نگراں وزیراعلیٰ پنجاب تُو عرصۂ محشر میں ہے

پاکستان میں کسی سینئرصحافی کاسیاست یا سفارت کاری کے میدان میں اعلیٰ عہدے پرفائزہوناکوئی نئی بات نہیں ہے.


Tanveer Qaisar Shahid March 29, 2013
[email protected]

گزشتہ روز، 29 مارچ 2013ء کو پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ جناب نجم سیٹھی، اقتدار و اختیار سنبھالنے کے بعد، پہلی بار اسلام آباد تشریف لائے۔ وہ جس شان سے وفاقی دارالحکومت میں بروئے کار پنجاب ہائوس میں پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ داخل ہوئے، وہ منظر کسی بھی طرح ایک منتخب وزیراعلیٰ کی شان سے کم نہیں تھا۔ پنجاب ہائوس میں اُن سے گفتگو کرنے اور ان کی بریفنگ سننے کے لیے اسلام آباد، راولپنڈی کے اخبار نویسوں نے بھرپور شرکت کی۔ سیٹھی صاحب نے ہنستے مسکراتے ہوئے اپنے متعلقہ ساری باتیں کہہ دیں اور دو ایک نہایت تلخ اور نجی حیثیت کے سوالات کا خندہ پیشانی سے سامنا بھی کیا۔

ان کی مسکراہٹ تو اب خیر سے خاصی شہرت یافتہ ہے۔ پنجاب ہائوس میں ان کی بریفنگ میں شریک صحافیوں کی تعداد دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نہیں، کوئی ہیڈ آف دی اسٹیٹ پریس کانفرنس کرنے آئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ کسی سینئر اخبار نویس کا وزیراعلیٰ بننا بھی اخبار نویسوں کو پنجاب ہائوس کھینچ لانے کا سبب بن گیا تھا۔ جناب سیٹھی نے جس لہجے اور جس ڈکشن میں پنجاب کے اندر ڈی سی اوز اور آر پی اوز کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے، لگتا ہے وہ اس پر عمل بھی کر گزریں گے۔ اِس دوران اگر کسی تبدیل شدہ ڈی سی او یا آر پی او سے کسی سیاسی جماعت کو (نا دانستگی میں) فائدہ پہنچا تو یہ ایک بڑی شکایت اور الزام کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

پاکستان میں کسی سینئرصحافی کاسیاست یا سفارت کاری کے میدان میں اعلیٰ عہدے پرفائزہوناکوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی نجم سیٹھی صاحب کانگراں وزیراعلیٰ بننا حیرت انگیزامر ہے۔ فیلڈمارشل صدرایوب کے دوراقتدارمیں پاکستان کے ایک انگریزی اخبارکے معروف ایڈیٹرالطاف حسین کووفاقی وزارت کاقلمدان سونپاگیاتھا۔60کے عشرے میں کیا گیا یہ فیصلہ آنے والے ایام میں ایک نظیر بن گیا۔یوں پاکستان کے ایک اورسینئراخبارنویس حسین حقانی واشنگٹن میں پاکستان کے سفیربنائے گئے۔انھیں صدر زرداری کابھی گہرااعتباراوراعتمادحاصل رہا۔حسین حقانی واشنگٹن میں سفیربننے سے قبل سری لنکامیں پاکستان کے ہائی کمشنربھی رہے ۔

واشنگٹن میںان کی سفارت سے چھٹی ہونے کے بعدجس فردنے اس عہدے کوپُرکیا،وہ بھی بنیادی طورپراخبارنویس ہی ہیں۔ان کااسم گرامی شیری رحمان ہے جوکراچی سے شایع ہونے والے ایک مشہورانگریزی ماہنامہ جریدے کی برسوں ایڈیٹررہی ہیں۔ برطانیہ میںپاکستان کے دوبار ہائی کمشنربننے والے واجدشمس الحسن بھی عامل اخبارنویس رہے ہیں۔جنرل ضیاء الحق دورکے آخری ایام میں بزرگ اخبارنویس مصطفیٰ صادق کوبھی وفاقی وزارت کاقلم دان سونپاگیاتھا۔ بعدازاں ایک اورسینئرصحافی ارشاد احمد حقانی بھی عبوری دورمیںوفاقی وزیراطلاعات ونشریات مقررکیے گئے۔میاںنوازشریف کے ایک دور میں معروف صحافی اور ایڈیٹر جناب مشاہد حسین سید وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیے گئے اور دوسرے دورحکومت میں کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی کوایک مغربی ملک میں سفیرلگایاگیا۔

مشہورسفارت کار ڈاکٹر ملیحہ لودھی جوبرطانیہ میںپاکستان کی ہائی کمشنر اورواشنگٹن میں پاکستان کی سفیررہی ہیں، دراصل بنیادی طور پرصحافی ہی تو ہیں۔کسی اخبارنویس کووزارت اورسفارت کاعہدہ دینے کی ''روایت'' صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ بھارت میںبھی اسی روایت پرعمل کیاجاتا رہا ہے۔مثال کے طور پربھارت کے ممتاز اخبار نویس، ایڈیٹراورناول نگار خوشونت سنگھ برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن میں اعلیٰ عہدے پرفائزرہے ہیں۔ بھارت کے ایک اورصحافی کلدیپ نائر بھی بیرون ملک بھارت کے ہائی کمشنررہے ہیں۔اب نجم سیٹھی صاحب کاپنجاب کانگراں وزیراعلیٰ بنناسابقہ مقتدرصحافیوںکی فہرست میں ایک نیااضافہ ہے۔

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب جناب نجم عزیز سیٹھی کی اہلیہ محترمہ جگنو محسن بھی عامل صحافیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف ایک ممتازانگریزی سیاسی ہفت روزہ جریدے کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کیا بلکہ اپنی خالص زیرِ ادارت ایک فیشن میگزین کا بھی اجراء کیا ۔ دونوں اخبار نویس میاں بیوی جدت پسند بھی ہیں اور لبرل نظریات و افکار کے حامل بھی۔ محترمہ جگنو محسن پنجاب کے ایک معروف سرمایہ کار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

وہ جھنگ کی مشہور خاتون سیاستدان سیدہ عابدہ حسین کی نزدیکی رشتہ دار بھی بتائی جاتی ہیں۔ یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ جناب نجم سیٹھی کی کامیاب سیاسی و صحافتی زندگی میں محترمہ جگنو محسن کا برابر کا کردار ہے۔ نجم سیٹھی صاحب ایک سابق دور میں گرفتار کیے گئے تو اِس اقدام کے خلاف جگنو محسن نے پاکستان بھر کے اخبار نویسوں اور لکھاریوں کے ساتھ مل کر مظاہرے کیے۔ نجم سیٹھی صاحب کی جلد رہائی میں اُن کی اہلیہ کا بنیادی کردار تھا۔

ملک بھر کے چاروں صوبوں میں جتنے بھی نگراں وزرائے اعلیٰ متعین ہوئے ہیں، نجم سیٹھی صاحب اِن سب میں سب سے زیادہ ''جوان'' ہیں۔ یوں اُن کا تحرک قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ رشک بھی۔ سیٹھی صاحب کے پلس پوائنٹس اُن کے لیے آزمائش کا سامان بھی بن گئے ہیں۔ اُن سے منسوب ایک جُملہ اخبارات میںیوں شایع ہوا ہے: ''جب تک (نگراں) وزیراعلیٰ ہوں، تب تک میرا کوئی رشتہ دار ہے نہ دوست۔'' اِن الفاظ میں قرونِ اول کے مسلمان حکمرانوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ کاش مذکورہ اعلان اُن کے عمل کاآہنگ بن سکے۔ چونکہ اُن کا ماضی قریب ایک مخصوص ادارے سے وابستہ رہا ہے، اِس لیے یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ جب تک اقتدار میں ہیں، کسی خاص جانب جھکے محسوس نہ ہوں کہ تاڑنے والے بھی زمانے کی خبر رکھتے ہیں۔

امید ہے وہ خود بھی اِس احساس اور توقع سے پوری طرح آگاہ اور آشنا ہوں گے۔ جس طرح 28 مارچ 2013 کو ''ایکسپریس ٹربیون'' نے خبر دی ہے کہ نگراں وزیراعظم جناب میر ہزار خان کھوسو نے (مبینہ طور پر) صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی (نگراں حکومت میں) دو اہم وزارتوں کی سفارش احترام سے ماننے سے انکار کر دیا ہے، اِس پس منظر میں ہم نگراں وزیراعلیٰ پنجاب جناب نجم سیٹھی سے بھی توقعات وابستہ کرتے ہیں کہ وہ صوبائی کابینہ تشکیل دیتے ہوئے اپنے دوستوں، رشتہ داروں کو شامل کریں گے نہ کسی بڑے آدمی یا ادارے کی سفارش کو درخورِ اعتنا سمجھیں گے۔ وہ صرف میرٹ اور نگراں دور کو پیش نگاہ رکھیں گے۔ جنابِ سیٹھی پر واضح رہناچاہیے کہ وہ صحافت و سیاست کے ''میدانِ حشر'' میں کھڑے ہیں۔

ہمیں قوی امید ہے کہ اُن کے قول و فعل میں تضاد ہو گا نہ اُن کا کوئی اقدام ملک بھر کی صحافتی برادری کے لیے ندامت کا موجب بنے گا۔ انھوں نے پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ''میں اِس تاثر کو ختم کروں گا کہ میڈیا والے صرف تنقید کرتے ہیں، انھیں ذمے داریاں سنبھالنے اور کرسی پر بیٹھنے کی سمجھ نہیں۔'' ہم یہ توقع بجا طور پر رکھ سکتے ہیں کہ نجم سیٹھی صاحب نگراں دنوں میں ثابت کریں گے کہ عامل اخبار نویسوں کو ذمے داریاں سنبھالنا بھی آتی ہیں اور وہ کرسی پر بیٹھ کر مستحسن فیصلے کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔

جنوبی پنجاب میں شدت پسندوں المعروف ''پنجابی طالبان'' کا بہت غلغلہ ہے۔ اِس کی حقیقت و اہلیت کیا ہے، ابھی تک یہ بات کھل نہیں سکی ہے لیکن پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف کی حکومت کے دوران وفاقی وزیرِ داخلہ جناب رحمن ملک بار بار الزام عائد کرتے رہے کہ پنجاب حکومت کے پنجاب میں بروئے کار بعض شدت پسند عناصر سے خصوصی تعلقات استوار ہیں۔ اگرچہ اِس الزام کا جواب سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی طرف سے بھی مسلسل ملتا رہا لیکن تہمت تراشی کا سلسلہ رک نہ سکا۔ اگر جنوبی پنجاب میں کہیں ان عناصر کا وجود ہے تو ہم توقع رکھتے ہیں کہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب پوری طاقت سے اِن کا قلع قمع کریں گے تاکہ یہ عناصر انتخابات میں کوئی گڑبڑ نہ کر سکیں۔

بعض لوگ، خصوصاً بعض مذہبی جماعتیں، جنوبی پنجاب کے ''پنجابی طالبان'' کے وجود سے انکار کرتے ہیں حالانکہ اب یہ عناصر ایک ٹھوس حقیقت بن چکے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ نجم سیٹھی صاحب تھوڑا سا وقت نکال کر برادرم مجاہد حسین کی تحقیقی کتاب ''پنجابی طالبان'' (جس کا انگریزی ایڈیشن بھی شایع ہو چکا ہے) کا مطالعہ ضرور کریں تاکہ اگر وہ مذکورہ گروہ کے خلاف کوئی مناسب اقدام کرنا چاہیں تو وہ ذہنی طور پر پوری طرح مطمئن ہوں۔ اس سلسلے میں یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ ''پنجابی طالبان'' کے مصنف جناب مجاہد حسین خاصا عرصہ جناب نجم سیٹھی کے ایک جریدے میں بطور رپورٹر کام کرتے رہے ہیں۔

ویسے آپس کی بات ہے کہ جناب نجم سیٹھی کی زیرِ ادارت شایع ہونے والا انگریزی ہفت روزہ اپنے اجرا کے اوّل دن سے مسلسل طالبان اور ''مجاہدین'' کے بارے میں ایک خاص نکتۂ نظر کی حامل تحریریں شایع کرتا آ رہا ہے؛ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیٹھی صاحب اقتدار اور اختیار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر اِن مرکزِ گریز عناصر اور قوتوں کے خلاف کیا اقدام کرتے ہیں؟ تاکہ اُن کے (سابقہ) اہداف و عزائم بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں اور کم از کم پنجاب کی حد تک تو پائیدار امن قائم ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں