چین ہماری مدد کرے
چین کو اس کی نقل وحمل میں بھی کوئی مشکل درپیش نہیں آئے گی کہ ہماری اور چین کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔
RAWALPINDI:
آئر لینڈ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو چینیوںکوگائے کا گوشت برآمدکرتے ہیں، مگرگائے میں پاگل پن کی بیماری کا انکشاف ہوا تو یہ سلسلہ 2000ء میں بندکردیا گیا اور سولہ سال بعد یعنی پچھلے سال کے دوران دوبارہ بحال ہوا۔ بات یہیں تک رہتی تو پریشانی کی کوئی وجہ نہ بنتی لیکن جب یہ پتہ چلا کہ اب آئر لینڈ چین کو نہ صرف گائے بلکہ سورکا گوشت بھی فراہم کرے گا تو یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ ہمارے ساتھ ہمالیہ سے بھی اونچی دوستی کا دعویٰ کرنے والی چینی حکومت کی نظر آخر ہمارے ملک میں پائے جانے والے سوروں پر کیوں نہ پڑی۔
چھوٹے سے گاؤں میں ہوش سنبھالنے کے بعد ہمیں صرف،گائے، بکری،گدھوں اور کتوں کی پہچان تو ہوئی مگر سورکا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ کسی نوجوان سے کوئی غلطی سر زد ہوتی تو گاؤں کے بڑے بوڑھے اسے بھیڑی شے (بری چیز) کے نام سے گالی کے سے انداز میںانتہائی غصے کے ساتھ مخاطب کرتے جو ایک ناقابل برداشت جانور سورکا ـ''نک نیم'' تھا۔ وہ بھی تب پتہ چلا جب ایک بزرگ نے ہمارا اشتیاق دیکھتے ہوئے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ بھیڑی شے سورکو کہتے ہیں اور یہ حرام جانور ہے جس کا نام لیا جائے توزبان پلید ہو جاتی ہے اسی لیے اصلی نام کے بجائے ہم اسے فرضی نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس انکشاف کے بیس سال بعد تک ہمیں اپنے علاقے میں کوئی سور نظر نہ آیا جس بنا پر اسے دیکھنے کا شوق مزید بڑھتا گیا حالانکہ اپنے گاؤں اور اس کے بعد شہر میں آنے کے بعد ہم نے کئی بزرگوں کے منہ سے اپنے رقیبوں کو مخاطب کرتے ہوئے بے شمار دفعہ یہ نام سنا تھا۔ بدنام زمانہ جانورکو دیکھنے کا پہلا اتفاق تب ہوا جب بنگلہ دیش جانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی جنم بھومی گوپال گنج میںایک سور کے بجائے ہمیں سوروں کا پورا ریوڑ نظر آگیا۔
پھر بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے مختلف شہروں میں بھی یہ جانورکثرت سے موجود تھا مگر برطانیہ میں یہ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا کہ قصائی کی دکان پر گائے، دنبے اور سورکا گوشت ایک ہی جگہ سجا ہوا تھا۔ چونکہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے اور اس جانور کی برائیاں بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لہذا لاحول پڑھتے ہوئے باہر آئے تو ایک دوست نے بتایا کہ یہ انگریز قصائی ہے، اگر بکری یا گائے کا گوشت چاہیے تو کسی ایشیائی قصائی کی دکان پر جائیں وہاں سورکا گوشت نہیں ہو گا۔
وقت بدلا اور بیس سال بعد جب ایک دفعہ کچھ دنوں کے لیے دوبارہ اپنے گاؤں واپس گئے تو ماحول کے ساتھ لوگوں کی عادات و اطوار کو بھی بدلا پایا۔ ماضی میں جو لوگ سور کا نام بھی نہیں لینا چاہتے تھے انھیں اپنی فصلوں، سبزیوں اور خربوزوں کی تباہی پرکئی دفعہ سورکو یاد کرتے اور برا بھلا کہتے سنا۔ ہوا یوں کہ جب چین کی مدد سے ہمارے علاقے میںکچھ فیکٹریاں قائم ہوئیں تو وہاں کام کرنے کے لیے چینی بھی آئے جنہوں نے گوشت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سوروں کی افزائش اور شکار میں اتنی دل چسپی لی کہ ہر طرف سوروں کے غول نظر آنے لگے۔
سلسلہ یہاں تک ہی رہتا تو کچھ مصیبت نہیں تھی مگر اس سے قبل یہ جانور جو صرف پنجاب کے نہری علاقوں تک ہی محدود تھا اور اکا دکا ہی نظر آتا تھا بارانی علاقوں میں بھی انتہائی سرعت سے پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام آباد بھی سوروں کا گڑھ بن گیا۔ اس کے باوجود ہمارے گاؤں کی طرح یہاں پر بھی دس سال قبل پائے جانے والے سوروں اور موجودہ سوروں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتاہے کہ اس سے پہلے ان کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی خبریں کم ہی آتی تھیں مگر اب ان میں شدت آ گئی ہے۔
چینوں کا شمار دنیا کے عقل مند انسانوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود ان کی حکومت یہ کیوں نہیں سمجھتی کہ آئرلینڈ اور چین کے درمیان طویل فاصلے کی وجہ سے اسے سوروں کی نقل و حمل کتنی مہنگی پڑسکتی ہے، اگر چینی حکومت یہی گوشت ہمارے ملک سے در آمدکرنے لگے تو شاید اسے کوئی قیمت بھی نہ ادا کرنا پڑے کہ ہمارے ملک میں اس جانور کا نہ کوئی فارم ہے، نہ ہی گوشت کی کوئی ضرورت اور نہ ہی اس کی تجارت کی جاتی ہے۔ چین کو اس کی نقل وحمل میں بھی کوئی مشکل درپیش نہیں آئے گی کہ ہماری اور چین کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے سور یورپی سوروں کی طرح گورے چٹے ہیں اور نہ ہی اتنے خوب صورت مگرچینی باشندے اب ان سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں۔ چین نے جہاں ہم پر کئی احسان کیے اور مزید کئی احسان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہاں ایک اور احسان کرتے ہوئے اگر ہمارے سوروں کی مفت درآمد کا منصوبہ بنالے تو ہماری قوم اس کا یہ احسان پوری زندگی نہ بھلا پائے گی۔ ہر نسل کا جانور کھانے والے چینی باشندے اگر ہمارے ملک کے گدھے پسند کرسکتے ہیں تو انھیں سوروں سے کیا پرہیز ہوسکتا ہے جن کی نسل میں انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
گاؤں دیہات کے وہ لوگ جو صرف اس جانور کے نام سے واقف تھے اب اسے اپنے کلچر کا حصہ بنانے پر تل گئے ہیں جسے ناسمجھی اور اپنی تہذیب و ثقافت سے دوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سوروں کے بغیر بھی تو ہمارے ملک میں صدیوں سے کتوں کی لڑائی کے انتظامات کروائے جاتے تھے۔ مگر چند دن پہلے ہی کی تو خبر ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے کچھ لوگوں نے پولیس کی نگرانی میں کتے اور سورکا مقابلہ منعقد کروا دیا جس کے دوران سور کتوں سے گھبرا کر بھاگا تو ایک بچہ دریا میں گرکر ہلاک ہو گیا۔
پولیس والوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سور کے بجائے تماشائیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ صرف یہی نہیں مارچ دوہزار چودہ میں ایک زخمی سور کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جا گھسا جسے بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا۔