ہمیں سوشل انجینئرنگ کی ضرورت ہے

باہمی رواداری کےلیےانسانیت کوانسانوں کے مابین تعلقات کی مضبوط بنیاد قراردیاجائے، مذہب کی تبلیغ ثانوی حیثیت میں کی جائے


خضر حیات February 16, 2018
کیا وہ وقت نہیں آ گیا کہ ہمیں اب بڑے پیمانے اور ہنگامی بنیادوں پر سوشل انجینئرنگ کی ضرورت ہے؟ فوٹو:انٹرنیٹ

کیا حالات اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں کر رہے کہ کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کا کوئی لائسنس ہونا چاہیے؟ جو لوگ مطلوبہ معیار پر پورے اتریں صرف انہی کو مذہب منتخب کرنے اور مذہبی ہونے کا لائسنس دیا جائے۔ لوگ برسوں پُرامن رہتے ہوئے اس ریاضت میں گزار دیں کہ انہوں نے مذہبی ہونے کےلیے کوالیفائی کرنا ہے۔

کم از کم اس طرح سے ایک ایسی فضاء کا خاتمہ ہو جائے گا جس میں ہر ایک مذہب کا ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے اور مذہب کو ہتھیار یا آلہء قتل کے طور پر استعمال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ عام مذہبی جنونی شخص مذہب کی آڑ میں دوسرے ہم نفسوں کی گردنیں اڑانے پر پشیمان ہونے کے بجائے اس کے انعام کے طور پر جنت الفردوس میں پہنچنے کی بھی آس لگائے بیٹھا ہے۔

یہ روایت کمزور ہونی چاہئیے کہ جس کا جو دل چاہتا ہے، مذہب کے نام پہ کرتا پھرے۔ اس وقت دنیا کی تقریباً نصف آبادی اسی مذہبی جنون میں مبتلا ہے اور آدھی سے زیادہ لڑائیاں جو اس وقت دنیا میں چل رہی ہیں، ان کی بنیاد کہیں نہ کہیں مذہبی اختلافات ہی ہیں۔ کسی ایک مذہب یا عقیدے کو مقدس سمجھ کر اختلاف کرنے والوں کا مسلسل خون بہایا جا رہا ہے۔

عالمی منظرنامے پر ایک سرسری سی نگاہ دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ بھارت کی سماجی فضاء مذہبی تعصب کی وجہ سے جس قدر مکدّر آج ہے، شاید ہی پہلے کبھی رہی ہو۔ وہاں مذہبی انتہاء پسند پہلے بھی رہے ہوں گے مگر انہیں جو سازگار ماحول فی زمانہ میسر آیا ہے وہ 1947ء کے بعد کبھی نہیں ملا تھا۔ مسلمانوں اور دلّتوں کےلیے اس قدر مشکلات پیدا کی جا چکی ہیں کہ اکثر تو انہی مشکلات کے بوجھ تلے دب کر ہی مر کھپ جائیں گے، اور جو بچ رہیں گے وہ نفسیاتی مریض بن کر زندہ لاشوں کی طرح دھرتی پہ بوجھ بنے رہیں گے۔

اقلیت کی اصطلاح ہی ایسی ہے کہ اس سے مثبت کی بجائے منفی معانی ہی منسلک ہو کے رہ گئے ہیں، کیونکہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہر جگہ جیسا سلوک کیا جاتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جن انسانوں کو محض اس بناء پر اقلیت سمجھ کر کہ ان کا عقیدہ یا مذہب اکثریت سے مختلف ہے، امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان عام انسانوں کا کیا قصور ہے؟ کیا ان کے پیدا ہونے میں کوئی مسئلہ ہے؟ کیا وہ بھی اکثریتی عقیدے والے انسانوں کی طرح کے گوشت پوست سے بنے اور ویسی ہی جسمانی و ذہنی ساخت کے ہی انسان نہیں؟ کیا یہ جائز ہے کہ انہیں محض ان کے عقیدے کی وجہ سے نہ صرف تضحیک کا نشانہ بنایا جائے، بلکہ ان پہ زمین ہی تنگ کر دی جائے اور انہیں تیسرے چوتھے درجے کا شہری بنا کر ایک مستقل اذیت اور احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جائے؟

فلسطین کی سرزمین جو ہر لحاظ سے مقدس ہے، وہاں مذہب کے نام پہ جو اکھاڑا چل رہا ہے اور جو سرکس چلایا جا رہا ہے، اس میں آج تک کتنے انسانوں کی گردنیں کاٹی جا چکی ہیں یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کیا اُس سرزمین پر جان گنوانے والے ہر انسان کی موت کے پیچھے مذہبی اختلاف کارفرما نہیں رہا ہے؟ پیغمبروں کی اس سرزمین کو اب تک جو لاکھوں انسان اپنے ناحق خون سے سیراب کر چکے ہیں، ان کا خون کیا اتنا ہی ارزاں اور بے وقعت تھا؟

یہاں کھیل پہلے دن سے وہی رہا ہے، بس فاعل اور مفعول اپنی جگہ بدلتے رہے ہیں۔ جس کے بازو میں جتنی زیادہ طاقت آئی ہے اس نے اسی حساب سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ عیسائیوں نے آ کے یہودیوں کو بھگایا، مسلمانوں نے عیسائیوں کو بھگایا، عیسائیوں نے پھر مسلمانوں کو بھگایا اور اب یہودیوں کی باری آئی ہے اور وہ طاقت کے نشے میں چُور فلسطینی مسلمانوں کو ایسے کاٹ رہے ہیں جیسے گاجر مولی کو کاٹا جاتا ہے۔

شام جیسا عظیم الشان تاریخی شہر ادھیڑ کے رکھ دیا گیا۔ مسئلہ کیا ہے کہ حکمران بشار الاسد جس مذہب کا پیرو ہے وہ اکثریت سے مختلف ہے اور مذہبی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ اس کی جگہ درست مذہب اور صحیح عقیدے والا حکمران لایا جانا چاہیے۔ عالمی طاقتیں جو پہلے ہی ایسی ہی کسی تاک میں بیٹھی ہوتی ہیں وہ جھٹ سے صورتحال میں آ گھستی ہیں اور پھر ایک ایسی پراکسی وار شروع ہو جاتی ہے جس میں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس کو مار رہا ہے اور اسے کون مار رہا ہے؟ ہر کوئی ہر کسی سے لڑ رہا ہے، سبھی مر رہے ہیں اور نقصان عام انسانوں اور تاریخی مقامات کا ہو رہا ہے۔

کوئی اہلِ دل اگر شام کے بڑے شہروں حلب، رقہ اور دیرالزور کی موجودہ صورتحال کسی ویڈیو میں دیکھ لے تو اس کی آنکھیں ویران ہو جائیں۔

سعودی عرب اور ایران نے جو حال یمن کا کر رکھا ہے وہ اگرچہ میڈیا میں نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکا، مگر اپنی جگہ حقیقت بھی ہے اور وحشت ناک بھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیضے سے مر رہے ہیں، خوراک کی کمی کی وجہ سے جانوں سے جا رہے ہیں۔ اب ان کی موت کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ کیا پیدا ہونے سے پہلے ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یمن میں پیدا ہونا چاہتے ہیں یا یہ کہ وہ کس عقیدے اور مسلک کے حامل گھرانے میںجنم لینا چاہتے ہیں؟

مذہبی اور سیاسی اختلاف اگر دوسرے انسان کی جان لینے کا جواز فراہم کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہئیے کہ ان اختلافات کی تہہ میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور کارفرما ہے۔ کیا کوئی بھی اختلاف اس قدر معتبر ہو سکتا ہے کہ اس کی بنیاد پر انسانی جان ہی لے لی جائی؟

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہ میں مشال خان کو 13 اپریل 2017ء کو اس قدر دردناک طریقے سے زندگی سے رہائی دلائی گئی کہ ہر اہلِ دل انسان کی روح کانپ اٹھی۔ کچھ لوگ کہتے رہے کہ کیا ہوا جو ایک انسان مر گیا، اس طرح کے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں, پھر اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے؟

میں صرف ایک انسان بن کے سوچوں تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ ایسا کوئی بھی محرک جو میرے ایک ساتھی انسان کی جان لینے کا باعث بنے وہ سخت ترین الفاظ میں قابل مذمت ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف ایک سازش ہے، انسانوں کےلیے ایک جال ہے جس نے انہیں پھنسا کے رکھا ہوا ہے۔ اتنا خطرناک استعمال اگر آئے روز ہونا شروع ہو گیا ہے تو پھر اس کے استعمال کےلیے کوئی طریقہ کار ہی وضع کر لیں۔ کیونکہ مشال کو بھی بے دردی سے مارنے کے پیچھے جو تحریک تھی وہ یہی تھی کہ اس نے ایک مذہب کی توہین کی ہے۔ اس نے کسی ایک مذہب یا مذہب کی کسی ایک شکل یا کسی ایک مخصوص شاخ سے اختلاف کیا ہے، اس لیے یہ ملعون بھی ہے اور مرتد بھی؛ ایسے انسان کو ختم ہی کر دینا چاہئیے۔ اور اسی تحرک کی بنیاد پر کئی درجن انسانوں نے اپنے ہی ہم نفس انسان کو گِدھوں کی طرح نوچ ڈالا۔ اتنی جنونیت اگر کسی چیز کے استعمال میں پنہاں ہے تو پھر کوئی فلٹر لگا لیں کہ صرف مخصوص لوگ ہی اس چیز کو استعمال کرنے کے اہل قرار دیے جا سکتے ہوں، ہر کسی کو ٹھیکے دار نہیں بننے دیا جا سکتا۔ اسلحے پر بھی تو اسی وجہ سے پابندی لگائی جاتی ہے کہ اس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے۔

اس کیس کا مرکزی ملزم عمران علی جو مالاکنڈ ایجنسی سے تعلق رکھتا ہے، ایک مذہبی گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور جمعیت کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتا رہا ہے۔ اس کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے بھی رہا اور اس نے عسکری تربیت بھی حاصل کر رکھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران علی پیدائشی طور پر ہی اس طرح سوچنے والا تھا یا بعد میں اس کی تربیت جن اداروں اور جس ماحول میں ہوئی انہوں نے اسے ایک خاص طرز پر سوچنے پہ مجبور کیا؟ کیا ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہی ادارے اور یہی تربیت ہی پہلے ایک معصوم انسان کی موت کا باعث بنے اور پھر عمران علی کو بھی پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا؟

اگر تو دوسرا آپشن درست ہے تو پھر ہمیں سوچنا چاہئیے کہ ان اداروں یا ان جیسے دیگر اداروں میں کچھ تو خرابی ہے کہ یہاں کی فضاء میں گھومنے پھرنے والے عام انسان کسی کی جان لیتے ہوئے ذرا سا بھی تردد نہیں کرتے۔ عمران علی نے مشال پر گولی چلائی، مگر کیا اس نے ایک دفعہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ میں غلط کر رہا ہوں؟ میں جس بنیاد پر کسی کی جان لے رہا ہوں وہ کمزور ہے، مشال پہ جو الزامات لگائے گئے ہیں پہلے انہیں ثابت نہیں ہو جانا چاہئیے؟ مگر مذہبی جنونیت کا بھنورہ ذہن کو ایک مرتبہ دبوچ لے تو کون منطقی ہو کے سوچ ہی نہیں سکتا۔ مشال کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا جیسا ہوا، کیونکہ اس ہجوم کی ذہن سازی ہی اس طرح کی ہو چکی ہے کہ یہاں فرقہ، عقیدہ اور مذہب پہلے دیکھا جاتا ہے اور انسان ہونا کہیں بعد میں۔

مرکزی ملزمان میں سے وجاہت اللہ کا تعلق بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے، اسے چار سال کی قید سنائی گئی ہے۔ یہ سیاست اور مذہب کی غلط تفہیم کیا اسی طرح انسانوں کو اپنے ساتھی انسانوں سے متنفّر کرتی رہیں گی؟

اب جبکہ واقعے کے دس مہینے بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے اور ملزمان کو سزا بھی ہو چکی ہے تو بعض لوگوں کے نزدیک یہ خوش گمانی پالنا اچھی بات ہے کہ مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ خوش فہمی بے وقوفی پر مبنی ہے۔ جسے پھانسی ہونی ہے وہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اپنے کیے پر کوئی پشیمانی نہیں، میں نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔ (یا اللہ یہ کس قسم کا جنون ہے؟)

آپ اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ یہ سلسلہ اگر تھمتا نہیں بھی تو کم از کم آہستہ ضرور ہو جائے گا، مگر دوسری طرف دیکھیے کہ جو بندہ ایک بے قصور انسان کو گولی مار کر کہہ رہا ہے میں نے بالکل ٹھیک کیا ہے، ان سزاؤں سے تھوڑی بہت عبرت اگر کوئی پکڑے گا تو مرنے اور قید ہونے والوں کے گھر والے پکڑیں گے، اس سے زیادہ اثر کی امید رکھنا فضول ہے۔ اگر سماجی حالات جوں کے توں رہے تو مشال کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رک سکے گا۔

کیا وہ وقت نہیں آ گیا کہ ہمیں اب بڑے پیمانے اور ہنگامی بنیادوں پر سوشل انجینئرنگ کی ضرورت ہے؟

اس میں اب کوئی ابہام یا شبہ نہیں رہ گیا کہ ہمارا معاشرہ مذہبی حوالے سے پہلے کی نسبت زیادہ جذباتی ہو چکا ہے۔ ہمیں مذہبی اختلاف پر زیادہ غصہ آنے لگا ہے اور ہم بہت سرعت میں اپنا ردعمل دینے لگ گئے ہیں۔ ہم زندہ انسانوں کو تندوروں میں جلانے لگ گئے ہیں۔ ہلکی پھُلکی نوک جھونک تھوڑی ہی دیر میں تلخ کلامی اور گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے، اور اکثر صورتوں میں فریقین ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ کسی ایک کی ہلاکت ہی پر جاکر رکتا ہے۔

جو ریاست کسی خاص صورت حال کے پیش نظر اپنے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی طور پر تیار کرکے جہاد پر روانہ کر سکتی ہے، اسی ریاست کی اب یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک مختلف طرز کی ذہن سازی میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ سوشل انجینئرنگ کےلیے سوشل سائنٹسٹس آگے آئیں اور معاشرے کی عمومی فضا کو تبدیل کرنے کےلیے تجاویز پیش کریں۔ ریاستی سطح پر ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو معاشرے کو نارمل سطح پر لے کر آئیں۔ عوام کو اختلاف کے حُسن کو سمجھنے کا شعور دیا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ کوئی بھی اختلاف چاہے وہ مذہبی ہو یا ذاتی، وہ اس قدر اہم نہیں ہوتا کہ اس کےلیے ایک جیتے جاگتے انسان کی جان ہی لے لی جائے۔

میری ناقص عقل مجھے اس وقت جو تراکیب سُجھا رہی ہے وہ میں یہاں لکھ رہا ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی سودمند ہو سکتی ہے تو اسے اپنائیں اور رائج کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو روز جنازے اٹھائیں گے اور روز روتے پھریں گے۔ وہ کرکے دیکھ لیا ہے تو اب یہ بھی کرکے دیکھ لیں، شاید ہماری اڑان کا رخ کسی بہتر مستقبل کی طرف ہی ہو جائے۔

1۔ قومی پالیسی کے طور پر اختلاف کرنے اور برداشت کرنے کے جذبے کی تشہیر کی جانی چاہئیے۔

2۔ عوام کے منتخب نمائندے، باقی سیاستدان، اساتذہ، میڈیا مالکان، صحافی، دانشور، تخلیق کار، فلم میکرز، ججز، مسلح افواج کے افسران، سرکاری ملازمین اور دیگر بااثر افراد کسی بھی ایک مذہب یا مخصوص عقیدے کی وکالت کرنے پر بھاری جرمانے اور سخت سزاؤں کے مستحق قرار پائیں۔

3۔ قومی نصاب کو تبدیل کرکے موجودہ مسائل اور حالات کے مطابق ترتیب دیا جائے۔

4۔ دینی مدرسوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض سرانجام دینے والی شخصیات کےلیے تربیتی کورسز شروع کروائے جائیں اور ہر قسم کے نفرت انگیز بیانات پھیلانے کا محاسبہ کیا جائے۔

5۔ دینی مدرسوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کو چھان پھٹک کر دیکھا جائے کہ وہاں کس قسم کا لٹریچر دستیاب ہے اور طلبہ کی رسائی کس طرح کے مواد تک ہے۔

6۔ سرکاری سرپرستی میں جہادی کیمپ کھول کر دھڑا دھڑ لوگوں کو جہاد کےلیے تیار کیا جا سکتا ہے تو اب بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کو مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرنے کےلیے تربیت دی جا سکتی ہے۔

7۔ صحافت اور میڈیا کو مذہبی رواداری کی پالیسی کو مشتہر کرنے کےلیے بہتر اور مثبت انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

8۔ جگہ جگہ کھیلوں کے میدان آباد کیے جا سکتے ہیں۔

9۔ دیہاتی قصباتی لیول پر میلے ٹھیلے شروع کیے جا سکتے ہیں۔

10۔ انسانیت کو انسانوں کے مابین تعلقات کی مضبوط بنیاد قرار دیا جائے، مذہب کو ثانوی حیثیت میں تبلیغ کیا جائے۔

11۔ بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے کےلیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ جلسے جلوس منعقد کیے جائیں، ٹیلی ویژن پروگرام نشر کیے جائیں اور مختلف مسالک کے لوگوں کو اکٹھا بٹھا دیا جائے۔

12۔ عقیدے ٹیسٹ کرنے والی غیر سرکاری اتھارٹیز کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسی بااثر شخصیات جو اس طرح کی مہمات کی سربراہی کرتی ہیں انہیں بند کمرے میں لے جا کے ''سمجھایا بُجھایا'' جائے۔

اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو پھر ایک اتھارٹی بنا دیں جو لوگوں کا طرزعمل دیکھ کر انہیں کوئی بھی مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ کرنے کا لائسنس جاری کرے۔ جب تک مناسب طرزعمل (جس میں رواداری، برداشت، بھائی چارے کا عملی مظاہرہ شامل ہو) کا مظاہرہ نہ کیا جائے، یہ لائسنس ریاست کی طرف سے جاری نہ کیا جائے۔ لوگ برسوں انسان بن کر مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کی مشق کریں اور پھر وہ مذہبی کہلانے کے حق دار سمجھے جائیں۔

امید ہے ناحق مرنے والے انسانوں کی شرح میں واضح کمی واقع ہو جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |