جزائر کی فروخت
اب جرمنی کے ایک جہاز کو اس ریت کو بندرگاہ سے نکالنے کے لیے بلایا جاتا ہے جس پر بھاری زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے
کراچی کے قدیم باشندے بتاتے ہیں کہ قدیم زمانے میں گزری ایک بندرگاہ تھی جو ریت بھرنے سے ختم ہو گئی، اب اس صورتحال کا سامنا کیماڑی کی بندرگاہ کو ہے۔ کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں موجود جزائر پر بلند عمارتوں کے پروگرام بن رہے ہیں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور بعض سرکاری ادارے بھی اس پر اعتراض کررہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے یہ الزامات لگانا شروع کیے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کمیشن کے چکر میں سندھ کی دولت کو غیر مقامی افراد کے حوالے کیا ہے، اور سندھ کے خلاف سازش کی جا رہی ہے، اس سازش کا مقصد مقامی سندھی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔
کراچی کے ساحل سے ٹھٹہ اور بدین کی ساحلی حدود تک پندرہ سو کے قریب ایسے چھوٹے بڑے جزائر موجود ہیں جن پر کوئی آبادی نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی فروخت کے معاملات طے ہوئے مگر مقامی افراد کے اعتراضات کی بناء پر معاملات رک گئے ہیں۔ ماحولیات اور ماہی گیروں کی بہبود کے لیے سرگرم عمل غیر سرکاری تنظیموں کو سندھ کے ساحلی علاقوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر سخت تشویش ہے۔ ان تنظیموں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ ایک قدرتی بندرگاہ تھی، انگریزوں نے اس بندرگاہ کو اس طرح تعمیر کیا تھا کہ سمندری لہروں کی گردش کے فطری نظام میں کوئی فرق نہ پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندری لہریں صبح کے وقت کیماڑی کی طرف سے باہر جاتی ہیں اور پھر شام اس ہی طرح واپس آتی ہیں مگر شام کو ابراھیم حیدری اور ٹھٹہ سے آنے والی لہروں کی رفتار انتہائی تیز ہوتی ہے اور ریت جمع نہیں ہوتی، کراچی کی بندرگاہ ہر موسم میں کھلی رہتی ہے پھر بندرگاہ میں آنے جانے والے جہازوں اور کشتیوں کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر ایوب خان کے دور میں مائی کلاچی کی تعمیر کے منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی بندرگاہ میں ریت بھرنا شروع ہوئی جب ایوب خان کے وزیر جنرل کے ایم شیخ نے 60ء کی دہائی میں کراچی کے قدیم باشندوں کے ایک وفد کے سامنے کراچی میں کیماڑی سے ابراھیم حیدری اور ٹھٹہ تک سمندرکے ساتھ سڑک کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا تھا تو ان باشندوں نے سخت اعتراض کیا جس پر اس وفد کو توہین آمیز انداز میں کے ڈی اے بلڈنگ میں ہونے والے اجلاس سے رخصت کر دیا گیا تھا مگر ان افراد کا خیال درست ثابت ہوا، اب کراچی کی بندرگاہ کو ریت کے بھرنے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اب جرمنی کے ایک جہاز کو اس ریت کو بندرگاہ سے نکالنے کے لیے بلایا جاتا ہے جس پر بھاری زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے مگر بندرگاہ کو درپیش خطرات بدستور موجود ہیں اس طرح لیاری کے قدیم باشندوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بندرگاہ کی تعمیر کے بعد ہی کیماڑی سے ابراہیم حیدری تک ساحل کے ساتھ ساتھ مینگروز کے کھلے جنگلات تھے ان جنگلات کی بناء پر سمندری مخلوق مثلاََ مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش نسل ہوتی ہے مگر اس علاقے میں تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ مینگروز کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں سمندری آلودگی کا مسئلہ خطرناک حد تک بڑھ گیا اس صورتحال میں مچھلیوں اور جھینگوں کی نسل کم ہونے لگی۔
اس طرح نہ صرف مقامی آبادی کے لیے روزگار کے ذرایع کم ہوئے بلکہ ملک کو زرمبادلہ سے محروم ہونا پڑا، مینگروز کے جنگلات کی بناء پر ماہی گیروں کو مچھلی کا شکار ملتا ہے۔ جب ی یہاں بلند عمارتیں تعمیر ہوں گی اور انھیں فروخت کیا جائے گا۔ غیر ملکیوں کی بڑی تعداد یہاں آباد ہو گی، ملک کے دوسرے صوبوں سے لوگ یہاں آ کر آباد ہونگے، نتیجتاً مقامی افرادی قوت پر اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے، ماہی گیروں کی تنظیم فشر فوک فورم کے عہدیداروں اور پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ سابق دور میں ان جزائر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس فیصلے کے خلاف صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک زبردست مہم چلائی گئی تھی جس کی بناء پر یہ منصوبہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔
کراچی کے سینئر شہری عثمان بلوچ کراچی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ تعمیر کی اور ایک ٹرسٹ (Karachi Port Trust) قائم کیا، پاکستان کے قیام سے پہلے اس کے ٹرسٹی ہندو اور پارسی ہوتے تھے، مگر ان عظیم لوگوں نے ٹرسٹ کی آمدنی کو کراچی شہر کی ترقی کے لیے خرچ کیا، عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ کے پی ٹی کی آمد نی سے ایم اے جناح روڈ اور دوسری سڑکیں تعمیر ہوئی تھیں اور اس رقم سے سول اسپتال بنا تھا، سول اسپتال کراچی سے کابل تک کے علاقے کا سب سے بڑا اسپتال تھا مگر بھٹو حکومت میں جب کراچی کے علاقے میں پورٹ قاسم تعمیر ہوئی تو اس کو اتھارٹی کے حوالے کیا اور اتھارٹی کو وفاقی حکومت کنٹرول کرنے لگی۔
اتھارٹی کی آمدنی وفاقی حکومت کے خزانے میں جمع ہونے لگی اور دوسری بندرگاہ کی تعمیر سے سندھ کوکوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد کو اس اتھارٹی میں ملازمتیں ملیں ان کے اہل خانہ کراچی میں آ کر آباد ہوئے اور مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہوا، اب ان جزائر کی فروخت سے بھی یہ خطرہ پیدا ہونے لگا۔ جدید ترقی کے نئے ماڈل پر یقین رکھنے والے ماہرین ان جزائر کے بارے میں خدشات کو غلط قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور بے روزگاری کی شرح کم ہو گی۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی سے خوف پیدا ہونے والے عناصر اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں مگر ترقی کیلیے ماڈل ہونے کے باوجود ان جزائر کی فروخت میں شفافیت کے اصولوں کی پامالی ایک اہم سوال ہے۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے ان جزائر پر آئی ٹی سٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جزائر پر بنگلور کی سلیکون ویلی کی طرح آئی ٹی سٹی قائم کر کے ایک جدید صنعتی ڈھانچہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ یہ مجوزہ سلیکون ویلی ملک میں جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی کے بنیادی مرکز کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔
سماجی ماہر جامی چاند کا کہنا ہے کہ کراچی کے ساحل سے متصل 1500 کے قریب جرائز کو حکومت سندھ کے کنٹرول میں دینا چاہیے، حکومت ان جزائر کو تفریحی اسپاٹ میں تبدیل کرے، حکومت کی آمدنی بڑھنے کے ساتھ عام آدمی کو روزگارملنے کے مواقع پیدا ہونگے۔ کراچی شہر ایک جدید اور ترقی یافتہ شہروں کا مقابلہ کر سکے گا مگر ان جزائر کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے معاملہ پر غور ہونا چاہیے۔ نئی منتخب حکومت کو ان جزائر کو حکومت سندھ کے حوالے کرنا چاہیے اور سندھ کی حکومت ان جزائر کی ترقی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے مگر یہ ترقی ماہی گیروں کی زندگی کو اور یہاں مستقل آباد مقامی لوگوں کو اجاڑ نے کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ لمحہ فیصلہ کرنے کا ہے غلط فیصلوں کا نتیجہ آیندہ نسلوں کو بھگتنا ہو گا۔