یہ ہے وہ عاصمہ جہانگیر آرٹیکل 25 والی
2015ء میں جب والد کی برسی کراچی میں رکھی گئی تو عاصمہ نے اس کی صدارت کی۔
MUZAFFARABAD:
پتا بھی نہ چلا اور عاصمہ جہانگیر چلی گئیں۔ بات انسان کے جانے کی بھی نہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ خلا بھی پر ہو جائے گا مگر بات افسانوی ہے یا اخلاقی اور شاید حقیقی بھی ہو اگر کسی مخصوص تناظرContext میں دیکھا جائے ہاں مگر خلا پر ہوجاتا ہے اور وقت رواں رہتا ہے۔
میرے خیال میں عاصمہ جیسے لوگ کبھی مرتے بھی نہیں وہ صرف مقام تبدیل کرتے ہیں یا صرف پردہ بدلتے ہیں۔ وہ زندہ رہتے ہیں تاریخ کے صفحات پر اپنی مہک اور تازگی کا احساس ہر وقت دلاتے رہتے ہیں۔ ہم جب بھی پاکستان و برصغیر میں انسانی حقوق کی جدوجہد کے بات کرتے ہیں یا تاریخ کے صفحات کھولتے ہیں، ہمیں عاصمہ کا نام سر فہرست نظر آئے گا۔ وہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں تھی۔ وہ فقط دو تنظیموں سے وابستہ تھیں ایک تھی انسانی حقوق کی تنظیم (HRCP) اور دوسری تھی وکلا کی تحریک۔
بات اک سوچ اور نظریے کی ہے جس سے وہ وابستہ تھیں۔ وہ کچھ اس طرح وابستہ تھیں جسے عشق کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں۔ وہ ہماری Martin Luther King تھیں جو امریکا میں انسانی حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ عاصمہ نے بھی کونسی کسر چھوڑی تھی کہ وہ ماری نہ جائیں۔ جس طرح مارٹن کے پاس امریکا کے لیے ایک خواب تھا، عاصمہ کے پاس بھی پاکستان کے لیے ایک خواب تھا۔ یہ دونوں خواب بھی بہت مماثلت رکھتے تھے۔ بالکل ساحر لدھیانوی کے ان اشعارکی طرح۔
'' انسان کی قیمت جب جھولی سکوں میں نہ تولی جائے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی''
مارٹن امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی جنگ لڑتا رہا اور عاصمہ بنیادی طور پر اقلیتوں کے حقوق کی جنگ لڑتی رہی۔
امریکا جس نے 1968ء میں اپنے آئین میں چودھویں ترمیم بل میں آخرکار متعارف کروا دی، طویل خانہ جنگی کے بعد، آئین کی ناممکن پیچدگیوں کے بعد ایک ایسا بل جسے امریکا کے صدر نے بھی Veto کر دیا تھا۔ امریکا کے آئین کی چودھویں ترمیم جس نے سیاہ فام باشندوں کو غلامی سے آزاد توکروا دیا اورساتھ ساتھ ایک ایسی حقیقت آئین میں متعارف کروانے کی بنیاد ڈالی جس نے دنیا کے تمام آئینوں پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے، وہ یہ کہ امریکا کے تمام باشندے برابر ہیں۔ ان کے حقوق بھی برابر ہیں اور ان کے لیے قانون بھی یکساں ہے۔
یہی تھی وہ ترمیم جس کو ہندوستان نے اپنے آئین میں آرٹیکل 14 کی شکل میں متعارف کروایا اور ہم نے آرٹیکل 25 کی حیثیت میں۔ عاصمہ نے اپنی پوری زندگی آرٹیکل 25 کی پاداش میں گزاری۔ مارٹن کنگ جونیئرکی طرح جس کی وہ تقریر " I have a dream " دنیا کی چند عظیم تقاریر میں سے ایک ہے۔
امریکا جیسے جیسے مہذب ہوتا گیا، اس کی کوکھ سے دو تحریکیں واضح اور ٹھوس انداز میں ابھریں۔ ایک تھی غلاموں کوا ٓزاد کرنے کی تحریک اور دوسری حقوق نسواں کی تحریک۔ اور دیکھیں دو بار انھوں نے اوباما کی شکل میں ایک سیاہ فام کو ملک کا صدر بھی بنایا لیکن جب عورت کے صدر بننے کا دور آیا تو امریکا اپنی انا پرستی اور دقیانوسی سوچ کا شکار ہوگیا۔عاصمہ اور میری ملاقات بھی اسی تناظرکا حصہ ہے۔
میں جب دس سال اسلام آباد میں رہنے کے بعد واپس سندھ لوٹا، تو میرے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ اپنے والد کی تحریک کو آگے بڑھاؤں۔ ان کے دہقانوں، اقلیتوں کے حقوق اور قومی حقوق کے حوالے سے تحریک کا حصہ بنوں اور اسی سلسلے میں میں نے سیکڑوں مضامین عورتوں اقلیتوں کے حقوق اور بہت سے ایسے موضوعات جو کہ لکھنے میں سخت تھے اور جن سے انسانی اقدار اجاگر ہوں تحریر کیے۔
64 سال بعد، 2003 ء میں پہلی بار اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو لے کر اس جگہ پہنچا جہاں ہمارے صوفی راگی بھگت کنورکا قتل ہوا تھا، اک فقیر منش۔ جو اپنے پاؤں میں گھنگرو باندھ کر بستی بستی نگر نگر بھگتی ڈالتا تھا، اس کی تحریک کا بنیادی مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھائی چارہ و امن پیدا کرنا تھا۔اسی زمانے میں ہماری شمالی سندھ سے بہت سی ایسی خبریں آئیں کہ جس میں ہندوؤں سے زیادتی کا ذکر تھا۔ ان کی بیٹیوں کو جبرا اٹھایا جاتا، مذہب تبدیل کروایا جاتا اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کروایا جاتا تھا۔
اور پھر 2010ء میں عاصمہ خود سکھر آئیں یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ میں نے انھیں ایئرپورٹ سے Receive کیا۔ سکھر پریس کلب میں HRCP کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا گیا اور اگلی صبح ہم خیرپور یونیورسٹی گئے،گاڑی میں خود چلا رہا تھا، پھر لاڑکانہ میں اقلیتوں کے حوالے سے ہی HRCP کا ایک اور پروگرام تھا وہ بھی اٹینڈ کیا۔ اسی دوران عاصمہ نے مجھے یوں بھی کہا کہ ہم بغیرکسی کو بتائے بینظیر بھٹوکی قبر پر چلتے ہیں۔
عاصمہ چپ چاپ بینظیرکی قبرکے سرہانے بیٹھ گئیں، میں نے دیکھا وہ اپنے آنسو روک نہ سکیں۔ وہ بچوں کی طرح رو پڑیں اور پھر رات دیرگئے ہم رک اسٹیشن پہنچے جہاں بھگت کنورکو 1939 ء مارا گیا تھا۔ میں نے وہاں سچل سائیں کی مزارکے فقیر منگوائے تھے پلیٹ فام پر ہم سب نے دھرنا دیا اور فقیروں نے گاتے گاتے دھمال شروع کردی تو ان کے ساتھ سارے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ناچنا شروع ہوگئے۔ عاصمہ بہت محظوظ ہوئیں وہ بیٹھے بیٹھے تالیاں بجاتے ہوئے جھولنے لگیں۔
رات دیر ہوگئی میں نے عاصمہ جہانگیر کو دوسری گاڑی میں منتقل کردیا کہ وہ سکھر پہنچ کر آرام کریں اور میں نے اپنے دوستوں منیر میمن اور آدم ملک کے ساتھ وہیں سے کراچی کی طرف سفرکا آغاز کیا۔ پوری رات ڈرائیور کرتے ہوئے بلاخر پوہ پھٹنے تک کراچی پہنچے تو عاصمہ نے ہماری خیریت دریافت کروائی کہ ہم خیریت سے کراچی پہنچ گئے۔ وہ میری لیڈر تھیں مجھے عاصمہ کا یہ خیریت دریافت کرنا بہت اچھا لگا۔ ہم کراچی جلدی اس لیے نکل پڑے کہ ہم نے اسی دن پریس کلب میں عاصمہ کا پروگرام رکھا تھا۔ پروگرام کے بعد دوسرے دن عاصمہ اور دوسرے دوستوں کو ظہرانے پر مدعوکیا۔
ایک ہندو لڑکی کستوری کولھن کا کیس مٹھی (تھر) میں تھا، اغوا اور جبرأ مذہب تبدیل کرنے کے سلسلے میں۔ عاصمہ نے مجھے اس کیس کے لیے مٹھی روانہ کیا اورکہا کہ میں وہاں جاؤں اور حقائق معلوم کروں یہ غالبا میری وکالت کا پہلا دن تھا، ڈگری حاصل کرنے کے بعد کالاکوٹ پہن کر مٹھی کی عدالت میں بحیثیت وکیل پیش ہوا۔
عجیب تھیں عاصمہ، اسے سندھ میں ایک شکیل پٹھان جیسے انسانی حقوق کے لیے لڑنے والے انسان کی ضرورت تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ میں اپنے والد کی طرح یہ کام کروں گا۔ ملک غلام جیلانی ان کے والد اور میرے والد کے بہت گہرے دوست تھے۔ وہ دونوں عوامی لیگ میں تھے۔
میرے والد 1971ء کی جنگ کے بعد واحد رکن تھے جو عوامی لیگ کی ٹکٹ پر سندھ سے الیکشن لڑے تھے اور ملک غلام جیلانی پنجاب سے۔
2015ء میں جب والد کی برسی کراچی میں رکھی گئی تو عاصمہ نے اس کی صدارت کی۔ ہر وقت ان کے ہونے سے ایک احساس تھا کہ میرا بھی کوئی رہبر ہے۔ حاصل بزنجو، حامد میر، عاصمہ اور میں ڈھاکا بھی ساتھ گئے تھے جب انھوں نے ہمیں بحیثیت سرکاری مہمان بلایا۔کیونکہ ہمارے والد نے اس زمانے میں بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی تشدد اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ اسی سلسلے میں بنگلہ دیش حکومت نے ان کو اعزازات دیے۔اب ان میں سے بھی کوئی اس دنیا میں نہیں رہااور نہیں ہے عاصمہ توکیا،کون ہوگا جو یہاں رہے گا۔
''ماٹی کہے کمبھار سے توکیا گوندے موئے
اک دن ایسا آئی گا میں گوندھوں گی توئے''
عاصمہ مٹی گوندتے گوندتے خود مٹی میں چلی گئی ۔ شاید وہ بہت جلدی چلی گئی، مگر بڑے عرصے بعد اس کے دوست اور مخالف عاصمہ کو خراج تحسین دینے کے لیے ایک ساتھ موجود تھے۔کتنے الزام تھے جو ان پر لگے،کتنی سنگ باری ہوئی، اس نہتی لڑکی پر مگر اس تمام وقت میں وہ اپنی جدوجہد سے جنونی حد تک منسلک رہیں۔ اس کے بولنے میں کبھی کمی نہ آئی۔ ہماری یہ انسانی حقوق کی تحریک اسی طرح جاری رہے گی کپتان نہ رہیں، توکیا تحریک تو ہے، وہ کہیں بھی نہ جائے گی۔
عاصمہ اب کسی اور روپ میں آئے گی کسی اور رنگ میں کیونکہ سچ تو ہے اور رہے گا صرف ایک بولنے والے کی ضرورت ہے اور سچ کو اپنے عہد میں ایک عاصمہ بھی مل جائے گی۔ پاکستان میں جمہوریت کے لیے جدوجہد عورتوں کے حقوق کی جدوجہد انسانی حقوق کی جدوجہد کہیں نہیں جائے گی وہ چلتی رہے گی۔
کل جب مجھ سے اپنے بچوں کے بچے پوچھیں گے، ان کی تصویر کو دیکھ کر جو میں نے اپنے اسٹڈی روم میں لگائی ہوگی کہ یہ خاتون کون ہیں تو میں انھیں یہ بتاؤں گا کہ یہ ہیں عاصمہ جہانگیر آرٹیکل 25 والی۔