوس کررہا ہوں۔''
معروف رائٹر، شاعرومیزبان انورمقصود نے کہا کہ قاضی واجد کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا تھا۔ بہت ہی نفیس انسان اوربہترین فنکارتھے۔ ان کے ساتھ اکثرنشست رہتی اورمزاح پر ان کی کمانڈ مجھے بہت پسند تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم ریاض میں ایک مشاعرہ کیلئے ساتھ گئے۔ جہاں پرہمارے ساتھ قاضی واجد کے علاوہ بہروز سبزواری، ایازخان، یاسر، حنا دل پذیراوردیگرشامل تھے۔ یہ سفرہمارا آخری سفرہوگا، اس بارے میں کبھی سوچا نہ تھا۔ ہم نے اس سفرکے دوران جہاں بہت انجوائے کیا، وہیں دوران سفراوروہاں قیام کے وقت بھی ہم نے بہت سے یادگارلمحات بیتائے۔ جہاں قاضی واجد اپنے مزاحیہ فقروں اورواقعات سے سب کا دل جیت رہے تھے، ان کی وفات سے میں اپنے دیرینہ دوست سے محروم ہوگیا۔ وہ واقعی لاجواب انسان تھے، جس کومیں اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔
اداکارہ بشریٰ انصاری اورثانیہ سعید نے کہا ہے کہ قاضی واجد ایک زندہ دل انسان تھے۔ وہ جتنے بڑے فنکارتھے ، اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔ انہوں نے ان گنت ڈراموں میں ایسے عمدہ کردار نبھائے، جن کولوگ کبھی نہیں بھلاپائیں گے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسے فنکارصدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور ان کا نعم البدل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے پچاس برس سے زائد عرصہ اس شعبے کودیا اوربھرپورکام کیا۔ ریڈیو، ٹی وی، فلم اورتھیٹرپرجس طرح سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھائے ، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ قاضی واجد کا انتقال واقعی شوبز انڈسٹری کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کی وفات کے بعد پیدا ہونے والا خلاء شاید صدیوں تک بھی پُر نہ ہوپائے۔
اداکار بہروزسبزواری اورسہیل اصغرنے کہا کہ قاضی واجد کی پربہار شخصیت کے سحر کا جادو پچھلے کئی برس سے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ خداکی بستی کے ''راجا'' نے 50 برس تک فن کی دنیا پر راج کیا۔ وہ تو دْنیا میں شاید فن کی آب یاری کے لیے آئے تھے۔ کم عمری سے ہی شو بز کی چمکتی دمکتی دنیا سے منسلک رہنے کے باوجود ساری زندگی بے داغ گزاری۔
ہماری سوسائٹی میں خوب صورت چیزوں پر جس کی نظر پڑتی ہے، بْری ہی پڑتی ہے۔ قاضی واجد نے ہمیشہ خود کو بْری نظروں سے بچایا۔ قاضی واجدنے اداکاری کی تربیت ریڈیو اور تھیٹر سے حاصل کی، زندگی کا طویل حصہ ریڈیو کے نام کردیا۔ وہ ریڈیو سے عشق کرتے تھے۔ قاضی واجد نے ڈراموں میں ہیرو بننے کی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کیا۔ وہ خوب صورت، خوش لباس اور ملن سار تھے۔ انہوں نے جس ڈرامے میں کام کیا، اسے یادگار بنا دیا، ان کی لاجواب اداکاری کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے ان کی علم دوستی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کی عالمی اردو کانفرنس میں پانچ روز تک جاں فشانی سے تمام سیشن میں موجود رہے۔ وہ شعر و شاعری اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔
اداکارہ عتیقہ اوڈھو اورعرفان کھوسٹ نے کہا کہ فنکار کب مرتا ہے، اس کا فن اسے ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رکھتا ہے۔ قاضی واجد کی لاجواب اداکاری سے سجے ڈرامے ہمیشہ ان کی یادیں تازہ کرتے رہیں گے۔ ''خدا کی بستی، تعلیم بالغاں اورتنہائیاں '' جیسے ڈراموں میں انہوں نے جو کردارنبھائے، انہیں کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ آج ان کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہے لیکن ان کی باتیں اوران کے ساتھ گزارے لمحات اب ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔
اداکارہ ثمینہ پیرزادہ نے کہا کہ قاضی واجد انتہائی عمدہ فنکارتھے۔ کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھرنا توان کی ایک منفرد ادا تھی، جس کی بدولت انہوں نے جہاں ناظرین کے دلوں پرراج کیا، بلکہ مجھ جیسے بہت سے فنکاروں کے بھی بہت پسندیدہ فنکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے کرداروں کی بات ہورہی ہے۔ وہ باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ ایسے لوگ توبہت کم ہوتے ہیں، آج واقعی شوبزانڈسٹری ایک سچے اور بہترین فنکارسے محروم ہوگئی ہے۔
اداکارجاوید شیخ نے کہا کہ قاضی واجد کے ساتھ ملاقات توفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان سے ایک ایسا تعلق قائم ہوا کہ اس کولفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اکثرملاقات کے دوران میں ان کے فنی سفرکے بارے میں پوچھتا تووہ کسی فلم کی کہانی سے کم نہ تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر بچوں کے پروگراموں سے باقاعدہ کیریئر کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں فلم ''بیداری'' میں کام کیا، جس کے ملی نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم میں ایک طالب علم کا کردار ادا کیا۔ 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن نے اپنا اسٹیشن قائم کیا، تو وہ اس جانب آگئے۔
ان کا پہلا ٹیلی ویژن ڈرامہ 'راستہ'' تھا۔ 1980ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت اختیار کرلی اور 2004ء میں ریڈیو پاکستان سے ریٹائرمنٹ لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ریڈیو سے عشق تھا اوروہ اس کو فنون لطیفہ کی بہترین درسگاہ بھی کہتے تھے۔ آج ان کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کررہا ہوں ۔ وہ مجھ سے سینئر تھے لیکن ہمارا تعلق اچھے دوستوں جیسا تھا۔
کراچی ٹی وی پرکام کرتے ہوئے ہم نے زندگی کے بہت سے یادگار دن ایک ساتھ گزارے لیکن جب میں فلم انڈسٹری سے وابستگی کے بعد لاہور شفٹ ہوا تو ملاقاتوںکا سلسلہ کم ہوا، مگران کے ساتھ جورشتہ قائم ہوا تھا وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائیں۔
معروف اداکارشبیرجان اور اسماعیل تارا نے کہا کہ قاضی واجد کو اگراداکاری کی یونیورسٹی کا درجہ دیدیا جائے توکم نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے طویل فنی سفرکے دوران جس طرح سے اداکاری کے جوہردکھائے اور کرداروں کو یادگاربنایا، یہ ان کا ہی خاصا تھا۔ وہ کبھی ہمیشہ ساتھی فنکاروں کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ جونیئر فنکاروں کے توبہترین رہنما تھے۔ اسی لئے توان کی وفات پرہرآنکھ نم دکھائی دیتی ہے۔
اداکارماجدجہانگیر اور ایازخان نے کہا کہ قاضی واجد ایک بلند پائے کے فنکارتھے۔ انہوں نے بہت سے کرداراس مہارت سے ادا کئے کہ شاید اس کوکوئی دوسرا فنکارادا نہ کرسکتا۔ انہوں نے جس طرح ریڈیو پرکام کرتے ہوئے بہت سے یادگار کردار نبھائے، اسی طرح ٹی وی ، تھیٹراورفلم میں بھی کام کیا۔ وہ جس ڈرامے کا حصہ بنتے ، اس میں ان کے کام کی وجہ سے ایک الگ شناخت سامنے آتی۔ انہوں نے سنجیدہ کرداروں کے ساتھ مزاحیہ کرداربھی خوب نبھائے۔ یہی ان کی انفرادیت تھی، جوبہت کم فنکاروں میں دکھائی دیتی تھی۔ جہاں تک بات ان کے ساتھ کام اوران کے ساتھ گزارے لمحات کی ہے تواس کولفظوں میں بیان کرنا فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ ان کی وفات ان کی فیملی کی طرح ہمارے لئے بھی بہت بڑا صدمہ ہے۔
اداکارراشد محمود اوراداکارہ زیبا شہناز نے کہا کہ یہ توحقیقت ہے کہ جودنیا میں آیا ہے، اس نے ایک دن یہاں سے واپس بھی جانا ہے۔ قاضی واجد نے اپنے طویل فنی سفرمیں جس مقام پرپہنچنے کیلئے جدوجہد کی، وہ اس مقام تک پہنچے۔ ان کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان میں تھے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں موجود تھے۔ اگریہ کہا جائے کہ پاکستانی ڈرامہ کی تاریخ میں قاضی واجد کا کرداربہت نمایاں ہے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود اپنے فنی سفرمیں ایسا کام کیا، جونوجوانوں کیلئے ایکٹنگ سیکھنے میں ہمیشہ مددگارثابت ہوگا۔ وہ بہت ہی اچھے فنکارتھے۔ ان کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں رہیں اور ہم نے ایک ساتھ کام بھی کیا۔ اب توبس ان کی یادیں ہمارے ساتھ ہیں، جن کوکبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائیں اوران کی فیملی کوصبردیں۔ آمین
چند روزقبل ان کی اچانک طبیعت بگڑی ، جس کے بعد انہیں ہسپتال لیجایا گیا اوروہ مختصرعلالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مرحوم کی وفات کی خبرجونہی الیکٹرانک اورسوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی توجنگل کی آگ کی طرح دنیا بھرمیں پھیل گئی۔
کسی نے مرحوم کے یادگار کرداروں پربات کی توکسی نے اپنے ساتھ تصاویرلگائیں۔ بس یوں کہئے کہ قاضی واجد کے چاہنے والوں کی آنکھیں اشکبارہونے کی گواہی ان کی ٹوٹی پھوٹی تحریروں کی شکل میں سامنے آرہی تھیں۔ کوئی ان کی اداکاری کی تعریف کررہا تھا توکوئی ان کی ملنساری کی۔
یہ سب دیکھ کریہی خیال آرہا تھا کہ ''جیسے شوبزانڈسٹری کاکوئی انمول رتن ہم سے دورہوگیا ہو''۔ مگرموت توبرحق ہے اوراس کا وقت مقرر ہے، جس کے مطابق ہرکسی کواس دنیا سے جانا ہی ہے، لیکن جس انداز سے قاضی واجد نے بھرپور زندگی گزاری اوراپنی زندگی کے کئی برس فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے گزارے ، اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ وہ اپنی عمر کے آخری حصے تک بھی بڑے پرامید دکھائی دیتے تھے۔ جہاں وہ اپنے پرانے ساتھی فنکاروں کے ساتھ دلچسپ گفتگومیں مشغول رہتے، وہیں نوجوان فنکاروںکی رہنمائی بھی ان کا خاصا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پرشوبزانڈسٹری سوگ میں ہے۔
مرحوم قاضی واجد نے اپنے فنی سفرکا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ ان کا شمار ریڈیو انڈسٹری کے بانیوں میں ہوتا تھا ، جبکہ فنون لطیفہ کے دیگرشعبوں میں گراں قدرخدمات کے اعتراف میں انہیں 1988ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔
انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا، تاہم ٹی وی ان کی پہچان بنا، ملک میں ٹیلی وژن کی آمد کے بعد '' خدا کی بستی'' میں راجا کا یادگارکردار ادا کیا، جبکہ ان کے مشہورڈراموں میں '' کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، تعلیم بالغاں، دھوپ کنارے، تنہائیاں اوربہت سے دیگر شامل ہیں۔
سینئر اداکار قاضی واجد نے لاتعداد ڈراموں کے علاوہ چند فلموں میں بھی اداکاری کے جوہردکھائے۔ قاضی واجد کواردو ادب سے بھی بے حد لگاؤتھا اور وہ اکثرادبی محفلوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ جہاں تک ان کی فنی زندگی کا تعلق ہے توانہوں نے ریڈیو سے شروع ہونے والے سفرکے بعد جب ٹی وی کے شعبے میں قدم رکھا توان کا شمار جلد ہی منجھے ہوئے فنکاروں میں ہونے لگا۔ انہوں نے سنجیدہ، مزاحیہ اورمنفی کرداروںکواپنی عمدہ اداکاری سے امر کیا۔ ان کی فنی صلاحیتوںکا اثران کی صاحبزادی فضیلہ قاضی میں بھی خوب دکھائی دیا۔
قاضی واجد کے انتقال پر''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے سینئراداکارقوی خان نے کہا ''قاضی واجد کے ساتھ میں نے بہت طویل عرصے تک کام کیا، جب ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا تو ہم دونوں لاہور تھیٹر پر ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ جب بھی کراچی سے لاہور آتے، میرے ساتھ ہی رہتے تھے۔ بعدازاں ہم نے کئی ٹیلی ویڑن ڈراموں میں کام کیا، چنانچہ نام کے پہلے حرف کی وجہ سے ہماری جوڑی بہت مقبول ہوئی اور 'کیوز' کی جوڑی کہلانے لگی۔ قاضی واجد جیسے دوست اب کہاں ملیں گے۔ ان کی موت نے مجھے ذاتی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ بہترین انسان اوردوست تھے۔ ان کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ہم نے اپنا فنی سفرجن حالات میں شروع کیا اورآج ہم جس مقام پرہیں، یہ ایک لمباسفر ہے، جس میں اب میں خود کو تنہا محسوس کررہا ہوں۔''
معروف رائٹر، شاعرومیزبان انورمقصود نے کہا کہ قاضی واجد کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا تھا۔ بہت ہی نفیس انسان اوربہترین فنکارتھے۔ ان کے ساتھ اکثرنشست رہتی اورمزاح پر ان کی کمانڈ مجھے بہت پسند تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم ریاض میں ایک مشاعرہ کیلئے ساتھ گئے۔ جہاں پرہمارے ساتھ قاضی واجد کے علاوہ بہروز سبزواری، ایازخان، یاسر، حنا دل پذیراوردیگرشامل تھے۔ یہ سفرہمارا آخری سفرہوگا، اس بارے میں کبھی سوچا نہ تھا۔ ہم نے اس سفرکے دوران جہاں بہت انجوائے کیا، وہیں دوران سفراوروہاں قیام کے وقت بھی ہم نے بہت سے یادگارلمحات بیتائے۔ جہاں قاضی واجد اپنے مزاحیہ فقروں اورواقعات سے سب کا دل جیت رہے تھے، ان کی وفات سے میں اپنے دیرینہ دوست سے محروم ہوگیا۔ وہ واقعی لاجواب انسان تھے، جس کومیں اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔
اداکارہ بشریٰ انصاری اورثانیہ سعید نے کہا ہے کہ قاضی واجد ایک زندہ دل انسان تھے۔ وہ جتنے بڑے فنکارتھے ، اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔ انہوں نے ان گنت ڈراموں میں ایسے عمدہ کردار نبھائے، جن کولوگ کبھی نہیں بھلاپائیں گے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسے فنکارصدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور ان کا نعم البدل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے پچاس برس سے زائد عرصہ اس شعبے کودیا اوربھرپورکام کیا۔ ریڈیو، ٹی وی، فلم اورتھیٹرپرجس طرح سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھائے ، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ قاضی واجد کا انتقال واقعی شوبز انڈسٹری کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کی وفات کے بعد پیدا ہونے والا خلاء شاید صدیوں تک بھی پُر نہ ہوپائے۔
اداکار بہروزسبزواری اورسہیل اصغرنے کہا کہ قاضی واجد کی پربہار شخصیت کے سحر کا جادو پچھلے کئی برس سے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ خداکی بستی کے ''راجا'' نے 50 برس تک فن کی دنیا پر راج کیا۔ وہ تو دْنیا میں شاید فن کی آب یاری کے لیے آئے تھے۔ کم عمری سے ہی شو بز کی چمکتی دمکتی دنیا سے منسلک رہنے کے باوجود ساری زندگی بے داغ گزاری۔
ہماری سوسائٹی میں خوب صورت چیزوں پر جس کی نظر پڑتی ہے، بْری ہی پڑتی ہے۔ قاضی واجد نے ہمیشہ خود کو بْری نظروں سے بچایا۔ قاضی واجدنے اداکاری کی تربیت ریڈیو اور تھیٹر سے حاصل کی، زندگی کا طویل حصہ ریڈیو کے نام کردیا۔ وہ ریڈیو سے عشق کرتے تھے۔ قاضی واجد نے ڈراموں میں ہیرو بننے کی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کیا۔ وہ خوب صورت، خوش لباس اور ملن سار تھے۔ انہوں نے جس ڈرامے میں کام کیا، اسے یادگار بنا دیا، ان کی لاجواب اداکاری کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے ان کی علم دوستی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کی عالمی اردو کانفرنس میں پانچ روز تک جاں فشانی سے تمام سیشن میں موجود رہے۔ وہ شعر و شاعری اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔
اداکارہ عتیقہ اوڈھو اورعرفان کھوسٹ نے کہا کہ فنکار کب مرتا ہے، اس کا فن اسے ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رکھتا ہے۔ قاضی واجد کی لاجواب اداکاری سے سجے ڈرامے ہمیشہ ان کی یادیں تازہ کرتے رہیں گے۔ ''خدا کی بستی، تعلیم بالغاں اورتنہائیاں '' جیسے ڈراموں میں انہوں نے جو کردارنبھائے، انہیں کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ آج ان کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہے لیکن ان کی باتیں اوران کے ساتھ گزارے لمحات اب ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔
اداکارہ ثمینہ پیرزادہ نے کہا کہ قاضی واجد انتہائی عمدہ فنکارتھے۔ کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھرنا توان کی ایک منفرد ادا تھی، جس کی بدولت انہوں نے جہاں ناظرین کے دلوں پرراج کیا، بلکہ مجھ جیسے بہت سے فنکاروں کے بھی بہت پسندیدہ فنکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے کرداروں کی بات ہورہی ہے۔ وہ باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ ایسے لوگ توبہت کم ہوتے ہیں، آج واقعی شوبزانڈسٹری ایک سچے اور بہترین فنکارسے محروم ہوگئی ہے۔
اداکارجاوید شیخ نے کہا کہ قاضی واجد کے ساتھ ملاقات توفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان سے ایک ایسا تعلق قائم ہوا کہ اس کولفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اکثرملاقات کے دوران میں ان کے فنی سفرکے بارے میں پوچھتا تووہ کسی فلم کی کہانی سے کم نہ تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر بچوں کے پروگراموں سے باقاعدہ کیریئر کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں فلم ''بیداری'' میں کام کیا، جس کے ملی نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم میں ایک طالب علم کا کردار ادا کیا۔ 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن نے اپنا اسٹیشن قائم کیا، تو وہ اس جانب آگئے۔
ان کا پہلا ٹیلی ویژن ڈرامہ 'راستہ'' تھا۔ 1980ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت اختیار کرلی اور 2004ء میں ریڈیو پاکستان سے ریٹائرمنٹ لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ریڈیو سے عشق تھا اوروہ اس کو فنون لطیفہ کی بہترین درسگاہ بھی کہتے تھے۔ آج ان کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کررہا ہوں ۔ وہ مجھ سے سینئر تھے لیکن ہمارا تعلق اچھے دوستوں جیسا تھا۔
کراچی ٹی وی پرکام کرتے ہوئے ہم نے زندگی کے بہت سے یادگار دن ایک ساتھ گزارے لیکن جب میں فلم انڈسٹری سے وابستگی کے بعد لاہور شفٹ ہوا تو ملاقاتوںکا سلسلہ کم ہوا، مگران کے ساتھ جورشتہ قائم ہوا تھا وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائیں۔
معروف اداکارشبیرجان اور اسماعیل تارا نے کہا کہ قاضی واجد کو اگراداکاری کی یونیورسٹی کا درجہ دیدیا جائے توکم نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے طویل فنی سفرکے دوران جس طرح سے اداکاری کے جوہردکھائے اور کرداروں کو یادگاربنایا، یہ ان کا ہی خاصا تھا۔ وہ کبھی ہمیشہ ساتھی فنکاروں کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ جونیئر فنکاروں کے توبہترین رہنما تھے۔ اسی لئے توان کی وفات پرہرآنکھ نم دکھائی دیتی ہے۔
اداکارماجدجہانگیر اور ایازخان نے کہا کہ قاضی واجد ایک بلند پائے کے فنکارتھے۔ انہوں نے بہت سے کرداراس مہارت سے ادا کئے کہ شاید اس کوکوئی دوسرا فنکارادا نہ کرسکتا۔ انہوں نے جس طرح ریڈیو پرکام کرتے ہوئے بہت سے یادگار کردار نبھائے، اسی طرح ٹی وی ، تھیٹراورفلم میں بھی کام کیا۔ وہ جس ڈرامے کا حصہ بنتے ، اس میں ان کے کام کی وجہ سے ایک الگ شناخت سامنے آتی۔ انہوں نے سنجیدہ کرداروں کے ساتھ مزاحیہ کرداربھی خوب نبھائے۔ یہی ان کی انفرادیت تھی، جوبہت کم فنکاروں میں دکھائی دیتی تھی۔ جہاں تک بات ان کے ساتھ کام اوران کے ساتھ گزارے لمحات کی ہے تواس کولفظوں میں بیان کرنا فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ ان کی وفات ان کی فیملی کی طرح ہمارے لئے بھی بہت بڑا صدمہ ہے۔
اداکارراشد محمود اوراداکارہ زیبا شہناز نے کہا کہ یہ توحقیقت ہے کہ جودنیا میں آیا ہے، اس نے ایک دن یہاں سے واپس بھی جانا ہے۔ قاضی واجد نے اپنے طویل فنی سفرمیں جس مقام پرپہنچنے کیلئے جدوجہد کی، وہ اس مقام تک پہنچے۔ ان کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان میں تھے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں موجود تھے۔ اگریہ کہا جائے کہ پاکستانی ڈرامہ کی تاریخ میں قاضی واجد کا کرداربہت نمایاں ہے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود اپنے فنی سفرمیں ایسا کام کیا، جونوجوانوں کیلئے ایکٹنگ سیکھنے میں ہمیشہ مددگارثابت ہوگا۔ وہ بہت ہی اچھے فنکارتھے۔ ان کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں رہیں اور ہم نے ایک ساتھ کام بھی کیا۔ اب توبس ان کی یادیں ہمارے ساتھ ہیں، جن کوکبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائیں اوران کی فیملی کوصبردیں۔ آمین