چیمپئنز ٹرافی 2021 کے لیے پاکستان نے میزبانی کا ارمان دل میں بسا لیا
بھارتی حکومت کی جانب سے ٹیکس میں چھوٹ نہ دیے جانے پر دلبرداشتہ آئی سی سی کو پی سی بی نے پیشکش کردی۔
پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی 2021 کی میزبانی کا ارمان دل میں بسا لیا۔
ورلڈٹی ٹوئنٹی 2016کے موقع پر آئی سی سی اور بی سی سی آئی کی منت سماجت کے باوجود بھارتی حکومت نے ٹیکس وصول کرلیا تھا جس کی وجہ سے کونسل کو 3کروڑ ڈالر کے قریب نقصان ہوا،6ماہ قبل اس مسئلے کو حل کرنے کیلیے چیف ایگزیکٹیو آئی سی سی ڈیو رچرڈسن اور جنرل منیجر کیمبل جمیسن نے بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے بھی ملاقات کی تھی لیکن کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی۔
بھارت میں ہونے والے ایونٹس کو ٹیکس میں چھوٹ نہ دینے پر تشویش کا اظہار گذشتہ دنوں دبئی میں ہونے والے آئی سی سی اجلاس میں بھی کیاگیا،اس موقع پر بتایا گیا کہ حکومتی ہٹ دھرمی برقرار رہی توچیمپئنز ٹرافی 2021 میں کونسل کو 10کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا، بھاری مالی خسارہ اٹھانے کے بجائے متبادل میزبان ملک کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔
ایونٹ کے انعقاد کیلیے سری لنکا اور بنگلہ دیش کو امیدوار خیال کیا جارہا تھا تاہم اب پی سی بی بھی اس دوڑ میں شامل ہوگیا ہے،ایک بھارتی اخبارکی رپورٹ کے مطابق ٹیکس معاملات کے سبب بھارت کو پہنچنے والے نقصان کا پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے، بھارتی حکومت کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
پی سی بی چیمپئنز ٹرافی 2021کی میزبانی حاصل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہا ہے،اگرچہ حکام نے اس صورتحال پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا لیکن آئی سی سی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی اس پیشکش پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
اس ضمن میں اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہونے کے بارے میں ابھی کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی،پی سی بی ایونٹ کی میزبانی یواے ای میں کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے،چند مقابلے پاکستان میں کروانے پر بھی زور دیا جائیگا،امارات میں ٹیکس کے مسائل نہیں ہیں لیکن شارجہ،دبئی اور ابوظبی میں میچز ہوئے تو ایونٹ کا میزبان کون کہلائے گا،بہرحال یہ تکنیکی مسائل اس وقت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
آئی سی سی بھارت کی میزبانی سے گریز کرتے ہوئے کسی متبادل کا سوچ رہا ہے اور پاکستان کی پیشکش آسانی سے نظر انداز ہوجانے والی نہیں،اگر بھارت سے چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی چھن گئی تو ورلڈکپ 2023پر بھی خدشات کے بادل مزید گہرے ہوجائینگے،ایک تجویز یہ بھی ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے بجائے ورلڈٹی ٹوئنٹی کا انعقاد کرکے زیادہ مالی فائدہ حاصل کیا جائے۔
اس صورت میں ایونٹ2022میں ہوگا کیونکہ آسٹریلیا میں ورلڈٹی ٹوئنٹی2020 مکمل ہونے کے اگلے سال ہی دوبارہ ٹورنامنٹ نہیں کرایا جائے گا۔یاد رہے کہ عالمی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں آئی سی سی کو 50اوورز میچز کی چیمپئنز ٹرافی سے دگنا آمدنی حاصل ہوتی ہے،بی سی سی آئی کو 115ملین ڈالر زیادہ دینے کا فیصلہ کیے جانے پر اب مجموعی طور پر 405 ملین ڈالر دیے جانا ہیں۔
آئی سی سی کو نئے فل ممبرز آئرلینڈ اور افغانستان کو بھی 40،40ملین ڈالرز دینا ہیں،اضافی اخراجات پورے کرنے کیلیے بھارت کی مارکیٹ بڑی فائدہ مند ہوسکتی تھی لیکن ٹیکس میں چھوٹ نہ دیے جانے کی وجہ سے متبادل راستوں پر غور کرنا مجبوری بن چکا۔
ورلڈٹی ٹوئنٹی 2016کے موقع پر آئی سی سی اور بی سی سی آئی کی منت سماجت کے باوجود بھارتی حکومت نے ٹیکس وصول کرلیا تھا جس کی وجہ سے کونسل کو 3کروڑ ڈالر کے قریب نقصان ہوا،6ماہ قبل اس مسئلے کو حل کرنے کیلیے چیف ایگزیکٹیو آئی سی سی ڈیو رچرڈسن اور جنرل منیجر کیمبل جمیسن نے بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے بھی ملاقات کی تھی لیکن کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی۔
بھارت میں ہونے والے ایونٹس کو ٹیکس میں چھوٹ نہ دینے پر تشویش کا اظہار گذشتہ دنوں دبئی میں ہونے والے آئی سی سی اجلاس میں بھی کیاگیا،اس موقع پر بتایا گیا کہ حکومتی ہٹ دھرمی برقرار رہی توچیمپئنز ٹرافی 2021 میں کونسل کو 10کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا، بھاری مالی خسارہ اٹھانے کے بجائے متبادل میزبان ملک کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔
ایونٹ کے انعقاد کیلیے سری لنکا اور بنگلہ دیش کو امیدوار خیال کیا جارہا تھا تاہم اب پی سی بی بھی اس دوڑ میں شامل ہوگیا ہے،ایک بھارتی اخبارکی رپورٹ کے مطابق ٹیکس معاملات کے سبب بھارت کو پہنچنے والے نقصان کا پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے، بھارتی حکومت کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
پی سی بی چیمپئنز ٹرافی 2021کی میزبانی حاصل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہا ہے،اگرچہ حکام نے اس صورتحال پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا لیکن آئی سی سی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی اس پیشکش پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
اس ضمن میں اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہونے کے بارے میں ابھی کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی،پی سی بی ایونٹ کی میزبانی یواے ای میں کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے،چند مقابلے پاکستان میں کروانے پر بھی زور دیا جائیگا،امارات میں ٹیکس کے مسائل نہیں ہیں لیکن شارجہ،دبئی اور ابوظبی میں میچز ہوئے تو ایونٹ کا میزبان کون کہلائے گا،بہرحال یہ تکنیکی مسائل اس وقت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
آئی سی سی بھارت کی میزبانی سے گریز کرتے ہوئے کسی متبادل کا سوچ رہا ہے اور پاکستان کی پیشکش آسانی سے نظر انداز ہوجانے والی نہیں،اگر بھارت سے چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی چھن گئی تو ورلڈکپ 2023پر بھی خدشات کے بادل مزید گہرے ہوجائینگے،ایک تجویز یہ بھی ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے بجائے ورلڈٹی ٹوئنٹی کا انعقاد کرکے زیادہ مالی فائدہ حاصل کیا جائے۔
اس صورت میں ایونٹ2022میں ہوگا کیونکہ آسٹریلیا میں ورلڈٹی ٹوئنٹی2020 مکمل ہونے کے اگلے سال ہی دوبارہ ٹورنامنٹ نہیں کرایا جائے گا۔یاد رہے کہ عالمی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں آئی سی سی کو 50اوورز میچز کی چیمپئنز ٹرافی سے دگنا آمدنی حاصل ہوتی ہے،بی سی سی آئی کو 115ملین ڈالر زیادہ دینے کا فیصلہ کیے جانے پر اب مجموعی طور پر 405 ملین ڈالر دیے جانا ہیں۔
آئی سی سی کو نئے فل ممبرز آئرلینڈ اور افغانستان کو بھی 40،40ملین ڈالرز دینا ہیں،اضافی اخراجات پورے کرنے کیلیے بھارت کی مارکیٹ بڑی فائدہ مند ہوسکتی تھی لیکن ٹیکس میں چھوٹ نہ دیے جانے کی وجہ سے متبادل راستوں پر غور کرنا مجبوری بن چکا۔