ہم نفسوں کی بزم میں
ایک کہانی کارکی حیثیت سے سیتارتھی کی سرشت کا یہ پہلو اسے ایک خاص امتیاز بخشتا ہے۔
''ہم نفسوں کی بزم میں'' شمیم حنفی کے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے، جنھیں گزشتہ صدی کی کچھ ادبی شخصیتوں کے خاکے سمجھا جاسکتا ہے اور ان کی ادبی کاوشوں کا تنقیدی جائزہ بھی۔ یہ شخصیتیں وہ ہیں جن سے شمیم حنفی کی کہیں کم اورکہیں زیادہ ملاقات رہی ہے۔
سید معین الدین احمد قادری ان کے استاد تھے۔ وہ سلطان پور میں لڑکوں کے واحد ہائر سیکنڈری اسکول میں اردو پڑھاتے تھے۔ شمیم حنفی لکھتے ہیں ''قادری صاحب کے مزاج میں ایک خلقی شگفتگی تھی جو ان کے درس کو بے مزہ نہ ہونے دیتی تھی لیکن اس شگفتگی کے باوجود ان کی متانت اور شائستہ فکری تفہیم وتدریس کے عمل کی حدیں متعین رکھتی تھیں۔ ان کے دو ہی شوق تھے۔کتابیں اور شرینی۔کبھی فرمائش کی توکسی کتاب کی اور تواضح سے خوش ہوئے تو اس وقت جب شرینی سامنے ہو۔ باقی ہر نعمت ہے تو خوب، نہیں ہے تو خوب۔ زندگی نے انھیں جو کچھ دیا، جس طرح دیا اس سے زیادہ کی جستجو نہ کی۔''
قادری صاحب نے بہت کم لکھا لیکن جو لکھا اس میں شبلی کے اسلوب کی جھلک نظر آتی ہے۔
فراق کا ذکر کرتے ہوئے شمیم حنفی لکھتے ہیں ''فراق صاحب بولتے تو ٹھہر ٹھہر کر مگر سوچتے بہت تیز تھے۔ یہ تیزی بھی تدریج کی تابع نہیں تھی۔ اسے ایک طرح کی نیم خلاقانہ حقیقت کہنا مناسب ہوگا۔ بی اے میں اور مضامین کے ساتھ انھوں نے منطق پڑھی تھی۔ چنانچہ بات وہ ہمیشہ مدلل انداز میں کرتے تھے۔ ان کا خیال عام گفتگو میں بھی سننے والے تک مختلف مقدمات اور دلیلوں کے کاندھے کاندھے پہنچتا تھا۔ ہر دلیل ایک اشارے کی شکل میں ظہور میں آتی تھی اور ان کی فکر کے مجموعی قرینے میں جذب ہوجاتی تھی۔''
آل احمد سرور کے بارے میں شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سرور صاحب کو جب بھی دیکھا، ذہنی طور پر مصروف دیکھا۔ یہ مصروفیت بھی ہر لمحہ اس دائرے کی پابند جو دانشوری اور دیانتداری کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ مزاج کی رواداری نے ان کی تحریروتقریر میں زندگی اور ادب دونوں میں ایک ہمہ گیر تناظرکی تشکیل کی ہے، یعنی ''ہر رنگ میں اثبات کا اظہار چاہیے۔''
مالک رام کا ذکر کرتے ہوئے شمیم حنفی لکھتے ہیں '' وہ شیروانی پہنتے ہیں اوراردو لکھتے ہیں۔ سوٹ پہننا یا انگریزی بولنا اب منہ کا مزہ یا روزکا حلیہ بدلنے کے مترادف ہے۔ یوں انھوں نے انگریزی میں بھی کتابیں اور مضامین لکھے ہیں اور وہ انگریزی، اردو اور ہندی کے علاوہ عربی، فارسی اور فرانسیسی بھی جانتے ہیں لیکن اردو ان کے اظہار کا فطری ذریعہ اور شیروانی ان کا مانوس حلیہ ہے۔ انھیں دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر خیال آتا ہے کہ بہت سا وقت گزرنے کے باوجود گم نہیں ہوتا اور بہت سی اکائیاں جغرافیائی، مذہبی اور تاریخی حد بندیوں کی زد پر آکر بھی بکھرتی نہیں ہیں۔''
ڈاکٹر آفتاب احمد کا ذکرکرتے ہوئے شمیم حنفی لکھتے ہیں ''جب تک لکھنے والا اپنے ساتھ دیانتدار نہ ہو، دوسروں کے ساتھ بھی دیانتدار نہیں رہ سکتا۔'' نثر کے سیاق میں اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ ایمان دار نہیں ہیں، اپنے موضوع پر آپ کی گرفت مضبوط نہیں ہے اور آپ سچ بولنے کے عادی نہیں ہیں تو آپ کی نثر بھی جھوٹی اور جھول بھری ہوگی۔ آفتاب صاحب نے دنیا کی طرف اور اشخاص کی طرف حتیٰ کہ بڑی سے بڑی شخصیتوں کی طرف بھی ایک دیانتدارانہ اور غیر جذباتی رویہ اپنایا ہے۔
انھوں نے میر، غالب اور اقبال کا جائزہ بھی اسی حساب سے لیا ہے اور غالب کی دنیا میں اپنے لیے ایک دارالامان کی نشان دہی اسی موقف کی بنیاد پر کی ہے کہ یہ دنیا عام انسانوں کی دنیا دکھائی دیتی ہے، تضادات سے بھری اور بشریت کے تمام اسالیب اور آداب قبول کرنے والی۔ یہی بے ریائی اورکشادگی اور سعادت آثاری آفتاب صاحب کی نثرکی شناسا بھی ہے۔ جو سچائی اور سادگی ان کی شخصیت میں ہے وہی ان کی نثر میں بھی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی پہچان بناتے ہیں۔''
دیویندر ناتھ سیتارتھی سے شمیم حنفی کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں، اس کی شخصیت اس کا فن۔ شمیم لکھتے ہیں ''اپنے آپ پر ہنسنے کی صلاحیت ہی ہر بیرونی اثر سے سیتارتھی کا دفاع کرتی ہے۔ ایک لحاظ سے اپنی شخصیت کے تحفظ کا وسیلہ بھی اس نے اپنی اس صلاحیت کو بنا رکھا ہے۔ اپنے بارے میں سخت سے سخت بات سننے اور اسی سے مزہ لینے کا ایسا سلیقہ اور حوصلہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔
ایک کہانی کارکی حیثیت سے سیتارتھی کی سرشت کا یہ پہلو اسے ایک خاص امتیاز بخشتا ہے۔ یہ ایک سچے تخلیقی آدمی کی سرشت ہے جو زندگی کے کسی بھی مظہر، بشمول حماقت کو غیر اہم یا اپنی ذات سے کمتر نہیں گردانتی۔ اس کی ناولوں اورکہانیوں کی فنی قدر وقیمت کا تعین کیے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے اپنے تمام معاصرین کے مقابلے میں سیتارتھی نے اپنی تخلیقی شخصیت کو ہر غیر تخلیقی سروکار سے بچانے کی غیرمعمولی قوت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی ذات نہ مفاہمتوں سے آلودہ ہوئی اور نہ ترغیبات سے مغلوب۔ وہ نہ اپنی کامرانیوں پر مغرور ہوا نہ اپنی ناراسیوں پر افسردہ ۔''
شمیم حنفی بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں ذوقی صاحب کی منظریہ اور محاکاتی نظموں کی بڑی دھوم تھی۔ یوں وہ غزلیں بھی لکھتے تھے۔ ان کے پاس اپنے حاضرین میں جوش، جگر، مجنوں، فراق، جذبی اور بزرگوں میں اصغر، سیماب اور فانی کی کہانیوں، پرانے اداکاروں، پرانی صحبتوں، پرانی رسموں اور روایتوں کی روداد کا ایک کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ تھا۔ اس لیے ذوقی صاحب کے ساتھ جو وقت گزرتا، اچھا گزرتا تھا۔''
شمیم حنفی کی منتخب ایک شخصیت زاہد ڈارکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''زاہد ڈار ہمارے زمانے کے ان مٹھی بھر شاعروں میں سے ہیں جو زندگی سے بے خبری کی قیمت پر شاعری اور فن کا سودا نہیں کرتے۔ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی شاعری اس کی اپنی زندگی کا مضافاتی علاقہ ہے۔ سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں جب اور جس وقت جی چاہا آن کی آن میں ادھر سے ادھر چلے گئے۔ اس طرح کی منتقلی میں دیر اسے لگتی ہے جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانے کے لیے پورے تام جھام اور اہتمام کا عادی ہو۔''
احمد فراز کا ذکر کرتے ہوئے شمیم حنفی لکھتے ہیں ''احمد فراز فیض کے بعد ہمارے مقبول ترین شاعر ہیں۔ انھیں جیتے جی ایسی شہرت ملی ہے جو افسانہ بن جاتی ہے۔ فرازکے بعض معاصرین ان کی شاعری پر معترض ہوتے ہیں اور 1960 ء کے بعد کی نظم اور غزل کے جائزے میں اکثر فراز سے زیادہ ذکر ایسوں کا ہوتا ہے جو ان کی شاعرانہ حیثیت کو نہیں پہنچتے لیکن فرازکے تخلیقی انہماک میں اس سے کبھی فرق نہیں آیا۔''
حنفی کہتے ہیں کہ فرازکی شاعری کا بنیادی خمیر اس کا تصوراتی ہونا ہے گویا کہ اپنے ہر شعر کے ذریعے وہ اپنی کسی ذہنی رو،کسی خیال کا اظہارکرنا چاہتے ہیں اور ان کا ہر شعر اپنی ایک خاص فکری اساس رکھتا ہے لیکن یہ شاعری محض خیال کی شاعری نہیں ہے۔ خیال محض کی شاعری تو وہ ہوتی ہے جو ایک ویران اور بے برگ و بار باطن کی سطح سے اٹھ کر پڑھنے والے کے احساسات کو منورکیے بغیر اس کے شعورکی بس بیرونی پرت کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہے۔
صلاح الدین محمود نے اپنے اظہارکا ذریعہ کچھ شاعری کو اورکچھ نثرکو بنایا لیکن ان کا یہ تخلیقی سرمایہ بہت مختصر ہے۔ شمیم حنفی لکھتے ہیں ''صلاح الدین محمود ایک بے حد مستحکم تہذیبی شخصیت کے مالک تھے۔ اپنی ادبی اور تہذیبی روایت کا، اپنے اجتماعی ماضی کا، مختلف علوم و فنون کی وحدت تک وہ ایک بھرا پرا شعور رکھتے تھے ۔ اس شعور میں وسعت بہت تھی اور اس سے نظر اور جزکی متعدد جہتیں ایک ساتھ نکلتی تھیں ۔ مصوری، موسیقی، ادب، فن تعمیر، فلسفہ، تصوف، فطرت کے مختلف مظاہر۔ غرض صلاح الدین محمود کے باطن میں جو دنیا آباد تھی، وہ رنگارنگ اور پرپیچ بہت ہے۔ اس میں پھیلاؤ بہت ہے ۔ یہ دنیا ایک ساتھ تجربے اور ادراک کی کئی سطحوں کا احاطہ کرتی ہے۔